ایشیائی نیٹو NATO؟؟؟؟؟؟
بدھ کی شام صدرجو بائیڈن نے امریکی کانگریس (پارلیمان ) کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ اقتدار کے 100 دن مکمل ہونے پر انھیں ایوان نمائندگان کی اسپیکر محترمہ نینسی پلوسی نے دعوت دی تھی۔ یہ اجلاس اس اعتبار سے منفر د تھا کی امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار کانگریس کے دونوں ایوانوں کی سربراہی خواتین کے ہاتھ میں ہے، یعنی ایوان زیریں کی اسپیکر نینسی پلوسی اور سینیٹ کی صدر نشیں کملادیوی ہیرس۔ حسب توقع اپنے خطاب میں امریکی صدر نے بائیڈن انتظامیہ کی کامرانیوں اور مستقبل کیلئے اپنے عزائم کااظہار کیا۔
اسی کیساتھ امریکی صدر نے مکالمہِ اربع یا Quadrilateral Security Dialogueالمعروف Quadکا سرسری سا ذکر کیا۔ جناب بائیڈن نے کہا کہ ہم بحرجنوبی چین میں نہ صرف عسکری موجودگی برقراررکھیں گے بلکہ چینی صدر کو بتادیا گیاہے کہ امریکہ ہندوبحرالکاہل Indo-pacific میں نیٹو کی طرز پر موثر عسکری قوت رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔اپنے خطاب میں صدر نے تفصیل نہیں بتائی لیکن اس غیر مبہم بیان سے یہ تاثر پیدا ہورہا ہے کہ کواڈ کو نیٹو کے انداز میں منظم کیا جائیگا۔ اس سے پاکستان، بنگلہ دیش سری لنکا اور علاقے کے دوسرے ممالک کیلئے مشکل پیدا ہوسکتی ہے جو چین اور امریکہ دونوں سے دوستی کے خوہشمند ہیں۔
کواڈ ممالک کے درمیان بحرالکاہل کی نگرانی کیلئے فوجی تعاون 2007 سے جاری ہے جسے جاپان کے سابق وزیراعظم شنزو ایبے نے ایشیائی قوس جمہوریت یا Asian Arc of Democracy قراردیاتھا۔ امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلینکن اور قومی سلامتی کیلئے صدرر بائیڈن کے مشیر جیک سالیون کا شمار کواڈ کے معماروں میں ہوتاہے۔ یہ دونوں حضرات اوباما انتظامیہ میں نائب وزیرخارجہ تھے۔
کواڈ کا تزویراتی (Strategic)ہدف بحرالکاہل خاص طور سے بحر جنوبی چین میں چینی بحریہ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو غیر موثر کرنا ہے۔ عسکری صلاحیتوں کی جانچ پڑتال کیلئے کواڈ ممالک وقتاً فوقتاً بحری مشقیں کرتے ہیں۔ اس نوعیت کی پہلی مشق 1992میں ہندوستان کے جنوب مشرقی ساحل پر کی گئی جس میں بھارت اور امریکہ کی بحریہ نے حصہ لیا۔ اس مناسبت سے اسے مالابار بحری مشق پکارا گیا۔ بعد میں اس سرگرمی کا نام ہی مالابار مشق پڑگیا۔اب تک اس نوعیت کی 24 مشقیں ہوچکی ہیں۔ اس سلسلے کی سب سے بڑا مظاہرہ 2020 میں ہوا جب تین سے چھ نومبر کو خلیج بنگال اور 17 سے 20 نومبر تک بحرعرب میں دوستانہ میچ ہوا۔ ان مشقوں میں امریکہ کےتباہ کن جہاز یوایس ایس مک کین، ہندوستان کے جہازو ں شکتی، رنجیو اور شوالہ، آسٹریلیا کےبلیرٹ اور جاپانی تباہ کن جہازاونامی کے علاوہ جدید ترین آبدوزوں نے حصہ لیا۔
گزشتہ دس بارہ سالوں میں چین نے بحر جنوبی اور مشرقی چین میں مصنوعی جزیرے بنا کراس پر اڈے قائم کردئے ہیں۔ عسکری ماہرین نے شک ظاہر کیا ہے کہ کچھ تنصیبات جوہری نوعیت کی بھی ہیں۔امریکہ اور اسکے اتحادیوں کا خیال ہے کہ ان دونوں سمندروں میں چین سے ٹکر لیناآاسان نہیں لہٰذا کواڈ کی توجہ بحرالکاہل سے باہر نکلنے کے راستوں پر ہے جن میں سب سے اہم آبنائے ملاکا ہے۔
ملائیشیا اور انڈونیشی جزیرے سماٹرا کے درمیان سے گزرنے والی اس 580 میل لمبی آبی شاہراہ کی کم سے کم چوڑائی 2 میل ہے۔ آبنائے ملاکا بحرالکاہل کو بحر ہند سے ملاتی ہے۔ کواڈ بندوبست کے تحت اس آبنائے کے شمالی دہانے کی نگرانی ہندوستانی ناو سینا (بحریہ) کو سونپی گئی ہے جبکہ اسکے جنوب مشرقی کونے پر آسٹریلوی بحریہ نظر رکھتی ہے۔ بحر انڈمان سے خلیج بنگال تک بھارتی بحریہ کے جہاز گشت کررہے ہیں۔ جزائر انڈمان پر امریکی و بھارتی بحریہ کی تنصیبات بھی ہیں۔
گزشتہ ماہ کواڈ کا مجازی (Virtual)سربراہی اجلاس ہوا جس میں چاروں ملکوں نے بحرالکاہل و بحر ہند تک رسائی کو یقینی بنانے کیلئے مل کر کام کرنے کا عزم کیا۔کواڈ کی سرگرمیاں بحر الکاہل اور بحر ہند تک محدود ہیں لیکن امریکہ اور کواڈ اتحادی گوادر کو چینی مفادات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔گزشتہ سال ہونے والی مالابار مشقیں بحر عرب میں بھی کی گئی تھیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحفظات نہ ہو تب بھی کواڈ اتحادیوں کو گوادر سے دلچسپی ضرور ہے۔
نیٹو اتحاد کی سب سے اہم شق یہ ہے کہ کہ کسی بھی رکن پر حملہ یا اسکی سلامتی کو خطرہ تمام رکن ممالک پر حملے کے مترادف ہے اور نیٹو اپنے رکن کے دفاع میں ہتھیار اٹھانے کا پابند ہے۔ نائن الیون واقعے کو امریکہ نے اپنی سلامتی کیلئے خطرہ قراردیا تھا چنانچہ افغانستان پر پوری نیٹو نے حملہ کیا حتیٰ کہ ترکی نے بھی اپنے دستے بھیجے کہ نیٹوچارٹر کے تحت انقرہ اسکا پابند تھا۔دو سال بعد جب 2003 میں طیب ایردوان وزیراعظم بنے تب انھوں نے افغانستان میں ترک فوج کا کردار مسلح تصادم سے تبدیل کرکے تعمیرِ نو اور تعلیم و ترقی کے منصوبوں تک محدود کردیا۔اسوقت شمالی افغانستان میں ترک فوج درجنوں اسکول اور ہسپتال چلارہی ہے۔
نیٹو کے انداز میں تنظیم پر اگر کواڈ نے بھی 'دوست کا دشمن ، دشمن کا اصول اپنالیا تو پاکستان کیلئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ اسلام آباد ۔ دلّی کشیدگی ماضی میں کئی بار بھرپور جنگ کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ اگر مستقبل میں اس قسم کی صورتحال پیدا ہوئی تو ہندوستان کواڈ ممالک سے عملی نصرت کی درخواست کرسکتا ہے۔ یہ صورتحال 1974میں پیدا ہوچکی ہے جب قبرص کی ترک آبادی کو دہشت گردوں اور انتہاپسندوں سے بچانے کیلئے ترکی نے جزیرے میں اپنی فوج اتار دی تھی۔ یونان نے ترک حملے کو اپنی سلامتی کیلئے خطرہ قراردیتے ہوئے نیٹو سے عسکری مدد کی درخواست کی لیکن چونکہ ترکی بھی نیٹو کا رکن تھا اسلئے اجتماعی دفاع کا کلیہ غیر موثر ہوگیا۔
No comments:
Post a Comment