Tuesday, September 30, 2025

 

اقوام  متحدہ کا اجلاس: غزہ، فلسطین اور عالمی ضمیر کا امتحان

اس ہفتے اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس میں غزہ اور آزاد فلسطینی ریاست موضوعِ سخن بنے رہے، جبکہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے "غزہ امن" کی گردان جاری رہی۔منگل 23 اگست کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکیہ، انڈونیشیا، اردن، مصر اور پاکستان کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ نے خوشخبری سنائی کہ 'ہم کسی نہ کسی قسم کے امن معاہدے کے قریب ہیں۔'

مغربی کنارے کا مستقبل اور اسرائیلی موقف

اس سے ایک دن قبل صدر کے ایلچی اسٹیو وٹکاف نے اعلان کیا کہ صدر ٹرمپ اسرائیل کو مغربی کنارے کے انضمام (Annexation) کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس اعلان کو فرانس اور سعودی عرب نے سراہتے ہوئے کہا کہ الحاق عالمی برادری کے لیے "سرخ لکیر" ہے جس کے سنگین نتائج ہوں گے۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے الحاق کی اجازت نہ دینے کے اعلان پر اسرائیلی وزیر خارجہ گدیعون ساعر نے اطالوی اخبار Corriere Della Sera کو انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل مقتدرہ فلسطین کے زیرانتظام علاقوں کے انضمام پر غور نہیں کر رہا کیونکہ "ہم فلسطینیوں کو کنٹرول نہیں کرنا چاہتے تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیلی بستیوں میں اسرائیلی قوانین نافذ رہیں گے۔ یعنی عالمی دباو کے نتیجے میں اپنے توسیع پسندانہ روئے سے رجوع کرنے کے بجائے اسرائیل، قبضہ گردی کو قانونی تحفظ دیتے ہوئے Apartheidطرزِ حکمرانی چاہتا ہے جہاں قبضہ گرد اور فلسطینی علاقوں میں دو مختلف قوانین ہوں۔

صدر ٹرمپ کی تقریر – دعوے اور تضاد

اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب میں صدر ٹرمپ نے غزہ امن کے لیے "مخلصانہ خواہشات" کا اظہار کیا لیکن ان کی تقریر کا بڑا حصہ بائیڈن انتظامیہ پر تنقید، اپنی کامیابیوں کے ذکر اور فخریہ شیخی پر مشتمل تھا۔

انھوں نے بہت فخر سے 22 جون کو ہونے والے آپریشن 'مڈنائٹ ہیمر' (Midnight Hammer)کا ذکر کیا جس میں انکے بقول 30 ہزار پونڈ کے 14 بموں نے ایرانی جوہری تنصیات کا نام و نشان مٹادیا۔ امریکی صدر نے دعویٰ کیا کہ ایران کی پوری عسکری قیادت اس آپریشن میں ماردی گئی۔ ایک آزادو خودمختار ملک میں دراندازی بلکہ سرحدوں کی پامالی کے فخریہ ذکر سے امن کیلئے انکےاخلاص کا پتہ چلتا ہے۔ اسی تقریر میں انھوں نے لندن کے رئیس شہر (Mayor)صادق خان پر ذاتی حملے کئے اورصادق خان کو بدترین بلکہ بہت ہی برا میئرقرار دیتے ہوئے اسے برطانیہ کی خراب امیگریشن پالیسی کا شاخسانہ قرادیا۔

نیتن یاہو کا جارحانہ ردعمل

جمعہ26 مارچ کو اسرائیلی وزیراعظم کی جارحانہ تقریر سے امن کی رہی سہی امید بھی دم توڑ گئی۔ اقوام عالم کے بائیکاٹ کی بناہر ہال کی خالی کرسیوں سے خطاب کرتے ہوئے بن یامین نیتن یاہو نے کہا "(غزہ میں) ہمارا مشن ابھی مکمل نہیں ہوا"۔ آزاد فلسطینی ریاست کو مسترد کرتے ہوئے بولے کہ 7 اکتوبر کے بعد یروشلم سے ایک میل کے فاصلے پر فلسطینیوں کو ریاست دینا ایسا ہے جیسے 11 ستمبر کے بعد نیویارک شہر سے ایک میل کے فاصلے پر القاعدہ کو ریاست دے دی جائے۔اس دوران عمارت کے باہر غزہ نسل کشی کے خلاف زبردست مظاہرہ ہوا جس میں نیویارک کے مقامی یہودیوں نے بھی حصہ کیا۔ اس دوران کولمبیا کے صدر گستاوو پیٹرو (Gustave Petro)نے باہر جاکر مظاہرین کیساتھ فری فلسطین کے نعرے لگائے۔ اس حوالے سے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ امریکہ نے کولمبین صدر کا ویزہ منسوخ کردیا۔

محمود عباس کا دوغلا موقف

مقتدرہ فلسطین (PA)کے صدر محمود عباس نے اپنے خطاب میں 'عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی' کی پالیسی اختیار کرتے ہوئےاسرائیل کی مذمت کے بعد برائے وزن ِبیت مزاحمت کاروں پر بھی چاند ماری فرمائی۔ارشاد ہوا ہم 7 اکتوبر کو مزاحمت کاروں کی جانب سے کئے گئے اقدامات کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ کارروائیاں جن میں اسرائیلی شہریوں کو نشانہ اور یرغمال بنایا گیا، فلسطینی عوام کی نمائندگی کرتیں ہیں اور نہ ان کی آزادی و خودمختاری کی جائز جدوجہد کی عکاسی کرتی ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی دعوت کے باوجود امریکہ نے انہیں ویزا دینے سے انکار کردیا۔

قافلہ صمود – سمندر کی مزاحمت

غزہ کی طرف محو سفر قافلہِ صمود 26 ستمبر کو یونان سے روانہ ہوگیا۔پہلے توقع تھی کہ  50 کشتیوں پر مشتمل یہ قافلہ یکم اکتوبر تک غزہ کے ساحل پر ہوگا۔لیکن یکے بعد دیگرے دو کشتیوں میں تیکنیکی خرابی کی وجہ سے مرمت تک یہ سفر روک دیا گیا ہے۔قافلہ صمود کی حٖفاظت کیلئے اٹلی اور اسپین نے اپنے فوجی جہاز بھیج دئے ہیں۔ ہسپانوی وزیراعظم پیدرو سنچیز نے کہا کہ انکی بحریہ، فلوٹیلا پر موجود شہریوں اور امدادی سامان کی حفاظت کو یقینی بنانے کیساتھ صمود کے خلاف ممکنہ جارحیت کا جواب دیگی۔خبر ہے کہ ترک ڈرون قافلے کو فضائی تحفظ فراہم کررہے ہیں۔

سابق کورکمانڈر کی طرف سے اعترافِ ناکامی

دلچسپ بات کہ جسوقت اسرائیلی وزیراعظم اقوام متحدہ میں اپنی عسکری کامیابی پر دنیا کے سامنے شیخی بگھاررہے تھے عین اسی وقت ابلاغ عامہ کے اسرائیلی ذرایع نے فوج کے سابق کمانڈر غزہ ڈویژن جنرل نمرود الونی (Nimrod Aloni) کے الوداعی خطاب کے کچھ سنسنی خیز اقتباسات شایع کردئے۔ اپنی ریٹائر منٹ پر ہونے والی تقریب میں جنرل صاحب نے کہا کہ وہ ایک ایسی فوج چھوڑ کر جا رہے ہیں جس میں ذمہ داری کے تصور کو پامال کر دیا گیا ہے اور ناکامیوں کو تسلیم کرنے کی جرأت ختم ہو گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا'ہم نے سوچا کہ وقت ہمارے حق میں کام کرے گا اور ہم دشمن کو شمال اور جنوب دونوں محاذوں پر قابو میں رکھ لیں گے، لیکن اندازے غلط ثابت ہوئے'۔جنرل الونی کے بقول اسرائیلی فوج نے اپنی ناکامیوں کو چھپانا سیکھ لیا ہے، بجائے اس کے کہ انہیں تحقیق کے میز پر رکھ کر سبق سیکھا جائے۔ حوالہ ٹائمز آف اسرائیل

دوسروں کے نشیمن پھونکنے والوں کے اپنے گھر بھی  ٹوٹ رہے ہیں

غزہ، غربِ اردن، شام، ایران اور یمن میں اسرائیلی فوج کی درندگی سے جارحیت کا شکار مظلوموں پر جو قیامت ٹوٹی اسکا ذکر کرتے ہوئے قلم کانپتا ہے لیکن اس خون آشامی کے تباہ کن اثرات سے اسرائیلی معاشرہ بھی متاثر ہورہا ہے۔ اسرائیلی محکمہ شماریات کے مطابق اس جنگ نے محفوط (Reservists)فوجیوں کے اہل خانہ پر جو منفی اثرات مرتب کئے وہ کچھ اسطرح ہیں:

  • پچاس فیصد فیصد شریکِ حیات نے کہا کہ ان کے ازدواجی تعلقات کو نقصان پہنچا۔
  • تیس فیصد نے اعتراف کیا کہ یہ نقصان علیحدگی یا طلاق کے بارے میں سوچنے تک لے گیا۔
  • دوسو سے 350 دن تک فوجی خدمات انجام دینے والے ریزروسٹ کے گھروں میں تعلقات متاثر ہونے کی شرح 57 فیصد تک پہنچی۔

بچوں پر اثرات:

اکیس  سال سے کم عمر بچوں کے بارے میں 52 فیصد شریکِ حیات نے بتایا کہ ان کی ذہنی حالت پر منفی اثر پڑا۔ یہ شرح ان اہل خانہ میں 63 فیصد تک جا پہنچی جہاں والد نے 200 سے 250 دن تک خدمات انجام دیں۔

انفرادی احتجاج: ضمیر کی آواز

جرمن شہر Fürth کی ایک پیزا شاپ نے نوٹس آویزاں کیا:

"اسرائیلی شہری خوش آمدید نہیں، جب تک وہ اپنی آنکھیں، کان اور دل کھولنے کا فیصلہ نہ کریں۔"

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 3 اکتوبر 2025

ہفت روزہ دعوت 3 اکتوبر 2025

روزنامہ امت کراچی 3 اکتوبر 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 5 اکتوبر 2025


 

غزہ امن منصوبہ: امن یا قبضے کی نئی شکل؟

آج (29 ستمبر) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ امن کا 21 نکاتی منصوبہ جاری کردیا، جس کا مقصد غزہ میں جاری جنگ کو ختم کرنا اور اس علاقے کو "انتہا پسندی و دہشت گردی سے پاک" خطہ بنانا بتایا جا رہا ہے۔ اسرائیلی عبرانی میڈیا نے منصوبے کے اہم نکات شائع کیے ہیں، جو کچھ اسطرح ہیں:

  • غزہ کی پٹی کو غیر فوجی زون بنایا جائے گا تاکہ اسرائیل کو کوئی سیکورٹی خطرہ نہ رہے۔
  • اگر مزاحمت کاروں نے اس منصوبے کو قبول کرلیا تو تمام فوجی کارروائیاں معطل کر دی جائیں گی اور اسرائیلی سپاہ بتدریج پیچھے ہٹ جائیگی۔
  • 72 گھنٹوں کے اندر تمام زندہ اسرائیلی یرغمالیوں اور زخمیوں کو رہا کرنا لازمی ہوگا۔
  • اس کے بعد اسرائیل 250 عمر قید یافتہ فلسطینی قیدیوں اور غزہ کے مزید 1700 نظربندوں کو رہا کرے گا، جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔
  • ہر اسرائیلی یرغمالی کی باقیات کے بدلے غزہ کے 15 باشندوں کی باقیات لوٹائی جائیں گی۔
  • وہ ارکانِ مزاحمت جو ہتھیار ڈال کر پُرامن بقائے باہمی پر راضی ہوں گے، انہیں عام معافی دے دی جائے گی۔
  • غزہ سے نکلنے کے خواہشمندوں کو محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا۔
  • غزہ میں فوری انسانی امداد بھیجی جائے گی، بنیادی ڈھانچے کی بحالی، ہسپتالوں، بیکریوں اور ملبے کی صفائی کی جائے گی۔
  • امداد کے داخلے اور تقسیم کی نگرانی اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے کریں گے۔ رفح کراسنگ دونوں سمتوں میں کھولی جائے گی۔
  • غزہ کا کنٹرول ایک فلسطینی ٹیکنوکریٹک کمیٹی کو دیا جائے گا، جس کی نگرانی صدر ٹرمپ کی سربراہی میں قائم "امن کونسل" کرے گی۔
  • یہ کمیٹی عوامی خدمات کا انتظام سنبھالے گی اور غزہ کے باشندوں کے مفادات کی نگراں ہوگی۔
  • ایک خصوصی اقتصادی زون قائم کیا جائے گا، جہاں سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
  • غزہ کے باشندے اپنی مرضی سے قیام یا ترکِ وطن کا انتخاب کر سکیں گے۔

بظاہر یہ منصوبہ امن کے نام پر پیش کیا گیا ہے، لیکن اس کی روح اور ساخت کو دیکھتے ہوئے یہ اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے لیے ترتیب دیا گیا پروگرام معلوم ہوتا ہے۔

سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ مذاکرات میں تنازعے کے اصل فریق،  یعنی مزاحمت کاروں  کو مدعو ہی نہیں کیا گیا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی مقدمے کا فیصلہ اصل مدعا اور علیہ کو سنے بغیر کر دیا جائے۔ جب فریقِ نزاع ہی اعتماد میں نہیں، تو یہ معاہدہ کس طرح پائیدار اور مؤثر ثابت ہو سکتا ہے؟ منتخب فلسطینی قیادت اور عوامی شمولیت کے بغیر طے پانے والامنصوبہ ایک "انتظامی بندوبست" ہوگا، نہ کہ پائیدار امن کی جانب پیشقدمی۔

اس منصوبے کا مصالحت کار، امریکہ عملاً اسرائیل کا سب سے بڑا حامی اور سہولت کار ہے۔ چنانچہ اس کی غیر جانبداری پر مزاحمت کاروں کا اعتماد کرنا ممکن ہی نہیں۔ قطر اور مصر نے کسی حد تک مزاحمت کاروں کی نمائندگی ضرور کی، لیکن یہ دونوں ممالک بھی باضابطہ طور پر مزاحمت کاروں کو "دہشت گرد" قرار دیتے ہیں، اس لیے ان کی نمائندگی بھی محض رسمی دکھائی دیتی ہے۔

منصوبے کا مرکزی ہدف یہ ہے کہ مزاحمت کار ہتھیار ڈال دیں اور غزہ کے معاملات سے الگ ہو جائیں۔ دوسری طرف، بفر زون کی شکل میں اسرائیل کا دائمی قبضہ تسلیم کر لیا جائے۔ عبوری بندوبست کی سربراہی صدر ٹرمپ کو دینے کیساتھ سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلئر کو بھی کلیدی کردار عطا ہونے کا عندیہ دیا گیا ہے، حالانکہ عراق میں ان کا کردار پہلے ہی مشکوک اور متنازع سمجھا جاتا ہے۔

صدر ٹرمپ نے معاہدے کے اعلان کے دوران اپنے خطاب میں خونریزی کا ذمہ دار مزاحمت کاروں کو ٹھہرایا، جبکہ اسرائیل کی درندگی کو جواز اور تعریف سے نوازا۔ انہوں نے 2005 کے اسرائیلی انخلا کو "امن کی خاطر ایک خوبصورت علاقہ چھوڑنے" سے تعبیر کیا، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے اپنا نہیں بلکہ قبضہ کیا ہوا خطہ خالی کیا تھا، اور یہ انخلا بھی فلسطینی مزاحمت کے نتیجے میں پارلیمان کے "Disengagement Law" کے تحت جبر کے ساتھ ہوا تھا۔صدر ٹرمپ نے اسرائیلی قیدیوں اور ان کی قربانیوں کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا، مگر ہزاروں فلسطینی شہداء کا ذکر تک نہ آیا۔ یہ رویہ منصوبے کی یکطرفہ نوعیت کو بے نقاب کرتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس معاہدے کے بعد خطے کی صورتِ حال کس سمت جائے گی؟ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ غزہ کو ایک بین الاقوامی تفریحی مقام بنانے کا منصوبہ ہے، جس کی تعمیر کے لیے سرمایہ اور حفاظت کے لیے زورِ بازو عرب و اسلامی دنیا سے حاصل کیا جائے گا۔

کیا مزاحمت کار اس منصوبے کو قبول کرلیں گے؟

 تادمِ تحریر انہیں اس منصوبے کا مسودہ بھی فراہم نہیں کیا گیا۔ اگر انہوں نے اسے مسترد کر دیا، تو غالب امکان ہے کہ خطے میں ایک نئی کشمکش جنم لے گی، جس کے اثرات عالمی سطح پر محسوس کیے جائیں گے۔صدر ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ اگر مزاحمت کاروں نے معاہدے کو رد کیا تو انھیں کچلنے کیلئےاسرائیل کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہوگی۔جب دو برس کی مسلسل بمباری مزاحمت کو ختم نہ کر سکی تو ایک تحریری معاہدہ کس طرح "ڈی ریڈیکلائزیشن" کا ہدف حاصل کر سکے گا؟

سفارتی پیشرفت اور منصوبے کی رونمائی کرتے ہوئے صدر ٹرمپ لب ولہجہ اور سب سے بڑھ کر ساتھ کھڑے نیتن یاہو کے تکبر سے چور روئے کے تناظرمیں یہ منصوبہ امن کی بجائے غزہ کو ایک نئے دباؤ اور دائمی قبضے کے حصار میں جکڑنے کی کوشش معلوم ہوتا ہے۔ اصل سوال وہی ہے کہ کیا امن طاقت کے زور پر قائم کیا جا سکتا ہے؟

بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ

دلچسپ امر یہ ہے کہ منصوبے کے اعلان کے ساتھ ہی غوروفکر اور باہمی گفت وشنید کے بغیر سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، پاکستان، ترکی، قطر اور مصر کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ بیان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ان "مخلصانہ کوششوں" کا خیرمقدم کرتے ہوئےخطے میں امن کے قیام کے لیے امریکہ کے ساتھ تعاون بلکہ شراکت داری کا عزم ظاہر کیا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 3 اکتوبر 2025

انڈیا ٹومارو (نگریزی ترجمہ) 30 ستمبر 2025


Friday, September 26, 2025

 

وحشیانہ یلغار، امریکی آشیر واد، سفارتی فریب اور تضادات

آسٹریلیا، پرتگال، برطانیہ کینیڈا، فرانس، بیلجیم، لکسمبرگ، مالٹا، سان میرینو اور انڈورا نے فلسطین کو آزاد و خودمختار ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ واشنگٹن کے خیال میں یہ فیصلہ ایک "نمائشی" (performative) قدم ہے۔امریکہ اور اسرائیل کا ردِعمل غیر متوقع ہے اور نہ ہی اس پر کسی تبصرے کی ضرورت، مگر یہ فیصلہ خود فلسطینیوں کے لیے کوئی حقیقی راحت نہیں لایا۔ اس میں 1948 کے بجائے 1967 کی سرحدوں کو حتمی قرار دیا گیا ہے، یعنی فلسطینیوں کو پورے ملک سے بیدخل کرکے صرف غربِ اردن اور غزہ تک محدود کرنے کے توسیع پسندانہ اقدامات کو عملی طور پر جائز تسلیم کرلیا گیا۔اسی کے ساتھ مزاحمتی قوتوں پر پابندیوں کا عزم ظاہر کرتے ہوئے، مستقبل کے فلسطین میں ان کے سیاسی کردار کو ناقابلِ قبول قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ موقف اس لحاظ سے غیر منصفانہ ہے کہ 2006 کے پہلے فلسطینی عام انتخابات میں یہی مزاحمتی تنظیم سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری تھی، اور جب تک نئے انتخابات نہیں ہوتے، اس کا اخلاقی مینڈیٹ قائم ہے۔فلسطین کی آزادی کا مطلب صرف جغرافیائی شناخت نہیں بلکہ سیاسی خود ارادیت بھی ہے، اور تمام نمائندہ قوتوں کو شامل کیے بغیر یہ ہدف حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس تناظر میں تازہ ترین سفارتی "تسلیم" محض کاغذ پر کھینچی ایک ایسی لکیر ہے، جو فلسطینی عوام کی امنگوں اور زمینی حقائق سے ہم آہنگ نہیں۔

وحشیانہ حملہ اور جامعہ غزہ کی تباہی

غزہ شہر پر 15 ستمبر کو شروع ہونے والی وحشیانہ یلغار جاری ہے اور ہر گزرتے لمحے درندگی میں اضافہ ہورہا ہے۔ دھماکے سے ریزہ ریزہ ہوتی کثیر المنزلہ عمارتوں اور شعلوں میں لپٹے گھروندوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپنےسفاکانہ ٹبصروں کیساتھ وزیردفاع خود پیش کر رہے ہیں۔ غزہ کی اسلامی جامعہ کو زمین بوس کرنے کی تصویر پر "اسلامک" کے گرد قوسین کھینچ کر انھوں نے اپنی نفرت کا خصوصی اظہار کیا۔ ہلاکو اور چنگیز خان بھی مدارس اور کتب خانوں کو جلاتے تھے لیکن ان کے پاس امریکہ کے فراہم کردہ بنکر بسٹر بم نہیں تھے۔

امریکی اسلحہ اور سلامتی کونسل کا چھٹا ویٹو

خون ریزی میں معاونت کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کو 6 ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ فراہم کرنے کا نوٹس کانگریس کو بھیجا ہے۔ اس کھیپ میں غزہ شہر کے رہائشی علاقوں پر حملوں کے لیے 30 اپاچی ہیلی کاپٹر اور 3000 سے زیادہ بکتر بند گاڑیاں شامل ہیں (حوالہ: وال اسٹریٹ جرنل)۔امریکہ نے 18 ستمبر کو سلامتی کونسل کی اس قرارداد کو ویٹو کردیا جس میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ پاکستان سمیت 10 غیر مستقل ارکان نے یہ تحریک پیش کی تھی اور 15 میں سے 14 ارکان نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ امریکی نمائندہ مورگن اورٹیگس (Morgan Ortagus) نے کہا کہ  قرارداد "مزاحمت کاروں کی حمایت میں غلط بیانیوں کو جائز قرار دیتی ہے"۔ یہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے امریکہ کا چھٹا ویٹو ہے۔

اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیموں کا احتجاج

امریکہ بہادر تو جنگ بندی کے حق میں ہاتھ بلند نہ کرسکے لیکن 16 ستمبر کو اسرائیل کی انسانی حقوق کی  تنظیموں نے اپنی حکومت پر فردِ جرم عائد کردی۔ ایسوسی ایشن فار سول رائٹس ان اسرائیل (ACRI)، فزیشنز فار ہیومن رائٹس، گیسا اور عدالہ نے مشترکہ بیان میں کہا کہ غزہ شہر کے لیے دی گئی اجتماعی انخلا کی دھمکی جبری بے دخلی اور نسلی تطہیر کے مترادف  اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے ۔

حوالہ: ہارٹز(Haaretz)

اقوام متحدہ کا تضاد اور پوپ کی ہچکچاہٹ

اقوامِ متحدہ کی انڈیپنڈنٹ انٹرنیشنل کمیشن آف انکوائری نے اپنی تازہ رپورٹ میں صاف صاف کہدیا کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔ کمیشن کی سربراہ نیوی پلے (Navi Pillay) نے اسرائیلی قیادت بشمول وزیراعظم نیتن یاہو، سابق وزیر دفاع یوآف گیلنٹ اور صدر اسحاق ہرزوگ کو براہِ راست ذمہ دار ٹھہرایا۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ وولکر ترک (Volker Turk) نے کہا کہ شواہد تیزی سے جنگی جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہیں لیکن انھوں نے "نسل کشی" کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کیا۔ اسی طرح 19 ستمبر کوپاپائے روم نے غزہ کی صورتحال پر تشویش کا اظہار تو کیا لیکن فوراً وضاحت فرمائی کہ فی الحال ہم اسے "نسل کشی" نہیں کہہ سکتے۔

یورپی یونین کی تاخیر اور تجارتی مفادات

یورپی کمیشن نے 'تجویز' دی ہے کہ اسرائیلی مصنوعات پر فری ٹریڈ سہولت معطل کی جائے۔ اسرائیلی وزرا ایتامار بن گویر (Itamar Ben-Gvir) اور بیزلیل اسموترچ (Bezalel Smotrich) پر پابندیاں لگانے کی سفارش بھی اس تجویز کا حصہ ہے۔ تاہم یورپی ممالک خصوصاً جرمنی مزید وقت چاہتے ہیں۔ یورپی یونین کی سربراہ برائے خارجہ امور محترمہ کایا کالس (Kaja Kallas) نے کہا کہ مقصد اسرائیل کو سزا دینا نہیں بلکہ انسانی بحران کو کم کرنا ہے۔ تاخیر اور ہچکچاہٹ "گوری دنیا" کی ترجیحات کو بے نقاب کررہی ہے۔

غزہ سے سینائی کی طرف دھکیلنے کی سازش

اب غزہ کے مظلوموں کو صحرائے سینائی کی طرف دھکیلنے کی کوششیں شروع ہوچکی ہیں۔ نیتن یاہو نے الزام لگایا کہ مصر،  فلسطینیوں کو "جنگی علاقے میں قید" رکھ کر ان کے انخلا کی راہ روک رہا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ  دباؤ ڈال رہے ہیں کہ مصر اہلِ غزہ کو سینائی میں آباد کرے تاکہ علاقے کو ایک پرتعیش تفریحی مقام (Riviera) میں تبدیل کیا جا سکے۔اس سلسلے میں ٹرمپ انتظامیہ مبینہ طور پر 'بزنس پلان' بھی بناچکی ہے۔ر فح پھاٹک کھولنے پر جنرل السیسی کو آمادہ کرنے کیلئے مصر کے خلاف فوجی کاروائی بھی خارج از امکان نہیں۔

اجڑے دیار اور بچوں کے مزار پر نفع بخش کاروبار

اسرائیلی وزیرِ خزانہ بیزلیل اسموترچ نے تل ابیب میں ایک کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ غزہ کی تباہی نے رئیل اسٹیٹ کے ایک شاندار موقع (Bonanza) کو  جنم دیا ہے۔ان کا کہنا تھاکہ  ہم نے اس جنگ پر بہت پیسہ خرچ کیا ہے، اب یہ طئے کرنا باقی ہے کہ زمین کو کس تناسب سے تقسیم کیا جائے۔ اسموترچ صاحب نے مزید کہا کہ تباہی ہم نے کر دی ہے، جو شہر کی تعمیرِ نو کا پہلا مرحلہ ہے اور اگلے مرحلے کا بزنس پلان صدر ٹرمپ کی میز پر رکھا ہے۔ حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل

امریکی سیاست اور اسرائیلی لابی

امریکی سیاستدان اب نیٹو اتحادیوں کو بھی دھمکانے لگے ہیں۔ ریپبلکن رہنما محترمہ ایلیس اسٹیفانک (Elise Stefanic) اور سینیٹر رک اسکاٹ (Rick Scott) نے اتحادی ممالک پر زور دیا ہےکہا کہ وہ فلسطینی ریاست کے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔ دوسری طرف وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق صدر ٹرمپ نے اپنے مشیروں سے کہا کہ نیتن یاہو انھیں "دھوکہ دے رہے ہیں" لیکن وہ لابی کے دباؤ کے باعث کھل کر کچھ نہیں کہہ سکتے۔امریکی حکام کے مطابق صدر ٹرمپ اسرائیلی فیصلوں پر اکثر ناخوش رہتے ہیں، جس کی بازگشت نجی نشستوں میں سنائی دیتی ہے، مگر وہ نیتن یاہو کے امریکی پالیسی سے متصادم اقدامات کو برداشت کر لیتے ہیں۔ یہ ہے اسرائیلی ترغیب کاری(Lobby) کی اصل طاقت کہ ایک سپر پاور کا صدر بھی کھل کر حقیقت بیان نہیں کر سکتا۔

قیدیوں کے اہلِ خانہ کا احتجاج

بیس ستمبر کو مزاحمت کاروں نے "زندہ" قیدیوں کی الوداعی تصویر جاری کی، جس پر عبرانی اور عربی میں درج تھا: "نیتن یاہو کے غرور اور جنرل زامیر کی تابع داری کے باعث، یہ الوداعی تصویر ہے جو غزہ میں کارروائی کے آغاز کے وقت جاری کی گئی۔" اس پر قیدیوں کے لواحقین لرز کر رہ گئے اور وزیراعظم کی رہائش گاہ کے باہر دھرنا ڈال دیا۔ ایک قیدی متان زانگاؤکر (Matan Zangauker) کی والدہ نے کہاکہ نیتن یاہو اقتدار کے لیے اپنی ہی قوم کو قربان کر رہے ہیں۔ ایک اور قیدی متان انگرسٹ (Matan Angrest) کی والدہ نے فوجی سربراہ ایال زامیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا "آپ نیتن یاہو کے غلام ہیں یا اپنی قوم کے محافظ؟"

فنکاروں کا بائیکاٹ اور عالمی یکجہتی

چار سو سے زائد بین الاقوامی فنکاروں نے اسرائیل میں جاری مظالم کے خلاف بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ موسیقی کے گروپس Massive Attack، Rina Sawayama اور Japanese Breakfast نے اپنی موسیقی اسرائیلی اسٹریمنگ پلیٹ فارمز سے ہٹا لی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ "ثقافت خود بموں کو نہیں روک سکتی لیکن یہ سیاسی جبر کو مسترد کرنے اور انصاف کی طرف عوامی رائے منتقل کرنے میں مدد کر سکتی ہے"۔

بائیکاٹ مہم ۔۔کارفور کی شوخی کافور  

مسلم قائدین کی خاموشی کے باوجود عوامئ سطح پر اسرائیل نواز مصنوعات اور کاروبار کے خلاف بائیکاٹ  مہم میں شدت آرہی ہے۔ فرانسیسی سپر مارکیٹ Carrefour نے کوئت میں اپنی دوکان بڑھادینے کا اعلان کردیا۔ عوامی دباؤ کے باعث یہ ادارہ بحرین، عمان اور اردن سے اپنا کاروبار پہلے ہی لپیٹ چکا ہے۔کارفور اسرائیلی فوجیوں کو تحائف فراہم کرنے اور غیر قانونی بستیوں میں شراکت داری پر عالمی تنقید کا نشانہ بنی ہوئی  ہے۔

صمود فلوٹیلا

"صمود فلوٹیلا" 15 ستمبر کو تیونس کی بنزرت (Bizerte) بندرگاہ سے غزہ کے لیے روانہ ہوا۔ اس قافلے میں 44 ممالک کے ارکان پارلیمان اور انسانی حقوق کے کارکن شامل ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کے رہنما مشتاق احمد خان بھی اس کارواں میں شریک ہیں۔

یمن: قلم اور کیمرے کے دشمن

غزہ کی طرح یمن میں بھی صحافی اسرائیلی بمباری کا نشانہ ہیں۔منگل 16 ستمبر کو صنعاء پر حملے میں 31 صحافی شہید ہوئے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 26 ستمبر 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 26 ستمبر 2025

روزنامہ امت کراچی 26 ستمبر 2025

ہفت روزہ سرینگر 28 ستمبر 2025


Thursday, September 25, 2025

 

پاک سعودی  دفاعی معاہدہ: نئی شراکت یا پرانے تجربات کی تکرار؟

سترہ ستمبر کو وزیراعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے باہمی دفاع کے تزویراتی معاہدے (Strategic Mutual Defense Agreement) پر دستخط کیے، جس میں کہا گیا ہے کہ "کسی ایک ملک پر حملہ، دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا"۔ اگرچہ معاہدے میں جوہری ہتھیاروں کا ذکر نہیں، لیکن سعودی حکام نے عندیہ دیا ہے کہ یہ معاہدہ "تمام دفاعی ذرائع" کا احاطہ کرتا ہے۔ جسکا مطلب ہوا کہ اسلام آباد کی جانب سے ریاض کو جوہری تحفظ کی فراہمی خارج از امکان نہیں۔بادی النظر میں یہ معاہدہ قطر پر اسرائیلی حملے کا ردعمل محسوس ہوتا ہے، لیکن پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ اس پر کئی مہینے سے بات چیت چل رہی تھی اور یہ قطر پر اسرائیلی حملے کا ردعمل نہیں۔پاکستانی وزیرخارجہ کے مطابق کچھ دوسرے ممالک نے بھی اس معاہدہ کا حصہ بننے کی خواہش ظاہر کی ہے۔

ریاض  کی بدلتی ترجیحات

امریکہ ایک عرصے سے سعودی عرب کا دفاعی شراکت دار ہے۔ سعودی فوج امریکی اسلحے سے لیس ہے اور فوجی افسران امریکی عسکری اکیڈمیوں میں تربیت پارہے ہیں۔ لیکن "طوفان الاقصیٰ" کے بعد امریکہ کی کھلی اسرائیل نوازی نے ولی عہد محمد بن سلمان کو کو نئے خدشات سے دوچار کردیا۔امریکہ سے دفاعی شراکت داری  نے سعودی عرب کو ماضی میں بعض علاقائی ممالک سے شدید کشیدگی میں بھی دھکیلا۔ ایران کے ساتھ تعلقات ایک وقت میں بالکل منقطع رہے، یمن میں ایران نواز حوثیوں کے ساتھ براہِ راست جنگ لڑی گئی، اور شام میں بشارالاسد کی معزولی تک تعلقات خراب رہے۔ تاہم اب سعودی خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ ریاض نے تہران کے ساتھ تعلقات بحال کیے اور اس کے نتیجے میں حوثیوں کے ساتھ کشیدگی بھی کم ہوگئی ہے۔

اسی طرح روس اور چین کے ساتھ بھی سعودی تعلقات میں گرمجوشی آئی ہے۔ سعودی عرب نے روس سے  Pantsir-S1  فضائی دفاعی نظام سمیت دیگر اسلحہ خریدا ہے، جس کی مالیت تقریباً 2 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ یہ خریداری روس پر مغربی پابندیوں کے باوجود کی گئی، جس پر امریکہ اور یورپی یونین نے اعتراض کیا۔ اسلحے کے لیے چین کی دفاعی کمپنیوں سے بھی بات چیت جاری ہے۔ یہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ محمد بن سلمان ملکی دفاع کے باب میں  تنوع کے خواہشمند ہیں

قطر کا تجربہ اور خطے کی فکری بے چینی

اسرائیلی حملے کے دوران قطری افواج کی بے بسی نے خطے کے ممالک کو چونکا دیا۔ دوحہ نے اربوں ڈالر خرچ کرکے امریکہ سے پیٹریاٹ ، ناروے کا NASAMS-2اور برطانوی ساختہ  Rapier دفاعی نظام خریدے، لیکن  یہ سب کچھ ہوتے ہوئے دفاع تو دور کی بات، قطر اسرائیلی طیاروں کا پتہ لگانے میں بھی ناکام رہا۔ماہرین کے مطابق یہ ناکامی  ٹیکنالوجی کی نہیں بلکہ فوجی مہارت اور تربیت کی کمی کا نتیجہ ہے۔

پاک فضائیہ کی کارکردگی اور اعتماد سازی

دوسری طرف اس سال مئی میں پاک بھارت فضائی تصادم نے پاک فضائیہ کو نئی وقعت دی۔ اس موقع پر پاکستانی ہوابازوں نے جس مہارت اور حوصلے کا مظاہرہ کیا، اُس نے  ملکی سطح پر اعتماد کو تقویت بخشنے کیساتھ دنیا کو پیغام دیا کہ پاکستان اپنی فضائی سرحدوں کا دفاع کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔پاکستانی فضائیہ (PAF) نے نہ صرف دراندازی کو روکا بلکہ الیکٹرانک وارفیئر، ریڈار جیمنگ، اور نشانہ بازی میں واضح  برتری دکھائی۔امریکی صدر ٹرمپ نے بھی کئی بار پاک فضائیہ کی تیکنیکی مہارت کا مبہم اعتراف کیا۔

سعودی دفاع کا امریکہ پر سے انحصار ختم کرنے کیلئے محمد بن سلمان کو ایک بااعتماد شراکت دار کی تلاش تھی اور  پاک فضائیہ کی کارکردگی دیکھ کر انھوں نے ایک ایسے ملک کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرنے میں زیادہ دلچسپی لی جس نے عملی طور پر اپنی صلاحیت ثابت کر دی ہے۔ معاہدے کی بنیاد اسی اعتماد پر رکھی گئی اور قطر پر اسرائیلی حملے نے اسے منطقی انجام تک پہنچادیا۔

ماضی کے تجربات اور نئے سوالات

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ دفاعی معاہدہ بظاہر ایک نئی پیش رفت ہے لیکن اگر اسے ماضی کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں کہ پاکستان کسی بین الاقوامی یا علاقائی دفاعی اتحاد کا حصہ بنا ہے۔پاکستان نے آزادی کے چند سال بعد ہی دو بڑے فوجی اتحادوں میں شمولیت اختیار کی تھی:

سیٹو (SEATO) یعنی ’’جنوب مشرقی ایشیائی معاہدہ‘‘، جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کمیونزم کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بنایا تھا اور سینٹو (CENTO) جسے ابتدا میں معاہدہِ بغداد کہا جاتا تھا۔

ان اتحادوں میں پاکستان نے بھرپور شمولیت کی، مگر جب 1965 اور 1971 کی جنگیں ہوئیں تو یہ معاہدے کسی کام نہ آئے۔ بلکہ امریکہ نے الٹا پاکستان پر اسلحے کی پابندیاں عائد کر دیں۔ یوں یہ اتحاد پاکستان کے لیے سودمند ہونے کے بجائے قومی سلامتی کو مزید کمزور کر گئے۔

اسی طرح 2015 میں سعودی قیادت میں اسلامی فوجی اتحاد (IMCTC) قائم ہوا، جس کے سربراہ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف بنائے گئے۔ یہ اتحاد 41 اسلامی ممالک پر مشتمل تھا۔پاکستان کی عسکری قیادت کو اس اتحاد میں مرکزی حیثیت حاصل رہی لیکن اتحاد اب تک کوئی بڑی عسکری کارروائی نہیں کر سکا اور اکثر مبصرین کے نزدیک یہ علامتی رہا ہے۔

سعودی عرب، چین اور بھارت ۔۔ سفارتی توازن

اس اتحاد سے ہندوستان کے لیے ایک نفسیاتی اور سفارتی دباؤ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس تناظر میں سوال اٹھتا ہےکہ  اگر مستقبل میں پاک بھارت فوجی تصادم کی نوبت آئی تو کیا سعودی افواج بھارت کے خلاف میدان میں اتریں گی؟ جواب سادہ نہیں۔ سعودی عرب کے بھارت سے تجارتی، توانائی اور سفارتی روابط خاصے گہرے ہیں۔ لہٰذا، معاہدے کی عملی تشریح شاید فوجی مداخلت سے زیادہ سفارتی دباؤ یا انٹیلیجنس تعاون تک محدود رہے۔پاکستان کے علاوہ چین بھی بھارت کا تزویراتی حریف اور سعودی عرب کا تجارتی شراکت دار ہے۔یہی پہلو سعودی عرب کو ممکنہ ثالث بناتا ہے۔ اگر مستقبل میں پاک بھارت یا چین بھارت تنازع شدت اختیار کرتا ہے، تو سعودی سفارتکاری امن کی راہ ہموار کرنے میں کردار ادا کر سکتی ہے، خاص طور پر اگر وہ اسلامی اتحاد، تجارتی مفادات اور علاقائی استحکام کو ایک ساتھ لے کر چلے۔

اگر اسرائیل نے سعودی عرب پر حملہ کیا تو کیا پاکستان اس کے خلاف میدان میں اترے گا؟

اس سوال کا جواب پیچیدہ ہے۔ فلسطین کی حمایت پاکستان کی بنیادی پالیسی ہے،  لیکن سعودی دفاع کے لئے اسرائیل پر حملہ ایک ایسا قدم ہوگا جس کے عالمی اثرات اور داخلی نتائج بہت شدید ہو سکتے ہیں۔ سعودی ذرایع کا کہنا ہے کہ انھیں اسرائیل کی جانب سے باقاعدہ فوج کشی کا کوئی خدشہ نہیں لیکن قطر کی طرز کا فضائی حملہ ہوسکتا ہے۔ سعودیوں کے پاس جدید مغربی طیارے اور فضائی دفاعی نظام موجود ہیں اور ریاض انکے  موثر استعمال کیلئے پاکستان کی تیکنیکی استعداد و پیشہ ورانہ مہارت سے  استفادے کا خواہاں  ہے۔ تاہم اس حوالے سے چند قانونی و عملی مسائل واضح ہیں۔امریکی ساختہ ہتھیاروں کی خرید و فروخت عام طور پر End-User Agreements اور برآمدی شرائط کے تابع ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، پاکستان کو فراہم کیے گئے F-16 طیارے بھارت پر حملے کے لیے استعمال نہیں کیے جا سکتے۔ اسی لیے یہ سوال کہ سعودی عرب امریکی ساختہ طیاروں یا میزائل شکن نظاموں کو پاکستانی عملہ یا ہتھیاروں کے ساتھ کیسے استعمال کرے گا، پیچیدہ انتظامی اور قانونی پہلو رکھتا ہے۔ بعض صحافتی حلقوں کے مطابق، سعودی عرب کے دفاع کے لئے پاکستان چینی ساختہ J-10 طیارے اور جدید ترین میزائل سعودی اڈوں پر تعینات کر سکتا ہے۔ اس تناظر میں زیادہ امکان یہی ہے کہ پاکستان کا تعاون خفیہ معلومات کے تبادلے( انٹیلیجنس شیئرنگ)، دفاعی مشاورت، فضائی حملوں کے دفاع، طیارہ و میزائل شکن نظام کی تنصیب اور حملہ آور طیاروں کو پسپا کرنے تک محدود رہے گا۔ اسرائیل پر  جوابی حملہ اس دفاعی معاہدے کا حصہ نہیں ۔

اگر افغانستان سے پاکستان پر حملہ ہوا تو کیا ہوگا؟

بدقسمتی سے پاک افغان تعلقات مثالی نہیں اور اسلام آباد کو افغانستان کی جانب سے سرحدی دراندازی اور تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) کی پشت پناہی کی شکائت ہے۔حالیہ دنوں چمن، طورخم اور دیگر سرحدی علاقوں میں جھڑپیں بھی ہو چکی ہیں۔اگر خدانخواستہ کبھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان عسکری تصادم کی نوبت آگئی تو کیا سعودی عرب پاکستان کی حمایت میں افغانستان کے خلاف کارروائی کرے گا؟تزویراتی مفادات، مذہبی و تاریخی حساسیت اور عسکری پیچیدگیوں کی بناپر زیادہ امکان یہی ہے کہ سعودی عرب اپنی فوج میدان میں اتارنے کے بجائے مالی امداد، اسلحہ اور سفارتی دباو کے ذریعے پاکستان کی مدد کرے گا۔

عسکری اتحاد یا نظریاتی قیادت؟

پاک سعودی معاہدہ صرف دفاعی وعدہ نہیں بلکہ اسلامی دنیا کی اجتماعی سوچ، عسکری اعتماد اور سفارتی جرات کا مظہر ہے لیکن اس کے عملی اطلاق، اخلاقی حدود اور سفارتی ترجیحات ابھی واضح ہونا باقی ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 26 ستمبر 2025

روزنامہ امت کراچی 26 ستمبر 2025


Thursday, September 18, 2025

 

دو ریاستی حل یا سفارتی فریب؟

تضادات اور امکانات

جمعہ 12 اکتوبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی حل کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کرلی۔ اس سے صرف 24 گھنٹے پہلے اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ ارضِ اسرائیل میں کوئی فلسطینی ریاست قائم نہیں ہوگی۔

سعودی عرب اور فرانس کی اس مشترکہ قرارداد کو 'نیو یارک اعلامیہ' کا نام دیا گیاہے۔رائے شماری کے دوران 142 ممالک نےتحریک  کے حق میں ہاتھ بلند کئے۔امریکہ، اسرائیل، ارجنٹینا اور ہنگری سمیت 10 ممالک نے مخالفت میں ووٹ دیا، جبکہ 12 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ مسلم اکثریتی ممالک میں صرف البانیہ غیر جانبدار رہا، ورنہ پوری اسلامی دنیا نے قرارداد کی حمایت کی۔ اعلامیہ میں غزہ  جنگ کے خاتمے اور دو ریاستی حل کے مؤثر نفاذ کے لیے ٹھوس اور ناقابلِ واپسی اقدامات کی بات کی گئی ہے۔تاہم یہ قرارداد محض علامتی حیثیت رکھتی ہے، کیونکہ اقوام متحدہ میں قوتِ نافذہ کا اختیار صرف سلامتی کونسل کے پاس ہے، جہاں امریکہ کا ویٹو یقینی ہے۔ اس اعتبار سے یہ قرارداد ایک سیاسی اشارہ ضرور ہے، مگر عملی پیش رفت کی ضمانت نہیں۔

غیر حقیقی مطالبات

قرارداد میں فلسطینی مزاحمتی تنظیم سے کہا گیا ہےکہ وہ تمام یرغمالیوں کو رہا کرے اور غزہ سے اپنی حکمرانی ختم کرکے ہتھیار مقتدرہ فلسطین (PA) کے حوالے کردے۔یہ مطالبہ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا، کیونکہ رام اللہ میں بھی PA کا اثر محدود ہے جبکہ غزہ میں اس کی عملداری نہ ہونے کے برابر ہے۔ مزید برآں، 2006 کے انتخابات میں مزاحمتی قوت کو عوامی مینڈیٹ ملا تھا، جو نئے انتخابات تک اخلاقی طور پر قائم رہیگا۔

ٹو اسٹیٹ یا فورٹی ایٹ (Two State or Forty Eight)

اقوام متحدہ کی قرارداد اگرچہ دو ریاستی حل کو "عملی" اور "ناقابلِ واپسی" راستہ قرار دیتی ہے، لیکن فلسطینی عوام کی ایک بڑی تعداد اب اس تصور کو مسترد کر چکی ہے۔ ان کے لیے دو ریاستی حل 1967 کی سرحدوں تک محدود اور اسرائیلی قبضے کو ایک مستقل حقیقت کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں "فورٹی ایٹ" کا مطالبہ،یعنی 1948 سے پہلے کی فلسطینی ریاست کی بحالی اب عوامی سطح پر ایک مزاحمتی بیانیہ بن چکا ہے۔ یہ مطالبہ نوآبادیاتی نظام کو مسترد کرتے ہوئے انصاف کی بنیاد پر تمام فلسطینیوں کی واپسی اور واحد ریاست کے اصول پر زور دیتا ہے۔

اس تناظر میں اقوام متحدہ کی قرارداد، چاہے کتنی ہی "عملی" کیوں نہ ہو، فلسطینی عوام کی اجتماعی آواز سے ہم آہنگ نہیں۔ خاص طور پر جب اس میں غزہ کی مزاحمتی قیادت سے ہتھیار ڈالنے اور اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا ہےجبکہ ان کا اخلاقی مینڈیٹ آج بھی قائم ہے۔یہ تضاد اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عالمی برادری کی سفارتی کوششیں زمینی حقائق اور عوامی جذبات سے کٹی ہوئی ہیں۔ یایوں کہئے کہ اس قرارداد نے سفارت کاری کے کاغذ پر ایک نئی لکیر ضرور کھینچی ہے، مگر فلسطین کے خونی افق پر کوئی نئی حقیقت نہیں تخلیق کی۔اگر دو ریاستی حل کو آگے بڑھانا ہے تو اسے فلسطینی عوام کی امنگوں، تاریخی شعور اور سیاسی حقیقتوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہوگا، ورنہ یہ صرف ایک علامتی مشق ہی رہے گی۔

قطر پر حملہ، امریکہ کی مذمت اور اسرائیلی لابی کا دباؤ

جنرل اسمبلی میں منظور کردہ دوریاستی امن منصوبے  کے مستقبل کا اندزاہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قطر پر اسرائیل کے حملے کی مذمت کی قرارداد امریکہ نے اس شرط پر منظور ہونے دی کہ اس میں اسرائیل کا نام نہیں لیا جائیگا۔ یعنی جارحیت کی مذمت تو ہوئی، مگر جارح کا نام لیے بغیر۔

امریکہ بہادر کی جانب سے اسرائیل کے اس درجہ لاڈوپیار کے بعد جنرل اسمبلی سے منظور ہونے والے دوریاستی امن منصوبے کے بارے میں کسی کو خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چایئے۔ سلامتی کونسل میں منظور ہونے والی مذمتی قرارداد کے باوجود اسرائیل اسے جارحیت تسلیم کرنے پر تیار نہیں اور نیتن یاہو نے قطری حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فلسطینی تحریک مزاحمت سے وابستہ تمام افراد کو ملک بدر یا انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے ورنہ یہ کام اسرائیل خود کریگا۔ فوج کے سربراہ ایال ضامر بھی کہہ چکے ہیں کہ مزاحمتی تحریک کے رہنماوں کادنیا میں ہر جگہ تعاقب کیا جائیگا اور قطر پر دوبارہ حملے کے علاوہ ترکیہ میں مہم جوئی بھی خارج از امکان نہیں کہ تحریک مزاحمت سے وابستہ کچھ افراد مبینہ طور پر استنبول میں ہیں۔ اسرائیل اس سے پہلے تحریک کے سابق سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایران میں قتل کرچکا ہے۔ اسرائیلی دہشت گردی کے بے قابو ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ سات سے نو ستمبر تک 72 گھنٹوں کے دوران اسرائیل نے  فلسطین، لبنان، شام،قطر،یمن اور تیونس کو جارحیت کا نشانہ بنایا۔

قطر پر حملہ اور امریکی تضاد

قطر پر حملے کے بعد صدر ٹرمپ کے بیان سے امریکہ میں اسرائیلی ترغیب کاری (Lobbying)کی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ امریکی صدر نے قطر پر اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہوئےکہا کہ یہ کاروائی امریکہ کے مفاد میں ہےنہ اسرائیل کے، بلکہ اس نے قطر جیسے قریبی اتحادی کو ناراض کر دیا ہے ۔ مگر اسی سانس میں انھوں نے مزاحمت کاروں کا خاتمہ ایک قابلِ قدر ہدف" بھی قرار دے دیا۔آن لائن خبر رساں ایجنسی POLITCO کے مطابق اس واقعہ پر ٹرمپ انتظامیہ، عوامی سطح پر ظاہر کئے گئے غصے سے کہیں زیادہ برہم ہے۔ یہ دوغلا پن امریکی سیاست کا المیہ بھی ہےاور اسرائیلی لابی کے اثرورسوخ کی نشانی بھی۔ کیا واشنگٹن واقعی امن چاہتا ہے؟ یا اسرائیلی لابی کے دباؤ میں صرف بیانیہ سنوار رہا ہے؟

نوآبادیاتی منصوبے اور نئی بستیاں

گیارہ ستبمبر کو وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے مقبوضہ مغربی کنارے میں بستیوں کے توسیعی منصوبے کی باضابطہ توثیق کر دی جسکا اعلان گزشتہ ماہ وزیر خزانہ بیزلیل اسموترچ نے کیا تھا۔اس منصوبے کے تحت قائم ہونے والی قبضہ گرد بستی،  مشرقی یروشلم، بیت اللحم اور رام اللہ کے درمیان ایک بڑی خلیج پیدا کر دے گی۔ مغربی کنارے کے شمالی اور جنوبی حصوں کے ایک دوسرے سے کٹ جانے کے بعد فلسطینی ریاست کا قیام عملاً ناممکن ہو جائے گا۔ اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے پر قبضہ کیا تھا اور بین الاقوامی قانون کے مطابق یہاں قائم کی جانے والی تمام اسرائیلی بستیاں غیر قانونی ہیں۔ لیکن عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اسرائیل اپنی بستیوں کو اس طرح پھیلا رہا ہے کہ مستقبل میں فلسطینی ریاست کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔

غزہ نسل کشی اور امریکی سیاست میں انتہا پسندی کی نئی لہر

صدر ٹرمپ اور امریکی قدامت پسندوں کی جانب سے غزہ نسل کشی کی حمائت اور اسرائیل کی غیرمشروط پشت پناہی نے امریکہ میں ہیجانی ماحول پیدا کردیا ہے۔معروف قدامت پسند سیاسی رہنما اور Turning Point USA کے شریک بانی Charlie Kirk کو امریکی ریاست یوٹا (Utah)کی جامعہ یوٹا ویلی (UVU) میں تقریر کرتے ہوئے 10 ستمبر کو قتل کردئے گئے۔

اکتیس سالہ چارلی کرک کو امریکہ میں قدامت پسند نوجوانوں کی تحریک کا علامتی چہرہ سمجھا جاتا تھا۔ وہ Fox News اور دیگر دائیں بازو کے پلیٹ فارمز پر نمایاں تبصرہ نگار، صدر ٹرمپ کے پرجوش حامی اور اعلیٰ تعلیم و لبرل پالیسیوں کے شدید ناقد تھے۔ کرک خود کو اسرائیل نواز راسخ العقیدہ مسیحی قرار دیتے تھے۔ جب صدر ٹرمپ نے یروشلم میں امریکی سفارتخانہ منتقل کیا تو کرک نے اس اقدام کو تاریخی قرار دیا اور نئی عمارت کا دورہ کرنے یروشلم بھی گئے۔غزہ پر اسرائیلی درندگی کے خلاف امریکی جامعات میں ہونے والے مظاہروں پر کرک سخت برہم تھے۔ ان کے مطابق امریکہ میں یہود دشمن جذبات کی کوئی گنجائش نہیں۔

چارلی کرک پر یہ حملہ صرف ایک شخص کو نشانہ بنانے کا واقعہ نہیں بلکہ یہ امریکہ کے سیاسی منظرنامے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی، نفرت اور تشدد کی علامت بھی ہے۔ کرک ایک ایسا چہرہ تھے جو بیک وقت محبت اور نفرت، حمایت اور تنقید، امن اور اشتعال کا مرکز رہے۔

یورپی یونین کا محتاط بیانیہ اور فلوٹیلا پر تنقید

غزہ قتل عام پر یورپی عوام کی شدید ناراضگی کے  باوجود یورپی یونین کے سرکاری موقف پراحتیاط اور سیاسی مفادات کی چھاپ بہت واضح ہے۔ گزشتہ ہفتے یونین کی ترجمان محترمہ Eva Hrncirova نے غزہ کی طرف محو سفر قافلے (Flotilla) پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'یونین،  فلوٹیلا کی حوصلہ افزائی کرتی ہے نہ اسے مدد پہنچانے کا موثر ذریعہ سمجھتی ہے۔ہمارا خیال ہے کہ اس قسم کی کوششوں سے علاقے میں کشیدگی بڑھے گی۔' یہ غیر ضروری بیان 44 ممالک کے کارکنان، ارکانِ پارلیمان اور ماہرینِ قانون پر حملے کے لئے اسرائیل کو جواز فراہم کرسکتا ہے۔

صحافت پر قدغن، میڈیا سے خوف اور ICC گرفتاری کا اندیشہ

غزہ پر حملے کے بعد سے اسرائیل میں بدترین سنسر نافذ ہے۔ مغربی کنارے میں الجزیرہ ٹی وی کے دفاتر بند کر دیے گئے ہیں اور نہتے فلسطینیوں کے ساتھ صحافی بھی اسرائیلی فوج کے خاص نشانے پر ہیں۔ اب نیتن یاہو اسرائیلی صحافیوں سے بھی خوفزدہ  دکھائی دیتے ہیں۔ کیمرے اور قلم کا خوف اب اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ 11 ستمبر کو اُنکے  دفتر نے اعلان کیا کہ اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرنے جب وزیراعظم  نیویارک روانہ ہونگے تو "تیکنیکی وجوہات" کی بنا پر کسی صحافی کو وزیراعظم کے سرکاری جہاز پرِ صہیون (Wing of Zion) میں نشست نہیں دی جائے گی۔نیویارک کے سفر میں صحافیوں کو ساتھ نہ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ یورپ میں نیتن یاہو کے خلاف عالمی فوجداری عدالت (ICC) کے جاری کردہ پروانہِ گرفتاری پر عمل درآمد کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کو اندیشہ ہے کہ اگر کسی ہنگامی صورتحال کے باعث ان کے جہاز کو یورپ میں کہیں اترنا پڑ گیا تو گرفتاری کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔ اسی لئےپرواز کے لیے ایسے راستے کا انتخاب کیا جائیگا جس میں پرِ صہیون صرف ان ممالک کی فضائی حدود میں رہے جو ICC کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کرتے۔اگر جہاز پر صحافی موجود ہوئے تو وہ غیر ضروری طویل راستہ اختیار کرنے پر وزیراعظم سے سوال کرسکتے ہیں اور اگر جہاز کو یورپ میں کہیں اترنا پڑا تو ممکنہ گرفتاری کی خبر عالمی میڈیا کی سرخی بن سکتی ہے۔ اسی ایندیشہ ہائے دوردراز نے نیتن یاہو کو کیمروں اور قلم سے خوفزدہ کردیا ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 19 ستمبر 2025

ہفت وزہ دعوت دہلی 19 دستمبر 2025

روزنامہ امت کراچی 19 ستمبر 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 21 ستمبر 2025