انکے شعروں میں گلوں کی خوشبو !! محترمہ پروین شاکر
آج 26دسمبر
مشہور شاعرہ پروین شاکر کا25 واں یوم وفات ہے۔ پروین شاکر کے آباواجداد کو
تعلق ضلع دربھنگہ بہار سے تھا۔ اس اعتبار سے ہم ان کو دبستان عظیم آباد سے وابستہ
شاعرہ کہہ سکتے ہیں تاہم انکی ولادت کراچی میں ہوئی۔ شاعری میں وہ اپنے والد جناب
ثاقب حسین شاکر سے اصلاح لیتی تھیں اور اسی وجہ انھوں نے شاکر کا تخلص اختیار کیا۔
کچھ عرصہ انھوں نے مینا بھی بطور تخلص استعمال کیا۔جب وہ صرف 15 برس کی تھیں تو
انکی شادی کردی گئی ۔ انھوں نے شادی کے بعد تعلیم جاری رکھی اور جامعہ کراچی سے
انگریزی ادب اور لسانیت میں ایم اے کیا۔ انھوں نے ابلاغ عامہ میں پی ایچ ڈی کے علاوہ جامعہ ہارورڈ سے بینکنگ
ایڈمنسٹریشن میں ایم اےبھی کیا۔ پروین شاکر نے عملی زندگی کا
آغاز معلمی سے کیا اورعبداللہ گرلز کالج میں انگریزی کی لکچرر مقرر ہوئیں۔ اسکی کے
ساتھ انھوں نے سول سروس کاامتحان امتیاز سے ساتھ پاس کیا
اور محکمہ کسٹمز میں کلکٹرتعینات ہوئیں۔پروین شاکر احمد ندیم قاسمی
سے بے حد متاثر تھیں اور انہیں عمو جان کہا کرتی تھیں۔پہلا مجموعہ خوشبو انہی کے
نام منسوب ہے ۔ انکے مجموعہ ہائے کلام خوشبو، خودکلامی، صدبرگ، انکار، ماہِ تمام
اور کفِ آئینہ کے عنوان سے شایع ہوئے اور سب ہی
کو پزیرائی نصیب ہوئی۔ انکی نثری تخلیق
گوشہِ چشم بھی خاصہ مقبول ہوئی۔
پروین شاکر 26دسمبر 1994کو اسلام
آباد کے نزدیک ایک ٹریفک حادثے میں انتقال کرگئیں۔ اسوقت انکی عمر 42 برس تھی۔
پروین شاکر کی ایک غزل کے چند اشعار
بارش ہوئی تو پھولوں کے تن چاک ہوگئے
موسم کے ہاتھ بھیگ کے سفاک ہو گئے
بادل کو کیا خبر ہے کہ بارش کی چاہ میں
کیسے بلند و بالا شجر خاک ہو گئے
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
لہرا رہی ہے برف کی چادر ہٹا کے گھاس
سورج کی شہ پہ تنکے بھی بے باک ہو گئے
بستی میں جتنے آب گزیدہ تھے سب کے سب
دریا کے رخ بدلتے ہی تیراک ہو گئے
سورج دماغ لوگ بھی ابلاغ فکر میں
زلف شب فراق کے پیچاک ہو گئے
جب بھی غریب شہر سے کچھ گفتگو ہوئی
لہجے ہوائے شام کے نمناک ہو گئے
No comments:
Post a Comment