یوکرین روس کشیدگی، امریکہ، تاتار اور ترکی
امریکہ نے انقرہ کو مطلع کیا ہے کہ اسکی بحریہ کے دوجہاز بحر اسود جانے کیلئے اگلے ہفتے ترکی کے زیرانتظام آبنائے ڈارڈینیلس Dardanellesاور باسفورس سے گزرینگے۔
چار لاکھ 36 ہزار مربع کلومیٹر پر محیط بحر اسود یا Black Seaخشکی سے گھرا سمندر ہے۔بلغاریہ، جارجیا، رومانیہ، روس، ترکی اور یوکرین کی آبی سرحدیں بحراسودمیں کھلتی ہیں۔ روس کو بحرالکاہل اور ترکی کو بحر روم تک بھی رسائی حاصل ہے لیکن باقی تمام ممالک کی آبی آمدورفت بحر اسود تک محدود ہے۔
بحر اسود سے باہر نکلنے کا واحد استنبول کے قریب آبنائے باسفورس یا Strait of Bosporusہے۔ سات سو میٹر چوڑی اور 31 کلومیٹر طویل آبنائے بحراسود کو بحر مرمرا سے ملاتی ہے۔ استنبول میں واقع بحر مرمرا بھی خشکی سے گھرا سمندر ہے جسے مشرق میں آبنائے ڈارڈینیلس خلیج یونان تک رسائی دیتی ہے۔ خلیج یونان بحر روم کاحصہ ہے۔ یعنی بحر اسود آنے جانے کیلئے کشتیوں، مال بردار جہازوں اور جنگی اثاثوں کو ترکی سے گزرنا ہوتا ہے۔
ان دونوں آبناوں سے جہازوں کی بلا روک ٹوک آمدروفت یقینی بنانے کیلئے جولائی 1936میں بحر اسود کے ممالک اور فرانس، جاپان و برطانیہ نے ایک معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ یہ اجلاس سوئٹزر لینڈ میں نہرِ جنیوا کے کنارے ایک پرتعیش فئرمونٹ لی مانٹرے ہوٹل میں منعقد ہوا، اسی مناسبت سے یہ معاہدہ مانٹرےکنونشن Monteux Convention کہلاتا ہے۔ معاہدے کے تحت ترکی بحر اسود کا راستہ کھلا رکھنے اور تجارتی جہازوں کو آزادانہ رسائی دینے کا پابند ہے۔ لیکن بحر اسود کے ممالک کے علاوہ دوسرے ملکوں کے جنگی جہاز پیشکی اطلاع کے بغیر ان آبناوں سے نہیں گزرسکتے اور اطلاع ملتے ہی ترکی کیلئے ان جہازوں کی تفصیل اورعلاقے میں انکے قیام کی مدت سے بحراسودکے ممالک کو آگاہ کرنا ضروی ہے۔
چنانچہ ترکی نے امریکہ بحریہ کے 'عزائم' سے روس سمیت تمام ممالک کو آگاہ کردیا۔ امریکہ کا پہلا جنگی جہاز اس مہینے کی 14 اور دوسرا 15 کو بحراسود پہنچے گا اور یہ دونوں جہاز 4 مئی تک وہاں رہینگے۔ یوکرین روس حالیہ کشیدگی کے تناظر میں روس کو امریکی جہازوں کی بحراسود آمد پر گہری تشویش ہے چنانچہ جمعہ(9 اپریل) کو ترک اور روسی صدور نے فون پر اس معاملے کا جائزہ لیا۔ ترک صدر کا کہناتھاکہ امریکی جہازوں کی بحر اسود آمد مانٹرےکنونشن کے مطابق ہے۔ اسلئے کہ واشنگٹن نے تمام مطلوبہ معلومات بروقت فراہم کردی ہیں۔ لیکن یہ اطلاع ملتے ہی روس نے یوکرین سے ملنے والی سرحد پر فوج اور اسبابِ جنگ کا انبار لگانا شروع کردیاہے۔مشرقی یوکرین کا یہ علاقہ 2014 میں جزیرہ نما کریمیا پر روس کے قبضے کے بعد سے میدان جنگ بناہوا ہے۔ یوکرینی فوج او روسی حمائت یافتہ علیحدگی پسند باغیوں کے درمیان خونزیر تصادم میں ہزاروں افراد مارے گئے ہیں جن میں تاتاروں کی اکثریت ہے۔
حالیہ کشیدگی کی ایک اور وجہ یوکرین کا یہ اعلان ہے جس میں مغرب کے ساتھ دفاعی روابط بڑھانے اور نیٹو اتحاد کی رکنیت اختیار کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ اس خبر پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے روسی وزارت خارجہ کی ترجمان، ماریہ زیخا رووا نے جمعہ کے روز خبردار کیا کہ یوکرین کی نیٹو میں شمولیت سے جنوب مشرقی علاقے میں صورتحال مزید سنگین ہوجائیگی، جس سے خود یوکرین کی سلامتی کو خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔یوکرین اور روس تنازعہ کی اصل بنیاد کیا ہے؟ اسے سمجھنے کیلئے تاتاروں کی تاریخ کا ایک سرسری جائزہ۔
روسیوں اور تاتاریوں میں تناو کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ تاتار منگولوں کے اس لشکر کا ہراول دستہ تھے جنھوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور اسکے فوراً بعد دمشق کو روند کر اموی سلطنت کا خاتمہ کردیا۔ لیکن بغدار کے مرکزی کتب خانے، جدیدترین ہسپتالوں، لائبریریوں اور دمشق کے عالیشان مدرسوں کو نذر آتش کرنے والے یہ وحشی بہت دنوں تک اسلام دشمنی پر قائم نہ رہ سکے اور خود غارتگر اعظم ہلاکو کا بیٹا مسلمان ہوگیا اور بعدمیں یہی تاتاری عظیم الشان عثمانی سلطنت کے معمار ثابت ہوئے۔ جوانانِ تتاری کسقدر صاحب نظر نکلے(اقبال)۔
ترکی میں شجاعت کے جوہر دکھانے والے تاتاروں نے کوہِ وولگاکے میدانی علاقے Volga-Uralمیں ایک اسلامی سلطنت قائم کرلی جوروسیوں کو پسند نہ تھی، چنانچہ 1550میں اس ننھی سی اسلامی ریاست کے خلاف خونریز فوجی کاروائی کا آغاز ہوا۔ مذہبی عالم امام گل شریف کی قیادت میں مدارس کے طلبہ خم ٹھک کر میدان میں آئے۔ یہ طالبان سے روسیوں کی پہلی ٹکر تھی۔ گل شریف کا لشکر اپنی ریاست کا دفاع تو نہ کرسکا مگر انکے چھاپہ مار حملوں نے روسیوں کو بھی آرام سے نہ بیٹھنے دیا۔ قازانی ریاست کی معیشت کا دارومدار زراعت پر تھا جسے روسیوں کے حملے میں شدید نقصان پہنچا تھا۔ نتیجے کے طور پر ایک شدید قحط سے قازانیوں کے اعصاب جوب دے گئے اور انکی بڑی تعداد قازقستان اور یوکرین نقل مکانی کرگئی لیکن اکثریت قازان ہی میں موجود رہی۔ یوکرین آنے والے تاتاری اسکے جزیرے کریمیا میں آباد ہوگئے۔ دس ہزار مربع میل رقبے پر مشتمل یہ جزیرہ بحر اسود اور بحر ازاق سے گھرا ہوا ہے اور تین میل لمبی ایک تنگ سی خشک پٹی اسے یوکرین سے ملاتی ہے۔ ابتدا میں کریمیا عثمانی سلطنت کا حصہ تھا۔ کمیونسٹ انقلاب کے بعد اسے یوکرین میں ضم کردیا گیا اور یہیں سے کریمین تاتاروں کی آزمائش کا نیا دور شروع ہوا۔ جوزف اسٹالن نے "فکری تطہیر" کے نام پر جید تاتار علما اور رہنماوں کو سزائے موت اور سائیبیریانوردی کی سزائے دیں۔ یہ سلسلہ کئی برس جاری رہا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی فوجوں نے کریمیا پر قبضہ کرلیا جسے دوسال بعد روسیوں نے چھڑالیا۔ کامیابی کے فوراً بعد اسٹالن نے تاتاروں پر نازیوں کی حمائت کا الزام لگاکر انکی کریمیا بدری کے احکامات جاری کردئے اور ایک اندازے کے مطابق پانچ لاکھ سے زیادہ تاتار مویشی ڈھونے والی گاڑیوں میں ٹھونس کر ملک بد رکردئے گئے جس میں سے دولاکھ کے قریب افراد بھوک پیاس سے ہلاک ہوگئے۔ اصلاح پسند روسی صدر گورباچوف نے اپنے فلسفہ پیسٹرائکا Perestroika میں اسٹالن کے ہاتھوں تاتاروں کی جلاوطنی کو کمیونسٹ راج کا بدترین ظلم قرار دیاہے۔ سوویت یونین کی شکست و ریخت پر 1991میں یوکرین کی آزاد ریاست وجود میں آئی اور اسکے فوراً بعد جلاوطن تاتار کریمیا واپس آنا شروع ہوگئے۔ ایک اندازے کے مطابق قازقستان سے ایک لاکھ اور دوسرے علاقوں سے مجموعی طور پر ستر ہزار تاتار گزشتہ بیس سال دوران کریمیا واپس پہنچے جنکی آبادکاری کیلئے ترک حکومت نے خصوصی امداد فراہم کی۔
تاتار دشمنی کے علاوہ روس کی نظریں کریمیا کی زمین اور اس سے متصل بحر اسود کی تہوں میں مدفون تیل و گیس کے بھاری ذخائر پر تھیں چنانچہ 2014میں روس نے سیاسی بحران کا فائدہ اٹھاتے ہوئےکریمیا پر قبضہ کرلیا۔ جسکے بعد ایک ریفرنڈم کا انعقاد ہوا جس میں عوام سے کریمیا کے مستقبل کے بارے میں رائے لی گئی۔ یوکرین کی سپریم کورٹ نے ریفرنڈم کو غیر قانونی قراردیدیا۔لیکن عدالتی حکم مسترد کرتے ہوئے روسی فوج کی نگرانی میں 30 مارچ 2014 کو اس شان سے ریفرنڈم ہوا کہ سارے کریمیا میں تین دن پہلے کرفیو لگادیاگیاتھا۔ روسی فوج کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کا تناسب 83 فیصد تھا اور 95.5فیصد لوگوں نے کریمیا کے روس سے الحاق کی حمائت کی۔ جو چاہے آپکا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔قبضے کے ساتھ ہی تاتاریوں سے بدسلوکی کا دوبارہ آغاز ہوااورکریمیا کو یوکرین سے ملانے والی آبنائےکرش پر ناکے لگا دئے گئے تاکہ تاتاریوں کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھی جاسکے۔
کریمیا کے بعد مشرقی یوکرین میں روسی ایما پر سربوں نے علیحدگی کا اعلان کردیا۔کریمیا کی طرح مشرقی یوکرین میں بھی روسی فوج کا اصل نشانہ تاتار ہیں۔ تاتاروں نے بوسنیا کے مسلمانوں کو پناہ دی تھی جس پر روسی سرب ان سے سخت ناراض ہیں۔ مشرقی یوکرین کےصنعتی شہر Makiivkaمیں آباد تاتار محنت کشوں اور ہنر مندوں کا قتل روزمرہ کا معمول ہے۔
روسی سربوں کے مطالبے پر مئی 2014 میں دونیسک Donetsk، خارکوو Kharkovاور لوہانسک Luhanskصوبوں میں ریفرنڈم کروائے گئے جہاں پچاسی فیصد لوگوں نے یوکرین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دئے۔ اس بار بھی ریفرنڈم روسی فوج کی زیرنگرانی منعقد ہوئے اورزیادہ تر پولنگ اسٹیشن فوجی چوکیوں میں قائم کئے گئے تھے۔ ٹھپے بازی سے مزین اس ریفرنڈم پر خود صدرپوٹن نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ روس سرحد سے متصل مشرقی یوکرین کے ایک تہائی سے زیادہ علاقہ اب سرب علیحدگی پسندوں کے قبضے میں ہے جن میں لوہانسک Luhanskاور دونیسک صوبے شامل ہیں جہاں کے ائرپورٹ پر روسی فضائیہ نے جدید ترین طیاروں کے بیڑے تعینات کردئے ہیں۔ سربوں کی جانب سے ان دونوں صوبوں کو رشین فیڈریشن میں ضم کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
امریکہ اور نیٹو کو ڈر ہے کہ مشرقی یوکرین کا رشین فیڈریشن سے الحاق بحر اسود پر روس کی گرفت کو مضبوط کردیگا۔گزشتہ کچھ عرصے سے روسی بحریہ یوکرینی بندرگاہ اوڈیسا Odessaکی نگرانی کررہی ہے۔ اوڈیسا بحر اسود کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے جہاں سالانہ 4 کروڑ ٹن سامان اتارا اور لادا جاتا ہے۔ رومانیہ بھی اپنے خام تیل کی برآمد اور پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد کیلئےاوڈیسا کا جدید ترین آئل ٹرمینل استعمال کرتا ہے۔
مشرقی یوکرین پر روس کا قبضہ اور اسکے نتیجے میں بحراسود پر روس کی بالادستی امریکہ اور اسکے نیٹو اتحادیوں کیلئے ناقابل قبول ہے۔ واشنگٹن یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ یوکرین کی سرحد پر روسی فوج کا اجتماع عام سی فوجی مشق کا حصہ ہے۔ امریکی وزارت دفاع (پینٹاگون) کے ترجمان جان کربی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین کی سرحد پر روسی فوج کی اتنی بڑی تعداد نیت کے فتور کو ظاہر کرتی ہے اور مہذب دنیا روسی موقف پر یقین کرنے کوتیار نہیں۔ جناب کربی نے 2014 میں کریمیا پر قبضے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں روس کی ایک تاریخ ہے۔روسیوں نے توسیع پسندانہ ہدف کے حصول کیلئے ماضی میں بالکل یہی حکمت عملی استعمال کی ہے اور سرحد پر روسی فوج کا اجتماع یوکرین کیلئے نیک شگون نہیں۔ امریکی ترجمان نے کہا کہ واشنگٹن روسیوں کی تاریخ اور طریقہ واردات سے واقف ہے، اسی لئے ہم صورتِ حال کو بہت غور سے دیکھ رہے ہیں۔
امریکہ کے ساتھ جرمنی اور فرانس نے بھی روس کو جارحیت سے باز رہنے کی تلقین کی ہے۔ جرمنی کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ عسکری نقل و حرکت کے بارے میں روسی قیادت عالمی اداروں کو اعتماد میں لے۔جناب ہائیکو ماس کے فرانسیسی ہم منصب نے بھی اس صورتحال پر ایک بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ روس اشتعال انگیزی بند کرکے کشیدگی کم کرنے کی کوشش کرے۔
امریکہ، فرانس اور جرمنی کی تشویش کو یکسر رد کرتے ہوئے روسی وزارت دفاع کے ترجمان دمتری پیسکوو نے کشیدگی بڑھانے کی ذمہ داری یوکرین پر عائد کی اور کہاکہ یوکرین کا رویہ خطے میں عدم استحکام کا باعث ہے۔ انکا کہنا تھا کہ روس اپنی سرحدوں کو ہر قیمت پر محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔
بحراسود پر روس کی بالادستی ترکی کیلئے بھی مشکلات کا سبب بن سکتی ہے۔ یہاں ترکی نے گیس کے کئی بڑے ذخائر دریافت کئے ہیں جنکی ترقی اور پیدواری منصوبوں پر کام ہورہا ہے۔ زاروں کے دور سے روس توسیع پسندی کی طرف مائل ہے۔ افغانستان پر قبضے کی ناکام کوشش، نگورنوکارباخ کی آڑ میں آرمینیا پر اثرورسوخ، کریمیا کا رشین فیڈریشن میں انضمام اور اب مشرقی یوکرین کی جانب جارحانہ عزائم سے ترکی کو سخت تشویش ہے۔سربوں اور روسیوں کے ہاتھوں تاتاروں کے قتل عام پر ترکی میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
دوسری طرف امریکہ اور نیٹو اتحادی بھی انقرہ کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ مشرقی بحر روم میں یونان فرانس اور اٹلی کے بحری جہازوں کے گشت میں اضافہ ہوگیا ہے جسے ترکی اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے اور اس خطرے کے سدباب کیلئے صدر ایردوان نے روس سے فضائی دفاعی نظام S-400خریدنے کامعاہدہ کیا ہے۔ جس سے ناراضگی کے اظہار کیلئے امریکی کانگریس نے انقرہ پر کچھ پابندیاں عائد کردی ہیں جن میں جدید ترین F-35طیاروں کی فروخت پر پابندی شامل ہے۔ مزے کی بات کہ سودے کی منسوخی کے باوجود F-35کا بیرونی ڈھانچہ اب بھی ترک فولاد سے بنایا جارہاہے۔
روس سے دفاعی مراسم بڑھا کر ترکی واشنگٹن اور مغرب کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ اپنی دفاعی ضروریات کیلئے وہ انکا محتاج نہیں۔اگر نیٹو نے ترکی پر یونان کو ترجیح دی تو انقرہ کے پاس بھی متبادل بندوبست موجود ہے۔لیکن بحر اسود کی کشیدگی سے روس اور ترکی کے تعلقات میں رخنہ خارج ازامکان نہیں۔
روس اور ترکی تعلقات میں پہلے بھی اونچ نیچ آتی رہی ہے۔ لیبیا میں روس، حفتر باغیوں کا اتحادی ہے اور وفاقی حکومت کی نصرت کیلئے ترک ڈرون نے کئی بار روسی اثاثوں پر مہلک حملے کئے ہیں۔ اسی طرح شام میں بھی بشارالاسد کی فوج کیساتھ بعض اوقات انکے روسی اتحادیوں کو بھی ترکی نے نشانہ بنایا ہے۔نگورنو کاراباخ میں ترکی کے میزائیل بردار ڈرونز نے روس کے اتحادی آرمینیہ کی دفاعی لائن کو تہس نہس کیا ہے۔ان ہزیمتوں کی بناپرماضی میں کئی بار صدر پوٹن نے تر کی کیخلاف سخت زبان استعمال کی ہے تاہم زمینی صورتحال اور عالمی سیاست کے تناظر میں ترکی اور روس ایکدوسرے سے لڑائی کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔
کریمیا کے بعد مشرقی یوکرین میں تاتاروں کے قتل عام پر ترک عوام کو سخت تشویش ہے۔ترکی میں تاتاروں کیلئے گہری عقیدت پائی جاتی ہے۔ روس کو بھی معاملے کی نزاکت کا احساس ہے اور صدر پوٹن حالیہ کشیدگی کو بحراسود میں سامراجی مداخلت کا شاخسانہ قراردے رہے ہیں۔روسی حکام کا کہنا ہے کہ بحراسود میں امریکی جہازوں کی آمد اور یوکرین کیلئے نیٹو کی رکنیت روس کو اشتعال دلانے کی ایک کوشش ہے۔ترک حلقوں کاکہنا ہے کہ روس اپنے سرب اتحادیوں پر زور دے رہا ہے کہ وہ تاتاروں کو نشانہ نہ بنائیں اور کچھ مقامات پر تاتار محلوں سے سرب رضاکاروں کو ہٹاکر حفاظت کی ذمہ داری روسی فوج نے سنبھال لی ہے۔ لیکن کریمیا میں تاتاروں کی آمدورفت پر پابندی اور مساجد کی نگرانی کا سلسلہ جاری ہے۔
توسیع پسندی کے حوالے سے روسی عزائم پر ترکی تشویش حقیقت پسندانہ ہے لیکن انقرہ کیلئے امریکہ اور انکے اتحادیوں کی صفوں میں جاکھڑا ہونا بھی ممکن نہیں کہ امریکہ اور یورپی یونین نے آزمائش کی ہر گھڑی میں ترکوں کے روائتی دشمن یونان کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔دوسری طرف بحر اسود میں روس کی بالادستی اور تاتاروں کی نسل کشی بھی ترکوں کیلئے ناقابل برادشت ہے دیکھنا ہے کہ چومکھی جنگ کے ماہر صدرایردوان کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں کہ امریکی تکبر اور روسی توسیع پسندی کے اژدہوں سے گزند بھی نہ پہنچے اور سفارتی عصا بھی محفوظ رہے۔
تازہ ترین: ترک حکومت کا کہنا ہے کہ امریکہ نے بحرِاسود کی جانب جہازوں کی روانی منسوخ کردی ہے
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 16 اپریل 2021
ہفت روزہ دعوت دہلی 16 اپریل 2021
روزنامہ امت کراچی 16 اپریل 2021
ہفت روزہ رہبر سرینگر 16 اپریل
2021
No comments:
Post a Comment