Thursday, November 18, 2021

سردی میں ٹھٹھرتے شامی و عراقی پناہ گزین اور بیرحم عالمی سیاست

سردی میں ٹھٹھرتے شامی و عراقی پناہ گزین اور بیرحم عالمی سیاست

آجکل  مشرقی یورپ میں درجہِ حرارت نقطہ انجماد سے کافی نیچے ہے۔خون جمادینے والی اس سردی میں مشرقی یورپ کے دوملکوں، بیلارس (Belarus)اور پولستان (Poland)کی سرحد پر ہزاروں شامی و عراقی پناہ گزین کھلے آسمان تلے اپنی کربناک موت کا انتظار کررہے ہیں۔ یہ بدنصیب جنگ و بد امنی سے پریشان ہوکر پناہ کی تلاش میں نکلے ہیں۔ سرحد کے قریب موجود شامیوں نے ترکی، اردن اور لبنان میں پناہ لے لی لیکن بحرروم کے ساحل تک پہنچ جانے  والے شامی، ٹوٹی پھوٹی کشتیوں پر نکل پڑے، جن میں سے  ہزاروں کو سمندر نگل گیا۔ اب بچ جانے والے 'خوش نصیب' یورپ اُتر کر پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔

داعش کی چیرہ دستیوں کا شکار شمال مغربی عراق کے لوگوں نے بھی شام کے راستے بحرِ روم کا رخ کیا۔ کافی تعداد میں عراقی و شامی مہاجرین۔ ایران سے گزر کر آذربائیجان کے راستے مشرقی روس سے ہوتے ہوئے بیلارُس پہنچ گئے۔ ان بے خانماں لوگوں کو امید تھی کہ وہاں سے مغرب میں سرحد عبور کرکے وہ پولستان پہنچ جائینگے جو یورپی یونین یا بزعمِ خود مہذب دنیا کا حصہ ہے۔ لیکن پولستانی افواج نے ان لوگوں کو اپنی سرحد پر روک دیا۔دوسری جانب روس نے بیلارُس کی سرحد پر اپنے دستے تعینات کردئے  جسکی وجہ سے یہ ہزاروں افراد یہاں پھنس کررہ گئے۔ اب نہ وہ پولینڈ میں داخل ہوسکتے ہیں اور نہ بیلارُس کو واپسی ممکن ہے۔   

مہاجرین کی ان پریشانیوں کی بڑی وجہ  یورپ میں پناہ گزینوں کے خلاف ایک عام رویہ ہے۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کا سب سے بڑا محرک یہی تاثر تھا کہ یونین کا حصہ ہونے کی وجہ سے سلطنتِ برطانیہ کا اپنی سرحدوں پر کوئی کنڑول نہیں اور کسی بھی یورپی ملک میں داخل ہونے والا 'کنگلا و قلاش' مہاجر منہہ اٹھا کر لندن چلا آتا ہے۔ دلچسپ بات کہ سرحدوں پر پہرہ لگانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ برطانیہ میں 'مزدوروں' کی سخت قلت ہوگئی ہے۔ حال ہی میں لندن کے پیٹرول پمپوں پر ایندھن ختم ہوگیا کہ تیل ڈھونے والے ٹرکوں کیلئے مطلوبہ تعداد میں ڈرائیور میسر نہ تھے۔اس متعصبانہ فکر کے ساتھ روس و مغرب کی روائتی کشکمش نے مہاجرین کا معاملہ  مزید خراب کردیا ہے۔

ترانوے لاکھ نفوس پر مشتمل بیلارُس،  بیلورشین سوویٹ سوشلسٹ ریپبلک یا Byelorussian SSRکے نام سے آنجہانی سوویت یونین کی ایک ریاست تھی۔ جب افغان  مجاہدین کے ہاتھوں روس کے ٹکڑے ہوئے تو 1990 میں بیلا رُس ایک آزاد ملک بن گیا۔اسی دوران مشرقی یورپ پر بھی روس کی گرفت کمزور ہوئی اور اکثر ممالک نے کمیونزم کی چھتری سے باہر آکر مغربی جمہوری نظام اپنالیا۔ بیلارُس پر روس کی سیاسی و اقتصادی گرفت مضبوط رہی اور اب یہ روس اور مغربی دنیا کی سرحد ہے۔

بیلارُس کی آزادی اور نئے دستور کی منظوری کے بعد ہونے والے پہلے عام  انتخابات میں سوویت یونین کے فوجی افسر اور کمیونسٹ پارٹی کے سابق رہنما الیگزینڈر لکاشینکو  (Alexander Lukashenko)صدر منتخب ہوئے۔ جناب لکاشینکو اپنے انتخاب کے پہلے دن سے مغرب کیلئے ایک ناپسندیدہ شخصیت ہیں۔ امریکہ اور اسکے حلیفوں کو شکائت ہے کہ موصوف آمرانہ ذہن رکھتے ہیں اور انھوں  نے اپنے سیاسی مخالفین،سول سوسائٹی اور آزاد میڈیا کیخلاف پر تشدد رویہ اپنایا ہوا ہے۔ان الزامات کے تحت 2006ء میں سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے بیلارُس پر پابندیاں کیں۔ بش انتظامیہ کے مطابق ان اقتصادی و سفارتی قدغنوں کا مقصد صدر لکاشینکو کی آمرانہ حکومت کو انسانی حقوق کے حوالے سے معقولیت پر مجبور کرنا تھا۔ جارج بش کے بعد اقتدار سنبھالنے والے صدر بارک حسین  اوباما نے بھی بیلارُس کے خلاف امریکی تعزیرات برقرار رکھیں۔

اگست 2020 میں ہونے والے کے انتخابات کے بعد اس کشیدگی میں شدت آگئی۔ اس چناو میں الیگزینڈر لوکاشینکو چھٹی مرتبہ بلارُس کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔حزبِ اختلاف نے انتخابی عمل پر دھاندلی کا الزام لگا کر ملک گیر مظاہرے شروع کردئے جسے کچلئے کیلئے لکاشینکو سرکار نے مبینہ طور پر سخت گیر روئے کا مظاہرہ کیا۔ کئی ماہ جاری رہنے والے مظاہروں کے دوران  40 ہزار کے قریب افرادگرفتار کئے گئے اور سینکڑوں مخالفین کو پولیس تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان اقدامات پر مغرب کا ردعمل شدید تھااور امریکہ کے  ساتھ یورپی یونین نے لکاشینکو کی حکومت پر اضافی پابندیاں عائد کر دیں۔

اس سال مئی میں بیلارُس کے جنگی طیاروں نے یونان سے لتھوینیا جانے والی پرواز کا رُخ موڑ کر اسے اپنے دارالحکومت منسک (Minsk) اترنے پر مجبورکردیا۔حزب اختلاف نے الزام لگایا ہےکہ اس کاروائی کا مقصد جہاز پر سوار حکومت مخالف صحافی رومن پروٹا سیوچ (Roman Protasevich)کو حراست میں لینا تھا۔ دوسری طرف بیلارُس شہری ہوابازی کا موقف ہے کہ نجی ائرلائن Ryanairکی پرواز 4978 انتباہ کے باوجود مقررہ فضائی راستے سے مخلتف سمت میں جارہی تھی۔اس اقدام کے بعد یورپی یونین نے بیلارُس کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دیں اور تمام درآمدات پر پابندی لگادی جن میں پیٹرولیم مصنوعات، پوٹاش، کھاد اور زرعی آلات شامل ہیں۔ان پابندیوں سے بیلارُس کی معیشت بیٹھ جانے کاخطرہ پیدا ہوگیا۔

ان پابندیوں پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے صدر لکاشینکو نے کہا کہ خراب معاشی حالات کے باعث انکا ملک پناہ گزینوں کی میزبانی کا خرچ نہیں اٹھاسکتا لہذا بیلارُس کیلئے یورپی یونین سے کئے جانے والے اس معاہدے پر عملدرآمد جاری رکھنا ممکن نہیں جس کے تحت غیر قانونی تارکین وطن کو دوسرے ملک جانے سے روکنا میزبان ملک کی ذمہ داری ہے۔بیلورشین رہنما نے اعلان کیا کہ  انکا ملک  اب یورپی یونین کی طرف  جانیوالے والے  پناہ گزینوں کے سفر میں رکاوٹیں نہیں ڈالے گا۔

یورپی یونین نے الزام لگایا ہےکہ معاہدے کی یکطرفہ منسوخی کے  بعد بیلارُس حکومت  نے عراق، شام اور دیگر ممالک سے آنے والے پناہ گزینوں کو پڑوسی ممالک پولینڈ، لتھوینیا اور لٹویا کی جانب دھکیلنا شروع کر دیا ہے۔پولینڈ حکام کے مطابق بیلارُس کے حزب اختلاف کے رکن نے اس بات کی تصدیق کی ہےکہ سرکاری ٹورسٹ ایجنسی ان پناہ گزینوں کو سرحدی علاقوں تک سفر میں معاونت فراہم کررہی ہےیعنی صدر لکا شینکو پناہ گزینوں کو پابندیوں کے خلاف بطور ’مہرہ‘ استعمال کر رہے ہیں۔

دوسری طرف بیلو رشین صدر، یورپی یونین کی جانب سے سرحدوں کو بندش کو کٹھوردلی سے تعبیر کررہے ہیں۔انکا کہنا ہے ہے کہ پناہ گزینوں کو روکنے کیلئے پولینڈ نے اپنی سرحد پر خصوصی پولیس اور مسلح دستے  تعینات کر دئے ہیں اور یہ سپاہی بے سہارا پناہ گزینوں کو جانوروں کی طرح ہنٹر مار مار کر بیلارُس کی طرف واپس دھکیل رہے ہے۔ سات آٹھ ہزار پناہ گزین انتہائی سرد موسم میں کھلے آسمان تلے ہیں  اور گزشتہ تین چار دنوں میں کم ازکم آٹھ افراد  ٹھٹھر کر ہلاک ہوچکے ہیں۔

پولینڈکی جانب سےسرحد پر فوج تعیناتی کے جواب میں روس اپنے فوجی دستے بیلارُس بھیج رہا ہے جو اعلان کے مطابق پولستانی سرحد کے قریب بیلارُس کی  فوج کیساتھ مشترکہ مشق کرینگے۔ اس مقصد کیلئے مبینہ طور پر روسی چھاتہ بردار فوج  بھی بھیجی گئی ہے۔

امریکی فوجی ذرایع کے مطابق پولستانی سرحد کیساتھ جنوبی بیلارُس  میں یوکرین کی سرحد پر بھی روسی فوجوں کی نقل و حرکت دیکھی جارہی ہے۔ امریکہ اور نیٹو خدشہ ظاہر کرہے ہیں کہ پناہ گزینوں کے معاملے پر  پولینڈ اور بیلارُس کی کشیدگی سے فائدہ اٹھاکر روس، یوکرین کیخلاف ویسی ہی مہم جوئی کا ارادہ رکھتا ہے جیسی 2014میں کی گئی تھی جب روس نے کریمیا پر قبضہ جمالیا۔ امریکی وزیرخارجہ کا کہنا ہے کہ ماسکو کے عسکری عزائم کے بارے میں واشنگٹن سوئے ظن کو مناسب نہیں سمجھتا لیکن اُنکے ہتھکنڈوں سے غافل رہنا بھی ممکن نہیں۔ روس اور بیلارُس دونوں نے یوکرین کی سرحد پر فوج تعیناتی کی تردید کی ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ روس بیلارُس کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے تو دوسری طرف  یورپی یونین پولینڈ، لتھوینیا اور لٹویا کی غیر مشروط حمائت پر کمربستہ۔ یورپی کونسل کے صدرچارلس مچل کے مطابق بلارُس سرحد پر خاردار تار لگانے اور رکاوٹٰیں کھڑی کرنے کی تجویز زیر غور ہے جو یورپی یونین کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہوگا۔غیر معمولی فوجی اجتماع اورعسکری نقل و حرکت سے جہاں مسلح تنازعے کی صورت میں علاقائی امن کو شدید خطرہ درپیش ہے وہیں سخت سردی میں شیرخوار بچوں سمیت ہزاروں پناہ گزینوں کی موجودگی خوفناک انسانی المئے کا سبب بن سکتی ہے

موسم کے رحم و کرم پر موت کا انتظار کرتے ان  ہزاروں افراد کے دونوں جانب مسلح فوجی دستے لڑائی کیلئے تیار کھڑے ہیں یایوں کہئے کہ مظلوم پناہ گزین دونوں طرف کے بندوقچیوں کے نشانے پر ہیں۔ یہ بد نصیب اب نہ اپنے ملکوں کو واپس جاسکتے اور نہ ہی یورپ کی جانب سفر ممکن  ہے۔ہلکا سے اشتعال اور معمولی تصادم کی صورت میں گولیوں کی پہلی باڑھ ان بے کسوں  کے سینے چھلنی کردےگی۔

اقوام متحدہ اور عالمی اداروں سے کیا شکوہ کہ مسلم و عرب دنیا کو  اس خطرناک صورتحال کا ادراک تک نہیں۔ اب تک شام اور عراق کی حکومتیں، عرب لیگ، موتمرعالم اسلامی اور مسلم ممالک کی تنظیم OICاس معاملے سے بالکل لاتعلق ہیں۔ جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 19 نومبر 2021

روزنامہ امت کراچی 19 نومبر 2021

ہفت روزہ دعوت دہلی 19 نومبر 2019

ہفت روزہ رہبر سرینگر 21 نومبر 2021

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


 

No comments:

Post a Comment