Thursday, February 25, 2021

فرانس کا نیا قانون! ایک جائزہ

فرانس کا نیا قانون!  ایک جائزہ

آخرِ کار 16 فروری کو فرانس کی قومی اسمبلی نے مسلم مخالف بلکہ مسلم کش بل منظور کرلیا۔ تحفطِ توقیرِ جمہوریہ Supporting respect for the principles of the Republicکے نام سے منظور ہونے والے اس مسودہ قانون کے حق میں 347 ووٹ آئے،  151 ارکان نے اسکی مخالفت کی جبکہ 65 ارکان نے راے دینے سے گریز کیا۔ فرانسیسی قومی اسمبلی کے کل ارکان کی تعداد 577 ہے۔ اب یہ قرارداد 30 مارچ کو سینیٹ میں پیش کی جائیگی جہاں سے منظوری کے بعد صدر میخواں کی توثیق اسے قانون کی شکل دیدیگی۔ ایک سو پندرہ سال پہلے یعنی 1905 میں فرانسیسی پارلیمان نے  ریاست اور کلیسا کو علیحدہ کرنےکا فیصلہ کیا تھا۔

بل کے محرک وزیرداخلہ Gerald Darmanin نے بل کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نئے قانون کا مقصد مذہبی انتہاپسندی سے ریپبلک کا تحفظ ہے۔ پارلیمان میں بحث کے دوران انھوں نے موقف اختیار کیا کہ کچھ مذہبی عناصر فرانسیسی اقدار اور آئین کے متوازی نظام قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اگر اس خطرے کا فوری سدباب نہ کیا گیا تو مملکت کا وجود خطرے میں پڑسکتا ہے۔ اسی بنا پر مجوزہ مسودہ کو separatistبل بھی کہا جارہا ہے۔صدر مٰیخواں پہلے Islamic Separatismکہاکرتے تھے لیکن اب اسلامک کالفظ ہٹادیاگیاہے،تاہم وزیرداخلہ کے مطابق اسلامزم Islamismکی حوصلہ شکنی مجوزہ قانوں کا بنیادی ہدف ہے۔

مخالفین کا کہنا ہے کہ ریاستی معاملات میں مذہبی مداخلت اور انتہاپسندی سے جُڑے تمام خدشات کا 1905 کے قانون میں مکمل احاطہ کیا جاچکا ہے۔ اس تاریخ ساز قانون میں انتہائی صراحت سے درج ہے کہ 'ریاستی عملداری کو یقینی بنانے والے افراد اور ادارے کسی بھی طرح کی مذہبی علامات کو استعمال نہیں کر سکتے' چنانچہ سوسال سے جاری اور نافذ العمل قانون کے ہوتے ہوئے اسی موضوع پر ایک نیا بل نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ اس سے حکومت کی بدنیتی ظاہر ہورہی ہے۔

اس قانون پر گفتگو سے پہلے فرانسیسی مسلمانوں کی تاریخ پر چند سطور کہ  اسلامی دنیا کے کچھ روشن خیال کہہ رہے ہیں کہ اگر مسلمانوں کیلئے یہ قانون ناقابل قبول ہے تو وہ فرانس چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ فرانس میں آباد مسلمان پاک و ہند یا عرب ممالک کے تارکین وطن ہیں۔ لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ فرانس میں آباد مسلمانوں کی تعداد 60لاکھ یا کل آبادی کا 5 فیصد ہے۔ یہاں افریقیوں کی آمد کا آغاز سولہویں صدی میں ہوا جب افریقہ کے ساحلوں سے ہزاروں کی تعداد میں افریقیوں کو پکڑ کر یہاں لایا گیا۔افریقہ کے ساحلوں سے غلام پکڑنا ایک باقاعدہ تجارت تھی۔ یہ افریقی مویشیوں کے 'گلوں' کی طرح ہالینڈ لائے جاتے جہاں غلاموں کی منڈیاں سجتی تھیں۔اس گھناونے کاروبار کوAtlantic Slave Tradeکا نام دیاگیا۔ منڈی لائے جانیوالے زیادہ تر غلام تو 'نئی دنیا' یا امریکہ روانہ کردئے گئے لیکن فرانس، بیلجیم اور ہالینڈ میں بھی ان تنومند غلاموں کی مانگ تھی۔ خیال ہے کہ  سرالیوں، گبون اور شمالی افریقہ سے ایک لاکھ غلام پکڑ کر فرانس لائے گئے۔

اسوقت فرانس اتنا مضبوط نہ تھا کہ دوسرے ملکوں پر قبضہ کرتا۔جب تک عثمانی بحریہ مضبوط و موثر رہی بحرروم میں یورپی اقوام کو پر مارنے کی ہمت نہ تھی لیکن 1800 میں سلطنت کے زوال کا آغاز ہوا تو فرانسیسی بحریہ نے بحر روم میں گشت شروع کردیا۔فرانس گندم، زیتوں اور دوسری غذائی اجناس الجزائر سے درآمد کرتا تھا، جو اسوقت ترک خلافت کا حصہ تھا۔ روائتی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خلافت عثمانیہ اپنے فرانسیسی دوستوں کو ادھار مال فراہم کرتی تھی۔جب ادھار کی رقم حد سے بڑھ گئی تو عثمانیوں نے ادائیگی کا تقاضہ شروع کردیا لیکن فرانس اسے وعدہ فردا پر ٹالتا رہا۔مجبورا ترکوں نے 'ادھار بند ہے' کا نوٹس جاری کردیا اور سامان لینے کیلئے آنے والے فرانسیسی جہازوں کو الجزائر کی بندرگاہ سے خالی لوٹادیا گیا۔ چوری اور سینہ زوری کہ فرانس کے بادشاہ چارلس دہم  ترکوں کی اس 'حرکت' پر سخت مشتعل ہوگئے۔ واضح رہے کہ ادھار ایک یا دوماہ کا نہ تھا بلکہ فرانس دمڑی دئے بغیر  31 سال سے ادھار مال خرید رہا تھا۔

 اسوقت تک ترک سلطنت کمزور ہوچکی تھی جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے16 مئی 1830 کو فرانس کے 103 جنگی جہاز الجزائر پر حملہ آور ہوئے۔ ترک فوج کیلئے دفاع مشکل تھا اور جلد ہی فرانسیسیوں نے پورےالجزائر اور تیونس و مراکش کے کچھ حصوں پر قبضہ کرلیا۔ اس دوران فرانسیسیوں نے عرب ترک نفرت کے بیج بوئے اور کچھ ضمیر فروش الجزائری، ترکوں کے مقابلے میں فرانس کا ساتھ دینے پر آمادہ ہوگئے جنھیں فوجی تربیت دیکر 'حرکۃ' کے نام سے نیم فوجی دستہ تشکیل دیدیاگیا۔ حرکہ کا کام مقامی حریت پسندوں کی جاسوسی اور شب خون تھا۔ حرکیز کی مدد سے فرانس نے قبضے کو مستحکم کرلیا اور 1848 میں الجزائر کو سلطنت فرانس کا حصہ بنادیا گیا۔ وفاداری کے انعام میں حرکیز کو فرانسیسی شہریت دیدی گئی اور ان سپاہیوں نے اپنے بال بچوں کو حفاظت کیلئے فرانس بھیج دیا۔جلد ہی تحریک آزادی شروع ہوئی۔ حریت پسندوں کا اولین ہدف حرکی غدار تھے لیکن بھاری تنخواہ اور مراعات کی بنا پر حرکیز کی تعداد بڑھتی رہی اور جب 1962 میں الجزائر کی تحریک آزادی کامیاب ہوئی تو ایک لاکھ کے قریب حرکی بھی پسپا ہوتی فرانسیسی فوج کیساتھ فرانس چلے گئے۔ ان لوگوں کو فرانسیسی پولیس میں  ملازمتیں دی گئیں۔ وقت کے ساتھ انکے رشتے دار بھی فرانس آگئے۔ قبضے کے دوران فرانسیسی فوج نے جو بہیمانہ تشدد کیا تھا اسکے کفارے کے طور پر بہت سے نوجوان الجزائریوں کو فرانس کے اسکولوں اور جامعات میں داخلے دئے گئے۔

اِسوقت فرانس میں آباد الجزائری، تیونسی اور مراکشی مسلمانوں کی تعداد 45 لاکھ کے قریب ہے۔ دوسرے افریقی مسلمان 5 لاکھ ہیں جو دراصل ان غلاموں کی اولاد ہیں جنھیں یورپ کے وحشیوں نے انکے گلی محلوں سے شکار کیا تھا۔ یعنی 84 فیصد مسلمان پکڑے ہوئے غلاموں اور حرکیز کی اولاد ہیں جنکی کئی نسلوں نے فرانس میں جنم لیاہے۔امارات کے وزیرمملکت برائے امور خارجہ محمد انور قرقاش جیسے روشن خیال، فرانسیسی مسلمانوں کو پاس کر یا بر دشت کر کا جو مشورہ دے رہے ہیں وہ ذرا بتائیں کہ کونسا ملک فرانسیسی مسلمانوں کو قبول کریگا اور یہ لوگ اپنا ملک کیوں چھوڑیں۔ ہم اسی زمیں کی ہیں خاک سے، یہیں خاک اپنی ملائینگے۔جناب قرقاش کا مشورہ سن کر ہمیں چند سال پرانی بات یاد گئی۔ لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کو تہہِ تیغ اور ہزاروں معصوم بچیوں کو بے آبرو کرنے کے بعد برمی فوج نے پچیس لاکھ  مسلمانوں کو مویشیوں کی طرح ہنکا کر بنگلہ دیش کی سرحد پر پہنچا دیا۔ جب وزیراعظم حسینہ واجد نے ملک کی بند کرادیں تو محترمہ سان سوچی نے بہت ڈھٹائی بلکہ بے شرمی سےکہا 'ہم نے تو 'بنگالیوں' کو بحفاظت انکے ملک کی سرحد تک پہنچادیا لیکن بنگلہ دیش نے اپنے شہریوں پر سرحدیں بند کردی ہیں۔' محترمہ نے اقوام متحدہ سے کہا وہ ڈھاکہ پر دباو ڈال کر سرحدیں کھلوائے۔   

فرانسیسی حکومت کا دعوی ہے کہ قانون کا مقصد ہر فرد کو فرانسیسی معاشرے میں 'عملاً'شامل کرنا ہے۔ قانون کے مصنفین نے بہ کمالِ مہارت  بہت سے ایسی نکات بھی اس میں شامل کردئے ہیں جس پر کسی کو اعتراض نہیں، مثلاً بالجبر نکاح، شادی سے پہلے کنوارگی کا ٹیسٹ، کثرت ازدواج پر پابندی وغیرہ۔ بل کے مخالفین نے وزیرداخلہ کو توجہ دلائی کہ یہ قوانین تو پہلے سے نافذ ہیں جس پر آج تک کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اسی طرح عبادت گاہوں میں انتہاپسندی کی اشاعت یا خطبے کے دوران دوسرے ملکوں کی حمائت یا مذمت پر پابندی انتہائی مبہم نکات ہیں۔ اسکاتو  مطلب ہوا کہ فلسطین یا سنکیانگ میں ہونے والے مظالم پر آواز نہیں اٹھائی جاسکتی؟ اگر ایسا ہے تو کہاں گئی آزادیِ اظہار رائے؟

قانون میں کہا گیا ہے کہ تمام لسانی، مذہبی و ثقافتی طبقات کیلئے ملک کے سیکولر تشخص کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ تمام مذہبی تنظیموں کو لکھ کر دینا ہوگا کہ وہ ’فرانس کی لبرل اور روشن خیال اقدار‘ کو تسلیم کرتے ہیں۔ ایسی تنظیموں اور عبادت گاہوں کی نگرانی کو ضروری قرار دیا گیا ہے جو ’انتہا پسندانہ عقیدے کو فروغ دینے میں مصروف ہیں۔‘اگر کسی مذہبی رہنما کے متعلق پتا چلا کہ وہ فرانسیسی اقدار کے خلاف بات کرتا ہے تو اسے معزول کیا جا سکے گا۔ ان شقوں کو متعصب عناصر اپنے مقصد کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔ سارا قانون انتہاپسندی کی مذمت سے بھرا پڑا ہے لیکن کہیں بھی انتہا پسندی کی تعریف بیان نہیں کی گئی۔ ایک وقت ترکی میں  لاوڈاسپیکر پر سورہ اخلاص پڑھناانتہا پسندی تھا کہ اس سے مسیحیوں کی دل شکنی ہوتی ہے۔

قانون کے تحت تین سال سے زیادہ عمر کے بچوں کو گھر پر دی جانیوالی تعلیم کے نصاب کی منظوری ضروری ہے۔مساجد کے ساتھ گھروں پر بھی ناظرہ قران کی تعلیم کیلئے باقاعدہ اجازت لینی ہوگی۔ محلوں میں قائم مکتب اسکول کے ساتھ خواتین نے محلے کی بچیوں کو ایک جگہ بلاکر قران پڑھانے کا جو سلسلہ قائم کررکھا ہے وہ اب غیر قانونی تصور ہوگا۔

نجی کاروبار، دوکانوں اور کھیل کے مراکز (اسپورٹس کلب) میں بھی سیکولرازم کے اصولوں کا احترام یقینی بنانا ہوگا۔ یعنی کوئی خاتون اپنی نجی دوکان پر بھی اسکارف نہیں اوڑھ سکتی۔ اسی طرح مسلم کمیونٹی اسپورٹس کلب کے تالابوں میں بھی خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ وقت مقرر کرنے پر پابندی ہوگی جسکی خلاف ورزی پر پانچ سال قید اور 75 ہزار یورو جرمانہ ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم ژاں کیسٹکس مصر ہیں کہ یہ قانون اسلام کے خلاف نہیں لیکن بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھانے پر پابندی کو اور کیا نام دیا جاسکتا ہے۔

دلچسپ بات کہ دائیں بازو کی تنظیمیں ان اقدامات کو ناکافی قراردے رہی ہیں۔ نیشنل ریلی پارٹی کی سربراہ میرین لاپن کا کہنا ہے کہ قانوں بہت نرم ہے اورحکومت نے اسلامی انتہاپسندی کو نشانہ بنانے کےبجائے اسے عام بناکرسب لوگوں کی آزادی سلب کرلی ہے۔ پارٹی کے نائب صدر جورڈن بردیلا نے شکوہ کیا کہ تیر بہدف نہیں، بس کاروائی ڈالنے والی بات ہے۔ ریلی پارٹی سینیٹ میں بحث کے دوران ترمیم بل پیش کرنے ارادہ رکھتی ہے۔ سیکیولر و ترقی پسند اسلام کے ایک داعی اور فاونڈیشن فار اسلام آف فرانس کے سربراہ بلغالب بن شیخ فرماتے ہیں کہ یہ بل ہے تو غیر منصفانہ لیکن انتہا پسندی کے سدباب کیلئے ضروری ہے۔

اسلام کے حوالے سے فرانسیسی اور چینی حکومت کے اقدامات، فلسفے، طریقہ کار اور دلائل میں گہری مماثلت دکھائی دے رہی ہے۔ چینی حکومت کا سرکاری موقف بھی یہی ہے کہ انکے اقدامات کا مقصد مسلمانوں کو قومی دھارے میں لانا ہے۔کمیونسٹ پارٹی کا کہنا ہے چینی ثقافت کا فروغ ترجیح اول ہے اور اسے مذہبی عقائد پر قربان نہیں کیا جاسکتا۔ انکا خیال ہے کہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے ذکر سے قوم تقسیم ہوتی ہے لہذا لباس، اکل وشرب جیسے معاملات میں ساری قوم کو ہم اہنگ ہونا چاہے۔ کچھ ایسا ہی فلسفہ فرانسیسی قانون کی پشت پر کارفرما ہے کہ مسلم بچوں کیلئے قرآن کی تعلیم  نصاب کی تقسیم کے مترادف ہے۔ اسی طرح عوامی مقامات پر اسکارف یا ساحل سمندر اورنہانے کے تالابوں پر مسلمان اور غیر مسلم خواتین کے مختلف لباس سے قومی یکجہتی متاثر ہوتی ہے۔  

معاملہ صرف قانون کا نہیں بلکہ مسلمان عقائد اور ثقافت کے خلاف زہریلی مہم سے عوامی سطح پر مسلمانوں کی تہذیب حتیٰ کہ عربی زبان کے خلاف نفرت پھیل رہی ہے۔ گزشتہ دنوں الجزیرہ کی ایک مراکشی نژاد صحافی حفصہ علامی نے بتایا کہ چند روز قبل وہ بس میں سفر کررہی تھی کہ اسکی ایک عرب سہیلی کا فون آیا۔ جسے ہی  حفصہ نے اپنی دوست سے عربی میں بات شروع کی، ساتھ بیٹھی فرانسیسی خاتون سخت مشتعل ہوگئی اور اس نے حفصہ کو حقارت سے دہشت گرد اور پناہ گیر کہا۔ معاملہ اتنا بڑھا کہ ڈرائیور نے بس روک کر پولیس کو طلب کیا۔ حفصہ اسکارف کے بغیر جدید ترین مغربی لباس میں تھی۔ پولیس افسر نے بھی حفصہ سے کہا کہ عرب ثقافت ذہنی پسماندگی کی علامت ہے۔ جب تم  فرانس میں ہو فرانسیسی ہی بولو۔ حفصہ کا خیال ہے کہ بدترین پروپیگنڈے کے نتیجے میں فرانسیسیوں میں یہ تاثر عام ہوگیا ہے کہ مسلمان جاہل اور غریب پناہ گزین ہیں۔ ویغور مسلمانوں کو بھی عربی الفاظ استعمال کرنے کی اجازت نہیں حتیٰ کہ ملاقات کے دوران سلام کے بجائے چینی زبان میں تہنیت اور استقبالی جملے کہنے پر اصرار کیا جارہا ہے۔

یہ بات بالکل درست کہ قانون میں کہیں بھی اسلام یا مسلمانوں کا نام نہیں لیا گیالیکن سماجیات کے فرانسیسی علما خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ اس قانون کے نتیجے میں دیوار سے لگے مسلمان اجنبیت اور معاشرتی بیگانگی کا شکار ہوں گے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور حکومتی عُمّال مسلمانوں کو ایک عام شہری کے بجائے اجنبی اور درانداز کے طور پر دیکھیں گے۔ مسلمان ہونا جرم بن جائے گا جس کے نتیجے میں مسلمان اپنی عبادت گاہوں میں جانے سے گریز کریں گے۔ فرانسیسی دانشوروں کا خیال ہے کہ فرانسیسی مسلمانوں کی زندگیاں مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہیں۔اس قانون کے بعد یہ لوگ آزادانہ گھومنے پھرنے میں خوف محسوس کرینگے اور سماجی سرگرمیاں اپنے محلوں تک محدودکردینگے جس سے نسل پرست اور انتہا پسند قوتوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔

اس ساری صورتحال پر پیرس میں مقیم ایک پاکستانی دانشور ڈاکٹر اسد الرحمان نے بڑا شاندارتبصرہ کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں 'میں اب تک یہ نہیں سمجھ سکا کہ ژاں پال سارتر(Jean-Paul Sartre)، روسو (Rousseau)، والٹائر(Voltaire)، البرٹ کامیو (Albert Camus)جیسے دانشوروں اور روشن خیالوں کے ملک میں سیکولرازم اتنا سخت گیر کیسے ہو رہا ہے۔ دوسرے فرانسییسی دانشوروں کے تجزیوں سے اتفاق کرتے ہوئے جناب  اسد الرحمان نے کہا کہ بظاہر تو اس قانون کا مقصد مسلمانوں کی معاشرے سے علیحدگی کو ختم کرنا لیکن اسکے لئے جوبھونڈاطریقہ کار تجویز کیا گیا ہے وہ  فرانسیسی معاشرے اور مسلمانوں کے درمیان حائل خلیج کو مزید بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے ۔ (حوالہ بی بی سی)

علمائے سیاست کا خیال ہے کہ صدر میخواں اور انکے اتحادی اپنی ڈوبتی نیّا کو سہارا دینے کیلئے مسلمانوں کو قربانی کا بکرا بنارہے ہیں۔ پورے یورپ کی طرح فرانس بھی کساد بازاری کا شکار ہے، نامراد کرونا نے صورتحال کو مزید خراب کردیا ہے، خوش و خرم و خوشحال پیرس کی رونقیں ماند پڑگئی ہیں۔ بے روزگاری، مہنگائی اور سہولیات میں کمی نے لوگوں کو خودغرض و انتہا پسند بنا دیا ہے۔ دباو میں آکر لبرل و ترقی پسند سیاسی قوتیں بھی انتہا پسند اور سخت گیر ہوتی جارہی ہیں۔جناب میخواں کو اگلے برس انتخابات کا سامنا ہے اور انکی اصل حریف میرین لاپین نے 'نااہل میخوان' کے عنوان سے انتخابی مہم شروع کررکھی ہے جسکی عوامی حمائت میں برابر اضافہ ہورہاہے۔ فرانسیسی صدر کو اندازہ ہے کہ نیشنل فرنٹ کی اصل قوت مسلم مخالف عناصر ہیں۔ سیاسی مبصرین کے خیال میں مسلمانوں کے خلاف مہم کا بنیادی مقصد میری لاپن کے ووٹ بینک میں نقب لگاناہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 26 فروری 2021

ہفت روزہ دعوت دہلی 25 فروری 2021

روزنامہ امت کراچی 26 فرور 2021

ہفت روزہ رہبر سرینگر 28 فروری


2021

 

Monday, February 22, 2021

ویغور مسلمانوں سے بدسلوکی، نسل کشی ہے! کینڈین پارلیمان کی قرارداد

ویغور مسلمانوں سے بدسلوکی، نسل کشی ہے! کینڈین پارلیمان کی قرارداد

 کینیڈاکی پارلیمان نے آج ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی  جس میں بڑی صراحت سے کہا گیا ہے کہ ویغور اقلیت سے چینی حکومت کی بدسلوکی نسل کشی کے مترادف ہے۔ قرارداد کی منظوری سے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو پر چین کیخلاف تادیبی کاروائی کیلئے دباو تو پڑیگا لیکن اس پر عملدرآمد حکومت کیلئے ضروری نہیں کہ قرارداد کے مسودے کو ایوان کے سامنے پیش کرنے پہلے مجلس قائمہ سے اسکی توثیق نہیں کرائی گئی۔ پارلیمانی اصطلاح میں  اس قسم کی تحریکات کو Non-binding  motions کہتے ہیں۔

تحریک، حزب اختلاف کی قدامت پسند پارٹی کی جانب سے پیش کی گئی جسکے حق میں 266 ووٹ آئے۔ کسی بھی رکن نے مخالفت نہیں کی لیکن وزیراعظم ٹروڈو اور انکے وزرا نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔

قرارداد کے ابتدائی مسودے میں عالمی اولمپک کمیٹی سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ اگر چین ویغوروں  سے حسن سلوک کی ضمانت نہیں دیتا تو 2022کے اولمپک مقابلے بیجنگ سے کہیں اور منتقل کردئے جائیں ،لیکن وزیراعظم کی درخواست پریہ شق حذف کردی گئی۔

قائد حزب اختلاف اور قرارداد کے مجوز  ایرن او ٹول (Erin O’Toole) نے پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دس لاکھ سے زیادہ  ویغور اور ترک نژاد چینی مسلمان بیگار کیمپوں میں ہیں۔ اس ضمن میں عینی شاہدین کے بیانات سن کر ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کنیڈا آزاد تجارت پر یقین رکھتا ہے اور ایک  قدامت کی حیثیت سے میں بلاروک ٹوک تجارت و لین دین پرفخر کرتا ہوں لیکن (منافع کیلئے) ہم اپنی اقدار کو فروخت نہیں کرسکتے۔یہ چین پر تجارتی پابندیاں عائد کرنے کی طرف مبہم سا اشارا تھا۔

دوہفتہ قبل ، فون پر اپنے چینی ہم منصب سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی ویغور مسلم اقلیتوں کے ساتھ  بدسلوکی پر تشویش کا اظہار کیاتھا۔ اس  سے دو روز پہلےامریکی وزیرخارجہ انتھونی بلینکن نے چینی کمیونسٹ پولٹ بیورو (مجلس شوری) کے سینئر  رکن  یانگ جیچی Yang Jericho کو و یغور مسلمانوں کی حالت زار، خاص طور سے  خواتین کی عصمت دری اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں پر امریکہ کی تشویش سے آگاہ کیا تھا۔

دوسری طرف آج قوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن (HRC)سے خطاب کرتے ہوئے چینی وزیرخارجہ وانگ ژی نے ویغوروں سے بدسلوکی کو مغرب اور چین مخالفوں کا تراشا ہوا افسانہ قراردیا۔ انکا کہنا تھا کہ  سنکیانگ میں 25 ہزار مساجد ہیں یعنی ہر 500 مسلمان کیلئے ایک عبادتگاہ۔ چینی وزیرخارجہ نے کہا کہ  انسانی حقوق کمیشن کے وفد کو سنکیانگ میں  خوش آمدید کہا جائیگا، وہ جب چاہیں و یغور علاقوں کا دورہ کرسکتے ہیں


 

Saturday, February 20, 2021

رسی جل گئی بل نہیں گئے

رسی جل گئی بل نہیں گئے

امریکہ کے وزیردفاع جنرل  لائڈ آسٹن نے فرمایا ہے کہ امریکہ جلد بازی میں افغانستان سے نہیں نکلے گا۔طالبان کو پر تشدد کاروائیوں میں کمی لانی ہوگی۔

موصوف 2003 کے اختتام پر امریکہ کے پہاڑی ڈویژن کے سربراہ بنائے گئے تو جذبہ شجاعت سے جھوم اٹھے۔یہ وہ دور تھا جب طالبان نے اپنے چھاپہ مار حملوں کا دائرہ سارے افغانستان تک وسیع کردیا تھا اور امریکی ہوئی اڈوں پر قومی پرچم میں لپٹے تابوتوں کا تانتا بندھ گیا۔ عام امریکیوں کیلئے اس سے زیادہ عبرتناک صورتحال وہ تھی جب سینکڑوں معذور جوانِ رعنا بیساکھیوں پر گھسٹتے نظر آئے۔

جنرل آسٹن نے صدر بش کو بتایا کہ افغانستان بمباری کیلیے مناسب جگہ نہیں۔ ملاوں نے پہاڑی دروں میں محفوظ ٹھکانے بنا رکھے ہیں۔ اگر انھیں اپنا پہاڑی ڈویژن لے جانے دیا جائے تو وہ اپنے ٹینکوں اور bunker busterتوپ کے گولوں سے ان دروں کو طالبان  کا قبرستان بنا سکتے ہیں۔اجازت ملنے پرجنرل صاحب پوری قوت قاہرہ کیساتھ افغانستان آئے۔ خوفناک گولہ باری سے چٹانوں کے پر خچے اڑ گئے، لیکن آہنی عزم والے سخت جان ملا  یہ وار  بھی سہہ گئے۔کچھ عرصے بعد ناکام جنرل صاحب کو  ترقی دیکر مرکزی کمان کی سربراہی سونپ دی گئی اور جنرل آسٹن شوق کشور کشائی کی تسکین کیلئے عراق چلے گئے

 صدر بائیڈن کے سابق باس صدر بارک اوباما نے جب جنوری 2009 میں  اقتدار سنبھالا تو موصوف پر امریکہ کے تاریخی صدر بننے کا بھوت سوا ر تھا چنانچہ  سب سے پہلے انھوں نے نوبل امن انعام اپنے نام کرالیا ۔اسکے بعد اوباما صاحب  نے افغانستان میں فیصلہ کن فتح کی ٹھانی۔جنرل آسٹن اسوقت تک مزید ترقی کرکے غالبا ڈپٹی چیف آف اسٹاف بن چکے تھے۔ احساس شکست کے مارے جنرل آسٹن نے خیال ظاہر کیا کہ اگر اضافی نفری افغانستان بھیج دی جائے تو ملاوں کو کچلا جاسکتا ہے چنانچہ فوج کی تعداد سوا لاکھ تک بڑھادی گئی لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ۔ اب تو اجڈ ملاوں کا نشانہ زیادہ پختہ اور مہلک ہوچکا تھا چنانچہ کچھ ہی عرصے بعد اضافی نفری واپس بلالی گئی

صدر ٹرمپ کے ابتدائی دنوں  میں انکے وزیر دفاع جنرل جیمز میٹس نے  ملاوں سے ایک بار پھر دودو ہاتھ کرنےکی خواہش ظاہر کی۔ جنرل میٹس غصے کے بہت تیز ہیں اسلئے صدر ٹرمپ پیار سے انکو mad dog Mattisکہتے تھے

اضافی نفری اور بے پناہ بمباری سے ہزاروں افغان شہری مارے گئے لیکن زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ آب حیات پئے ملا ، ویسے کے ویسے سر سبزو شاداب رہے

جسکے بعد مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا  اور گزشتہ برس امن معاہدہ ہوگیا

اب شکست خوردہ  صدر اوباما کی بی ٹیم اقتدار میں ہے چنانچہ ایک  نئی مہم جوئی کی بات شروع ہوگئی ہےجسکے پیچھے جنرل آسٹن کااحساسِ شکست نمایاں ہے

صدر ٹرمپ کو جرنیلوں پر زیادہ اعتماد نہ تھا۔اضافی نفری کیلئے جنرل میٹس کی فرمائش  پوری کرکے انھوں نے اتمام حجت بھی کردی تھی۔ لیکن اپنے سابق باس کی طرح صدر بائیڈن اپنے جرنیلوں کو شجیع و دلاور سمجھتے ہیں

جرنیلوں کی اناپرستی نے ساری دنیا کو عذاب میں مبتلا کرررکھا ہے۔سات پہروں کے حصار میں رہنے والے یہ سورما بے آسرا شہریوں  اور اپنے  سپاہیوں  کے خون سے  کرخت  جرنیلی چہروں کو گلنار رکھنا چاہتے ہیں

 

Thursday, February 18, 2021

فلسطین میں انتخابات اور شکوک و شبہات

فلسطین میں انتخابات  اور  شکوک و شبہات

متحارب فلسطینی گروہ مئی میں پارلیمانی اور جولائی میں صدارتی انتخابات پر رضامند ہوگئے۔ ان انتخابات میں حماس، اسلامی جہاد اور تنظیم آزادی فلسطین (PLO)سمیت درجن بھر تنظیموں نے حصہ لینے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔

انتخابات پر گفتگو سے پہلے جدید فلسطین کی تاریخ پر چند سطور جو دراصل ظلمِ عظیم کی ایک داستان ہے۔ اختصار کیلئے ہم یہ ذکر ارض مقدس پر تاج برطانیہ کے دورِ نامسعود سے شروع کرتے ہیں۔ 

انتیس (29) ستمبر 1947کو اقوام متحدہ نے فلسطین پر تاجِ برطانیہ کے قبضے کو ملکیتی حقوق عطاکردئے۔ جسکے بعد برطانیہ نے دوقومی نظرئے کے مطابق فلسطین کو عرب اور یہودی علاقوں میں بانٹ دیا۔تقسیم میں ویسا ہی 'انصاف' کیا گیا جو تاجِ  برطانیہ کا طرہ امتیاز ہے۔یعنی آبادی کے لحاظ سے 32 فیصد یہودیوں کو فلسطین کا 56 فیصد علاقہ بخش دیا گیا جس پر اسرائیلی ریاست قائم ہوئی۔ فلسطینیوں کو اپنی ہی ر یاست کی  42 فیصد زمین عطا ہوئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقام پیدائش بیت اللحم سمیت سارا بیت المقدس مشترکہ اثاثہ یا Corpus Separatumقرارپایا۔ نوزائیدہ اسرائیلی ریاست کے یہودی باشندوں کی تعداد پانچ لاکھ اور عربوں کی تعداد 4لاکھ 38ہزار تھی، دوسری طرف فلسطین میں 10 ہزار یہودی اور 8 لاکھ 18 ہزار عرب آباد تھے۔ بیت المقدس کی آبادی ایک لاکھ تھی جہاں مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی تعداد تقریباً برابر تھی۔

تقسیم کا اعلان ہوتے ہی اسرائیلیوں نے جشن آزادی کے جلوس نکالے اور ان مسلح مظاہرین نے عرب علاقوں پر حملے کئے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد میں تقسیم پر عملدرآمد اور اسکے بعد اسرائیل و فلسطین کے درمیان امن قائم رکھنے کی ذمہ داری برطانیہ پر عائد کی گئی تھی۔ لیکن یہ ذمہ داری برطانیہ نے کچھ اسطرح اداکی کہ فلسطینی آبادیوں کے گرد فوجی چوکیاں قائم کرکے انھیں محصور کردیا اور اسرائیلی دہشت گرد برطانوی چوکیوں کی آڑ لے کر بہت اطمینان سے فلسطینی بستیوں کو نشانہ بناتے رہے۔ مسلح اسرائیلیوں کے حملے میں ہرہفتے 100 کے قریب افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔ اقوام متحدہ کی قراردادکے مطابق برطانوی فوج کو مئی 1948تک علاقے کی نگرانی کرنی تھی لیکن برطانوی فوجیوں نے مارچ سے ہی اپنا بوریا بستر لپیٹنا شروع کردیا۔ عربوں نے الزام لگایا کہ جاتے ہوئے برطانوی فوجی اپنا اسلحہ اسرائیلیوں کے حوالے کردیاتھا۔

عربوں کے اس شبہے کو تقویت اس بات سے ملتی ہے کہ برطانوی فوج کی واپسی سے ایک ماہ پہلے 5 اپریل 1948 کو اسرائیلی فوج یروشلم میں داخل ہوگئی حالانکہ معاہدے کے تحت مشترکہ اثاثہ ہونے کی بنا پر بیت المقدس میں فوج تو دور کی بات کسی شخص کو چھری بھی لے کر جانے کی اجازت نہ تھی۔ فلسطینیوں نے بیت المقدس میں مسلح اسرائیلیوں کا راستہ روکنے کی کوشش کی لیکن جدید اسلحے سے لیس اسرائیلیوں نے اس مزاحمت کو کچل دیا۔ تصادم میں سینکڑوں فلسطینی مارے گئے جن میں انکے کمانڈر اور مفتی اعظم فلسطین امین الدین حسینی کے بھتیجے عبدالقادر حسینی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی قرارداد میں صراحت کے ساتھ لکھا تھا کہ تقسیم فلسطین عارضی ہے اور اسے ریاست کی بنیاد نہیں بنایا جائیگا لیکن برطانیہ کی واپسی کے ساتھ ہی یہودی رہنماڈیوڈ بن گوریان نے Eretz Yisrael(ارضِ اسرائیل یا ریاست اسرائیل) کے نام سے ایک ملک کے قیام کا اعلان کردیا جسے امریکہ اور روس نے فوری طور پر تسلیم کرلیا۔اسوقت ہیری ٹرومن امریکہ کے صدر اور مشہور کمیونست رہنما جوزف اسٹالن روس کے سربراہ تھے۔

ریاست کے اعلان سے فلسطینیوں میں شدید اشتعال پھیلا اور جگہ جگہ خونریز تصادم ہوئے۔ اس دوران جدید اسلحے سے لیس اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینیوں کو بھون کر رکھدیا۔مظاہروں کو کچل دینے کے بعد اسرائیلی فوج نے فلسطینی بستیوں کو گھیر لیا اور 7لاکھ فلسطینیوں کو غزہ کی طرف دھکیل دیا گیا اور وہ بھی اسطرح کے بحرروم کی ساحلی پٹی پر اسرائیلی فوج نے قبضہ کرکے سمندر تک رسائی کو ناممکن بنادیا۔ گویا کھلی چھت (Open Air) کے اس  عظیم الشان جیل خانے میں  12 لاکھ فلسطینی ٹھونس دیے گئے۔ قبضے کی اس مہم میں فلسطینیوں  سےمجموعی طور پر 2000 ہیکٹرز Hectaresاراضی  چھینی گئی۔ ایک ہیکٹر 10000 مربع میٹر کے برابر ہوتا ہے یعنی 2 کروڑ مربع میٹر۔ فلسطینیوں کا جبری اخراج 15 مئی 1948کو مکمل ہوا جسے فلسطینی یوم النکبہ یا بڑی تباہی کا دن کہتے ہیں۔فلسطینیوں کی انکے گھروں سے جبری بے دخلی کے بعد 1967 اور 1973کی عرب اسرائیل جنگوں میں اسرائیل نے  مزید عرب علاقوں پر قبضہ کرلیا۔

محرومیوں کے باوجود فلسطینیوں نے آزادی کی جدوجہد جاری رکھی۔ ابتدا میں تنظیم آزادی فلسطین (PLO)فلسطینی عوام کی نمائندہ تنظیم تھی جسکا سیاسی وعسکری دھڑا الفتح کے نام سے سرگرم تھا۔ جناب یاسرعرفات تنظیم کے بانی اور سربراہ تھے جنھیں پوری قوم کی حمائت حاصل تھی۔ جب 1979میں مصری صدر انوارالسادات نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد فلسطینیوں کو ہتھیار رکھ کر مذاکرات کی میز پر آنے کا مشورہ دیا تو عام فلسطینیوں نے اسے اپنے پشت میں خنجر زنی سمجھا اوراکثریت نے صدر سادات کے مشورے کو رد کردیا۔ اس دوران اسرائیل کی فوجی کاروائیوں سے فلسطینیوں کو شدید نقصان پہنچا اورجنگجو عناصر میں یہ خیال عام ہوا کہ یاسر عرفات بھی اب مسلح مزاحمت کے بجائے سفارتکاری کا ہتھیار استعمال کرنا چاہتے ہیں۔چنانچہ 1987 میں مشہور عالم دین اور روحانی شخصیت شیخ احمد یاسین نے حماس کی بنیاد رکھدی۔ حماس کے بانی امام حسن البنا کی فکر سے متاثر تھے۔ یاسرعرفات خود بھی شیخ یاسین کے عقیدتمند تھے اور انھوں نے کہا کہ میں الفتح کا قائد اور حماس کا کارکن ہوں۔ 

فلسطین کے پہلے عام انتخابات منعقدہ 1996 میں جناب یاسرعرفات 90 فیصد ووٹ لیکر صدر منتخب ہوئے جبکہ انکی حریف بائیں بازو کی محترمہ سمیحہ خلیل المعروف ام خلیل نے10 فیصد ووٹ حاصل کئے۔ پارلیمانی انتخابات میں الفتح نے المجلس التشریعی الفسطین (قومی اسمبلی) کی 88 میں سے 50 نشستیں جیت لیں اور 35 نشستوں کے ساتھ آزاد امیدوار دوسرے نمبر پر رہے۔ ان انتخابات میں حماس غیر جانبدار رہی لیکن شیخ یاسین کی ہمدردیاں یاسرعرفات کے ساتھ تھیں۔ شدید بیماری کے بعد نومبر 2004 میں یاسرعرفات انتقال کرگئے اور 2005 کے صدارتی انتخابات میں محمود عباس 67 فیصد ووٹ لیکر صدر منتخب ہوئے۔ جانب محمود عباس اپنی کنیت ابومازن کے نام سے مشہور ہیں۔

یہاں آخری آزادانہ انتخابات 25 جنوری 2006کو متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوئے۔اس طرز انتخاب میں لوگ براہ راست سیاسی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں اور ہر جماعت کے حاصل کردہ مجموعی ووٹوں کے تناسب سے انھیں نشستیں عطا کردی جاتی ہیں۔ ہر انتخابی حلقے میں آزاد امیدوار کا نام بھی بیلٹ پر درج ہوتا ہے یعنی جماعت کے بجائے آزاد امیدوار کے حق میں بھی رائے دی جاسکتی ہے۔گزشتہ انتخابات میں زبردست جوش و خروش دیکھا گیا اور ووٹ ڈالنے کا تناسب 76 فیصد سے زیادہ رہا۔

اسرائیل نے ان انتخابات میں حماس کی شمولیت پر اعتراض کیا تھا۔ اسرائیل حماس کو دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے۔ یہی نقطہ نظر اب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا بھی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم یہود اولمرٹ نے اس معاملے پر براہ راست امریکی صدرسے بھی بات کی لیکن جارج بش نے موقف اختیار کیاکہ انتخابات میں حصہ لینے سے حماس کا رویہ نرم و متوازن ہوجائیگا۔ امریکی سی آئی اے کا خیال تھا کہ حماس صرف غزہ میں مقبول ہے اور وہاں بھی اسے واضح اکثریت نہیں مل سکے گی۔ اسرائیلی اخبارات کے سارے جائزوں میں کہا جارہا تھا کہ انتخابات میں ابو مازن (محمود عباس) کی الفتح جیتے گی۔ حماس کے پاس انتخابی مہم چلانے کیلئے نہ مالی وسائل ہیں اور نہ یہ جنگجو مولوی پڑھے لکھے فلسطینیوں کو اپنی جانب مائل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

انتخابی مہم کے دوران اسرائیلی فوج حماس رہنماوں کا تعاقب کرتی رہی۔ اسکے ایک ہزار سے زیادہ کارکن گرفتار کرلئے گئے۔ اسرائیلی حکومت نے انتخابی جلسوں پر پابندی لگادی تھی جبکہ سرکاری ٹیلی ویژن اور اخبارات پر صرف الفتح کو اشتہار کی اجازت تھی۔ اسوقت سوشل میڈیااتنا موثر نہ تھا۔ سڑکوں پر بینر بھی غیر قانونی قراردے دئے گئے۔ بلدیہ بیت المقدس کی حدود میں حماس کا داخلہ ممنوع تھا۔ حماس کی ساری انتخابی مہم گھر گھر دستک، گلی محلوں میں چھوٹے چھوٹے اجتماعات اور مساجد میں نمازوں کے بعد تعارفی نشستوں تک محدود تھی۔ ان پابندیوں کی بنا پراسرائیلی حکومت اور الفتح کو حماس کی قوت کا اندازہ ہی نہ ہوسکا کہ ہر طرف الفتح کے پھریرے لہرا رہے تھے۔ حماس کی نوجوان خواتین نے گھرگھر جاکر ایک خاموش انقلاب برپا کردیا۔ انتخابی جائزوں کے برعکس حماس نے ان انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کی اورقومی اسمبلی کی 132 میں سے 74 نشستیں جیت کر اسرائیل کو حیران کردیا۔  الفتح نے 45 اور عرب قوم پرست پاپولر فرنٹ نے 3 نشستیں حاصل کیں۔ تین دوسری جماعتوں  اور آزاد امیدواروں نے 10 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

انتخابات کے بعد مارچ 2006 میں اسماعیل ہانیہ وزیراعظم بنائے گئے۔ جناب ہانیہ نے مشترکہ قومی حکومت بنانے کیلئے الفتح کو دعوت دی۔ حماس وزارت عظمیٰ الفتح کو دینے پر راضی تھی لیکن الفتح کے مرکزی رہنما صائب عریقات  نے صاف صاف کہا کہ حماس کیساتھ مخلوط حکومت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حماس ذرایع کا خیال ہے کہ اسرائیل اور مصر کے کہنے پر محمود عباس نے حماس سے علیحدہ رہنے کا فیصلہ کیا۔ فلسطینیوں میں اخوان کی مقبولیت پر اسرائیل اور خلیجی ممالک کو شدید تشویش تھی۔ پہلے خیال کیا جارہا تھا کہ حماس 'جنونی جہادیوں' کا گروہ ہے اور ان انتہا پسندوں کو عوام میں پزیرائی حاصل نہیں۔ تاہم انتخابی نتائج نے اسرائیل، مصر اور خلیجی ممالک کیساتھ فلسطینی سیکیولر عناصر کو بھی اندیشہ ہائے دوردراز میں مبتلا کردیاتھا۔ حماس نے غزہ کے ساتھ مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن میں بھی کامیابی حاصل کی تھی حتی کہ ، یروشلم، بیت الحم، رام اللہ اور غزہ کے مسیحی علاقوں میں بھی حماس کی کارکردگی اچھی رہی۔

الفتح کی جانب سے صاف انکار کے بعد حماس نے انتہائی متوازن کابینہ تشکیل دی جنکی اکثریت دوریاستی فارمولے اور آزادفلسطین کے عوض اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حامی تھی۔ لیکن فلسطینیوں کی نئی انتطامیہ کو اسرائیل اور امریکہ نے تسلیم نہیں کیا۔ مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کو بھی حماس کے بارے میں شدید تحفظات تھے۔

حکومت کی تشکیل کے صرف تین ماہ بعد غزہ کے قریب فلسطینیوں کے ایک مظاہرے پر اسرائیلی فوج نے حملہ کیا اور اس دوران مظاہرین نے ایک اسرائیل فوجی کو اغوا کرلیا۔اپنے سپاہی کی بازیابی کیلئے اسرائیلی فوج نے غزہ پر حملہ کردیا اور خوفناک بمباری کرکے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔حماس کے کئی ارکان اسمبلی اسرائیلی فوج نے گرفتار کرلئے۔ کچھ دن بعد اسرائیلی فوج دریائے اردن کے مغربی کنارے پر چڑھ دوڑی اور رام اللہ میں مقتدرہ فلسطین کے سیکریٹیریٹ سے وزرا، ارکان اسمبلی اور حماس کے رہنماوں کو اٹھا کر لے گئی۔

اسرائیل نے وزیراعظم ہانیہ سمیت ارکان قومی اسمبلی اور حماس کے رہنماوں کی نقل و حرکت محدود کردی۔ اسی کیساتھ بزعمِ خود فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مصالحت کیلئے قائم کئے جانے والے چار فریقی ادارے Quartetنے بھی فلسطینی حکومت پر غیر قانونی قرار دے دیا۔ اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین اور روس پر مشتمل Quartetجو ایک غیر جانبدار ادارہ تھا، حماس حکومت ختم کرنے کیلئے یکسو ہوگیا۔ اس سے شہہ پاکر اسرائیل نے فلسطینی حکومت کے وزرا اور اہلکاروں پر غزہ، بیت المقدس اور غزر اردن کے درمیان سفر پر پابندی لگادی۔اقوام متحدہ کے معاہدے کے تحت بحر روم کی اشددو بندرگاہ سے حاصل ہونے والا محصول اسرائیل اور مقتدرہ فلسطین میں تقسیم ہوتا ہے۔ وزیراعظم یہود المرٹ نے ایک حکم کے تحت محصولات سے فلسطینیوں کا حصہ معطل کردیا۔ دوسری طرف الفتح کا سیکیولر طبقہ اسرائیل اور امریکہ کے جذبات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حماس کو ہمیشہ کیلئے کچل دینا چاہتا تھا۔حماس نے صورتحال بھانپتے ہوئے ماہرین (ٹیکنوکریٹس) کی کل جماعتی حکومت کی تجویز پیش کی جسے الفتح نے ترنت مسترد کردیا۔اسرائیل کی جانب سے محصولات کے انجماد نے فلسطینی حکومت سخت مشکلات میں مبتلا ہوگئی، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کیلئے پیسہ نہ رہا۔ الفتح ان ملازمین کو سڑکوں پر لے آئی۔ جلد ہی سیاسی مظاہرے حماس اور الفتح کے درمیان فوجی تصادم میں تبدیل ہوگئے۔

ترکی اور قطر کی کوششوں سے  فروری 2007 میں الفتح اور حماس ہتھیار رکھ کر مخلوط حکومت بنانے پر راضی ہوگئے۔ فلسطینیوں کو امید تھی کہ اسکے نتیجے میں اسرائیل اور امریکہ پابندیاں ختم کردینگے اوراشدود بندرگاہ سے آمدنی میں فلسطینیوں کا حصہ  ملنا شروع ہوجائیگا لیکن الفتح نئے وزیراعظم کی نامزدگی ٹالتی رہی اور اور 15 جون 2007 کو صدر محمود عباس نے وزیراعظم ہانیہ اسماعیل کو برطرف کرکے سلام فیاض کو وزیراعظم نامزد کردیا۔ حماس نے اس پر احتجاج کیا لیکن اسرائیل نے وزیراعظم ہانیہ اسماعیل اور حماس کو غزہ تک محدود کردیا۔اسرائیل اور مصرنے غزہ کی ناکہ بندی کردی۔ فلسطین عملاًدوحصوں میں تقسیم ہوگیا یعنی حماس کے زیرانتظام غزہ اور الفتح کے زیر اثر ٖغرب اردن۔

فلسطین کی اس تقسیم کے بعد سے اسرائیل نے غزہ کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ خوفناک بمباری، آہنی باڑھ کی دوسری جانب سے مہلک گولہ باری روزمرہ کا معمول ہے۔ اسکے علاوہ بحر روم سے اسرائیلی بحریہ بھی فلسطیی ماہی گیروں اور ساحل پر کھیلتے بچوں پر نشانے بازی کی مشق کرتی ہے۔

ترکی اور قطر ایک عرصے سے الفتح اور حماس کے مابین مصالحت کی کوششیں کررہے ہیں لیکن اسرائیل اور اسکے خلیجی اتحادیوں نے ان تمام کوششیں کو کامیابی سے ناکام بنادیا۔ گزشتہ دنوں متحدہ عرب امارات اور بحرین پھر سوڈان اور مراکش نے جب اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کرلئے تو فلسطینیوں نے خود کو دیوارسے لگا محسوس کیا اور قیادت پر مصالحت کیلئے عوامی دباو بڑھا۔ ترک صدرایردوان نے نومبر میں الفتح اور حماس کیساتھ دوسری فلسطینی تنظیموں کوانقرہ مدعو کیا۔ اس ملاقات پر اسرائیل نے اقوام متحدہ جانے کی دھمکی دی۔ اسرائیلی حکام کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ نے حماس کو دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ دہشت گرد رہنماوں کی آزادانہ نقل و حرکت اور ترک حکومت کی جانب سے میزبانی قانون کی خلاف ورزی ہے لیکن تل ابیب کی اس شکائت کو پزیرائی نہ مل سکی۔

کچھ عرصہ پہلے محمود عباس نے مصر سے مصالحت و ثالثی کی درخواست کی تھی۔ غزہ سے نکلنے کا راستہ صحرائے سینا میں کھلنے والا باب رفح ہے اور اسرائیلی پابندیوں کے باعث حماس کیئے انقرہ کے مقابلے میں قاہرہ جانازیادہ آسان ہے۔ گزشتہ ہفتے قاہرہ مذاکرات میں الفتح، الجہاد، حماس اور فلسطین کی تمام تنظیموں نے  انتخابات میں حصہ لینے اور انتخابی نتائج کو کھلے دل سے  تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے حکومت سازی میں مکمل تعاون کا عہد کیا۔

بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ عوامی دباو کی بنا پر فلسطینی آپس کے اختلافات ختم کرکے آزادانہ انتخابات کے ذریعے ایک نمائندہ حکومت کے قیام پر رضامند ہوگئے ہیں۔ ایسا ہی اتفاق 2006 میں بھی ہوا تھا لیکن اسرائیل نے حماس کی کامیابی کو تسلیم نہیں کیا اور اب بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر آنے والے انتخابات میں حماس  دوبارہ کامیاب ہوگئی تو کیا ہوگا۔ اسماعیل ہانیہ کہتے ہیں کہ حماس کا ہدف فلسطین کی آزادی ہے اور انھیں حکومت و اقتدار سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اگر انتخابات میں انکی جماعت نے واضح اکثریت حاصل کرلی تب بھی مخلوط قومی حکومت حماس کی ترجیح ہوگی۔

بدقسمتی سے اس دنیا نے اسلامی جماعتوں کی انتخابی کامیابیوں کوکبھی  تسلیم نہیں کیا۔ الجزائر میں پہلی بار آزادانہ بلدیاتی انتخابات جون 1990میں منعقد ہوئے جس میں اسلامک سالویشن فرنٹ نے 54 فیصد ووٹ لیکر ملک کی 48 میں 31 بلدیات جیتیں اورپھر دیانت دارانہ خدمت سے عوام کے دل جیت لئے۔ دوسال بعد جب دسمبر 1991میں عام انتخابات ہوئے تو قومی اسمبلی کی 430 میں سے 232 نشستوں پر فرنٹ کے امیدوار کامیاب ہوئے اور بقیہ 198 نشستوں پر فرنٹ پہلے یا دوسرے نمبر پر تھی لیکن چونکہ کسی امیدوار نے مطلوبہ 50 فیصد ووٹ نہیں لئے تھے اسلئے ان نشستوں پرپہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والوں کے درمیان دوسرے مرحلے کے انتخابات ہونے تھے جنھیں run-off کہا جاتا ہے۔ یہ صورتحال دیکھ کر فوج نے مداخلت کی۔انتخابات منسوخ کرکے اسلامک سالویشن فرنٹ کے خلاف خوفناک فوجی کاروائی کا آغاز ہوا۔ فروری 2002 تک جاری رہنے والے آپریشن میں اسلامک فرنٹ کے 3 لاکھ کارکن ذبح کردئے گئے۔ فرنٹ کیخلاف کاروائی کیلئے فرانس، تیونس، جنوبی افریقہ اور مصر نے اپنے فوجی دستے بھیجے

کچھ ایسا ہی معاملہ مصر میں  پیش آیا جب پارلیمانی انتخاب جیتنے کے بعد اخوان سے وابستہ حریت و انصاف پارٹی کے ڈاکٹر محمد مورسی 2012کے انتخاب میں 52 فیصد ووٹ لے کر صدر منتخب ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب کو مصر کی تاریخ کا پہلا منتخب صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہے لیکن حکومت سبنھالنے کے صرف ایک سال بعد نوزائیدہ جمہوریت کو فوجی بوٹوں سے پامال کردیا گیا۔ فوج کی وحشیانہ فائرنگ سے ہزاروں کارکن جاں بحق ہوئے، درجنوں پھانسی چڑھے اور اخوان المسلمون کے مرشدِ عام (امیر) سمیت ہزاروں رہنما آج تک عقوبت کدوں کی زینت ہیں۔ ڈاکٹر مورسی دوران حراست ہی انتقال کرگئے۔

اس تایخی پس منظر اوراسرائیل کے روئے کو دیکھ کر اس بات کی امید بہت کم ہے کہ آنے والے انتخابات فلسطینیوں کیلئے مثبت تبدیلی کا نقطہ آغاز ثابت ہوسکیں گے۔

ہفت روزی فرائیڈے اسپیشل کراچی 19 فروری 2021

ہفت روزی دعوت دہلی 19 فروری 2021

روزنامہ امت کراچی 19 فروری 2021

ہفت روزہ رہبر سرینکر 21 فروری




2021