دنیا کے امیر ممالک، دیو قامت کارپویشنوں سے پریشان
دنیا کے 20 امیر ترین ملکوں کا سربراہی اجلاس اطالوی دارالحکومت روم میں ختم ہوگیا۔ سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان، سعودی عرب، ترکی، ہندوستان سمیت 19 ممالک اور یوپی یونین اس ادارے کے رکن ہیں۔ تیس اکتوبر کو شروع ہونے والے اس دوروزہ اجلاس میں شرکت کیلئے چین کے صدر ژی پنگ اور انکے روسی ہم منصب ولادیمر پوٹن کے علاوہ تمام کے تمام سربراہان بنفس نفیس روم تشریف لائے جبکہ چینی اورروسی قیادت نے سمعی و بصری ذریعے سے شرکت کی۔ برونائی کے سلطان حسن البلقیہ نے جنوب مشرقی ممالک کی انجمن آسیان کی نمائندگی کی۔افریقی یونین کی جانب سے AUکے سربراہ اور کانگو کے صدر فیکس شکیڈی شریک ہوئے۔ روانڈا کے صدر پال کاغمے، افریقہ کی ترقی کیلئے باہمی شراکت داری پروگرام NEPAD کی طرف سے تشریف لائے۔ اسکے علاوہ نیدرلینڈ (ہالینڈ) کے وزیراعظم مارک روتے اور سنگاپور کے وزیراعظم لی سین لونگ خصوصی دعوت پر شریک ہوئے۔ اسپین کو G-20نے مستقل مہمان کا درجہ دے رکھا ہے جسکی نمائندگی ہسپانوی وزیراعظم پادرو سنچیز نے کی۔
اس موقع کانفرنس کے مقام پر زبردست مظاہرہ کیا گیا جس میں خواتین، ہم جنس پرستوں ، مزدوروں، ماحول دوست گروہوں اور سیاسی کارکنوں نے شرکت کی۔ مظاہرین کو کانفرنس کیلئے جگہ کے چناو پر بھی سخت اعتراض تھا،Esposizione Universale Romaیا EURکے نام سے مشہور یہ علاقہ روم کا کاروباری مرکز ہے جہاں متمول لوگوں نے گھر اور پرتعیش فلیٹ خریدکھے ہیں۔ یہاں 1930 میں اٹلی کے آمر مطلق مسولینی نے فسطائیت (فاشزم) کی 20ویں سالگرہ منائی تھی۔مظاہرین کا کہنا تھاکہ اس نشست کیلئے EURکا انتخاب کرکے فاشٹوں نے اپنے مکروہ چہروں کو بے نقاب کردیاہے۔برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن، انکے کینیڈین ہم منصب جسٹن ٹروڈو، امریکی صدر جو بائیڈن اور میزبان یعنی اطالوی وزیراعظم مظاہرین کی نفرت کا خاص ہدف تھے، وہاں موجود کچرے کے ڈرموں پر ان رہنماوں کی تصویریں لگادی گئی تھیں۔ ماحول کی بہتری اور کاربن سے پاک ایندھن کیلئے قومی میزانئے میں ان ملکوں نے جو رقومات منظور کی ہیں، مظاہرین نے رہنماوں سے اسکا حساب طلب کیا۔
پینڈورہ بکس کے حالیہ انکشافات پر بھی مظاہرین سخت مشتعل تھے اور انکا کہنا تھا کہ ٹیکس چوروں کی جنت یورپی یونین کے رہنماوں کی ملکیت ہےجہاں یہ اپنے اہل خانہ اور حامیوں کو کالا دھن اجلا کرنے کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ برطانیہ ، ہالینڈ اور سوئٹزرلینڈکے شاہی خاندان ان جنتوں سے مستفید ہورہے ہیں۔ اپنی تقریروں میں مقررین نے کھل کر کہا کہ ان جنتوں کے سب سے بڑے سرمایہ کار کولمبیا کے منشیات فروش ہیں جنکی دولت تیسری دنیا میں دہشتگردی کیلئے استعمال ہورہی ہے۔ گزشتہ مرتبہ کی طرح اس بار بھی مظاہرین نے پولیس کی سرخ لکیر کو روند دیا، انکا کہنا تھا کہ یہ ساری عمارتیں اور تنصیبات ہمارے ٹیکسوں سے تعمیر اور کھڑی کی گئیں ہیں۔ مظاہرین انگریزی اور مختلف یورپی زبانون میں نغمے گاتے ہوئے آگے تک آگئے کہ 'جمہوریت میں کوئی ریڈ زون نہیں ہوتا اور اظہار رائے کی آزادی سب سے محترم ہے'
جی 20 کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اسوقت امریکہ اور یورپی یونین کو ترکی کی 'فکر' دُبلا کئے ہوئے ہے۔ کانفرنس کے آغاز سے پہلے صدر بائیڈن نے ترک صدر سے تفصیلی ملاقات کی جسکابنیادی مقصد اس سفارتی تناو کو کم کرناتھاجسکا تفصیلی ذکر ہم گزشتہ نشست میں کرچکے ہیں۔گزشتہ ہفتے اندرونی معاملات میں مداخلت پر ترک صدر نے امریکی سفیر سمیت 10 ممالک کے سفرا کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دینے کا حکم دیا تھا۔ امریکہ کی جانب سے 'باعزت' معذرت نے ان شعلوں پر پانی ڈالدیا ہے لیکن S-400دفاعی نظام کے تنازعے سے ترکی اور امریکی تعلقات میں جو سلوٹ پیدا ہوئی وہ فی الحال ہموار ہوتی نظر نہیں آتی۔ دوسال پہلے صدر ٹرمپ نے ایف 35 پروگرام سے ترکی کو اس لیے خارج کر دیا تھا کہ انقرہ روس سے S-400 دفاعی نظام خریدرہاہے۔ یہ معاملہ اب مزید خراب ہوگیا ہے کہ امریکہ کی طیارہ ساز کمپنی لاک ہیڈ مارٹن نے خریدے ہوئے 40 ایف 16 طیارے ترکی کے حوالے کرنے سے انکار کردیا ہے۔ترکوں کاکہنا ہے کہ ان طیاروں کی پوری قیمت ادا کی جاچکی ہے۔اسی کیساتھ لاک ہیڈ نے ترک فضائیہ کے 80 ایف 16 طیارے کو جدید (upgrade) بنانے کیلئے ضروری پرزہ جات فراہم کرنے سے بھی انکار کردیا ہے۔ اس انکار کی وجہ امریکی کانگریس کا ایک مسودہ قانون ہے جسکے تحت S-400سودے کی منسوخی سے پہلے ترکی کو امریکہ کی حساس دفاعی ٹیکنالوجی فراہم نہیں کی جاسکتی۔
امریکی وزارت خارجہ کےقریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ ملاقات کے آغاز میں دونوں رہنماوں کا لہجہ سخت تھا۔ صدر بائیڈن نے موقف اختیار کیا کہ بطور نیٹو اتحادی ترکی کا موجودہ طرزِ عمل ناقابل قبول ہے، جسکے جواب میں صدر ایردوان نے جو کہا وہ کچھ اسطرح تھا کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اور ہم وفادار نہیں، تو بھی تو دلدار نہیں۔ترک صدر کا کہنا تھا کہ نیٹو اتحادی کی حیثیت سے وہ نہ صرف اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں بلکہ ترکی شراکت کار کے طور اپنی ذمہ بہت اخلاص سے نبھا رہا ہے۔ یورپ کے سفارتی حلقوں کے مطابق ملاقات کے دوران ترک صدر نے امریکی ہم منصب کو باور کرادیا کہ انکے ملک کو یونان، فرانس اور اسرائیل کی جانب سے خطرات کا سامنا ہے جسکے دفاع کیلئے موثر فضائیہ ضروری ہے اور اگر اتحادی کی حیثیت سے امریکہ نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کیں تو وہ متبادل راستہ اختیار کرینگے کہ ترکی کی سلامتی انکے لئے دوسری تمام باتوں سے اہم ہے۔صدر ایردوان نے انتخابی مہم کے دوران اپنے بارے میں جو بائیڈن کے منفی روئے کی طرف بھی نشاندہی کی۔کہا جارہا ہے کہ شکوے شکائت اور تندوتیز جملوں کے تبادلے کے بعد صدر بائیڈن نے کہا کہ وہ ترکی سے تعلقات کو بہتر بنانے کے خواہشمند ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ترکی افغانستان، لیبیا اور شام میں امریکہ کے ساتھ مل کرکام کرے۔ترک مغرب تنازعے کے بعد ہم اصل موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔
گروپ 20 سربراہی اجلاس کا ایجنڈا بنیادی طور پر:
· معیشت کی تعمیر میں بڑے تجارتی اداروں کو انکی ذمہ داری پوری کرنے پر مجبور کرنا
· ماحولیاتی تبدیلی کے ممکنہ منفی اثرات سے خطہ ارض کو محفوظ رکھنے کیلئے ٹھوس اقدامات اور
· کرونا وائرس سے تباہ ہونے والی معیشت کی تعمیر نو کیساتھ مستقبل میں اس نوعیت کی آفات سے نبٹنے کی حکمت عملی کی تدوین پر مشتمل تھا۔
صدربائیڈن اپنی انتخابی مہم کے دوران کہتے رہے ہیں کہ امریکہ سمیت دنیا بھر میں ٹیکس کا سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ہے اور اربوں ڈالر منافع کمانے والی کارپوریشنوں کا قوی معیشت کی تعمیر میں کوئی کردارنہیں۔گزشتہ ہفتے قوم سے اپنے خطاب میں صدر بائیڈن نے انکشاف کیا کہ مالی سال 2020 میں امریکہ کی 55 بڑی کارپوریشنوں نے مجموعی طور پر 40 ارب ڈالر منافع کمایا اور کسی ایک کمپنی نے ایک پائی انکم ٹیکس ادا نہیں کیا۔ موقر سوئستانی بینک UBSکے مطابق گزشتہ برس اپریل سے جولائی کے دوران جب کرونا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھاتو جہاں لاک ڈاون کے نتیجے میں کروڑوں افراد بیروزگارہوکر نان شبینہ کو ترس گئے، عین اسی عرصے میں کارپوریشنوں کے ارب پتی سربراہان کی ذاتی دولت میں 10 کھرب ٖڈالر کا اضافہ ہوا ۔ گزشتہ سال ایمیزون Amazonکے بانی جیف بیزوز نے 74 ارب ڈالر اضافی منافع کمایا۔
اس حوالے سے 2020 کی انتخابی مباحثے میں اسوقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی جب ڈیموکریٹک پارٰٹی کی امیدوار سینیٹر ہلیری کلنٹن نے اعدادوشمار سے ثابت کیا کہ ڈانلد ٹرمپ نے گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران ایک پائی ٹیکس نہیں بھرا۔ واضح ثبوت کیساتھ اتنے سنگین الزامات کو سنتے ہوئے جناب ڈانلد ٹرمپ بے نیازی سے مسکرارہے تھےاور اپنی باری آنے پر انھوں نے انتہائی معصومیت سے پوچھا' فاضل سینیٹر صاحبہ کیا ان سالوں کے دوران میں نے کہیں بھی قانون کی خلاف ورزی کی ہے؟ پھر خود ہی اپنے سوال کا جواب دیتے ہوئے بولے' میں نے اُن قوانین کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹیکس بچایا جو سینیٹر کلنٹن اور انکے ساتھیوں نے منظور کئے ہیں۔ میں تو کبھی سینٹر یاکانگریس کا رکن نہیں رہا۔ یہ قوانین آپنے تحریر اور منظو ر کئے ہیں سینیٹر صاحبہ۔
کثیرالقومی یا ملٹی نیشنل کارپویشنیں دنیا کے مخلتف ملکوں میں کام کرتی ہیں اور تیسری دنیا کی خراب طرز حکمرانی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت دھڑلے سے ٹیکس بچاتی ہیں۔ یہ ادارےامریکی انتخابات میں امیدواروں کو مطلوبہ قانون سازی کیلئے گرانقدر عطیات دیتے ہیں۔ اسی کیساتھ کارپوریشنیں دھمکی بھی دیتی رہتی ہیں کہ اگر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا تو ہم یہاں سے دوکان بڑھا کر اپنا صدر دفتر اس ملک میں منتقل کردینگے جہاں ٹیکس کی شرح کم ہو۔ یہ دھمکیاں امریکی ریاستوں کو بھی دی جارہی ہیں۔ حال ہی میں کرونا کی سخت پابندیوں اور ٹیکس کی شرح کو بنیادبناکر TESLAنے اپنے دفاتر کیلی فورنیا سے ٹیکسسTE XASمنتقل کردئے جسکی وجہ سے کیلی فورنیا میں ملازمتوں کے ہزاروں مواقع ختم ہوگئے۔
اس صورتحال سے نبٹنے کیلئے جی 20 کے اجلاس میں صدر بائیڈن نے ملٹی نیشنل کارپوریشنوں پر کم ازم کم 15 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کرلیاگیا۔اس شرح کا اطلاق تمام کے تمام G-20ممالک پر ہوگا جو2023 سے نافذ العمل ہوگی۔
اکتوبر کی 8 تاریخ کو اقتصادی تعاون و ترقی کی عالمی تنظیم OECDکے اجلاس میں بھی کارپویشنوں پر کم ازکم 15 فیصد انکم ٹیکس کی شرح منظور کرلی گئی۔پیرس اجلاس میں یہ قرارداد امریکہ کی وزیرخزانہ محترمہ جینیٹ یلن نے پیش کی جسے 140 ممالک نے منظور کرلیا۔نائیجیریا، کینیا، پاکستان اور سری لنکا نے اس قرارداد پر عملدرآمد سے انکار کردیا ہے۔ان ممالک کا کہنا ہے کہ پہلے کالے اور ناجائز دھن کو اجلا ومُصٖفّا کرنے کے ان کارخانوں کو بند کیا جائے جنھیں ٹیکس چوروں کی جنت یا Tax Heavenکہا جاتاہے۔ان میں پانامہ (Panama)، برمودا (Bermuda)،جرسی (Jersey)، برٹش ورجن آئی لینڈ (BVI)،لکژمبرگ :(Luxembourg)باہاماس (Bahamas) اورسوئٹزرلینڈ شامل ہیں۔
دلچسپ بات کہ کم سے کم 15 فیصد انکم ٹیکس کے دستخط کنندگان میں لکژمبرگ اور سوئٹزر لینڈ بھی شامل ہیں لیکن انھوں نے بینکوں کے بے نامی اکاونٹ اور ان میں جمع کرائی جانیوالی رقومات کی تفصیل سے استثنا کے بارے میں کوئی قدم اٹھانے کا عندیہ نہیں دیا۔امریکی حزب اختلاف کی ریپبلکن پارٹی کو بھی کم سے کم ٹیکس پر تحفظات ہیں۔ آئین و قانون کے باب میں ہمیں اپنی کم مائیگی یا بے مائیگی کا احساس ہے اسلئے یہ کہنا مشکل ہے کہ جوبائیڈن صدارتی فرمان کے ذریعے کم سے کم ٹیکس کو نافذ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں یا انھیں کانگریس (پارلیمان) سے قانون سازی کی ضرورت پڑیگی۔
اس ضمن میں برطانیہ کی سنجیدگی بھی مشکوک ہے۔ وزیراعظم بورس جانسن کثیر القومی کمپنیوں پر 15 فیصد ٹیکس کے پرجوش حامی ہں لیکن انھوں نے اپنی کالونیوں یعنی برمودا، جرسی اور برٹش ورجن آئی لینڈ پر برطانوی قانون نافذ کرنے کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ ان عوامل کی بناپر کم سے کم ٹیکس کی شرح کانفاذ ذرا مشکل نظر آرہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں یورپ بہت سنجیدہ ہے اور اکثر ممالک نے کاربن سے پاک ایندھن کے بارے اپنے اہداف طئے کرلئے ہیں۔ ایک عام خیال ہے کہ یورپ میں 2050 تک پیٹرول سے چلنے والی گاڑیاں متروک ہوجائینگی۔ اس حوالے سے چین بھی خاصہ پرعزم ہے۔اتفاق سے جس وقت جی 20 کے سربراہ روم میں موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات سے کرہ ارض کو محفوظ رکھنے کیلئے سرجوڑے بیٹھے تھے عین اسی وقت اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسکو Glasgowمیں کانفرنس آف پارٹیز یا COP-26کا اجلاس ہورہا تھا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے COP-26 کے سربراہ شری الوک شرما نے کہا کہ کرہ ارض پر درجہ حرارت میں اضافے کو ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈتک محدود رکھنا بے حد ضروری ہے اور یہ ہدف کاربن کے اخراج کو کم کرکے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔آگرہ میں جنم لینے والے 54 سالہ الوک شرما برطانوی پارلیمان کے رکن اور سابق وزیر ہیں۔ جی 20 کی ٹیکنیکل کمیٹی کا کہنا ہے کہ COP-26اور پیرس کلب کی سفارشات کو بنیاد بناتے ہوئے ایک جامع پالیسی ترتیب دی جائیگی۔
پیر یکم نومبر کو گروپ 20 کے رہنما روم سے COP-26میں شرکت کیلئے گلاسکو پہنچے جہاں 2050 تک اضافی کاربن کے اخراج کو صفر کی سطح پر لانے کا عہد کیا گیا جسے سائنسی اصطلاح میں Carbon Neutralityکہا جاتاہے۔ ترک، روسی اور چینی صدور نے COP-26 میں شرکت نہیں کی۔ موسمیاتی تبدیلی پر گفتگو انشااللہ آئندہ کسی نشست میں
کرونا کے بارے میں G-20 نے نئے variantsپر تحقیقاتی کام تیز کرنے کی تجویز منظور کرلی۔ صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ جدرین کاری (ویکسینیشن) کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ انکا موقف تھا کہاکرونا کے مکمل اختتام تک اسکا تعقب کرنا ہوگا کہ دنیا کے کسی کونے میں محدود ہوجانے پر بھی یہ نامراد ساری دنیا کیلئے خطرہ بنارہیگا۔ امریکہ نے کرونا سے بچاو کے ایک ارب ٹیکے تیسری دنیا کے ملکوں میں مفت تقسیم کئے ہیں۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 5 نومبر 2021
روزنامہ امت کراچی 5 نومبر 2021
ہفت روزہ دعوت دہلی 5 نومبر 2021
ہفت روزہ رہبر سرینگر 7 نومبر 2021
روزنامہ قومی صحافت لکھنو
No comments:
Post a Comment