ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ
ایرانی جوہری توانائی تنظیم (AEOI)کے سربراہ ڈاکٹر علی اکبر صالحی نے کہا ہے کہ نطنزکے جوہری مرکز کو دہشت گردوں نے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ یہ مرکز ایرانی صوبے اصفہان کے شہر کاشان کے مضافاتی علاقے میں ہے۔ ڈاکٹر صالح نے نقصانات کی تفصیل نہیں بنائی لیکن بہت غیر مبہم الفاظ میں کہا کہ تابکاری پھیلنے کا کوئی خطرہ نہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق نظنز مرکز اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ ڈاکٹر صالحی نے عالمی جوہری توانائی کمیشن (IAEA)سے مطالبہ کیا کہ 'جوہری دہشت گردی' کے اس گھناونے واقعہ کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو سزا دیجائے ۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کا حق محفوظ رکھتی ہے۔عالمی جوہری توانائی کے ترجمان نے اس واقعے کی تصدیق تو کی مگر مزید کچھ کہنے سے گریز کیا۔
صرف ایک دن پہلے یعنی ہفتے کی صبح ایرانی صدر حسن روحانی نے اس مرکز میں یورینیم کی افزودگی بہتر بنانے کیلےایک نئے Centrifugeکا افتتاح کیا تھا۔
حملے کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے AEOIکے تر جمان ڈاکٹر بہروزکمال وندوی نے بتایاکہ واقعہ اتوار کی صبح پیش آیا جس کا نشانہ مرکز کا برقی نظام تھا ۔ حملے میں کسی کارکن کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اور نہ تابکاری مواد خارج ہوا۔
نظنز پر گزشتہ سال جولائی میں بھی حملہ ہوا تھا جب پراسرار اتشزدگی سے سینٹری فیوج اسمبلی پلانٹ اور ورکشاپ کا بڑا حصہ جل گیا تھا، لیکن جلد ہی اسکی مرمت کرکے سینٹری فیوج بنانے کا کام شروع کردیا گیا۔ جوہری توانائی کے ایرانی ماہرین پر حملوں کا سلسلہ 2010 سے جاری ہے اور گزشتہ 10 سالوں کے دوران ایران کے 5 انتہائی تجربہ کار سائنسدان اسرائیلی ایجنٹوں کے ہاتھوں قتل اور ایک ماہر اپاہج ہوچکے ہی۔ ایرانی جوہری پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر محسن فخرزادے کوگزشتہ سال ایک کار بم دھماکے میں قتل کیا گیا تھا، ایران کا کہنا ہے کہ فخر زادے کو اسرائیل نے قتل کروایا
ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے حملے کا ذمہ دار اسرائیل کو قراردیتے ہوئے کہا کہ ایران نطنز کی جوہری تنصیب پر ہونے والے حملے کا انتقام لے گا۔ تل ابیب نے اس الزام پر کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا لیکن اسرائیلی سراغرساں اداروں کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ یہ اسرائیل کی جانب سے تنصیب پر سائبر حملہ تھا۔ کل اسرائیل کے دورے پر آئے امریکی وزیردفاع جنرل لائیڈ آسٹن سے ملاقات کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نے صاف صاف کہا تھا کہ ایران کو کسی قیمت پر جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دی جائیگی ۔
یہ حملہ ایسے وقت ہوا ہے جب امریکہ کی جانب سے 2015کو طئے پانے والے ماہدہ برنامہ جامع اقدام مشترک (ایران جوہری معاہدہ) یا برجام میں دوبارہ شمولیت کے مثبت اشارے آرہے ہیں۔ اس معاملے پر ایران اور معاہدے کے دوسرے دستخط کنندگان کے درمیان گزشتہ ہفتے تفصیلی گفتگو ہوچکی ہے۔ ایرا ن چونکہ پابندیا ں ختم ہونے تک امریکہ سے مذاکرات پر تیار نہیں اسلئے امریکی وفد کسی دوسرے ہوٹل سے بات چیت میں آن لائن شریک ہوا۔مئی 2018میں ایک صدارتی فرمان کے ذریعے سابق صدر ٹرمپ نے برجام سے امریکہ کو علیحدہ کرکے ایران پر دوبارہ وہی پابندیاں عائد کردی تھیں جو برجام سے پہلے اس پر لگائی گئی تھیں۔ برجام سے امریکہ کی علیحدگی پر جو بائیڈن نے شدید تنقید کرتے ہوئے کہا تھاکہ جوہری معاہدے سے یک طرفہ نکل آنے کے نتیجے میں باہمی تناؤ کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوا۔اقتدار سنبھالتے ہی صدرجو بائیڈن نے کہا تھاکہ اگر ایران برنامج کی شرائط پر مخلصانہ عمدرآمد کی یقین دہانی کروادے تو امریکہ معاہدے میں واپس آ جائے گا۔
امریکہ کے خصوصی نمائندے برائے ایران رابرت ملّے نے ایران پر عائد اقتصادی قد غین ہٹانے پر امریکہ مشروبط آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جوہری معاہدے کے بعد پابندیاں اٹھانے کا جو وعدہ کیا گیا تھا اسکے معاشی فوائد سے مستفید ہونا ایران کا حق ہے۔
No comments:
Post a Comment