اسرائیلی معاشرہ ۔۔ روشن خیالی کی راہ پر گامزن
چند دہائی پہلے تک اسرائیل یہودیت کی ایک مثال تھا، 1967 میں بیت المقدس فتح کرنے پر دیوارِ گریہ کے سائےمیں ربائیوں (یہودی علما)نے عہد کیا تھا کہ وہ موشے ربانی (استاد موسیٰ علیہ السلام) کی شریعت کے مطابق اسرائیلی ریاست تعمیر کرینگے اور کافی عرصے تک ایسا ہی رہا کہ
ہفتے کو یوم سبت کے دوران ملک میں کوئی مشین استعمال نہیں کی جاتی، بندرگاہ اور ہوائی اڈوں پر بھی کام بند رہتا ہے
· یہودیوں کے درمیان لین دین سود سے پاک ہوتی ہے
· مدرسے کے طلبہ لازمی فوجی تربیت سے مستثنیٰ ہیں
· غیر کوشر (یہودی ذبیحہ) گوشت کی فروخت صرف مخصوس دوکانوں پر ہوسکتی ہے
اسی کیساتھ سماجی معاملے میں بھی یہودی روایات پر سختی سے عمل ہوتا رہا ہے جس میں
· نامحرموں کے سامنے خواتین کیلئے سرڈھانکنا لازمی ہے۔ جسکا حل یہ نکالا گیا کہ خواتین اپنی بالوں کے ڈیزائن اور رنگ کےوگ پہن لیتی ہیں۔ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
· ربائی صرف مرد ہوسکتے ہیں چنانچہ توریت کی تعلیم دینے والے مدارس کے دروازے طالبات پر بند تھے
· ہم جنس پرستی بدترین گناہ ہے اور شادی صرف مرد اور عورت کی ہوسکتی ہے
تاہم کچھ عرصے سے سماجی محاذ پر مذہبی عناصر مسلسل پسپا ہورہے ہیں
· بیس سال پہلے مذہبی مدارس میں خواتین کے داخلے شروع ہوگئے اور اب خواتین ربائی بھی ہیں
· دس برس پہلے ہم جنس شادیوں کی اجازت دیدی گئی
یہ 'تبدیلی' گزشتہ دنوں اپنی انتہا کو پہنچی جب ایک خاتون ربائی (مُلّانی) بیکا واکر نے دوسری ربائی اریلیا روزن سے شادی کرلی۔ حد یہ کہ نکاح کی تقریب امریکی ریاست میسیچیوسیٹس کے کیمپ راما میں منعقد ہوئی ۔ پالمر شہر کے مضافات میں قائم یہ کیمپ قدامت پسند یہودیوں کا تربیتی مرکز ہے جو 1953 میں قائم کیا گیا تھا۔ یعنی سیکیولرازم نے یہودیت کی جامعہ کو فتح کرلیا
صاحبو!ہماری دیوار (wall) مکسڈ پلیٹ ہے۔ کل ہم نے خلوت نشیں یہودی طالبان کا ذکر کیا تھا اور آج فتح سے سرشار روشن خیالوں کا تذکرہ۔ اسی لئے تو احباب ہماری گزارشات کو افکارپریشاں کہتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment