این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی انتخابات
شوروہنگامے سے ُپر این اے 75 کے ضمنی انتخابات مکمل ہوگئے۔ غیر سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن کی سیدہ نوشین افتخار ایک لاکھ دس ہزار ووٹ لے کر منتخب ہوگئیں جبکہ تحریک انصاف کے علی اسجد ملہی 93433ووٹوں کیساتھ دوسرے اور تحریک لبیک کے خالدسندھو تیسرے نمبر رہے، انھیں 8268 ووٹ ملے
اگر ان نتائج کا 2018 سے موازنہ کیا جائے تو اسوقت سیدانی صاحبہ کے والد مرحوم سید افتخار حسین مسلم لیگ کے امیدوار تھے جنھوں نے 101769 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی۔ اُس بار بھی جناب ملہی تحریک انصاف کے امیدوار تھے جنھیں 61727ووٹ ملے اور آزاد امیدوارچودھری عثمان عابد 57778ووٹوں کیساتھ تیسرے نمبر رہے۔ عام انتخابات میں تحریک لبیک کے ارسلان ظفر نے 14807 ووٹ لئے تھے۔
شکست کے باوجود حالیہ نتائج تحریک انصاف کیلئے اس اعتبار سے حوصلہ افزا ہیں کہ 2018 کے مقابلے میں اس بار انھیں 31706 ووٹ زیادہ ملے یعنی پی ٹی آئی کے ووٹ بینک میں 51 فیصد کا اضافہ ہوا۔ مسلم لیگ کی کارکردگی بھی 2018 سے بہتر رہی اور اسکے ووٹ 8فیصد بڑھ گئے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ چودھری عثمان عابد نے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی حمائت کا اعلان کیاتھا۔
تحریک لبیک کے ساتھ خسارے کا معاملہ رہا اور 2018 کے مقابلے میں اسکا ووٹ بینک 44 فیصد سکڑ گیا۔ایک جائزے کے مطابق 2018 میں تحریک لبیک کو ووٹ ڈالنے والوں کی اکثریت نے اس باربلّے پر ٹھپے لگائے۔اگر اس مفروضے کو صحیح مان لیا جاےتو سوال پیدا ہوتا ہے کہ عثمان عابد کے 58 ہزار ووٹ کہاں گئے جو اس بار ملہی صاحب کی نصرت کیلئے میدان میں موجود تھے؟ اسکی ایک سادہ سی وضاحت یہ ہے کہ عام انتخابات کے مقابلے میں ضمنی انتخابات کے دوران 34ہزار ووٹ کم ڈالے گئے جس سے انداز ہوتا ہے کہ غیر جانبدار لوگوں کی اکثریت نے چناو کے دن گھر بیٹھے رہنے کو ترجیح دی۔دوسری طرف مریم نواز صاحبہ کی زبردست مہم کے نتیجے میں مسلم لیگ کے حامیوں میں غیر معمولی خوش و خروش تھا جسکی وجہ سے انکے ووٹوں میں اضافہ ہوگیا۔
اگر واقعی ڈسکہ میں ٹی ایل پی کے ووٹوں کا بہاو تحریک انصاف کی جانب رہا ہے تومذہبی ووٹروں کے اس رجحان سے کراچی کے این اے 249 کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کو فائدہ پہنچ سکتا ہے جہاں 2018 میں فیصل واوڈا نے صرف 718 ووٹوں سے شہباز شریف کا ہرایا تھا۔ اس نشست پر تحریک لبیک کے مفتی عابد مبارک نے 23981 ووٹ لئے اوروہاں سے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست بھی پی ٹی ائی نے جیت لی تھی۔ تاہم اس بار تحریک لبیک کے کارکنان اتنے پرجوش نظر نہیں آتے اور انکی صفوں میں اختلاف بھی بہت واضح ہے۔ دوسری طرف مفتاح اسماعیل صاحب کو بھی مشکلات کا سامناہے۔ اے این پی نے مسلم لیگ کی حمائت کا اعلان کیا ہے لیکن جمیعت علمائے اسلام بظاہرپیپلز پارٹی کی حمائت کرتی نظر آرہی ہے۔ اس نشست پر 2018 میں ایم ایم اے نے 10307 ووٹ لئے تھے۔ پیپلز پارٹی پُر امید ہے کہ مولانا کی حمائت کی وجہ سے ایم ایم اے کے ووٹرشائد اس بار تیر پر مہر لگادیں۔ لیکن معاملہ اتناسادہ نہیں۔ پی ڈی ایم سے بے وفائی کی بناپر فضل الرحمان پیپلز پارٹی سےخوش نہیں اور لاڑکانہ میں 'عمران مولانا بھائی بھائی' کے نعرے لگ رہے ہیں۔ کچھ بعید نہیں کہ جمیعت علمائے اسلام یہاں بلےّ کی حمائت میں آجائے کہ سیاست و سفارت کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔بقول ہنری کسنجر سفارت قومی مفادات کے تحفظ کا نام ہے، کوئی ملک نہ ہماراجگری دوست ہے نہ کوئی جانی دشمن
No comments:
Post a Comment