Thursday, April 22, 2021

افغانستان! غیر ملکی افواج کی واپسی۔۔ امن کب واپس آئےگا؟؟؟؟

افغانستان! غیر ملکی افواج کی واپسی۔۔ امن کب واپس آئےگا؟؟؟؟

امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے اپنی فوجوں کی واپسی کا حتمی ٹائم ٹیبل جاری کردیا۔ قوم سے اپنے خطاب میں انھوں نے کہا کہ نائن الیون حملے کے بیس سال بعد امریکی فوج کے افغانستان میں رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ امریکی صدر کا خیال ہے کہ افغان جنگ کے اہداف حاصل ہو چکے ہیں، القاعدہ منتشر ہو گئی، بن لادن کیفرکردار تک پہنچ گئے اور اب وقت آ گیا ہے کہ امریکہ کی یہ طویل ترین جنگ ختم کردی جائے۔

نائن الیون سانحہ، اسکے محرکات اور اس افسوسناک لیکن عقل کو ماوف کردینے والی کاروائی  میں افغانستان کے کردار پر خود امریکہ کے دانشور بھی  ابہام کا شکار ہیں۔ فلک بوس عمارتوں کو تباہ کرنے کیلئے مسافر بردار طیاروں (جمبو جیٹ) کاجدید ترین میزائیل کے انداز میں استعمال جہاز رانی کے ماہرین کو اب تک سمجھ میں نہ آسکا۔ اس مبینہ دہشت گرد کاروئی میں ملوث جن 19 افراد کے ناموں کا اعلان کیا گیا ہے، اس میں ایک بھی افغان نہ تھا۔ یہ تمام افراد قانونی دستاویزات پر ویزے لے کرامریکہ آئے اور کئی ماہ سے یہاں جہاز اڑانے کی تربیت حاصل کررہے تھے۔ یہ بات بذات خود حیرت کا باعث ہے کہ ان زیر تربیت ہوابازوں نے اغوا کئے گئے طیارے جس مہارت سے خنجر کی طرح عمارتوں میں پیوست کئے و یسی چابکدستی تو مشّاق ہوا بازوں کے فضائی کرتب میں بھی نظر نہیں آتی۔ 

امریکی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اس پورے معاملے میں افغانستان کا کردار بس اتنا سا تھا کہ وہاں برسراقتدار طالبان نے اسامہ بن لادن کو اپنے ملک میں پناہ دی تھی۔ امریکہ کا مطالبہ تھا کہ اسامہ کو انکے حوالے کیا جائے جسکے جواب میں طالبان کا کہنا تھا کہ پہلے کسی غیرجانبدار ادارے سے اس واقعے میں اسامہ بن لادن کے ملوث ہونے کی تحقیقات کرائی جائے۔ طالبان نے دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اس بھیانک واقعے میں اسامہ بن لادن کی ذمہ داری ثابت ہوگئی تو القاعدہ کے مبینہ سربراہ کو وہ خود سزا دینگے۔ لیکن سرسری تحقیقات سے بھی  پہلے 7 اکتوبر کو امریکہ افغانستان پر چڑھ دوڑا یعنی واقعے کے صرف 28 دن بعد۔چار ہفتے کی قلیل مدت میں اس عظیم الشان مہم کی تیاری بھی عسکری ماہرین کو حیران کئے ہوئے ہے۔

اس غیر متعلقہ گفتگو پر معذرت کیساتھ اب ہم اپنے موضوع پر واپس آتے ہیں۔

امریکی قوم سے اپنے خطاب میں صدر بائیڈن نے کہا کہ نائن الیون واقعے کے بعد جب صدر جارج بش نے افغانستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر حملے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے اسکی تائید کی تھی۔ اپنے دورِ نائب صدارت میں وہ خود افغانستان گئے اور  کنڑ وادی جیسے علاقوں میں کچھ وقت گزارا۔ جس سے انکا یہ خیال پختہ ہوگیاکہ افغانستان کے پائیدار سیاسی حل کے لئے افغان قیادت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ امریکی اور اتحادی افواج افغانستان میں مستحکم حکومت کے قیام کی ضمانت نہیں۔ میں افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی کی نمائندگی کرنے والا چوتھا امریکی صدر ہوں، اس سے پہلے دو ری پبلکن اور دو ڈیموکریٹک صدر افغانستان کی جنگ کے خاتمے کی کوششیں کر چکے ہیں۔ اور اب یہ ذمہ داری پانچویں صدر کے پاس نہیں جانی چاہئے۔امریکی صدر کا کہنا تھاکہ نائب صدر کملا ہیرس، نیٹواتحادیوں، عسکری قیادت اور ارکانِ کانگریس سے مشاورت کے بعد انھوں نے نائن الیون کی بیسویں برسی یعنی اس سال گیارہ ستمبر تک افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ اسی کیساتھ انھوں نے کابل انتظامیہ کو یقین دلایا کہ امریکی حکومت امن مذاکرات میں سہولت کاری اور افغان فوج کی تربیت کے لئے بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گی۔امریکی رہنماوں کے اس شوقِ کشور کشائی کی جو قیمت افغانوں نے ادا کی اسکا تو تخمینہ بھی لگانا بہت مشکل ہے لیکن شیطانی انا کی تسکین پر چچا سام نے 23 کھرب ڈالر پھونک دئے۔ سوا چار ہزار کے قریب کڑیل جوان اپنی جانوں سے گئے اور معذور ہونے والے ہزاروں جوانِ رعنا نشانِ عبرت بنے ہوئے ہیں۔

فوجی ناکامی کے اعتراف کیساتھ روائتی امریکی تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے دھمکی دی کہ انخلا کے دوران اگرامریکی اور اتحادی افواج پرحملے کئے گئے تواس کا پوری قوت سے جواب دیاجائیگا۔ انھوں نے ملاوں کو انکا یہ وعدہ بھی یاد دلایا کہ افغان سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف دہشتگردی کیلئےاستعمال نہیں ہونے دیا جائیگا۔سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ یہ دوجملے امریکی عوام کی تسلی کے لئے تھے کہ ہم پسپا نہیں ہورہے بلکہ ملاوں سے شرائط منواکر واپس آرہے ہیں اسلئے کہ یہ یقین دہانی قطر معاہدے میں پہلے سے شامل ہے۔اپنی تقریر میں انھوں نے پاکستان سے 'ڈومور' کا روائتی مطالبہ دہراتے ہوئےکہاکہ افغانستان میں امن کیلئے اسلام آباد کی جانب سے مزید اقدامات کی توقع ہے۔آگے بڑھنے سے پہلے یہ بتاناضروری ہے کہ پاکستان کے روائتی حریف نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ہندوستانی فوج کے سربراہ جنرل بیپن راوت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ نیٹو افواج کی واپسی سے پیدا ہونے والے خلا کو  دہشت گرد پُر کرسکتے ہیں اورطالبان کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کی بدولت پاکستان بڑا فائدہ حاصل کرسکتا ہے۔

یہ اعلان اس اعتبار سے کسی حد تک حیران کن تھا کہ جنوری میں اقتدار سنبھالتے ہی صدر بائیڈن نے قطر امن معاہدے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے غیر ذمہ دارنہ و عاجلانہ قراردیا تھا۔ انکا کہناتھا کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن معاہدے سے پہلے  نیٹو کی واپسی افغانستان بلکہ پورا علاقے کو غیر مستحکم کرنے  کا سبب بن سکتی ہے۔ امریکہ کے بدلتے تیور دیکھ کر نیٹو نے بھی مزید کچھ عرصہ وہاں رہنے کا خیال ظاہر کیاتھا۔

اسی دوران امریکی صدر کی ہدائت پر  سی آئی اے اور امریکی فوج نے زمینی صورتحال کا  تفصیلی جائزہ لیا۔ اس مطالعے کی جو رپورٹ امریکی صدر کو پیش کی گئی اسکے مطابق افغانستان میں صورتحال مایوس کن  ہےاور آئندہ سال تک کسی امن معاہدے کا امکان نہیں۔ ہر محاذ پر طالبان  کو برتری حاصل ہے اور ماہرین کا خیال ہے کہ سرکاری فوج کیلئے ملاوں کے سامنے زیادہ دیر ٹہرنا ممکن نہیں۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اتحادیوں کے انخلا سے صورتحال مزید خراب ہوگی۔ دوسری طرف طالبان نے دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر قطر معاہدے کے مطابق مئی تک انخلا مکمل نہ ہوا تو وہ  براہ راست امریکی سپاہ کو نشانہ بنائینگے۔ اسی خطرے کے پیشِ نظر صدر بائیڈن اپنے فوجیوں کو جلد ازجلد وہاں سے نکا ل لینا چاہتے ہیں۔

اس فیصلے کے ساتھ ہی  اتحادیوں، زیردستوں اور سہولت کاروں کو اعتماد میں لیاگیا۔امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے 14 اپریل کو  پاک فوج کے سپہ سالار  جنرل قمر جاوید باجوہ سے فون پر رابطہ کیا اور انھیں فوجی انخلا کے بارے میں آگاہ کیا۔اس دوران  باہمی دلچسپی کے اُمور، علاقائی صورتِ حال اور افغان امن عمل پر تفصیلی تبادلۂ خیال کیاگیا۔ فوج کے ادراہِ تعلقاتِ عامہ کے مطابق جنرل باجوہ  نے افغان امن کوششوں میں اپنے بھرپور تعاون کا عزم ظاہر کیا۔

نیٹو NATOقیادت کو اعتماد میں لینے کیلئے امریکہ کے وزرائے خارجہ اوردفاع برسلز پہنچے جہاں اعلی سفارتی و عسکری قیادت سے گفتگو کے بعد دونوں رہنماوں نے نیٹو کے معتمدِ عام جینس اسٹولٹنبرگ  Jens Stoltenberکے ہمراہ اخباری نمائندوں سے خطاب کیا۔ جناب اسٹولٹنبرگ نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکی فوج کے ساتھ افغانستان میں موجود نیٹو کے سات ہزار فوجیوں کی واپسی بھی یکم مئی سے شروع ہوگی اور انخلا 11 ستمبر تک مکمل کرلیا جائیگا۔ برطانیہ پہلے ہی اپنےتما م  فوجی  ستمبر تک واپس بلالینے کااعلان کرچکا ہے۔اسوقت برطانیہ کے  750 عسکری ماہرین  کابل اکیڈمی میں سرکاری فوجوں کو تربیت دے رہے ہیں۔

کابل میں اپنے نیازمندوں کو امریکی عزائم سے اگاہ کرنے کو وزیرخارجہ انٹونی بلینکن  خود کابل تشریف لائے۔حسب معمول اس دورے کا پہلے سے کسی کو علم نہ تھا اور اسکا اعلان اسوقت کیا گیا جب واپسی کیلئے وزیر باتدبیر کا جہاز کابل سے اڑان بھر چکا تھا۔کابل قیام کے دوران امریکی وزیر نے قصر صدارت میں ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔جناب بلینکن نے اپنے افغان دوستوں کو یقین دلایا کہ انخلا کے بعد بھی امریکہ افغان حکومت کی مددواعانت جاری رکھے گا۔کابل کے امریکی سفارتخانے میں مسٹر بلینکن نے افغانستان کے سماجی و سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کی۔حزب اسلامی کے امیرگلبدین حکمتیار نے اس ملاقات میں شرکت نہیں کی۔ جناب حکمتیار غیر ملکی فوج کے مکمل انخلا سے پہلے امریکی حکام سے ملنے کے حق میں نہیں۔

اسی کیساتھ ترکی، قطر اور اقوام متحدہ کے زیراہتمام استنبول میں منعقد ہونے والی افغان امن کانفرنس  کی نئی تاریخوں کا اعلان کردیا گیا۔ پہلے یہ بیٹھک 16 اپریل سے شروع ہونی تھی۔انخلا کے سرکاری اعلان کے بعد یہ کانفرنس  24 تا 4 مئی استنبول میں ہونا قرارپائی لیکن طالبان کے انکار پر اب یہ مذاکرات عید الفطر کے بعد ہونگے۔ طالبان کے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم کا کہناہے کہ انخلا کی نئی تاریخ (یعنی یکم مئی) کے اعلان سے پہلے اپنی شرکت کے بارے میں طالبان کوئی فیصلہ نہیں کرینگے۔

انخلا کے فیصلے پر صدربائیڈن کو امریکہ کے قوم پرستوں اور قدامت پسندوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔خودانکی ڈیموکریٹک پارٹی کی سینیٹر  محترمہ جین شاہین نے کہا 'میں صدر بائیڈن کی جانب سے افغانستان سے نکلنے کے لیے ستمبر کی ڈیڈلائن مقرر کرنے کے فیصلے سے بہت مایوس ہوں۔ اگرچہ امریکہ نے یہ فیصلہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مشورے کے بعد کیا ہے، لیکن امریکہ نے افغانستان کے اندر استحکام لانے کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں اور اب وہ ایک محفوظ مستقبل کی قابل بھروسہ یقین دہانی کے بغیر وہاں سے نکل رہا ہے'۔ریپبلکن پارٹی کے سینیر رہنما اور سینیٹ کی بجٹ کمیٹی کے نائب سینٹر لنڈے گراہم نے کہا کہ صدر بائیڈن نے جنگ ختم نہیں کی بلکہ جنگ کو وسیع کر دیا ہے۔ امریکی قوم  ایک اور نائن الیون برپا ہونے کے خلاف انشورنس پالیسی سے محروم ہو رہی ہے۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف مچ مک کانل نے لگی لپٹی بغیر افغانستان سے انخلا کو بہت بڑی غلطی ، پسپائی اور طالبان کی فتح کا اعتراف قراردیا

کیا فوجی انخلا کا نیا سنگِ میل ملّاوں کیلے قابل قبول ہے ؟ اس ضمن میں طالبان کے اشارے نفی میں ہیں۔ طالبان کا اصرار ہے کہ امریکہ قطر معاہدے کا احترام کرے جسکے تحت غیر ملکی فوجوں کی واپسی کیلئے یکم مئی کا ہدف طئے کیا گیا تھا۔ طالبان کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ طالبان پورے اخلاص کیساتھ قطر معاہدے پر عمل کررہے ہیں اور اگر امریکہ نے وعدے کی پاسداری نہ کی تو تمام نقصانات کا ذمہ دار وہ خود ہوگا۔

ان ضمن میں دوسری جانب سے بھی متضاد اشاروں کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے ترکی کے وزیرخارجہ مولود  داؤد اوغلو نے اپنے افغان ہم منصب حنیف اتمار اور نیٹو کے سکریٹری جنرل سے گفتگو کے بعد ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہاآنے والے دنوں میں افغانستان کی مدد کیلئے نیٹو متبادل بندوبست پر غور کررہا ہے ترک وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ 'اس سلسلے میں کئی تجاویز پر غور ہورہا ہے جن میں نیٹو کے ساتھ دوسری اقوام یابین الاقوامی  حمائت یا افغان حکومت کے ساتھ مل کر ایک قابل قبول ڈھانچہ'۔ وزیر موصوف  کی گفتگو اس لحاظ سے مبہم تھی کہ انھوں نے “آنے والے دنوں” کی وضاحت نہیں فرمائی کہ اس سے مراد اب سے مکمل انخلا تک کا  عبوری دور ہے یا وہ انخلا کے بعد کے حفاظتی اقدامات کا ذکر کررہے تھے۔نیٹو کے نکل جانے کے بعد کسی بھی شکل اور نام سے کوئی دوسری غیر ملکی فوج طالبان کیلیے  قابل قبول نہیں۔

دوسری طرف امریکی وزارت دفاع (پینٹاگون) نے عارضی طور پر کچھ اضافی دستے افغانستان بھیجنے کی بات شروع کردی ہے۔ پینٹاگون کے ترجمان جان کربی  کا کہنا ہے کہ فوجی انخلا کو تحفظ دینے کے لیے اگلے ہفتے یا مہینے کچھ مزید فوجی افغانستان روانہ کئے جارہے ہیں۔ ترک وزیرخارجہ کی طرح جناب کربی نے بھی زیادہ تفصیل نہیں بیان کی  لیکن انکا کہنا تھا کہ  افغانستان خشکی سے گھرا ملک ہے اور واپس ہوتی فوج پر حملہ خارج از امکان نہیں چنانچہ پیش بندی کے طور پر اضافی دستوں کی تعیناتی سمیت کئی دوسرے حفاظتی اقدامات کے بارے میں سوچ و بچار جاری ہے۔

امریکیوں کا خیال ہے کہ پاکستان طالبان کو انخلا کا نیا ہدف قبول کرنے پر رضامند کرسکتا ہے اور انھیں توقع تھی کہ اسلام آباد ملاوں کو استنبول کانفرنس میں شرکت پر راضی کرلیگا۔ اس سلسلے امریکی وزیرخارجہ کی جنرل باجوہ اورشاہ محمود قریشی کی اپنے ترک و افغان ہم منصبوں سے گفتگو کو بہت اہمیت دی جارہی ہے۔ بلاشبہہ پاکستان  نے بین الافغان مذاکرات پر طالبان کو  راضی کرنے میں اہم لیکن خاموش کردار ادا کیا ہے۔ سعودی عرب، پاکستان اور متحدہ عرب امارات ہی وہ تین ممالک تھے جنھوں نے 1996 میں کابل پر قبضے کے ساتھ ہی طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا لیکن امریکی حملے کے بعد دہشت گردی کی جنگ میں پرویز مشرف نے جس بے شرمی کیساتھ امریکہ کو مدد فراہم کی اسے طالبان اپنی پشت میں خنجز زنی سمجھتے ہیں۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے حالیہ بیان پر کہ  'پاکستان کابل پر طالبان کے دوبارہ قبضے کا حامی نہیں' طالبان نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔دوسری طرف کابل سرکار پاکستان پر اعتماد نہیں کرتی اور اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار اسلام آباد کو قرار دیتی ہے۔ امریکہ امن عمل میں پاکستان کے کردار کو تسلیم تو کرتا ہے مگر اسلام آباد پر واشنگٹن کو بھی  مکمل اعتماد نہیں۔ نائب صدر کی حیثیت سے جوبائیڈن پاکستان کو 'ناقابل اعتماد' اتحادی قراردے چکے ہیں۔

بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ فوجی انخلا کا نیا نظام الاوقات طالبان کیلئے ناقابل قبول ہے۔ تاہم واشنگٹن کے صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ زلمے خلیل زاد طالبان سے رابطے میں ہیں اور انخلا کیلئے اپنے عزم و اخلاص کے اظہار اور اعتماد و خیر سگالی کے طور پر وہ طالبان کو کچھ اضافی مراعات پیش کررہے ہیں۔ جن میں تمام جنگی قیدیوں کی رہائی اور دہشت گرد فہرست سے طالبان رہنماوں کے ناموں کا اخراج شامل ہے۔ قطر معاہدے کے بعد طالبان کے 5000 قیدی رہا کردئے گئے تھے لیکن اب بھی 7000 کے قریب طالبان، افغان حکومت کی قید میں ہیں۔ یعنی مایوسی کی طویل سرنگ کے سرے پر امید کی مدھم سی روشنی نظر آرہی ہے۔

ہم اپنی گفتگو کا اختتام حزب اسلامی افغانستان کے امیر گلبدین حکمتیار کے طالبان کے نام اس مشورے پر کرتے ہیں کہ' آپ فوری امن چاہتے ہیں یا جنگ کو منظقی انجام تک پہنچانے کیلئے پرعزم ہیں، بات چیت کا دروازہ بند نہ کریں اسلئے کہ تنازعے کا فیصلہ آخرِ کار بات چیت سے ہی ہوگا'

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 23 اپریل 2021

ہفت روزہ دعوت دہلی، 23 اپریل 2021

روزنامہ امت کراچی 23 اپریل 2021

ہفت روزہ رہبر سرینگر 25 اپریل


2021

 

 

No comments:

Post a Comment