Thursday, November 25, 2021

کرونا! اِدھر ڈوبے، اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے، اِدھر نکلے

کرونا! اِدھر ڈوبے، اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے، اِدھر نکلے

گزشتہ سال کے اختتام پر کرونا کے مدافعتی ٹیکوں کی تیاری کے بعد ایسا لگ رہا تھاکہ گویا یہ عذاب جلد ہی قصّہِ پارینہ بن جائیگا۔ان ٹیکوں کی دنیا بھر میں تقسیم پر اربوں ڈالرخرچ کئے گئے۔ امریکہ نے ایک ارب ٹیکے دنیا کے غریب ملکوں کو مفت فراہم کئے۔چند ماہ پہلے بچوں کی جدرین کاری (Vaccination) مہم شروع ہوئی۔امریکی دواساز اداروں مرک (Merck)اور فائزر کے علاوہ چین نے کرونا کے علاج کیلئے دواتیار کرنے کادعویٰ بھی کیا ہے لیکن یہ نامراد وائرس اہلِ ایمان کی طرح اِدھر ڈوبے، اُدھر نکلے، اِدھر ڈوبے، اُدھر نکلے کی عملی تفسیر بناہوا ہے۔ہر کچھ عرصے بعدیہ نت نئی قسموں یاVariantکی شکل میٓں نمودار ہورہا ہے۔کسی ایک جگہ اس کازور ٹوٹتا ہے تو یہ موذی کہیں اور سراٹھالیتا ہے۔
ابھی چند ہی دن پہلے امریکہ نے چین اور بھارت سمیت بہت سارے ممالک کے شہریوں پر سے سفری پابندیاں ہٹانے کا اعلان کیا ہے۔قصر مرمریں (وہائٹ ہاوس) کے اعلان میں کہا گیا ہے کہ کرونا کے نتیجے میں جو سفری پابندیاں لگائی گئی تھیں، انھیں مرحلہ وار ہٹایا جارہا ہے۔ اس حکم کے تحت ایسے غیر ملکی جو جدرین کاری کی مصدقہ دستاویز فراہم کردیں انھیں امریکہ میں خوش امدید کہا جائیگا۔ تاہم جہاز راں ادارے امریکہ آنے والی پروازوں پر صرف انھیں مسافروں کو بیٹھنے کی اجازت دینگے جو مصدقہ دستاویز سے یہ ثابت کردیں کہ انھیں آخری حفاظتی ٹیکہ آغازِ سفر سے کم از کم دو ہفتے قبل لگ چکا ہے۔ اسکے علاوہ تمام مسافروں کوکرونا کے منفی ٹیسٹ کا ثبوت بھی فراہم کرنا ہوگا۔ حکم میں 18 سال سے کم عمر بچوں اور کچھ طبی مسائل کے حامل افراد کو لازمی جدرین کاری سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔تاہم ایسے ممالک جہاں جدرین کاری کی قومی شرح دس فیصد سے کم ہے ان دیسوں کے شہریوں پر سفری پابندیاں برقرار رہینگی، جن میں نائیجیریا، مصر، الجزائر، برما، عراق، لیبیا،  یمن وغیرہ  شامل ہیں۔
امریکہ کی جانب سے سفری پابندیوں پر نرمی کی خبر ابھی نشر ہی ہوئی تھی کہ مغربی یورپ میں خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئیں اور گزشتہ ہفتے  آسٹریا (Austria)نے ملک گیر لاک ڈاون کا اعلان کریا۔ کچھ ایسی ہی خبریں جرمنی اور فرانس سے بھی آرہی ہیں۔ سوئیڈن اور ناروے کے حالات پہلے ہی مشکوک ہیں۔ آسٹریا کے چانسلر الیگزینڈر شلنبرگ نے اعلان کیا کہ 'ہم کرونا کی پانچویں، چھٹی اور ساتویں  لہر نہیں چاہتے۔آسٹرین رہنما کا کہنا تھا کہ انکا ملک موسم سرما میں  لاک ڈاون اور لازمی جدرین کاری کی 'اذیت' برداشت کرکے اپنے موسم گرما کو حسین و خوشگوار بنانا چاہتا ہے۔
اب تک یہ خوفناک وائرس دنیا بھر میں 52 لاکھ کے قریب انسانی جانوں کو نگل چکا ہے، جن میں امریکہ پہلے نمبرپر ہے جہاں آٹھ لاکھ کے قریب افراد اپنی جان سے گئے۔ چھ لاکھ 12 ہزار اموات کے ساتھ برازیل بدنصیب ممالک کی اس فہرست میں دوسرے نمبر ہے جبکہ ہندوستان میں چار لاکھ 65 ہزار قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور اس موذی نے دولاکھ 64 ہزار روسیوں کو موت کی نیند سلایا۔اگر  مسلم اکثریتی ممالک کا جائزہ لیا جائے تو ایران میں ایک لاکھ 29 ہزار ،انڈونیشیا میں 143739اور ترکی میں 75 ہزار افراد اس موذی سے لڑتے ہوئے زندگی کی بازی ہارگئے۔
انسانی معاشرے کو اس قیامت خیر ہلاکت سے جو معاشرتی و سماجی نقصان پہنچا ہے اسکا اب تک اندازہ نہیں لگایاجاسکا، تاہم   امریکہ میں معالجینِ اطفال کے جریدے Pediatric Journal of Medicineکے ایک جائزے کے مطابق اس موذی وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں نے امریکی یتیموں کی تعدادمیں 15 فیصد کا اضافہ کردیا ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے اس مطالعے میں اس بچے کو بھی یتیم شمار کیا گیا ہے جنکے سرپرست یعنی دادا، نانا، چچا، بڑے بھائی وغیرہ اس مرض سے ہلاک ہوئے۔امریکہ میں ہزاروں گھرانے ایسے ہیں جہاں ماں اور باپ کی شفقت سے محروم بچے دوسرے سرپرستوں کے زیرسایہ پرورش پارہے ہیں۔ سہارے سے محروم ہونے والے ان بچوں میں سے نصف کے قریب سیاہ فام اور ہسپانوی ہیں۔امریکی آبادی میں سیاہ فاموں  اور ہسپانیویوں کاتناسب بالترتیب 14.2 اور 19.5فیصد ہے یعنی آبادی کے لحاظ سے تو رنگدار امریکی ایک تہائی ہیں لیکن کرونا سے متاثرین میں انکا تناسب 50 فیصد سے زیادہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے نسلی مساوات اور سماجی انصاف کے بلند وبانگ دعووں کے باوجود امریکی اقلیتیں ضروری طبی سہولتوں سے محروم ہیں۔ 
یہ تجزیہ سطحی نہیں بلکہ اسکی تصدیق ٹرمپ انتظامیہ کے سرجن جنرل جیروم آدم، امریکی صدر کے سامنے کرچکے ہیں۔ گزشتہ سال کرونا وائرس کی ایک بریفنگ میں جناب آدم نے کہا کہ 'کرونا سے بچاو کیلئے، ماہرین بار بار ہاتھ دھونے کی ہدائت کررہے ہیں، جو یقیناً ایک صائب مشورہ ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کی سیاہ فام آبادیوں کے تیس فیصد گھروں میں running waterکی سہولت ہی موجود نہیں۔سرجن جنرل صاحب نے یہ بات قومی ٹیلی ویژن پر کہی جب اسٹیج پر سابق صدر ٹرمپ، انکے نائب مائک پینس اور کرونا ٹاسک فورس کے روح رواں ڈاکٹر فاوچی بھی موجود تھے اور کسی نے سرجن جنرل کے انکشاف سے اختلاف نہیں کیا۔
امریکہ کے اس ذکر کے بعد ہم یورپ کی طرف واپس آتے ہیں۔نفسیات کے علما، طبی ماہرین اور سماجی رہنماں کا خیال ہے کہ کرونا پر مکمل قابو نہ پانے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک لوگوں کا حفاظتی اقدامات پر عدم اعتماد ہے۔ یورپ اور امریکہ سمیت دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کا خیال ہے کہ کرونا کے حفاظتی ٹیکے اور احتیاط کے باب میں ماہرین کی سفارشات جامع تحقیق اور ریسرچ کے بجائے مبہم  مفروضات بلکہ اندھیرے میں چلائےہوئے تیر سے زیادہ کچھ نہیں۔ بار بار کے لاک ڈاون اور پابندیوں کے غیر محدود دورانیے سے لوگ  بیزار ہوگئے ہیں۔
ان پابندیوں کی بنا پر دنیا بھر کی معیشتیں شدید دباو میں ہیں۔ کئی چھوٹے کاروباری کنگال ہوگئے۔ ہزاروں چائے خانوں، ریستورانوں، آرائش گیسو اور مراکز افزائشِ حسن ، میکدوں اور رقص گاہوں پر تالے پڑ گئے۔ احتیاطی تدابیر نے دنیا کی مصروف ترین بندرگاہوں کو ویران کردیا جسکی وجہ سے فراہی کی عالمی زنجیر یا Supply Chain درہم برہم ہوچکی ہے اور عین موسمِ میلادِ مسیح (ع) یا کرسمس میں دوکانوں کے شیلف خالی پڑے ہیں۔ مغربی دنیا میں  نومبر کے وسط سے خریداری عروج پر ہوتی ہے لیکن اس بار لوگوں کو اپنے پیاروں کیلئے تحائف خریدنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ قلت کی وجہ سے مطلوبہ اشیا دستیاب نہیں اور اگر مل جائے تو قیمت آسمان پر۔ 
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کرونا سے بچاو کے ہونکے میں بے سمجھے بوجھے جو پابندیاں عائد کی گئیں ہیں،حالیہ مصیبت اسی کا نتیجہ ہے۔ ان پابندیوں اور قواعد و ضوابط کے خلاف ہالینڈ، آسٹریا، اٹلی، شمالی آئرلینڈ، کروشیا، فرانس، سوئٹزرلینڈ اور یورپ کے دوسرے شہروں میں زبردست احتجاج ہورہاہے۔ کئی جگہ مظاہرین سخت مشتعل ہیں۔ ہالینڈ کے شہروں ہیگ اور روٹرڈیم میں مظاہرہ کرنے والے نوجوانوں نے پولیس پر شدید پتھراو کیا، دکانوں اور دفتروں پر آتشگیر مادہ پھینکا گیا۔پولیس اور مظاہرین کی جھڑپوں میں دونوں طرف کے درجنوں افراد زخمی ہیں اور سینکڑوں مظاہرین جیل کی ہوا کھارہے ہیں۔ ہالینڈ کے کئی شہروں میں کھیل کے دوران 'تن دوری' کی پابندیوں کونظر انداز کرکے سینکڑوں تماشائی میدان میں گھس گئے جہاں پولیس سے تصادم ہوا۔ اس موقع پر پولیس نے کم عمر بچوں سمیت 51 مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔
آسٹریا میں  پیر (22 نومبر) سے نافذ ہونے والے لاک ڈاؤن کے خلاف سارے ملک میں زبردست مظاہرے ہورہے ہیں۔ بعض یورپی حکومتیں اپنے اقدامات کو اخلاقی و آئینی جواز دینے کیلئے ریفرنڈم کروارہی ہیں۔ ایسے ہی ایک ریفرنڈم کے خلاف سوئٹزر لینڈ میں طلبہ سڑکوں پر نکل آئے، انکا کہنا تھا کہ شہری آزادیوں کو سلب کرنے والے قانون کیلئے ریفرنڈم روحِ جمہوریت کے خلاف ہے۔ 
اٹلی میں حکومت نے کسرت کدوں (Gyms)، کھیل کے میدانوں، سنیما، ریستوران، دفاتر، پبلک ٹرانسپورٹ اور عوامی مقامات پر جانے والوں کیلئے منفی کرونا ٹسٹ اور ویکسین دستاویز پر مشتمل 'گرین پاس' رکھنا لازم کردیا ہے۔ اس ضابطے کے خلاف روم میں زبردست مظاہرہ ہوا اور لوگوں نے اطالوی وزیراعظم کے پتلے  پر جوتے برسائے۔ مظاہرین نے احتجاجاً اپنے ماسک بھی جلاڈالے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تن دوری کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے فلک شگاف نعرے لگاتے رہے کہ 'ہماری طرح کے لوگ کبھی ہار نہیں مانتے'
'شمالی آئرلینڈ میں ویکسین پاسپورٹس کے خلاف شدید احتجاج ہورہا ہے۔ مشتعل فرانسیسیوں نے اطالوی نوعیت کے کرونا وائرس ہیلتھ پاس اور لازمی جدرین کاری کو شہری آزادیوں پر حملہ قراردیا۔اس قانون کے خلاف سارس ملک  احتجاج کی لپیٹ میں ہے۔ اور تو اور مرنجامرنج جاپانیوں نے  بھی کرونا کی حفاظتی پابندیوں کے خلاف احتجاج شروع کردیا ہے۔ عوامی بیچینی ہی کا نتیجہ تھا کہ چھ ہفتہ پہلے وزیراعظم  یوشی ہیدے سوگا کو استعفیٰ دینا پڑا۔
آسٹریا میں کرونا کی جدرین کاری لازمی قراردئے جانے کے باوجود اب تک صرف 66 فیصد عوام نے دونوں ٹیکے لگوائے ہیں۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ تفصیلی تحقیق اور آزمائش کے بغیر محض دواساز کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے عوام کو سوئی بھونکی جارہی ہے۔ دوسری طرف حکومت پرعزم ہے کہ ٹیکہ نہ لگوانے والے 12 سال اور اس سے زیادہ عمر کے  افراد کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگادی جائیگی۔ بارہ سال سے چھوٹے بچوں کیلئے پولیو کے انداز میں کرونا سے حفاظت کے قطرے پلانے کی ایک آزمایشی مہم کا آغاز کیا جارہاہے۔
دوسری جانب ویکسین کے خلاف سوشل میڈیا پر شکوک و شبہات کا سیلاب امڈ آیا ہے۔ مختلف جائزوں کا حوالہ دیکر 'ثابت' کیا جارہا ہے کہ کرونا ویکسین نہ صرف غیر موثر بلکہ انتہائی خطرناک ہے۔ دلچسپ بات کہ کرونا کیساتھ کئی دہائیوں سےاستعمال ہونے والے حفاظتی ٹیکوں کے بارے میں بھی  منفی تاثر پھیلایا جارہا ہے۔ جیسے زکام (فلو)کی ویکسین سے بانجھ پن کا خدشہ ہے یا خسرہ سے بچاو کے ٹیکے یادداشت میں کمی کا سبب بن سکتے ہیں۔
اسی کیساتھ امریکہ میں جعلی ویکسین کارڈ کی فروخت ایک نفع بخش دھندہ بن گیا ہے۔ بہت سی جامعات نے کلاس میں شرکت کیلئے جدرین کاری کے صداقت نامے یاVaccination Certificateکو لازم قراردے دیا ہے چنانچہ ٹیکو ں کے مخالف طلبہ، اساتذہ اور غیر تدریسی عملے میں  ان صداقت ناموں کی بڑی مانگ ہے۔ یہ سلسلہ شروع تو ہوا تھاان قدامت پسند مسیحی، یہودی اور کچھ قدیم امریکی باشندوں کیلئے جنکے یہاں جسم میں سوئی چبھونا گناہ ہے لیکن اب انٹرنیٹ پرجعلی ویکسین کارڈ کی فراہمی ایک صنعت بن چکی ہے۔ یہ کارڈ 25 سے 200 ڈالر میں فروخت ہورہے ہیں۔ یہاں استعمال ہونے والے دوسری مصنوعات کی طرح اب میڈ ان چائنا ویکسین کارڈ کی درآمد بھی شروع ہوگئی ہے۔امریکہ میں ویکسینیشن کارڈ جاری کرنے کا اختیار صرف امراض کی روک تھام اور احتیاط کے مرکز (CDC) کو ہے اور ان جعلی دستاویزات پر CDCکی مہر اتنی صفائی سے لگائی جارہی ہے کہ کسی کو ذرہ برابر شک نہیں ہوتا 
جعلی ویکسین کاروبار اب اسقدر عروج پر ہے کہ امریکہ کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (FBI) اور امریکی وزارت صحت (HHS) نےایک مشترکہ بیان میں عوام کو متنبہ کیاہے کہ  CDCیا کسی بھی وفاقی ادارے کی جعلی مہر  یا اسکا لوگو (Logo) بنانا اور چھاپنا سنگین جرم ہے جس پر پانچ برس تک کی قید ہوسکتی ہے۔ جعلسازی کا یہ کاروبار یورپ میں بھی زوروں پر ہے اور وہاں ہیلتھ پاسپورٹ 400 یورو کے فروخت ہورہے ہیں۔
کرونا سے متعلق پابندیوں پر سیاست کا رنگ بھی خاصہ گہرا ہے۔ امریکہ کی وہ تمام ریاستیں جہاں سابق صدر ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی برسرِ اقتدار ہے وہاں ماسک، تن دوری اور جدرین کاری کو لازمی نہیں قراردیا گیا۔کم ازکم  13 ریاستوں کی سرکاری جامعات کو کلاس میں شرکت کیلئے منفی کرونا ٹیسٹ اور حفاظتی ٹیکوں کی شرط عائد کرنےکی اجازت نہیں۔ ریپبلکن قیادت کا خیال ہے کہ اس قسم کی  پابندیاں انفرادی حقوق اور شہری آزادی محدود کردینے کے مترادف ہیں۔
پئے در پئے لاک ڈون نے یورپی عوام میں مایوسی اور جھنجھلاہٹ پیدا کردی ہے۔ تفریح اور ہلےّ گُلےّ کے عادی نوجوان دوسال سے گھروں میں بند ہیں۔ پابندی اٹھنے کے کچھ ہی عرصے بعد نئی قدغنیں عائد کردی جاتی ہیں جو اب ناقابل برداشت ہوتی جارہی ہیں۔ ماسک، تن دوری اور جدرین کاری کے خلاف ابھرتی ہوئی ناگواری اسی نئے رجحان کو ظاہرکرتی ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 26 نومبر 2021
ہفت روزہ دعوت دہلی 26 نومبر 2021
روزنامہ امت کراچی 26 نومبر 2021
ہفت روزہ رہبر سرینگر 28 نومبر 2021
روزنامہ قومی صحافت لکھنو

 

Tuesday, November 23, 2021

ہوشیار، خبردار!! مہنگائی کا نیا طوفان دستک دینے کو ہے

ہوشیار، خبردار!! مہنگائی کا نیا طوفان دستک دینے کو ہے

خبر گرم ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (ائی ایم ایف) نے پاکستان کیلئے قرضے کی آخری قسط منظور کرلی اور اگر عالمی مہاجنوں سے طئے شدہ شرائط پر 'مخلصانہ ' عملدرآمد شروع ہوگیا تو جنوری میں ایک ارب ڈالر سے کچھ زیادہ رقم پاکستان کے حوالے کردی جائیگی۔

انتخابی مہم کے دوران عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ ملکی معیشت کو قرض پر نہیں چلائینگے اور آئی ایم ایف کے پاس تو کسی صورت نہیں جائینگے ۔اگست 2018 میں اقتدار سنبھالتے ہوئے خانصاحب نے ایک بارپھر قرض نہ لینے کا عہد کیا اور انکے وزیر خزانہ اسدعمر بھی پرعزم تھے کہ وہ ملکی وسائل سے مشکلات پر قابو پالینگے۔ اسد عمر چاہتے تھے کہ حکومتی اخراجات میں کمی، کفائت شعاری اور ٹیکسوں کے وصولی کے نظام کو بہتر کرکے آمدنی و اخراجات کی خلیج کو پُر کرلیا جائے۔ ابتدائی چندماہ کے دوران انکی کارکردگی بھی اچھی تھی۔

خانصاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ کرکٹ ٹیم کی کپتانی کے علاوہ انھیں قیادت کو کوئی تجربہ ہی نہیں۔ پوری زندگی نہ انھوں نے کوئی نوکری کی نہ کاروبار ۔ پارٹی کی سربراہی بھی بانی کی حیثیت سے انھیں مل گئی۔ کپتان صاحب نے جوانی کا بڑا حصہ ملک سے باہر گزارا ہے اور انگلستان و امریکہ میں وقت گزارنے والے اکثر پاکستانیوں کو ملک میں رہنے والے لوگ ذرا کم عقل محسوس ہوتے ہیں اور یہ حضرات لندن و امریکہ پلٹ افراد سے بہت متاثر ہیں۔ چنانچہ لندن کے بیرسٹر شہزاداکبر، زلفی بخاری، امریکہ سے ڈاکٹر شہبازگِل اور ڈاکٹر معید یوسف بلائے گئے۔ دعوت تو پروفیسر عاطف کو بھی دی گئی تھی لیکن 'مقتدریٰ' کی جانب سے شدید مخالفت کی بناپر فیصلہ تبدیل ہوگیا۔

عمران خان کو انکے مشیروں نے یہ بات سُجھادی کہ آئی ایم ایف سے قرض لئے بغیر معیشت کا چلنا مشکل ہے اور آئی ایم ایف سے مول تول 'دیسی' اسد عمر کے بس کی بات نہیں ۔ چنانچہ صرف آٹھ ماہ بعد انکی جگہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ تعینات کردئے گئے حالانکہ زرداری دورمیں شیخ صاحب کی ناکامی ثابت ہوچکی ہے۔ شیخ صاحب نے کپتان کو قائل کرلیا کہ آئی ایم ایف سے قرض لینا ہے تو خزانے کی کنجی انکے کسی وفادار بلکہ تنخواہ دار کو دینی ہوگی اور ایک ماہ بعد رضا باقر نے اسٹیٹ بینک کی سربراہی سنبھال لی۔ یا یوں کہئے کہ پاکستان کی گردن پر پیر تسمہ پا سوارہوگئے۔ ان 'ماہرین' کی کوششوں سے آئی ایم ایف نے قرض منظور کرلیا لیکن 6 ارب ڈالر کے وعدہ فردا کے عوض ملکی معیشت ، قومی استقلال اور عوام امنگ سب گروی ہوگئے۔

ڈاکٹر حفیظ شیخ کے بعد شوکت ترین نے خزانے کی کنجی سنبھالی جو ایک ناکام بینکر ہیں۔عجیب بات کہ جو شخص ایک بینک نہ چلا سکا اسے ملکی معیشت چلانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔

اب صورتحال یہ ہےکہ حفیظ شیخ کے بعد شوکت ترین ٹیکسوں پر ٹیکس عائد کرکے عوام کی کمر پر درے برسارہے ہیں تو پاکستانی روپئے کو بے قدر کرنے کی ذمہ داری رضا باقر صاحب آپنے آجروں کی رضا کےمطابق بہت اخلاص سے نبھا رہے ہیں۔ شرح سود میں اضافہ کرکے انھوں نے پاکستانی سرمایہ کاروں پربینکوں اور مالیاتی اداروں کے دروازے بند کردئے جبکہ یورپ و امریکہ کے سرمایہ کار اپنے ملکوں سے بہت ہی کم شرح سود پر رقم حاصل کر کے پاکستانی بینکوں سے بھاری منافع کمارہے ہیں۔ اس حکمت عملی سے جہاں باقر صاحب کے دوست اور سرپرست مستفید ہورہے ہیں وہیں ڈالر کی 'آمد' سے زرمبادلہ کے ذخائر بھی وقتی طور پر بڑھتے نظر آرہے ہیں جس سے خانصاحب بہت خوش ہیں۔ لیکن علمائے معیشت اسے ملک کی ساکھ کیلئے انتہائی خطرناک قراردے رہے ہیں۔ ان ماہرین کے خدشات بے وزن نہیں کہ برآمدات و زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے باوجود روپئے کا زوال جاری ہے۔

اب نئی قسط کیلئے آئی ایم ایف سے جو وعدہ کیا گیا ہے اسکے تحت حکومتی اخراجات میں 300 ارب روپئے کی کٹوتی کی جائیگی۔ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے جناب شوکت ترین نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ ترقیاتی کاموں کیلئے مختص رقم سے 200 ارب کاٹ لئے جائینگے ۔ باقی رہے 100 ارب ، تو کٹوتی کے بجائے یہ اضافی رقم عوام سے وصول کی جائیگی۔

وصولیابی کیلئے دونشتر تیار ہیں

  • پیٹرولیم مصنوعات پر لگان (Levy)نو روپئے 62 پیسے فی لٹر سے بڑھاکر 30 روپئے کردیا جائیگا۔تاہم عوام پر رحم کھاتے ہوئے یہ کوڑا ایک دم نہیں برسے گا بلکہ درمیان میں سانس لینے کا وقفہ ہوگا اور ہر ماہ 4 روپئے بڑھائے جائینگے۔ خیال ہے کہ اس سے سرکار کو 40 ارب کی اضافی آمدنی ہوگی
  • اسی کیساتھ ایندھن کے اضافی اخراجات یعنی فیول ایڈجسمنٹ کے نام پر بجلی کے نرخ پونے پانچ روپئے فی یونٹ بڑھانے کی تجویز ہے۔اس تبدیلی سے قومی خزانے کو 60 ارب روپئے اضافی حاصل ہونگے

باقی رہی مہنگائی ، تو خانصاحب کے ساتھ، انکے رفقا اسے ایک عالمی عفریت قراردے کر عوام کو مطمئن کرچکے ہیں۔اگر عشاقانِ کپتان کی طبع نازک پرگراں نہ گزرے تو عرض کروں کہ ہیوسٹن (امریکہ) میں گزشتہ دس دنوں کے دوران پیٹرول کی قیمت 2.98 ڈالر سے کم ہوکر 2.78 ڈالر فی گیلن ہوچکی ہے۔


 

تیل کے پھولتے غبارے کو سوئی چبھونے کا منصوبہ

تیل کے پھولتے غبارے کو  سوئی چبھونے کا منصوبہ   

تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت پر قابو پانے کیلئے امریکہ، ہندوستان اور برطانیہ نے  اپنے تزویراتی ذخائر (Strategic Reserves)سے کروڑوں بیرل تیل بازار میں لانے کا اعلان کیاہے۔

خبروں  کے مطابق، امریکہ 5 کروڑ، برطانیہ  ڈیڑھ کروڑ اور ہندوستان 50 لاکھ بیرل تیل جاری کررہےہیں۔

ان  ذخائر کے پس منظر پر چند سطور:

احباب کا یاد ہوگا کہ 1973کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے امریکہ اور مغربی ممالک کو تیل کی فراہمی پر پابندی لگادی تھی۔ جسکی وجہ سے سارا مغرب بلبلا اٹھا۔ تاہم اس آفت سے سبق سیکھتے ہوئے امریکہ اور کئی دوسرے ملکوں نے  عارضی اور طویل المدتی منصوبے بنائے ۔ ایک طرف ملک کے اندر تیل و گیس کے وسائل کی تلاش و ترقی  کیلئے  ٹھوس اقدامات کئے گیے جن میں سلیٹی چٹانوں کو کھنگھالنے کا انقلابی قدم شامل ہے تو دوسری طرف مقامی وسائل کی ترقی کیساتھ  مستقبل بنیادوں پر خام تیل کے  عظیم الشان  تزویراتی ذخائر  تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا جسے Strategic Petroleum Reserveیا SPRکانام دیا گیا۔ اس مقصد کیلئےزیرزمین   depleted Reservoir کو استعمال کیا جارہا ہے۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھئے کہ   جن  ذخائر سے    تیل  اور گیس کی قابلِ پیداوار مقدار حاصل کرلی گئی انکی مسامدار چٹانوں کو خام تیل  سے بھردیا گیا۔  

اس منصوبے کے تحت امریکہ میں   اسوقت چار بڑے ذخائر تیل سے لبالب بھرے ہوئے ہیں

  • خلیج میکسیکو میں فری پورٹ کے مقام پر  زیرآب  (Offshore)غاروں میں 25 کروڑ 40 لاکھ بیرل تیل  بھردیا گیاہے جہاں سے پندرہ لاکھ بیرل تیرل روزانہ نکالا جاسکتا ہے
  • ہیوسٹن کے قریب ونی Winnieکے علاقے میں  Big Hillنامی ذخیرے میں  16 کروڑ بیرل تیل  جمع ہے جہاں سے گیارہ لاکھ بیرل تیل روزانہ   نکالا جاسکتا ہے
  • لوزیانہ میں  لیک چارلس کے ساحلی مقام پر کنویں کھود کر غاروں اور depleted reservoirsمیں 22 کروڑ 27 لاکھ  تیل ذخیرہ کیاگیا ہے۔ ان ذخائر سے روزانہ تیرہ لاکھ بیرل تیل نکالا جاسکتا ہے
  • لوزیانہ کے ریاستی دارالحکومت بیٹن روج Baton Rougeمیں 7 کروڑ 60 لاکھ بیرل تیل جمع ہے جہاں سے تیل نکالنے کی گنجائش ساڑھے پانچ لاکھ بیرل تیل یومیہ ہے

اس  وقت  ان چارذخائر میں مجموعی طور72 کروڑ بیرل تیل موجود ہے۔

ہندوستان نے تزویراتی  ذخائر کی  تعمیر کیلئےReserves Company Indian Strategic Petroleum یا ISPRLکے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے۔ آئی ایس پی آر ایل  نے اب تک چار ذخائر تعمیر کئے ہیں، جن میں چھ کروڑ94 لاکھ بیرل تیل ذخیرہ ہے۔ ان ذخائر کی تفصیل کچھ اسطرح ہے

  • آندھراپردیش میں ویساکھ پتنم کے مقام پر قائم ہونے والے ذخیرے کی گنجائش 98 لاکھ بیرل ہے
  • کرناٹکا ریاست  کے مقام منگلور میں ایک کروڑ گیارہ لاکھ بیرل تیل ذخیرہ ہے
  • کرناٹکا ہی میں پادور کے مقام پر ایک کروڑ 85 لاکھ بیرل تیل جمع ہے
  • سب سے بڑا ذخیرہ ریاست اڑیسہ میں چندیکھول کے مقام پر ہے جسکی گنجائش  3 کروڑ  بیرل  کے قریب ہے۔

چین، جنوبی کوریا اور جاپان بھی کچھ محفوظ تیل بازار میں لانا چاہتے لیکن اب تک انھوں نے اسکے حجم کا اعلان نہیں کیا

ان ذخائر کے منہہ کھولدینے سے  کیا  قیمتیں گر جائینگی؟ ہمارا خیال ہے کہ  بازار کی نفسیات  کے تحت وقتی طور پرتو قیمتیں دباو میں ضرور آجائینگی لیکن  اس سے  دام میں مسلسل گراوٹ کا امکان نہیں۔ ان تمام ممالک میں صرف امریکی ذخیرے کا حجم غیر معمولی ہے ورنہ  چچا سام کے  'حسکے' میں برطانیہ اور  ہندوستان کی یہ کوششیں ،خود انھیں کو مشکل میں ڈال سکتی ہیں۔

مثال کے طور پر ہندوستان کے تزویراتی ذخیرے کی گنجائش  سات کروڑ اور روزانہ کھپت 45 لاکھ بیرل ہے،گویا  اس مقدار سےصرف 16 دن کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔ ایسا ہی حال چین، جنوبی کوریا  اور جاپان کا ہے۔

 تیل کو اصل خطرہ کرونا سے ہے اور اس نامراد   کی یورپ میں جارحانہ پیشقدمی تیل کی قیمتوں پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ آسٹریا  میں ملک گیر جبکہ جرمنی اور فرانس میں جزوی لاک ڈاون کا آغاز ہوچکا ہے جسکی وجہ سے معاشی سرگرمیاں یقیناً متاثر ہونگی اور اقتصادیات میں آنے والےتعطل سے تیل کی طلب اورقیمتوں میں کمی خارج از امکان نہیں۔