جو چاہے آپکا حسن کرشمہ ساز کرے
امریکی صدر نے 1915 میں سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں آرمینیائی باشندوں کے قتلِ عام کو نسل کشی تسلیم کرلیا۔صدر بائیڈن کے دونوں پیش رو یعنی صدر اوباما اور صدر ٹرمپ نے کانگریس کے شدید دباو کے باوجود پہلی جنگ عظیم کے دوران آمینیائی باشندوں کو پہنچنے والے نقصانات کو نسل کشی قراردینے سے انکار کردیا تھا۔ مسلمانوں کے خلاف انتہائی منفی رویہ رکھنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صاف صاف کہا تھا کہ انکی انتظامیہ جنگِ عظیم اول کے دوران ترک فوج کے ہاتھوں آرمینیائی باشندوں کے قتلِ عام کو نسل کشی نہیں خیال کرتی۔
ہر اپریل کی 24 تاریخ کو آرمینیائی باشندے اپنی قوم کے 15 لاکھ افراد کے قتل عام کی یا مناتے ہیں جو مبینہ طور پر ایک صدی پہلے عثمانی فوج کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ آرمینائی مورخین کا کہنا ہے کہ جدید ترکی کے قائم ہونے سے قبل 1915 سے 1923تک عثمانی وزیردفاع اسماعیل انور پاشا کے حکم پر اناطولیہ المعروف ایشیائے کوچک یا Asia Minor میں آباد لاکھوں آرمینائی باشندوں کو جنوب میں صحرائے شام (بادیۃ الشام) کی طرف دھکیل دیاگیا۔اس طویل پیدل سفر میں بھوک، پیاس کی تکلیف کے علاوہ ان لوگوں نےجبری مشقت کی اذیتیں برداشت کیں جبکہ ترک سپاہیوں پر آرمینائی خواتین کی آبروریزی کا بھی الزام ہے۔
ہفتے کے روزآرمینیائی باشندوں کے قتلِ عام کی برسی کے موقع پرجاری کردہ بیان میں صدر بائیڈن نے کہا کہ ’ہم ان تمام لوگوں کو یادکررہے ہیں جوعثمانیہ دور میں آرمینیاؤں کی نسل کشی کے وقت مارے گئے تھے۔امریکی صدر نے کہا کہ وہ کسی کو الزام نہیں دے رہے لیکن مہذب دنیااس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہیں کہ جو کچھ رونما ہوا تھا،اس کا پھراعادہ نہ ہو۔
توقع کے مطابق ترکی نے امریکی صدر کے بیان پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا ہے۔ صدر بائیڈن نے بیان جاری کرنے سے ایک دن پہلے اپنے ترک ہم منصب طیب ایردوان کو اس بارے میں مطلع کردیا تھا۔ نامہ نگاروں کے مطابق ٹیلی فون پر ہونے والی یہ گفتگو بے حد ناخوشگوار تھی اور ترک صدر نے متنبہ کردیا تھا کہ اس سے ترک امریکہ تعلقات اور باہمی اعتماد کو ناقابل نقصان پہنچے گا۔
انقرہ کا موقف ہے کہ آرمینیائی باشندے جنگ کے دوران مارے گئے جسے collateral damageکہتے ہیں۔ ترکی آرمینیا کے اس غم میں برابر کا شریک ہے اور بھاری جانی و مالی نقصان پر ترک حکومت کو شدید افسوس ہے۔ تاہم زیادہ تر ہلاکتیں روسی بمباری کا نتیجہ تھیں۔گزشتہ دنوں صدر طیب ایردوان نے استنبول میں آرمینیائی اسقف (Bishop) لیوون زکریا کے نام ایک پیغام میں درخواست کی تھی کہ وہ آرمینیائی اور ترک مورخین اور ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دیں جو اس پورے واقعے کا تاریخی جائزہ لے کر اپنی رپورٹ پیش کرے۔ جناب ایردوان نے کہا کہ تحقیقات کا خرچ ترکی برداشت کرنے کو تیار ہے۔ ترک صدر کا موقف ہے کہ غیر متعلق لوگوں کی رائے زنی و الزام تراشی سے کشیدگی کو ہوا مل رہی ہے جبکہ اس معاملے پر بحث و مباحثے کا حق صرف مورخین کو ہے۔
اس معاملے کا مختصر تاریخی پس منظر کچھ اسطرح ہے کہ 1914 کے آغاز پر صلیبی چاروں طرف سے ترکی پر حملہ آور ہوئے۔ دسمبر 1914 میں روس نے مشرقی اناطولیہ پر حملہ کردیا۔ ترک شہر سرتمش Sarikamishکے قریب گھمسان کی جنگ ہوئی۔ اسی دوران بحراسود جانیوالی بحری شاہراہ یعنی آبنائے باسفورس۔بحیرہ مرمرہ۔آبنائے ڈارڈینیلس (Dardanelles) پرقبضے کیلئے برطانیہ، فرانس،روس آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے جزیرہ نمائے چناکلے پر حملہ کیا جو گیلی پولی جنگ کے نام سے مشہور ہے
جنگ سرتمش میں روسی افواج کو فرانس اور ترکی کے علاوہ آرمینائی گوریلوں کی مدد حاصل تھی جس میں ترکوں کو شکست ہوئی اور یہ سارا علاقہ عثمانیوں کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ اس جنگ کا بڑا اہم واقعہ عثمانیوں کی جانب سے ہنگامی حالت کے اعلان پر مفتی اعظم کا فتوی تھا۔ جس میں انھوں جنگی ضرورت کے تحت ' آرمینیائی ذمیوں' کے وسائل پر قبضے کو حرام قراردیتے ہوئے انکاجزیہ واپس کرنے کا حکم دیا تھا۔علامہ اقبال نے محاصرہ ادرنہ کے عنوان سے اسکا ذکر کیا ہے کہ 'ذمی کا مال لشکر مسلم پہ ہے حرام۔ فتوی تمام شہر میں مشہور ہوگیا۔ جنگ کی تباہ کاریوں سے بچنے کیلئے لاکھوں آرمینیائی باشندے شام ہجرت کرگئے۔ اس دوران سخت سردی میں بہت لوگ مارے گئے۔ آرمینیوں کا کہنا ہے کہ جبری بیدخلی کے نتیجے میں پندرہ لاکھ خواتین، بچے اور ضعیف افراد ہلاک ہوئے جو انکے خیال میں نسل کشی اور انسانیت کے خلاف عثمانیوں کا بھیانک جرم تھا۔ دوسری طرف ترکوں کا موقف ہے کہ آرمینیائی باشندوں نے محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں خود اپنی مرضی سے شام جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ غیر معمولی سردی سے خود ترک فوج کے 25 ہزار سپاہی ٹھٹھر کر جاں بحق ہوئے تھے۔
سرتمش اور گیلی پولی جنگوں میں مجموعی طور پر 7 لاکھ فوجی مارے گئے، شہری نقصان کا کوئی اندازہ ہی نہیں۔ ان واقعات کی غیر جانبدار تحقیقات کے بغیر نسل کشی کے الزام کی تصدیق یا تردید مشکل ہے۔ اتوار کو CNNپر فرید زکریا سے باتیں کرتے ہوئے مشہور ماہرِ قانون ڈاکٹر فلپ سینڈز نے کہا کہ نسل کشی کی اصطلاح 1945 میں وضع کی گئی تھی اور اسکا اطلاق 30 سال پہلے ہونے والے واقعے پر کرنا ناانصافی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ امریکہ کے قدیم باشندوں (Red Indians)کے ساتھ جو ہوااس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بوسنیا میں بھی مذہب کی بنیاد پر قتل عام ہوا۔
ستم ظریفی دیکھیں کہ 100 سال پہلے ہونے والی ہلاکتوں کا عثمانیوں پر الزام لگانے والا امریکہ، اہل غزہ کی نسل کشی کی طرف سے آنکھیں بند کئے بیٹھا ہے۔ بلکہ واشنگٹن اور برطانیہ اس بات پر بھی تیار نہیں کہ عالمی فوجداری عدالت (ICC)اہل فلسطین کے خلاف اسرائیل کی مبینہ جنگی جرائم کی آزادانہ تحقیقات کرے۔
ہفت روزہ ط فرائیڈے اسپیشل کراچی 30 اپریل
2021
No comments:
Post a Comment