محب وطن بنگالیوں کو سزائے موت سنانے والے جج کی بے ایمانی ثابت ہوگئی
سنار بنگلہ کی عدالت نے ملک کے سابق قاضی القضاۃ سریندرا کمار سنہا کو بینک پر دباو ڈال کر قرضے منظور کرانے، منی لانڈرنگ اور ملک کی دولت لوٹنے کا مجرم قراردے دیا۔
نام نہاد خصوصی ٹریبیونل سے جماعت اسلامی کے رہنماوں عبدالقادر ملا، محمد قمرالزماں اور علی احسن مجاہد کے علاوہ مسلم لیگ کے قائد صلاح الدین قادر چودھری کو ملنے والی سزائے موت کی توثیق انتہائی توہین آمیز تبصروں کیساتھ جسٹس سنہا ہی نے کی تھی۔فیصلے کی روداد سے پہلے جسٹس صاحب کی 'سوانح عمری' پر ایک نظر
جسٹس سنہا ایک انتہائی متعصب ہندو ہیں جنھیں پاکستان کی مخالفت ورثے میں ملی ہے۔ انکے والد آنجہانی لالت موہن سنہا بھارتی ریاست تریپورہ کے مہاجن تھے جنھوں نے تحریک پاکستان کے دوران ہندو دہشت گردوں کے جتھے تشکیل دئے۔
مسلم لیگ نے 16 اگست 1946 کو آزادی کے حق میں یوم عزم کا اعلان کیا جسے بنگالی مسلمانوں نے آزادی اندلن کا نام دیا۔ شیر بنگال فضل حق اور مسلم لیگ کے دوسرے رہنماوں نے فیصلہ کیا کہ اس موقع پر کلکتہ میں اپنی قوت کا مظاہرہ کیا جائیگا۔ اندلن ناکام بنانے کیلئے لالت موہن سنہا اپنے مسلح ساتھیوں کے ساتھ کلکتہ آگیا۔ جلسے کا وقت ظہر کے بعد تھا لیکن لوگ فجر پڑھتے ہی مرکزی جلسہ گاہ یا میدان کی طرف روانہ ہوگئے۔ لالت موہن کے ساتھی راستوں میں گھات لگائے بیٹھے تھے۔ دوبدو مقابلے کی ہمت نہ تھی اسلئے اسکے کارندوں نےبانسوں اور دوگز لمبی لاٹھیوں پر بڑے بڑے خونخوار چھرے باندھے ہوئے تھے۔ زیادہ تر شرکا اپنے ہاتھوں میں مسلم لیگ کا سبز پرچم لے کر چل رہے تھے اسلئے یہ مندوبین دور سے پہچانے جاتے تھے۔
گھات میں بیٹھے یہ دہشت گرد گلیوں سے نکلتے اور جلسہ گاہ کی جانب جاتے کارکنان کی پشت میں چھرا گھونپ کر بھاگ جاتے۔ اس کاروائی میں لالت سنہا کے ساتھیوں نے درجنوں نہتے بنگالی مسلمانوں کو شہید کیا۔ اسکا ایک جتھہ میدان کے باہر بھی گلیوں میں چھپا بیٹھا تھا جس نے واپسی پر حملے کئے۔ واپس جاتے ہوئے خواجہ ناظم الدین کی گاڑی پر بھی حملہ ہوا۔ لالت کی شرانگیزی سے سارے مغربی بنگال میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ اٹھے جس میں ہزاروں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
پاکستان بننے کے بعد لالت سلہٹ آگئے جہاں 1951 میں سریندر کمار سنہا پیدا ہوے۔ 1971 آپریش کے آغاز میں سریندر تریپورہ فرار ہوگئے جہاں انھوں نے مکتی باہنی میں شمولیت اختیار کرلی اور ہندوستانی فوج سے تربیت حاصل کرنے کے بعد چاٹگام آگئے۔ اس زمانے میں شدید بارشوں کی وجہ سے سارا علاقہ زیرآب تھا اور بھارتی بحریہ کے پئے در پئے حملوں سے پاک فوج کی تنصیبات کا بڑا حصہ تباہ ہوچکا تھا۔ سریندر نے اس علاقے میں مکتی باہنی کومنظم کیا جہاں انکا مقابلہ پاکستانی رضاکاروں سے تھا۔آزادی کے بعد شیخ مجیب نے سنہا کی شکائت پر فضل القادر چودھری کو گرفتار کرلیا اور ان پر ہندووں کے قتل عام اور پاک فوج کے ساتھ مل کر خواتین کی بیحرمتی کا الزام لگایا گیا۔ مقدمے کے فیصلے سے پہلے ہی جناب فضل القادر چودھری ڈھاکہ جیل میں انتقال کرگئے۔ بعد میں یہی فرد جرم انکے بیٹے صلاح الدین چودھری پر عائد کردی گئی۔ حالانکہ چودھری صاحب ستمبر 1970سے 1974 تک پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہے۔
اتفاق سے اُسی خصوصی عدالت 4 میں جسٹس سنہا کے خلاف مقدمہ چلایا گیا جس نے جماعت اسلامی کے رہنماوں کو سزائے موت دی تھی۔ منگل 9 نومبر کو سنائے جانے والے فیصلے میں جسٹس شیخ نظام العالم نے سابق چیف جسٹس سنہا کو 8 رکنی جتھے کا سرغنہ قراردیا جنھوں نے تمام ضابطوں کو روند کر فارمرز بینک سےقرض منظور کروایا اور ساری رقم غیر قانونی ذرایع سے بیرون ملک بھجوادی۔ منی لانڈرنگ کے الزام میں جسٹس سنہا کو سات سال قید بامشقت اور عہدے کے غلط استعمال پر انھیں مزید چار سال قید بھگتنی ہوگی۔ ان پر 45 لاکھ ٹکہ جرمانہ بھی کیا گیا جسکی عدم ادائیگی کی صورت میں موصوف مزید 6 ماہ جیل کاٹیں گے۔عدالت نے پدما بینک کو حکم دیا کہ جسٹس صاحب کے بھتیجے شن خاجیت سنہا کے اکاونٹ میں موجود 78 لاکھ ٹکہ کی رقم ضبط کرلی جائے کہ مجرم نے جرم چھپانے کیلئےلوٹی ہوئی دولت بھتیجے کے اکاونت میں جمع کرائی تھی۔لوٹی ہوئی دولت کا تخمینہ 2 کروڑ ٹکہ ہے جو جسٹس سنہا، بینک افسران اور دوسرے مجرموں نے آپس میں بانٹ لی۔
فارمر بینک کے نائب صدور غازی صلاح الدین، سواپن کمار، شفیع الدین، لطف الحق اور بینک کے آڈیٹر بابُل چشتی کو بھی تین تین سال قید بامشقت اور جرمانے کی سزا سنائی گئی ۔دوسرے افسران رنجیت چندرا اور انکی پتنی سنتری رائے سیمی تین سال قید بھگتیں گے۔
جسٹس سنہا نومبر 2017 سے مفرور ہیں اور خیال ہے کہ لوٹی ہوئی دولت سے امریکہ میں پُرتعیش زندگی گزاررہے ہیں۔منی لانڈرنگ کے اس ثابت شدہ جرم پر نہ تو FATFکو کوئی تشویش ہے نہ ایک قومی ڈاکو کو پناہ دینے پر امریکہ بہادر کو کوئی شرمندگی۔
ایسے بدکردار و بے ایمان فرد کے فیصلے پر مطیع الرحمان نظامی، قمرالزمان، عبدالقادر مُلّا، علی احسن مجاہد، ممتاز صحافی اور ماہر اقبالیات میر قاسم علی جیسے بنگالی قوم کے دیانت دار رہنما موت کے گھاٹ اتار دئے گئے۔
No comments:
Post a Comment