تحریک ِ انصاف اور الیکشن کمیشن کی خدمت میں ۔۔۔۔۔
پاکستانی پارلیمان نےآئندہ عام انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین (EVM)کے ذریعے منعقد کرانے کا بل منظور کرلیا اور توقع ہے کہ صدرمملکت کی توثیق کے بعد یہ ایک قانون جائیگا جسکی پاسداری ہر شہری کی اخلاقی ذمہ داری ہوگی۔
مشین کے ذریعے انتخابات سے کسی کو بھی اختلاف نہیں لیکن شفافیت کے حوالے سے پاکستان میں انتخابات کی تاریخ بہت اچھی نہیں اور تقریباً ہر انتخاب کے بعددھاندلی کا شور اٹھتا ہے۔ اس تناظر میں الیکشن کمیشن اور حزب اختلاف دونوں کو مشینی انتخابات پر تحفظات ہیں۔ سب سے بڑا ڈر یہ ہے کہ اگر حکومت کمپیوٹر کی پروگرامنگ میں ہاتھ کرگئی تو کیا ہوگا۔
فواد چودھری صاحب کے دورِ وزارت میں جو مشین بنائی گئی ہے وہ صرف انتخابی نشان پر Clickکریگی جس کے بعد چراغوں کی روشنی ختم یعنی شک و ابہام کی صورت میں اسکی تحقیق ممکن نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مشین میں کچھ ترمیم کرکے سراغ پزیری یا Traceabilityکو یقینی بنالیا جائے
اس کے لئے پاکستان کا الیکشن کمیشن امریکہ کے حالیہ انتخابات میں استعمال کی جانیوالی مشینوں کے ڈیزائن سے فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ گزشتہ صدارتی انتخابات کے بعد سابق صدر ڈانلڈ ٹرمپ اور انکی ریپبلکن پارٹی نے انتخابی مشینوں پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ تین ریاستوں یعنی وسکونسسن ، پنسلوانیہ اور مشیگن میں رات کو دیر سے جاری ہونے والے نتائج یکطرفہ نظر آرہے تھے جن میں صدر بائیڈن کو غیر معمولی برتری حاصل ہوئی جس سے نتیجہ پلٹ گیا ورنہ نصف شب تک ان ریاستوں سے سابق صدر ٹرمپ جیت رہے تھے۔ مشینوں میں وہ سہولت موجود نہیں جو کاغذی بیلٹ میں ہے کہ تنازعے کی صورت میں انھیں عدالتی نگرانی میں دوبارہ گن کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیا جاسکتا ہے۔
اس شکایات کی بناپراس سال 2 نومبر کو ہونے والے انتخابات میں کئی امریکی ریاستوں نے نظام کو مزید شفاف بنانے کیلئے ایسی مشینیں استعمال کی ہیں جن میں پرنٹر بھی نصب ہیں۔ ووٹ ڈالنے کا طریقہ کچھ اسطرح ہے
- پولنگ اسٹیشن کے استقبالیہ پر ووٹر کی شناخت کرکے اسے کمپیوٹر کا شناختی لفظ یا passwordعطاکردیاجاتا ہے۔ پاس ورڈ کے ساتھ اس شخص کی ساری تفصیل ریکارڈ ہوجاتی ہے اور وہ کسی اور اسٹیشن پر جاکر دوبارہ ووٹ نہیں ڈال سکتا
- ووٹنگ مشین کے تختہِ کلید (keyboard)پر شناختی لفظ ٹائپ کرنے سےاسکرین پر بیلٹ پیپر سامنے آجاتا ہے اور ووٹر curser اپنے پسندیدہ امیدواروں کے نام کے سامنے لاکر جب returnدباتے ہیں تویہ گویا ان امیدواروں کوووٹ ڈالنے کی 'نیت' کا اظہار ہے
- جس کے بعد ووٹر کو بیلٹ پیپر پر نظرثانی کی اجازت ہے
- اگر تمام نشانات ووٹر کی خواہش کے مطابق ہیں تو VOTEکابٹن دباکر ووٹنگ کی کاروائی مکمل کرلی جاتی ہے
- ووٹ ڈالنے کا کام مکمل ہوتے ہی مشین سےملحق پرنٹراس بیلٹ کو چھاپ دیتا ہے۔
- چھپے ہوئے بیلٹ کو دیکھ کر ووٹر کو یقین آجاتا ہے کہ مشین نے اسکاووٹ درست ریکاڑد کیا ہے۔ اگر ووٹرکو اس مرحلے پر کسی غلطی کا احساس ہو تو اسے اپنے ووٹ کو منسوخ کرکے مشین پر دوبارہ ووٹ ڈالنے کی اجازت ہے
- اگرچھپا ہوا بیلٹ دیکھ کر ووٹر کو یقین ہوجائے کہ سب ٹھیک ہے تو وہ اسے بیلٹ بکس میں ڈال دیتا (دیتی) ہے۔
- بیلٹ بکس دراصل Scannerہے جوبیلٹ پیپر اسکین کرکے اسے گنتی میں شامل کرنے کے ساتھ اسے اپنے پیٹ میں محفوظ کرلیتا ہے۔
- تنازعے کی صورت میں اسکین مشین سے بیلٹ پیپر نکال کر گنے جاسکتے ہیں۔
پاکستان میں بھی مشین کیساتھ پرنٹر شامل کرکےاسے قابل اعتماد اور طریقہ کار کو شفاف بنایا جاسکتا ہے۔امید ہے تحریک انصاف کے رفقا اس تجویز پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائینگے کہ انتخابی نظام کا شفاف ہونا سب سےزیادہ جیتنے والی جماعت کی ضرورت ہے۔
No comments:
Post a Comment