Thursday, April 8, 2021

ایران جوہری معاہدہ۔ مثبت پیشرفت

 

ایران جوہری معاہدہ۔ مثبت پیشرفت 

ایران تک جوہری ہتھیاروں کی رسائی  روکنے کیلئے 2015میں ہونے والا معاہدہ  بحال کرنے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ ایران اور مغرب کے درمیان حالیہ تنازعے کا آغاز 2007 میں اسوقت ہوا جب ایران نے اپنی توانائی کی ضرورت پوری کرنے کیلئے جوہری وسائل استعمال کرنے کا اعلان کیا۔ امریکہ، اسرائیل اور انکے خلیجی اتحادیوں کا خیال تھا کہ ایران توانائی کی آڑ میں جوہری ہتھیار بنا رہا ہے چنانچہ ایران پر سخت تجارتی پابندیاں عائد کردی گئیں اور چین نے وعدے کے باوجود پابندیوں کی قرارداد کو ویٹو نہ کیا۔

سخت پابندیو ں سے پریشان ہوکر ایران نے بات چیت کا ڈول ڈالا اور برسوں کے جانگسل اور اعصاب شکن مذاکرات کے بعد 14 جولائی 2015 کو پابندیاں ہٹانے کے عوض ایران یورینیم کی افزودگی ختم کرکے اپنے جوہری پروگرام کو roll-backکرنے پر رضامند ہوگیا۔ معاہدے کے متن کی تیاری کا مرحلہ بھی اتنا آسان نہ تھا۔اس کام میں تین ماہ صرف ہوئے اور آخرِ کار 18 اکتوبر 2015کو معاہدے پر دستخط کے بعد 16 جنوری 2016 سے اس پر عملدرآمد شروع ہوا۔ اسی کیساتھ ایران پر سے پابندیاں ہٹالی گئیں۔ یہ معاہدہ برنامہ جامع اقدام مشترک Joint Comprehensive Plan of Actionیا JCPOAاور فارسی میں برجام کہلاتا ہے۔ سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کے علاوہ جرمنی  بھی برجام  میں فریق ہے چانچہ اسے5+1معاہدہ بھی کہا جاتاہے۔ بعد میں ضامن کی حیثیت سے یورپی یونین نے بھی اس پر دستخط کئے ۔ 

برجام معاہدے کو صدراوباما اور اقوام متحدہ نے مثالی قراردیا تھاکہ طاقت کے استعمال کے بغیر جوہری تنازعہ پُرامن انداز میں حل کرلیا گیا۔لیکن اسرائیل کو برجام پر شدید تحفظات تھے۔ وزیراعظم نیتھن یاہو نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا تھاکہ انکا ملک ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ اس دوران امریکہ میں صدارتی مہم چل رہی تھی۔ ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈانلڈ ٹرمپ برجام کے سخت مخالف تھے۔ وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران ایران جوہری معاہدے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ۔ انھوں نے تہران کے جوہری پروگرام کو اسرائیل کی سلامتی کیلئے شدید خطرہ قراردیااور انکا خیال تھا کہ ایرانیوں نے صدر اوباما کو بے وقوف بناکر ایک جعلی معاہدہ کیا جسکے نتیجے میں اس پر عائد معاشی پابندیاں ختم کردی گئیں۔جناب ٹرمپ  نے وعدہ کیا تھاکہ برسراقتدار آکر وہ اس معاہدے کو منسوخ کردینگے۔ دلچسپ بات کہ برجام کی امریکی سینیٹ سے 1 کے مقابلے میں 98 اور ایوان زیریں سے 25 کے مقابلے میں 400 ووٹوں سے توثیق ہوچکی ہے۔

معاہدے کو عالمی جوہری کمیشن IAECکی ششماہی  تصدیق سے مشروط کیا گیا ہے۔ ہرششماہی جائزے کے بعد تمام  ممالک کے سربراہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ایران  برجام پر مخلصانہ عمل کررہا ہے۔ صدر ٹرمپ نےاس نوعیت کی تصدیق مارچ 2018میں بقلمِ خود فرمائی لیکن  تصدیق کے صرف دو ماہ بعد  8 مئی کو اپنی نشری تقریر میں برجام سے علیحدہ ہونے کا اعلان  کردیا۔ انکے لئے امریکی کانگریس سے اپنے فیصلے کی توثیق ممکن نہ تھی چنانچہ انھوں نے صدارتی فرمان جاری کرکے اپنی خواہش کو مہر تصدیق عطاکردی۔ اسی کے ساتھ انھوں نے عالمی برادری پر زوردیا کہ ایران پر دوبارہ وہی پابندیاں عائد کردی جائیں جو اس معاہدے سے پہلے اس پر لگائی گئی تھیں۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ  ایک آمرانہ حکومت ایرانی عوام کے سروں پر مسلط ہے جو 1979ء کے شدت پسند اسلامی انقلاب کا تسلسل ہے۔ ملاوں کی یہ حکومت مذہبی انتہا پسندی اور عدم رواداری کی راہ پر گامزن ہے۔صدر ٹرمپ نے کہا کہ ایران یمن میں دہشت گردی کی سرپرستی کررہا ہے۔ ایران حزب اللہ، حماس اور القاعدہ کا پشتیبان ہے اور مرگ بر امریکہ و مرگ بر اسرائیل ایران کا قومی نعرہ ہے۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت کی مدد کے علاوہ ایران عراق اور افغانستان میں بھی  شدت پسندی، دہشت گردی اور فرقہ واریت کو فروغ دے رہا ہے۔ امریکی صدر نے الزام لگایا کہ ایران درپردہ (proxy)لڑائیوں کی سرپرستی کے ذریعے علاقے میں عدم استحکام پھیلارہا ہے جسکی وجہ سے تہران علاقائی اور بین الاقوامی امن اور سکیورٹی کے لیے مستقل خطرہ بنا ہوا ہے۔ تہران کے خلاف فرد جرم میں یہ الزام بھی ٹانک دیا گیا کہ ایرانی حکومت شمالی کوریا کو مالی و تیکنیکی مدد فراہم کر رہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے مخصوص متکبرانہ لہجے میں کہا کہ  اس بات کو یقینی بنانے کیلئےکہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار تیاریا حاصل نہ کرسکے تہران پر عبرتناک پابندیاں عائد کیجائینگی۔

امریکہ کی پابندیوں نے ایران کیلئےدوا اورغذاکاحصول بھی مشکل کردیا اور عالمی ادارہ صحت کا خیال ہے کہ ان پابندیوں سے تہران کی انسداد کرونا مہم بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ایرانی وزارت صحت کے مطابق بروقت دوائیں نہ ملنے سے ہزاروں مریضوں دم توڑ گئے۔

معاہدے کی یکطرفہ منسوخی نے جہاں امریکہ کو متکبر ریاست اور عالمی معاہدے کے تناظر میں واشنگٹن کو ناقابل  اعتبار ملک ثابت کیا وہیں معاہدے کے دوسرے دستخط کنندگان کا اخلاقی معیار بھی کھل کر سامنے آگیا۔

عالمی ایٹمی کمیشن کی ایک کے بعد دس رپورٹوں میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ  ایران برجام پر اخلاص کے ساتھ عمل کررہا تھا لیکن امریکہ کو برجام کی پاسداری پر مجبور کرنے کے بجائے واشنگٹن کے دباو پر چین سمیت تمام دوسرے دستخط کنندگان نے ایرانی تیل کی خریداری منقطع کردی۔ ایرانی وزیرخارجہ جاوید ظریف نے اس بارے میں یورپی یونین کے نام ایک خط میں توجہ دلائی اور ساتھ ہی کہا کہ اگر60 دن کے عرصے میں یورپی ممالک   نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو تہران برجام  سے علیحدہ ہوکر یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کردیگا۔ اس خط کے جواب میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ بیان میں ایران کے خلاف امریکی پابندیوں پر 'افسوس' کا اظہار کیا۔ جوابی مکتوب میں اس بات کی تعریف و تحسین کی گئی کہ ایران اب تک اس معاہدے پر اسکی متن اور روح کے مطابق عمل کررہاہے۔ تاہم ایرانی وزیر خارجہ کیجانب سے پابندیاں ختم کرنے کی بات  کو گول کرتے ہوئے ایران کو  برجام پر مخلصانہ عملدرآمد کی تلقین کی گئی۔

یورپ کے مایوس کن جواب پر ایران نے یورینیم کی افزودگی کے کام کو دوبارہ شروع کرنے کے ساتھ اپنے میزائیلوں کے نظام کو بھی بہتر بنانا شروع کردیا۔جواب میں اسرائیل نے ایرانی جوہری پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر محسن فخرزادے کو ایک کار بم دھماکے میں قتل کرادیا۔ایرانی جوہری ماہرین کے قتل کاسلسلہ 2010 سے جاری ہے۔گزشتہ تیرہ سال کے دوران ایران کے 5انتہائی تجربہ کار سائنسدان اسرائیلی ایجنٹوں کے ہاتھوں قتل اور ایک ماہر اپاہج ہوچکے ہیں۔

برنامج بلاشبہ سابق صدر اوباما کا ایک بڑا کارنامہ تھا اور نائب صدر جو بائیڈن نے بھی اس سلسلے میں اہم کردار اداکیا۔اب صدر کی حیثیت سے انھوں نے سی آئی اے، وزارت خارجہ و قومی سلامتی کیلئے جن وزیروں اور مشیروں کا انتخاب کیا ہے اس سب نے برجام مذاکرات اور تدوینِ معاہدہ کی اہم ذمہ داریاں اداکی تھیں۔ وزیرخارجہ انٹونی بلیکنکن نائب صدر بائیڈن کے مشیر قومی سلامتی تھے جو بعد میں صدر اوباماکے نائب وزیر خارجہ مقرر ہوئے۔صدر بائیڈن کے مشیر قومی سلامتی جیک سولیون، نائب صدارت کے دوران بھی جناب بائیڈن کے مشیر سلامتی تھے جنھیں بعد میں صدر اوباما نےاپنا نائب مشیر تعینات کیا۔ سی آئی اے کے سربراہ ولیم برنس صدر اوباما کی کابینہ میں نائب وزیرخارجہ تھے۔

ایران کے حوالے سے بائیڈن ٹیم کے ایک انتہائی اہم رکن جناب رابرٹ ملّے (Robert Malley)ہیں۔ اٹھاون سالہ مصری نژاد رابرٹ صدر اوباما کے مشیر خصوصی برائے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور خلیجی امور تھے۔ برجام کو جناب ملے کی کامیاب سفارتکاری کا کمال قراردیا جاتا ہے۔ اب جناب ملّے صدر بائیڈن کے خصوصی نمائندہ برائے ایران ہیں۔

برنامج سے امریکہ کی علیحدگی پر جو بائیڈن نے شدید تنقید کی تھی۔ انتخابی مہم کےدوران صدر ٹرمپ سے مباحثہ کرتے ہوئے انھوں نے کہاکاجوہری معاہدے سے یک طرفہ نکل آنے کے نتیجے میں باہمی تناؤ کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوا اور 2015  کے مقابلے میں  ایران آج جوہری ہتھیار تیار کرنے کے زیادہ قریب ہے۔جو بائیڈن نے عندیہ دیا تھاکہ اگر ایران برنامج کی شرائط پر مخلصانہ عمدرآمد کی یقین دہانی کروادے تو امریکہ معاہدے میں واپس آ جائے گا۔ چنانچہ اقتدار سنبھالتے ہی صدر بائیڈن نے برنامج میں امریکہ کی واپسی کیلئے مشاورت شروع کردی۔

جمعہ 2اپریل کو یورپی یونین نے مصالحت کار کے طور پر ایک آن لائن اجلاس کا اہتمام کیا، جس میں برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور ایران کے عہدیداروں نے شرکت کی۔ اجلاس میں ایران کو امریکہ کی جانب سے پیغام دیا گیا کہ اگر وہ یورینیم کی افزودگی روک کر  برجام پر عملدرآمد شروع کردے تو واشنگٹن ایران پر عائد پابندیاں بتدریج نرم کردیگا۔ ایران نے اس پیشکش کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ شرمناک اور غیر قانونی پابندیوں کو مکمل اور فوراً ختم ہوجانا چاہئے۔ ایرانی وزات خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادے نے اپنے بیان میں کہا کہ پابندیوں کے مکمل خاتمے سے پہلے تہران کسی بھی  قسم کی گفتگو کو غیر ضروری اور وقت کا زیاں سمجھتا ہے۔ امریکہ کے اس بیان پر ایران کے اشتعال کو کم کرنے کیلئے فرانسیسی وزیرخارجہ جین ڈرین (Jean Drian)نے اپنے ایرانی ہم منصب سے فون پر بات کی۔ فرانسیسی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ دونوں رہنماوں کے درمیان بات چیت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ فرانسیسی وزیرخارجہ نے جوہری تنازعے کو بات چت کے ذریعے کرنے کیلئے ایران کے مثبت روئے کی تعریف کرتے ہوئے جناب تہران  پر زور دیا کہ وہ برجام پر عملدرآمد جاری رکھے تاکہ بامقصد مذاکرات شروع کئے جاسکیں۔ گفتگوکے دوران ایرانی وزیرخارجہ جاوید ظریف نے دوٹوک انداز میں کہا کہ براہ راست بات چیت کے آغاز سے پہلے امریکہ کو ایران پر عائد پابندیاں ہٹانی ہونگی اور تہران اپنی اس شرط سے کسی قیمت پر دستبردار نہیں ہوگا۔

یورپی یونین کی کوششوں سے ایران امریکہ سے بالواسطہ بات چیت پر راضی ہوگیا اور اس سلسلے میں 6 اپریل کو  آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ایران، برطانیہ، فرانس، چین اور روس کے درمیان پہلی  اعلیٰ سطحی ملاقات ہوئی جبکہ امریکہ کے نمائندے  دوسرے ہوٹل سے انٹرنیٹ کے ذریعے شریک گفتگو رہے۔ ایک شہر میں ہوتے ہوئے بھی آمنے سامنے بیٹھ کر گفتگو کے بجائے مصالحت کاروں کے  ذریعے یہ 'انوکھے' مذاکرات بظاہر کامیاب رہے اور تجزیہ نگار اسے مستقل پیشرفت قراردے رہے ہیں۔اس دوران پابندیاں ہٹانے کے تیکنیکی امور پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔ ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایرانی وفد کے سربراہ عباس عراقچی نے کہا کہ وہ بات چیت سے مطمئن ہیں اور ایران گفتگو جاری رکھنے کے حق میں ہے۔ امریکہ کے خصوصی نمائندے رابرت ملّے نے کہا کہ جوہری معاہدے کے بعد پابندیاں اٹھانے کا جو وعدہ کیا گیا تھا اسکے معاشی فوائد سے مستفید ہونا ایران کا حق ہے۔

جوہری تنازعے کے باعزت تصفئے اور ایران سے تعلقات بہتر بنانے میں امریکہ کی دلچسپی کی ایک وجہ تہران کی چین سے بڑھتی ہوئی قربت ہے۔ ستائیس مارچ کو چین اور ایران نے 25 سالہ تزویراتی(Strategic )معاہدے پر دستخط کئے ہیں جسکا مجموعی حجم چارسو ارب ڈالر   سے زیادہ ہے۔ تہران میں طئے پانے والے معاہدے کے تحت ایرانی تیل و معدنیات کے عوض یہ خطیر رقم چین فراہم کریگا اور دونوں ملک دفاع، معیشت ، ابلاغیات ، مواصلات اور جہاز رانی کے میدان میں قریبی تعاون کرینگے۔ امریکہ کو ڈر ہے کہ چین ایران قریبی تعاون سے علاقے میں امریکہ  کا اثرورسوخ کم ہوجائیگا۔ حال ہی میں عراقی وزیراعظم نے کہا ہے کہ انکے ملک کواپنے دفاع کیلئے امریکی فوج کی ضرورت نہیں۔ واشنگٹن پر افغانستان سے فوج واپس بلانے کیلئے دباو بھی  بڑھتا جارہاہے۔ جمال خاشقجی قتل پر امریکہ کے موقف کو خلیجی ممالک اندرونی معاملات میں مداخلت سے تعبیر کررہے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو امریکی اسلحے کی فراہمی معطل کرنے اور یمنی حوثیوں کا نام دہشت گردوں کی فہرست سے محدود مدت کیلئے ہٹانے جیسے اقدامات سے بھی امریکہ اور اسکے خلیجی اتحادیوں کے درمیان تعلقات کی گرمجوشی ماند پڑتی نظر آرہی ہے۔اس تناظر میں ایران اور چین کا اتحاد امریکہ بہادر کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ سیانوں کا خیال ہے کہ بیجنگ تہران دوستی نے امریکہ کو اپنا رویہ بدلنے پر مجبور کیا ہے۔

عوامل ومحرکات سے قطع نظر ایران امریکہ کشیدگی میں کمی، امن دوستوں کیلئے اچھی خبر ہے۔ اس تناو نے آبنائے ہرمز سے گزرنے والے جہازوں کابیمہ مہنگا کردیا ہے۔ اس آبی شاہراہ سے دنیا کا 40 فیصد خام تیل گزرتاہے۔ متوقع حملوں کے خوف سے جہازوں کے حفاظتی اقدامات پر بھی خطیر رقم خرچ ہوتی ہے۔ سب سے بڑھ کر ان پابندیوں کی وجہ سے ایرانی عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ کرونا کی ستائے ایرانی عوام راحت کےمستحق ہیں۔

اس مرحلے پر اس شخص کو کٹہرے میں لانا بھی ضروری ہے جس نے محض انا کی تسکین کیلئے نہ صرف اپنے ملک کو یکطرفہ طور پر معاہدے سے سبکدوش کرلیا بلکہ ناروا پابندیاں عائد کرکے ساڑھے آٹھ کروڑ انسانوں کو عذاب میں مبتلا کردیا۔ صدر ٹرمپ کے ظالمانہ روئے سے زیادہ شرمناک مہذب دنیا کی بے حسی ہے۔ امریکہ کے علاوہ معاہدے کے پانچوں دوسرے فریق اور ضامن نے ایک سے زیادہ بار گواہی دی کہ ایران برجم پر اسکے الفاظ اور روح کے مطابق عمل کررہا ہے۔ ایرانی تنصیبات کا دس بار  تفصیلی جائزہ لیا گیا اور معاہدے کی خلاف ورزی کا کوئی ثبوت نہ ملا۔ ماہرین کے ہر وفد میں امریکی سائینسدان بھی شامل تھے۔ اسکے باوجود کسی ایک ملک کو امریکی تکبر کے آگے کھڑا ہونے کی جرات نہ ہوسکی۔ اس معاہدے پر مبارک سلامت کی جو گلپاشی کی گئی تھی اسکی چند کلیاں یہاں پیشِ خدمت ہیں:

  • یہ علا قے میں امن و استحکام کیلئے اہم ترین قدم ہے۔ بان کی مون، معتمدِ عام اقوام متحدہ
  • معاہدے پر عملدرآمد کی ضمانت ہر نقص سے پاک ہے، یوکیا امانو  Yukia Amano ، سربراہ عالمی ایٹمی ایجنسی
  • تمام فریق کیلئے بہترین اور تاریخی معاہدہ ہے، صدر اوباما
  • اس عظیم الشان کامیابی کو سہرا تمام فریقوں کے سرہے۔ جرمن چانسلر محترمہ اینجیلامرکل

اگر بین الاقوامی معاہدوں کو اسی طرح بیک جنبش قلم منسوخ کرنے کی روش چل نکلی تو  اس سے معاہدوں اور وعدوں کی ساکھ ختم ہوجائیگی۔اس جانب شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ انھ بھی اشارہ کرچکے ہیں۔ ویتنام چوٹی کانفرنس کی ناکامی کے بعد شمالی کوریا کے چئر مین نے کہا کہ اگر میرا ملک امریکہ سے معاہدہ کرکے اپنا جوہری پروگرام ختم کر دے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ صدر ٹرمپ کے بعد آنے والی انتظامیہ معاہدہ منسوخ کرکے شمالی کوریا پرنئی پابندیاں نہیں لگادیگی؟ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کو اپنی ذمہ داری ادا کرنے چاہئے لیکن  اس لاچار عفیفہ کے بارے میں حضرت انور مسعود کے چار مصرعوں پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں۔

 تمہاری بھینس کیسے ہے کہ جب لاٹھی ہماری ہے

اب اس لاٹھی کی زد پر جو بھی آئے سو ہمارا ہے

مذمت کاریوں سے تم ہمارا کیا بگاڑو گے

تمہارے ووٹ کیا ہوتے ہیں جب ویٹو ہمارا ہے

ہفت روزہ  فرائیڈے اسپیشل کراچی 9 اپریل 2021

ہفت روزہ  دعوت دہلی 9 اپریل 2021

روزنامہ امت کراچی 9 اپریل 2021

ہفت روزہ رہبر سرینگر 11 اپریل


 

No comments:

Post a Comment