Wednesday, December 11, 2019

الجزائر ۔۔ جدوجہد کے 31 سال


الجزائر ۔۔ جدوجہد کے 31 سال
الجزائر میں جمعرات (12 دسمبر) کو صدارتی انتخابات ہورہے  ہیں جسے الیکشن کے بجائے سیلیکشن کہنا زیادہ مناسب ہے کہ پانچوں امیدوار فوج کے حمائت یافتہ ہیں۔ الجزائر کے لوگ کل سے ان انتخابات کے خلاف دھرنا دئے بیٹھے ہیں۔اس موقع پر الجزائر یوں کی  جمہوری تاریخ پر ایک طائرانہ نظر جو  خواتین سمیت لاکھوں جوانوں کے پاکیزہ لہو سے  منور و معطر ہے۔
1988 میں جماعت سازی بحال ہوتے ہی مشہور حریت پسند رہنما ڈاکٹر عباسی مدنی نے دوسرے سیاسی کارکنوں کے ساتھ ملکر اسلامک سالویشن فرنٹ یا FISکی بنیاد رکھی۔ نفسیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھنے والےعباسی مدنی ایک سنجیدہ، بردبار اور اعتدال پسند سیاسی رہنما ہیں۔ آزادی کی جنگ میں یہ احمد بن بیلہ، حواری بومدین اور دوسرے حریت پسندرہنماوں کے شانہ بشانہ تھے ۔ مدنی صاحب ایک طویل عرصے تک فرانسیسیوں کی قید میں بھی رہے۔
 دنیا بھر کی عوامی تحریکوں کی طرح FIS نے بھی خدمتِ  خلق  کے میدان سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور سارے ملک میں اسکولوں، سستی روٹی کے تندور اور شفاخانوں کا جال بچھا دیا۔ جسکی وجہ سے اسے غریب لوگوں میں بے حد پزیرائی حاصل ہوئی۔ 12 جون 1990 کو ہونے وا لے  پہلے بلدیاتی  انتخابات میں FISنے 54 فیصد ووٹ لے کر تمام کی تمام بلدیات میں حکومت بنالی۔ بلدیاتی  اقتدار کو FISنے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے بہت ہی حکمت و تدبر سے استعمال کیا اور اسکی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہوا۔بلدیاتی انتخابات کے فوراً ہی بعد عام انتخابات کا اعلان کردیا گیا۔ رائے عامہ کے تمام جائزوں سے FIS کی کامیابی یقینی نظر آرہی تھی جس سے حکمراں طبقے کو سخت پریشانی ہوئی۔چنانچہ امرا نے اپنے خزانوں کے منہہ کھول دئے۔ سیکیولر عناصر، فوج ، کمیونسٹ اور تمام دین بیزاروں نےFIS کے خلاف متحدہ محاذ بنالیا حتیٰ کہ اہل جبہ و دستار اور صوفی ومشائخ بھی FIS مخالف سوشلسٹ  اتحاد میں شامل ہوگئے۔
شدید نظریاتی تناو کے باوجود چھ مہینوں پر محیط انتخابی مہم  انتہائی پر امن رہی اور ملک میں کسی ایک جگہ بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا۔ دسمبر1991 میں پارلیمنٹ کی430 نشستوں پر انتخابات ہوئے جس میں پچاس سے زیادہ جماعتوں  نے حصہ لیا۔ پہلے مرحلے میں231 نشستوں کا فیصلہ ہوا اور اسلامک فرنٹ نے سینتالیس فیصد سے زیادہ ووٹ لیکر 188نشستیں جیت لیں اسکی قریبی حریف سوشلسٹ فرنٹ کو 25  سیٹوں پر کامیابی نصیب ہوئی جبکہ صرف15 نشستیں حکمراں نیشنل لبریشن فرنٹ کے حصے میں آئیں ۔ باقی 199 نشستوں میں سے ایک سو ساٹھ پر اسلامک فرنٹ کو برتری حاصل تھی لیکن کل ووٹوں کا پچاس فیصد نہ ملنے کی بنا پر ان نشستوں پر دوسرے مرحلےکے Run-Off انتخابات ہونے تھے۔ سیاسی ماہرین کا خیال تھا کہ دوسرے مرحلے کا انتخاب مکمل ہونے پر اسلامک فرنٹ کو 430کے ایوان میں 350نشستیں حا صل ہونگی۔
سالویشن فرنٹ کی اس بے مثال کامیابی پر سارے ملک میں جشن کا سماں تھا۔ دیہاتوں میں لوگوں نے گھر کی منڈیروں پر  زیتون کے چراغ روشن کئے لیکن یہ جشن دوسری ہی صبح شامِ غریباں میں تبدیل ہوگیا جب فوج نے  اقتدار پر قبضہ کرکے انتخابات کو کالعدم کردیا۔ مذہبی بنیادوں پر بنائی جانیوالی جماعتوں پر پابندی لگادی گئی اور اسلام پسندوں کے خلاف بھر پور کاروائی کا آغاز ہوا۔ فرنٹ کی قیادت کو گرفتار کرکے اسکے کارکنوں کا بے دریغ قتلِ عام کیا گیا۔ایک اندازے کے مطابق اسلامک فرنٹ کے دولاکھ سے زیادہ کارکن  فوج کے ہاتھوں مارے گئے۔
دنیا میں جمہوریت کے سار ے علمبرداروں نے عوام امنگوں اور مینڈیٹ پر ڈالے جانیوالے ڈاکے کی بھرپور حمائت کی۔ یورپی یونین کا کہنا تھا کہ الجزائری فوج نے بروقت کاروائی کرکے  اپنے ملک کو گڑھے میں  گرنے سے بچالیا ہے۔ اسی پر جناب انو رمسعود نےکہا تھا
ہمیں جمہوریت اچھی لگے ہے ۔۔۔ اگر یہ الجزائر میں نہ ہووے
اس سال کے آغاز میں نوجوانوں نے تبدیلی کی جدوجہد کا آغاز کیا اور انکی پرامن مزاحمت کے نتیجے میں ملک پر مسلط پیر تسمہ پا صدر عبد العزيز بوتفليہ  نے قوم کی جان چھو ڑدی۔ لیکن  بیچارے الجزائری آسمان میں گر کر کھجور میں اٹک گئے اور  ملک کی باگ ڈور فوج کے سربراہ جنرل احمد قائد صلاح نے سنبھال لی۔ سینیٹ کے اسپیکر عبدلقادر بن صلاح کو عبوری صدر بنادیا گیا جو ایک عرصے سے بو تفلیہ کے سکریٹری بنے ہوئے تھے۔ فوج کے ایک اور فدوی نورالدین بدوی نے وزارت عظمیٰ سنبھال لی جسکے بعد کرپشن کی تحقیقات کو ڈول ڈالا گیا تاہم جال کچھ اس انداز میں بنا گیا کہ فوج کے دلارے اس سے صاف بچ جائیں
عوام کے دباو پر انتخابات کا اعلان ہوا لیکن احتیاط کا یہ عالم کہ 6 مہینے کی جانچ پڑتال کے بعد الیکشن کمیشن  نے جن 5 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظورکئے  وہ سب کے سب فوج کے منظور نظر اور 1988 میں عوام کی امنگوں پر ڈالے جانے والے شب خون کے منصوبہ ساز وں میں ہیں۔
عبدالمجید تبون اور علی بن فلس وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ عزیزالدین  محبوبی اور عبدالقادر بن قرنی بوتفلیہ حکومت کی کابینہ میں تھے۔ کسی حد تک نیا چہرہ عبدالعزیز البلاد ہیں جنکا تعلق المستقبل پارٹی سے ہے۔موصوف 2014 کے صدارتی انتخابات میں بوتفلیہ کے خلاف ایک فرمائشی (Dummy)امیدوار تھے
ایک طرف عوام اس تماشے کے خلاف سڑکوں پر ہیں تو فوج بھی بیرکوں سے باہر آچکی ہے۔ جنرل صلاح  کا کہنا ہے کہ ملک کو جمہوریت کی پٹری پر ڈالنے کیلئے انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت ضروری ہے۔ جنرل صاحب کو 'یقین' ہے کہ ووٹ ڈالنے کا تناسب 80 فیصد سے زیادہ ہوگا۔ کچھ دوراندیشوں کو حالات 1990 کی طرف واپس جاتے نظر آرہے ہیں۔
بعض وفادار انتخاب کے بائیکاٹ کو 'رحمت' قراردے رہے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ اگر عوام ووٹ ڈالنے نہ گئے تو اسکا مطلب ہوگا کہ عام لوگوں کو انتخابات و جمہوری کھکیڑ سےکوئی دلچسپی نہیں اوروہ جنرل صلاح کی حکومت کا تسلسل چاہتے ہیں تاکہ ترقی و خوشحالی کا سفر جاری رہے
  ساون کے اندھے کو ہرا ہی ہرا سوجھتا ہے۔

No comments:

Post a Comment