Sunday, October 13, 2024

امریکہ کے صدارتی انتخابات ۔۔۔ انتخابی یا Electoral ووٹ کیا ہیں؟؟؟؟؟

 

امریکہ کے صدارتی انتخابات  ۔۔۔   انتخابی یا Electoral ووٹ کیا ہیں؟؟؟؟؟

 اب جبکہ امریکی انتخابات آخری مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں، چند سطور امریکہ کے کلیہ انتخاب یا Electoral Collegeپر جسکا ذکر اب آپ بار بار سنیں گے۔ یہ گفتگو ہم چار ماہ پہلے بھی کرچکے ہیں لیکن ممکنہ نتائج کی تفہیم کیلئے یہ سطور دوبارہ پیش کی جارہی ہیں۔ ہم نے گزشتہ نشست میں عرض کیا تھا کہ آبادی کا ایک فیصد ہونے کے باوجودامریکی مسلمانوں کے ووٹ کلیدی اہمیت اختیار کرچکے۔ اسکی وجہ یہی انتخابی کالج ہے۔

آپ کی دلچسپی کیلئے عرض ہے کہ 5 نومبر کو ہونے والی ووٹنگ کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں بلکہ صدر اور نائب صدر کے انتخاب کیلئے 17 دسمبر کو تمام ریاستی دارالحکومتوں میں پولنگ ہوگی جس میں الیکٹرل کالج کے ارکان خفیہ بیلٹ کے ذریعے صدر اور نائب صدر کیلئے ووٹ ڈالینگے۔ ووٹنگ مکمل ہونے پر نتائج مرتب کئے جائینگے اور اسے ایک ڈبے میں بند کرکے وفاقی دارالحکومت بھیج دیا جائیگا۔چھ جنوری 2025 کو سربراہ سینیٹ (امریکی نائب صدر) کی نگرانی میں تمام ریاستوں سے آنے والے بکسوں کو کھول کر سرکاری نتیجے کا اعلان ہوگا۔

اب آتے ہیں انتخابی کالج کی طرف۔

امریکہ 50 آزاد و خود مختار ریاستوں پر مشتمل ایک وفاق کا نام ہے۔ وفاق کی  ہر ریاست کا اپنا دستور، پرچم اورمسلح فوج ہے۔ کرنسی اور خارجہ امور کے سوا بین الاقوامی تجارت سمیت تمام معاملات میں ریاستیں پوری طرح بااختیار ہیں۔امریکی صدر وفاق کی علامت اور اسکی مسلح افواج کا سپریم کمانڈر ہے۔ صدر کے انتخاب میں ہر ریاست انفرادی اکائی کی حیثیت سے ووٹ ڈالتی ہے اور اس مقصد کیلئے ایک کلیہ انتخاب یا Electoral Collegeتشکیل دیا گیا ہے۔ امریکہ میں مرکزی الیکشن کمیشن یا مقتدرہ نہیں اور انتخاب کا انتظام اور نگرانی ریاستیں کرتی ہیں۔ کاغذات نامزدگی بھی ہر ریاست میں الگ الگ جمع کرائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستوں کے بیلٹ پیپر پر امیدواروں کی فہرست مختلف ہوتی ہے۔

کلیہ انتخاب میں ہر ریاست کو اسکی آبادی کے مطابق نمائندگی دی گئی ہے اور یہ اس ریاست کیلئے ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) اور سینیٹ کیلئےمختص نشتوں کے برابر ہے۔ امریکہ میں ایوان نمائندگان کی نشتیں آبادی کے مطابق ہیں جبکہ سینیٹ میں تمام ریاستوں کی نمائندگی یکساں ہے اور ہر ریاست سے دو دو سینیٹرمنتخب کئے جاتے ہیں۔ امریکہ کے ایوان نمائندگان کی نشستوں کی مجموعی تعداد 435 ہے جبکہ 50 ریاستوں سے 100 سینیٹرز منتخب ہوتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت یعنی ڈسٹرکٹ آف کولمبیا المعروف واشنگٹن ڈی سی کیلئے انتخابی کالج میں تین ووٹ ہیں۔یعنی کلیہ انتخاب 538 ارکان پر مشتمل ہے اور 270 یا اس سے زیادہ انتخابی ووٹ لینے والے کے سرپر امریکی صدارت کا تاج رکھاجائیگا۔

الیکٹرل کالج کی ہیت کو اسطرح سمجھئے کہ  نیویارک سے ایوان نمائیندگان کے 26 ارکان منتخب ہوتے  چنانچہ 2 سینیٹروں کو ملاکر انتخابی کالج میں نیویارک کے 28 ووٹ ہیں۔انتخابی کالج میں سب زیادہ ووٹ کیلی فورنیا کے ہیں یعنی 54 جبکہ جنوبی ڈکوٹا، شمالی ڈکوٹا، مونٹانا، وایومنگ، الاسکا، ڈلوئر، ورمونٹ اس اعتبار سے بہت چھوٹی ہیں جنکے صرف تین تین ووٹ ہیں۔ الیکٹرل کالج میں 'سارے ووٹ جینتے والے کیلئے' کا اصول اختیار کیا جاتا ہے اور عام انتخابات میں ریاست میں جس امیدوار کو بھی برتری حاصل ہوئی وہاں سے انتخابی کالج کیلئے مختص سارے کے سارے ووٹ جیتنے والے امیدوار کے کھاتے میں لکھ دئے جاتے ہیں۔ یعنی اگر کیلی فورنیا سے کسی امیدوار نے ایک ووٹ کی برتری بھی حاصل کرلی تو تمام کے تمام 54 الیکٹرل ووٹ اسے مل جائینگے۔ صرف ریاست مین Maine اور نیبراسکا میں ایک تہائی الیکٹرل ووٹ ایوان نمائندگان کی حلقہ بندیوں کے مطابق الاٹ کئے جاتے ہیں ورنہ باقی سارے امریکہ میں ریاست کے مجموعی ووٹوں کی بنیاد پر فیصلہ ہوتا ہے۔

 

یہاں یہ ذکر بہت ضروری ہے کہ قانونی طور سے الیکٹرل کالج کے ارکان کسی مخصوص امیدوار کو ووٹ دینے کے پابند نہیں اور انتخاب بھی خفیہ بیلٹ پیپر کے ذریعے ہوتا ہے لیکن اسکے باوجود گزشتہ ڈھائی سو سال کے دوران ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا کہ جب الیکٹرل کالج میں عوامی امنگوں کے برخلاف کوئی ووٹ ڈالا گیا ہو۔

آٹھ برس پہلے 2016آ کے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہلیری کلنٹن کو ڈانلڈ ٹرمپ پر 28 لاکھ ووٹوں سے زیادہ کی برتری حاصل تھی لیکن جب تمام ریاستوں کے انتخابی ووٹ جمع کئے گئے تو صدر ٹرمپ کے الیکٹرل ووٹوں کی تعداد کلنٹن سے 77 زیادہ تھی۔اس سلسلے چند دلچسپ مثالیں پیش خدمت ہیں جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ میں صدارتی انتخاب کہ مہم سیاست سے زیادہ ریاضی کی مشق ہے

گزشتہ انتخابات میں امریکی دارالحکومت میں صدر بائیڈن نے اپنے حریف ڈانلڈ ٹرمپ سے 2لاکھ اٹھانوے ہزار ووٹ زیادہ لے کر یہاں مختص 3 الیکٹرل ووٹ اپنے نام کرلئے، جبکہ ایریزونا میں کانٹے دار مقابلہ ہوا جہاں جناب بائیڈن  کو  جناب ٹرمپ پر صرف  دس ہزار ووٹوں کی برتری کے عوض 11 انتخابی ووٹ ملے۔کچھ ایسا معاملہ جارجیا میں ہوا جہاں 12 ہزار کی معمولی برتری حاصل کرکے بائیڈن صاحب نے 16الیکٹرل ووٹ اپنے نام کرلئے۔

جن 6 ریاستوں میں سخت مقابلہ ہے وہاں انتخابی کالج کے ووٹوں کی مجموعی تعداد 79 ہے۔ گزشتہ انتخابات میں یہ تمام ووٹ صدر بائیڈن کو ملے تھے اور اس بار بھی کملا ہیرس کو کامیابی کیلئے ان یاستوں سے جیتنا ضروری ہے۔ رائے عامہ کے تازہ ترین جائزوں کے مطابق ان کلیدی ریاستوں میں ٹرمپ اور کملا کے حامیوں کے درمیان فرق ایک فیصد سے بھی کم ہے چنانچہ مسلمانوں کے ووٹ پلٖڑے کو ادھر سے ادھر کردینے کیلئے کافی ہیں۔

آج کی گفتگو ہم الیکٹرل کالج اور امریکی انتخابی نظام پر ختم کرتے ہیں۔ اس منفرد انتخابی نطام کی روشنی میں متوقع نتائج کا تجزیہ انشااللہ اگلی نشست میں 

سنڈے میگزین روزنامہ جسارت کراچی 13 اکتوبر 2024


 

 

No comments:

Post a Comment