ہوشیار، خبردار!! مہنگائی کا نیا طوفان دستک دینے کو ہے
خبر گرم ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (ائی ایم ایف) نے پاکستان کیلئے قرضے کی آخری قسط منظور کرلی اور اگر عالمی مہاجنوں سے طئے شدہ شرائط پر 'مخلصانہ ' عملدرآمد شروع ہوگیا تو جنوری میں ایک ارب ڈالر سے کچھ زیادہ رقم پاکستان کے حوالے کردی جائیگی۔
انتخابی مہم کے دوران عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ ملکی معیشت کو قرض پر نہیں چلائینگے اور آئی ایم ایف کے پاس تو کسی صورت نہیں جائینگے ۔اگست 2018 میں اقتدار سنبھالتے ہوئے خانصاحب نے ایک بارپھر قرض نہ لینے کا عہد کیا اور انکے وزیر خزانہ اسدعمر بھی پرعزم تھے کہ وہ ملکی وسائل سے مشکلات پر قابو پالینگے۔ اسد عمر چاہتے تھے کہ حکومتی اخراجات میں کمی، کفائت شعاری اور ٹیکسوں کے وصولی کے نظام کو بہتر کرکے آمدنی و اخراجات کی خلیج کو پُر کرلیا جائے۔ ابتدائی چندماہ کے دوران انکی کارکردگی بھی اچھی تھی۔
خانصاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ کرکٹ ٹیم کی کپتانی کے علاوہ انھیں قیادت کو کوئی تجربہ ہی نہیں۔ پوری زندگی نہ انھوں نے کوئی نوکری کی نہ کاروبار ۔ پارٹی کی سربراہی بھی بانی کی حیثیت سے انھیں مل گئی۔ کپتان صاحب نے جوانی کا بڑا حصہ ملک سے باہر گزارا ہے اور انگلستان و امریکہ میں وقت گزارنے والے اکثر پاکستانیوں کو ملک میں رہنے والے لوگ ذرا کم عقل محسوس ہوتے ہیں اور یہ حضرات لندن و امریکہ پلٹ افراد سے بہت متاثر ہیں۔ چنانچہ لندن کے بیرسٹر شہزاداکبر، زلفی بخاری، امریکہ سے ڈاکٹر شہبازگِل اور ڈاکٹر معید یوسف بلائے گئے۔ دعوت تو پروفیسر عاطف کو بھی دی گئی تھی لیکن 'مقتدریٰ' کی جانب سے شدید مخالفت کی بناپر فیصلہ تبدیل ہوگیا۔
عمران خان کو انکے مشیروں نے یہ بات سُجھادی کہ آئی ایم ایف سے قرض لئے بغیر معیشت کا چلنا مشکل ہے اور آئی ایم ایف سے مول تول 'دیسی' اسد عمر کے بس کی بات نہیں ۔ چنانچہ صرف آٹھ ماہ بعد انکی جگہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ تعینات کردئے گئے حالانکہ زرداری دورمیں شیخ صاحب کی ناکامی ثابت ہوچکی ہے۔ شیخ صاحب نے کپتان کو قائل کرلیا کہ آئی ایم ایف سے قرض لینا ہے تو خزانے کی کنجی انکے کسی وفادار بلکہ تنخواہ دار کو دینی ہوگی اور ایک ماہ بعد رضا باقر نے اسٹیٹ بینک کی سربراہی سنبھال لی۔ یا یوں کہئے کہ پاکستان کی گردن پر پیر تسمہ پا سوارہوگئے۔ ان 'ماہرین' کی کوششوں سے آئی ایم ایف نے قرض منظور کرلیا لیکن 6 ارب ڈالر کے وعدہ فردا کے عوض ملکی معیشت ، قومی استقلال اور عوام امنگ سب گروی ہوگئے۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ کے بعد شوکت ترین نے خزانے کی کنجی سنبھالی جو ایک ناکام بینکر ہیں۔عجیب بات کہ جو شخص ایک بینک نہ چلا سکا اسے ملکی معیشت چلانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔
اب صورتحال یہ ہےکہ حفیظ شیخ کے بعد شوکت ترین ٹیکسوں پر ٹیکس عائد کرکے عوام کی کمر پر درے برسارہے ہیں تو پاکستانی روپئے کو بے قدر کرنے کی ذمہ داری رضا باقر صاحب آپنے آجروں کی رضا کےمطابق بہت اخلاص سے نبھا رہے ہیں۔ شرح سود میں اضافہ کرکے انھوں نے پاکستانی سرمایہ کاروں پربینکوں اور مالیاتی اداروں کے دروازے بند کردئے جبکہ یورپ و امریکہ کے سرمایہ کار اپنے ملکوں سے بہت ہی کم شرح سود پر رقم حاصل کر کے پاکستانی بینکوں سے بھاری منافع کمارہے ہیں۔ اس حکمت عملی سے جہاں باقر صاحب کے دوست اور سرپرست مستفید ہورہے ہیں وہیں ڈالر کی 'آمد' سے زرمبادلہ کے ذخائر بھی وقتی طور پر بڑھتے نظر آرہے ہیں جس سے خانصاحب بہت خوش ہیں۔ لیکن علمائے معیشت اسے ملک کی ساکھ کیلئے انتہائی خطرناک قراردے رہے ہیں۔ ان ماہرین کے خدشات بے وزن نہیں کہ برآمدات و زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے باوجود روپئے کا زوال جاری ہے۔
اب نئی قسط کیلئے آئی ایم ایف سے جو وعدہ کیا گیا ہے اسکے تحت حکومتی اخراجات میں 300 ارب روپئے کی کٹوتی کی جائیگی۔ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے جناب شوکت ترین نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ ترقیاتی کاموں کیلئے مختص رقم سے 200 ارب کاٹ لئے جائینگے ۔ باقی رہے 100 ارب ، تو کٹوتی کے بجائے یہ اضافی رقم عوام سے وصول کی جائیگی۔
وصولیابی کیلئے دونشتر تیار ہیں
- پیٹرولیم مصنوعات پر لگان (Levy)نو روپئے 62 پیسے فی لٹر سے بڑھاکر 30 روپئے کردیا جائیگا۔تاہم عوام پر رحم کھاتے ہوئے یہ کوڑا ایک دم نہیں برسے گا بلکہ درمیان میں سانس لینے کا وقفہ ہوگا اور ہر ماہ 4 روپئے بڑھائے جائینگے۔ خیال ہے کہ اس سے سرکار کو 40 ارب کی اضافی آمدنی ہوگی
- اسی کیساتھ ایندھن کے اضافی اخراجات یعنی فیول ایڈجسمنٹ کے نام پر بجلی کے نرخ پونے پانچ روپئے فی یونٹ بڑھانے کی تجویز ہے۔اس تبدیلی سے قومی خزانے کو 60 ارب روپئے اضافی حاصل ہونگے
باقی رہی مہنگائی ، تو خانصاحب کے ساتھ، انکے رفقا اسے ایک عالمی عفریت قراردے کر عوام کو مطمئن کرچکے ہیں۔اگر عشاقانِ کپتان کی طبع نازک پرگراں نہ گزرے تو عرض کروں کہ ہیوسٹن (امریکہ) میں گزشتہ دس دنوں کے دوران پیٹرول کی قیمت 2.98 ڈالر سے کم ہوکر 2.78 ڈالر فی گیلن ہوچکی ہے۔
No comments:
Post a Comment