امریکی انتخابات
مسلمانوں
کے فیصلہ کن ووٹ؟؟؟؟؟؟
کملا ہیرس اسرائیل کی حمائت میں بے حسی کی حد تک
پرعزم
امریکی انتخابات میں اب ایک مہینہ باقی ہے بلکہ بہت سی ریاستوں میں قبل از وقت
یا earlyووٹنگ کا آغاز ہوچکا ہے اور ڈاک سے ووٹ ڈالنے کے
خواہشنمندوں کو بھی پرچہ انتخاب جاری ہورہے ہیں۔یکم اکتوبر کو نائب صدارت کے
امیدواروں کے درمیان مباحثہ ہوا۔اسی دن ایران نے اسرائیل پر میزائیل حملہ کیا جبکہ
تین دن پہلے آنے والے سمندری طوفان Heleneسے جنوبی ریاستوں میں جو
تباہی آئی ہے اس پر دونوں جماعتیں باہمی الزام تراشی میں مصروف ہیں۔اتفاق سے یکم
اکتوبر ہی کو امریکہ کے مشرقی ساحلوں (بحراوقیانوس) اور خلیج میکسیکو کی بندرگاہوں
پر مزدروں نے ہڑتال شروع کردی ۔ملک کی 60 فیصد بحری تجارت انھیں بندرگاہوں سے ہوتی
اور اس تاریخی ہڑتال سےیومیہ نقصان کا تخمینہ ساڑھے سات ارب ڈالر لگایا جارہا ہے۔
بحث کے آغاز پر ہی میزبان نے ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوارگورنر ٹم والز سے
پوچھا کہ کیا وہ ایران پر اسرائیل کے جوابئ حملے کی حمائت کرینگے؟ تو گوونر صاحب
نے حسب توقع سات اکتوبر کے قتل عام کا نوحہ اور حماس پر تبرےسے گفتگو کا آغاز کیا
لیکن جلد ہی انکا رخِ سخن ڈانلڈ ٹرمپ کی طرف ہوگیا ور انھوں نے ٹرمپ صاحب کے غیر
ذمہ دارانہ روئے پر تنقید کرتے ہوئے سابق صدر کو قائدانہ صلاحیت سے محروم فرد
قراردیا۔جواب میں انکے حریف سینیٹر جے ڈی وانس نے بس یہی کہنے ہو اکتفا کیا کہ
حکمت عملی ترتیب دینا اسرائیل کا کام ہے اور انھوں نے باقی وقت ڈانلڈ ٹرمپ کے دفاع پر صرف
کیا۔
ایران کے حملے پر کملا ہیرس اور صدر بائیڈں اسرائیل کی غیرمشروط حمائت کا
اظہار کرچکے ہیں۔حملے کی اطلاع ملتے ہی
امریکی صدر نے تمام مصروفیات معطل کرکے اپنی مشیروں کے ہمراہ حکمت عملی مرکز یا Situation Roomسے پوری کاروائی کا بنفسِ نفیس جائزہ لیا۔ بعد میں انھوں نے کہا کہ ایران کو اسرائیل پر حملے
کے سنگین نتائج بھگتنے پڑینگے۔جناب
بائیڈن کا کہنا تھاکہ حملہ ناکام و غیر موثر رہا۔ایران
کو دھمکی دیتے ہوئے امریکی صدر بولے 'ایران کو جواب کے بارے میں وہ اسرائیلی
قیادات سے رابطے میں ہیں'
کملا ہیرس نے صحافیوں سے
باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ایران مشرق وسطیٰ کی ایک خطرناک اور عدم استحکام پیدا کرنے
والی قوت اور واشنگٹن کا اسرائیل کی سلامتی کے لئےعزم لازوال ہے۔ انکے حریف ڈانلڈ
ٹرمپ کا ردعمل بڑا دلچسپ تھا۔ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سابق صدر اپنے مخصوص لہجے
میں بولے 'دنیا کو آگ لگی ہوئی ہے اور امریکی قیادت MIA'۔
فوجی اصطلاح میں جنگ کے دوران لاپتہ ہوجانے والے فوجیوں کو
missing in action یا MIAکہتے ہیں جنکے بارے میں غالب امکان یہی ہوتا ہے کہ یہ جوان مارے
گئے لیکن لاش نہ مل سکی
جہاں
تک متوقع نتائج کا تعلق ہے تو ہرگزرتے دن کیساتھ مقابلہ سخت ہوتا جارہا ہے اور جن ریاستوں میں کانٹے کا مقابلہ ہے وہاں مسلمانوں
کے ووٹ فیصلہ کن شکل اختیار کرگئے ہیں۔امریکہ میں آباد مسلمانوں کی تعداد ساڑھے
تین کروڑ یا کل آبادی کا 1.1
فیصد ہے لیکن مقابلے والی ریاستوں یعنی
ایریزونا (Arizona)جارجیا (Georgia)، مشیگن (Michigan)، نواڈا (Nevada)، پنسلوانیہ (Pennsylvania)
اور وسکونسن (Wisconsin)
میں مسلمان بادشاہ گر 'ہوسکتے' ہیں ۔ہم نے
سکتے اسلئے قوسین میں درج کیا ہے کہ اپنے ابراہیمی کزن کی طرح مسلمان اس محاذ پر اتنے
منظم نہیں۔ مسلمان ووٹروں کی خاصی تعداد پاکستانیوں پر مشتمل ہے جنکی فکروتوجہ کا
محور امریکہ سے زیادہ پاکستانی سیاست ہے۔ جسکی وجہ سے ووٹ بینک کا موثر استعمال
ذرا مشکل لگ رہا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں ایریزونا، جارجیااور وسکونسن سے صدر بائیڈن کی ڈانلڈٹرمپ پر برتری ایک فیصد
سے کم تھی جبکہ اس بار مقابلہ مزید سخت
ہوگیا ہے۔ پسلوانیہ میں فرق 1.16،
مشیگن میں 2.78اور نواڈا میں 2.39فیصد تھا۔
یہ تو
آپ کو معلوم ہی ہے امریکہ میں فیصلہ انتخابی کالج کے ووٹوں سے ہوتا ہے اور ضابطے
کے تحت ایک ووٹ کی برتری پر بھی اس ریاست کیلئے مختص تمام ووٹ فاتح کے کھاتے میں
درج کردئے جاتے ہیں۔ جن ریاستوں کا ہم نے اوپر ذکر کیا انکے مجموعی انتخابی ووٹ 79
ہیں۔
امریکی
انتخابی نظام کی قباحت یہ ہے کہ جیت ڈانلڈٹرمپ یا کملا ہیرس کی ہی ہونی ہے۔کسی
تیسرے امیدوار کی کامیابی کاکوئی امکان نہیں۔ مسلمانوں کے بارے میں تلخ بلکہ توہین
آمیز روئے کی بنا پر ریپبلکن پارٹی مسلمانوں میں مقبول نہیں اور 9/11کے بعدسے مسلمانوں کی غالب اکثریت ڈیموکریٹک پارٹی کا ساتھ دیتی ہے۔ لیکن غزہ
نسل کشی کے معاملے میں کملا ہیرس کی بے حسی بلکہ سفاکیت کی بناپر اس بار انکے نام پر ٹھپہ لگانا بھی آسان نہیں۔ چنانچہ مسلم
ووٹروں میں third partyکا رجحان بڑھ رہا ہے اور حالیہ جائزوں کے مطابق گرین پارٹی
کی امیدوار ڈاکٹر جل اسٹائن تیزی سے مقبول ہورہی ہیں۔ ٖڈاکٹر صاحبہ ہیں تو یہودی
لیکن فلسطینیوں کےحقوق،غزہ نسل کشی کی مذمت اور اسرائیل پر پابندیوں کی پرجوش حامی
ہیں۔موصوفہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہروں کے دوران جیل کی ہوا بھی کھاچکی ہیں۔آزاد
و خود مختار فلسطینی ریاست اور اسرائیل کیلئے امریکی امداد پر پابندی گرین پارٹی کے
منشور کا کلیدی نکتہ ہے۔ ڈاکٹر جل اسٹائن نے نائب صدر کیلئے ایک سیاہ فام مسلم
دانشور ڈاکٹر بچ وئر (Butch
Ware)کا انتخاب کیا ہے۔
تاہم مسلمان
جل اسٹائن کے حق میں یکسو نہیں لگ رہے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد ریپبلکن پارٹی سے
خوفزہ ہے جنکے لئے ڈانلڈ ٹرمپ قابل قبول نہیں۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ کملا کو نہ
پڑنے والا ہر ووٹ ڈانلڈ ٹرمپ کی کامیابی کی راہ ہموار کریگا، اسلئے کہ ڈاکٹر جل
اسٹائن کے جیتنے کاکوئی امکان ہیں۔ پاکستانیوں میں عمران خان بہت مقبول ہیں اور کپتان
کے حامیوں کا خیال ہے کہ اگر ڈانلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے تو وہ خانصاحب
کو رہا کرانے کیلئے اسلام آباد پر دباو ڈلینگے۔یہ فکری تنوع مسلم ووٹ بینک کو
منتشر کررہا ہےاور جب ووٹ کا مجموعی حجم صرف ایک فیصد ہو تو انتخابی عمل میں وزن
محسوس کرانے کیلئے متحدہ لائحہِ ضروری ہے
جسکا فی الحال فقدان نظر آرہا ہے۔
حال ہی
میں نیوزویک سے باتیں کرتے ہوئے ڈاکٹر جل
اسٹائن نے کہا 'ڈیموکریٹس امریکی
مسلمانوں کی حمایت کے بغیر نہیں جیت سکتے۔ مسلم کمیونٹی ڈیموکریٹک پارٹی کا ساتھ
چھوڑ چکی ہے اوروہ اس وقت تک واپس نہیں آئے گی جب تک ڈیموکریٹس یہ فیصلہ نہیں کرتے
کہ ان کے لیے نسل کشی کی حمائت یا الیکشن جیتنے میں کونسی چیز زیادہ اہم ہے؟۔ ڈاکٹر صاحبہ کی بات
اس حد تک تو درست ہے کہ مسلمان ڈیموکریٹک پارٹی سے مایوس ہیں لیکن کیا مسلم برادری
ا'بکی بار ٹرمپ سرکار' کا خطرہ مول لے کر کملا جی کو سبق سکھانے کی ہمت کریگی اسکے
بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔
سنڈے میگزین، روزنامہ جسارت کراچی 6 اکتوبر 2024
No comments:
Post a Comment