سوڈان میں سویلین بالادستی کیلئے دنیا سرگرم
جب سے سوڈانی افواج نے عبوری وزیراعظم عبداللہ حمدوک کو معزول کرکے اقتدار سنبھالا ہے، ساری دنیا شدید 'تشویش ' میں مبتلا ہوگئی ہے۔ اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین اور اسرائیل کے ساتھ خلیج کے امرا، شیوخ اور سلاطین کو بھی سوڈان میں جمہوریت کی پامالی پر سخت تشویش ہے۔ ہم بھی فوجی مداخلت کے خلاف ہیں لیکن جنرل عبدلفتاح برہان کی جانب سے 25 اکتوبر کو اقتدار پر قبضے کے بعد جو ہلچل مچی ہے اس نے دنیا کے جمہوریت پسندو ں کو بے نقاب کردیا ہے۔
ایک اور جنرل عبدالفتاح یعنی عبدالفتاح السیسی نے مصر میں ملکی تاریخ کے پہلے منتخب صدرکا تختہ الٹنے کے بعد قتل و غارتگری کا جو بازار گرم کیا ، وہ آج تک جاری ہے۔اس 'انقلاب' کو اسرائیل ، امریکہ، مغربی یونین اور خلیج تعاونی کونسل کی بھرپور حمائت حاصل تھی۔ اور تو اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر جناب رضا باقر کو آئی ایم ایف کی جانب سے اخوان المسلمون کی اقتصادی شہہ رگ کاٹنے کیلئے مصر تعینات کیا گیا اور باقر صاحب نے FATFکے ساتھ ٹیرز فنانسنگ کے نام پر اتنی مہارت و باریکی سے کام کیا کہ خدمت خلق کے زیادہ تر اخوانی ادارے قلاش و دیوالیہ ہوگئے۔مورسی کاتختہ الٹنے کیلئے 3 جولائی کا انتخاب کیا گیا،یاں یوں کہیے کہ یہ امریکہ کے یوم آزادی پر جنرل السیسی کی طرف سے صدراوباما کو ایک تحفہ تھا۔ یادش بخیر پرویز مشرف نے بھی 3 جولائی 2007 میں لال مسجد اپریشن کا آغاز کرکے صدر بش کوحفاظ بچیوں کی سوختہ لاشوں کا تحفہ دیا تھا۔
مصر میں کامیابی کے چارسال بعد ایسی ہی کاروائی ترکی میں کی گئی اور وہاں بھی جولائی کا انتخاب ہوا، لیکن ترک عوام نے مہم جو فوجی افسران کی سرِ عام مشکیں کس کر انکا اور انکے سرپرستوں کا دماغ درست کردیا۔کچھ عرصہ پہلے تیونس میں بھی 'صدارتی مارشل لا' لگاکر عوامی امنگوں کا گلا گھونٹا گیا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس شب خون میں امریکی سفیرڈونالڈ بلوم نے کلیدی کردارادا کیا، موصوف کو اب پاکستان میں امریکہ کا سفیر نامزد کیا گیا ہے۔ یہ کھیل الجزائر میں بھی کھیلا گیا اور پھر 2006 میں منتخب ہونے والی حماس حکومت کو محمود عباس کے ہاتھوں تحلیل کراکے فلسطینوں کے درمیان نفرت کا بیج بو دیا گیا
یہ ساری کاروائیاں منتخب حکومتوں کے خلاف کی گئیں جبکہ حمدوک صاحب تو خود جنرل عبدالفتاح برہان کا انتخاب ہیں لیکن اسرائیل کو تسلیم کرنے کے علاوہ سوڈان کو سیکیولر ملک کا درجہ دیکر موصوف مغرب کی آنکھوں کا تارا بن چکے ہیں
خیر یہ تو مقطع میں سخن گسترانہ بات آپڑی تھی بلکہ آنکھ بھر آئی تھی چنانچہ اسکا ذکر کرکے ہم نے اپنے دل کاغبار ہلکاکرلیا۔رنج و غم کتنے کئے جمع تو دیوان کیا۔ اب واپس سوڈان کی طرف
منگل کو امریکہ، برطانیہ اور ناروے کے سفیروں نے گھر پر نظر بند عبداللہ حملوک سے ملاقات کی جس میں 'ڈٹے رہو' پیغام کے ساتھ خوشخبری دی گئی کہ جنرل برہان سے بات چیت کا سلسلہ چل رہا ہے ۔ دوسری طرف قرن ِافریقہ (Horn of Africa)کیلئے امریکی صدر کے خصوصی نمائندے جیفری فیلٹ مین Jeffery Feltman جنرل برہان کے نام صدر بائیڈن کا بہت سخت پیغام لے کر عازمِ سوڈان ہیں۔ اس انتباہ کا خلاصہ دیکھ کر جنرل صاحب پریشان اور معقولیت پر آمادہ نظر آرہے ہیں یعنی سحر قریب ہے دل سے کہو نہ گھبرائے۔ سفیروں سےاس اہم ملاقات کے بعد 'قیدی' معزول وزیراعظم نے صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فوجی اقتدار کی تحلیل اور سول حکومت کی بحالی سے سوڈانی عوام کو درپیش مسائل کے حل میں مدد ملے گی۔
رائٹرز کے مطابق معتمدِ عام اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ووکر پرتھز Volker Pertthes نے خرطوم سے سمعی و بصری رابطے پر نیویارک میں صحافیوں سے باتین کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ سوڈان کی فوجی جنتا سے مذاکرات جاری ہیں۔ بات چیت کے دوران مراعات اور سہولیات کے علاوہ عسکری قیادت کیلئے اس دلدل سے نکلنے کا باعزت راستہ تلاش کیا جارہا ہے ۔ جناب پرتھز پرامید ہیں کہ یہ 'بحران' بہت جلد ختم ہوجائیگا۔
No comments:
Post a Comment