Thursday, December 5, 2019

ناجائز قبضے کو قانونی تحفظ دینے کا عندیہ


ناجائز قبضے کو قانونی تحفظ دینے کا عندیہ
امریکی وزیرخارجہ مائک پومپیو نے کہا ہے کہ انکا ملک دریائے اردن کے مغربی کنارے پر اسرائیلی بستیوں کے بارے میں اپنا موقف تبدیل کر رہا ہے۔
اسرائیل نے 1967کی جنگ کے دوران غزہ، مشرقی بیت المقدس، دریائے اردن کے مغربی کنارے اور گولان پہاڑیوں کے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا تھا۔تل ابیب ایک عرصے سے مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقوں میں آباد فلسطینیوں کو بیدخل کرکے اپنے شہریوں کیلئےبستیاں بنارہا ہے۔اب تک ایسی 140 بستیاں تعمیر کی گئی ہیں جن میں 5 لاکھ سے زیادہ اسرائیلی آباد کار رہائش پزیر ہیں۔ دوسری طرف ان آبادیوں کے قیام سے لاکھوں فلسطینی بے گھر ہوگئے ہیں۔
اقوام متحدہ اور امریکہ سمیت ساری مہذب دنیا فلسطینی سرزمین پر اسرائیلیوں کی آباد کاری کو بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی قراردیتی چلی آئی ہے۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پائیدان امن کیلئے فلسطینیوں کی اپنی بستیوں اور گھروں میں باوقار واپسی ضروری ہے۔ ساری دنیا اسرائیل اور فلسطین کے نام سے دو خودمختار ریاستوں کے قیام کی حامی ہے اور اسرائیلی بستیاں ختم کئے بغیر  آزاد فلسطین کا قیام  ممکن نہیں۔تاہم اسرائیل عالمی برادری کے اس موقف کو تسلیم نہیں کرتا۔
1978میں سابق صدر جمی کارٹر کی حکومت نے اس ضمن میں دوٹوک موقف اختیار کیا تھا کہ  مغربی کنارے پر اسرائیلی بستیوں کا قیام بین الاقوامی قوانین سے متصادم ہے۔ 1981 میں صدر ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر رونالڈ ریگن نے پالیسی میں ترمیم کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ عرب علاقوں میں بستیوں کا قیام غیر قانونی نہیں لیکن ان بستیوں سے فلسطینیوں میں اشتعال پھیل رہا ہے جو قیام امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اسکے بعد سے تمام امریکی حکومتوں نے مقبوضہ عرب علاقوں میں قائم اسرائیلی بستیوں کو ناجائز تو کہا لیکن اسے غیرقانونی کہنے سے گریز کیا۔
 دوسری طرف اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری اپنے اس موقف پر سختی سے قائم ہے کہ مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کا قیام غیر قانونی اور چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔ اس ضابطے کے تحت قابض ملک کو مقبوضہ علاقوں میں کالونیاں قائم کرنے کی اجازت نہیں لہٰذا مقبوضہ عرب علاقوں میں بستیوں کا قیام غیر قانونی، ناجائز  اور غیر اخلاقی ہے جس سے علاقے کے امن کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ 
 پیر 18 نومبر کو واشنگٹن میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ نے کہا کہ انکامحکمہ 1978 کے قانونی مشورے کو رد کر رہا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں سول بستیوں کی تعمیر ’’بین الاقوامی قانون سے مطابقت نہیں رکھتی‘‘۔ انھوں نے کہا کہ امریکی انتظامیہ قانونی جنگ کے تناظر میں تمام پہلووں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد  صدر ریگن کے نظریات سے اتفاق کرتی ہے یعنی مغربی کنارے پر اسرائیلی شہریوں کی آبادکاری بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ صدر ریگن کا موقف نقل کرتے ہوئے امریکی وزیرخاجہ بہت خوبصورتی سے آنجہانی ریگن کے اس جملے کو حذف کرگئے کہ ' بستیوں کے قیام سے فلسطینیوں میں اشتعال پھیل رہا ہے جو قیام امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے'
امریکی وزیر خارجہ نے موقف اختیار کیا کہ اس تنازعے کا عدالتی حل ممکن نہیں اور اس پر غیر ضروری بحث سے  قیام امن کا مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ وزیر موصوف کے خیال میں یہ ایک پیچیدہ سیاسی مسئلہ ہےجو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان براہ راست بات چیت کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ قیام امن میں مدد فراہم کیلئے پر عزم ہے اور اس ضمن میں واشنگٹن کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے۔ انکا کہنا تھا کہ زمینی حقائق کو تسلیم کرکے ہی امن کی طرف پیش قدمی ممکن ہے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو المعروف بی بی نے مغربی کنارے سے متعلق مائیک پومپیو کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ایک  تاریخی غلطی درست کرنے کی جانب اہم قدم قرار دیا۔ بی بی نے توقع ظاہر کی کہ دیگر ممالک بھی امریکہ کی طرح اپنی پالیسی میں تبدیلی لائیں گے۔
ایک 52 سالہ پرانے مسئلے پر امریکی حکومت کے موقف میں  ترمیم فلسطینیوں کے حقوق کے حوالے سے بے حسی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ جبر کے بل پر مسلط کی گئی تبدیلی کو زمینی حقیقت قراردینا ظلم کو حق تسلیم کرلینے کے برابر ہے۔ صدر ٹرمپ اسی کلیئے کے تحت بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت اور گولان کے مقبوضہ شامی علاقوں کو اسرائیل کا اٹوٹ انگ مان چکے ہیں۔مشرق وسطیٰ میں تناو، کشیدگی اور 70 سال سے جاری خونریزی کی وجہ اسرائیل کا توسیع پسندانہ نقطہ نظر ہے۔ تل ابیب مقبوضہ عرب علاقوں کو خالی کرنے پر تیار نہیں اور امریکہ و مغرب کی جانب سے اسرائیل کی غیر مشروط مدد نے معاملے کو مزید سنگین بنادیا ہے۔عسکری مدد کے ساتھ اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں میں امریکہ کی پشت پناہی کا فائدہ اٹھاکر اسرائیل نے غاصبانہ قبضے کے خلاف فلسطینیوں کی پر امن جدوجہد پر دہشت گردی کا ٹھپہ لگادیا ہے جسکی وجہ سے اسرائیل پر اخلاقی دباو بھی اب نہ ہونے کے برابر ہے۔ موثر ترغیب کاری (Lobbying)کے نتیجے میں امریکی ذرایع ابلاغ اور رائے عامہ پر بھی اسرائیل کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی سیاستدان حکومتی پالیسی میں اس غیر منطقی تبدیلی پر ناراضگی کے اظہار اورتنقید تو ایک طرف اپنی انتظامیہ سے وضاحت طلب کرنے کی جرات بھی نہیں کرسکے۔ 2020 کے انتخابات کیلئے ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک درجن کے قریب خواہشمندوں میں سے صرف سینیٹر برنی سینڈرز نے کہا کہ مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کا قیام غیر قانونی ہے۔ سینیٹر صاحب نے صدر ٹرمپ کے انتہاپسندوں کی طرف جھکاو پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے امریکی سفارتکاری کیلئے  نقصان دہ قرارادیا۔
یورپین یونین نے بھی امریکی حکومت کے موقف کو مسترد کردیا۔ برسلز میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے خارجہ امور کی نگراں محترمہ فیڈریکا موغیرنی نے دوٹوک انداز میں کہاکہ مشرقی یروشلم سمیت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی  بستیوں کی تعمیر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور ان  تمام اقدامات کو فوری طور پر روک دینا قیام امن کیلئے ضروری ہے۔
یورپی یونین، روس، چین اور دوسرے ممالک کی جانب سے امریکی موقف پر تنقید اور عرب علاقوں میں اسرائیلی آبادیوں کی تعمیر کو مسترد کردینے کا اعلان  خوش آئند ہے لیکن قوت تنفیذ سے محروم یہ عزم مشغلہ زبان سے زیادہ کچھ نہیں۔ اقوام عالم  کا فیصلہ کن ادارہ صرف اور صرف سلامتی کونسل ہے جہاں کسی بھی قرارداد پر عملدرآمد کیلئے 'پانچ بڑوں' کا متفق ہونا ضروری ہے۔ سلامتی کونسل میں پیش کی جانیوالی اسرائیل کے خلافِ منشا ہر تجویز کو امریکی ویٹو ڈھیر کردیتا ہے اور اس بار بھی یہی کچھ متوقع ہے۔ بقول انور مسعود
تمہاری بھینس کیسے ہے کہ جب لاٹھی ہماری ہے
اب اس لاٹھی کی زد پر جو بھی آئے سو ہمارا ہے
مذمت کاریوں سے تم ہمارا کیا بگاڑو گے
تمہارے ووٹ کیا ہوتے ہیں جب ویٹو ہمارا ہے
ہفت روزہ دعوت دہلی 27 نومبر 2019

No comments:

Post a Comment