Thursday, February 13, 2020

امریکہ میں موسمِ انتخاب کا باقاعدہ آغاز


امریکہ میں موسمِ انتخاب کا باقاعدہ آغاز
3فروری کی ٹھٹھرتی شام سے  امریکہ میں موسمِ انتخاب کا باقاٰعدہ آغاز ہوگیا۔ غیر رسمی مہم  تو 20 جنوری 2017 کو صدر ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے دن سے جاری ہے۔ امریکی صدر نے اپنے افتتاحی خطاب میں دوسری مدت کا انتخاب لڑنے کا عزم ظاہر کیا  تو جناب برنی سینڈرز نے بھی اسی وقت سے لنگوٹ کس رکھے ہیں۔فی الحال امتحان عشق کا پہلا مرحلہ ہے کہ لیلائےِ اقتدار سے وصل کے خواہشمند پارٹی ٹکٹ کیلئے باہم دست و گریباں ہیں۔ صدارتی انتخابات 3 نومبر کو ہونگے۔ اسی روز ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) کی تمام کی تمام  435اور سیینیٹ کی 100 میں سے 35 نشستوں پر انتخابات ہونگے جبکہ 11 ریاستوں میں گورنروں کیلئے بھی معرکہ جمے گا۔
 امریکہ میں انتخابات کاطریقہ کار خاصہ پیچیدہ وگنجلک ہے۔ یہاں انتخابات میں  حصہ لینے کیلئے گہری جیب اور انتہائی مضبوط اعصاب کی ضرورت ہے۔ آج کی نشست میں ہم اسی پہلے مرحلے پر گفتگو کرینگے۔ جسکا آغاز 3 فروری کو ریاست آیووا سےہوا ہے اور یہ  جاں گسل سلسلہ 9 جون تک جاری رہیگا۔ پھر کہیں جاکر اصل انتخابی میم شروع ہوگی۔
امریکی انتخابات کا سب سے روشن اور قابل تقلید پہلو یہ ہے کہ یہاں پارٹی نامزدگی کا پروانہ نہ تو رائے ونڈ، بلاول ہاوس، بنی گالہ یا لندن سے جاری ہوتا ہے اور نہ ہی  ٹکٹ کے اجرا میں پارٹیوں کے پارلیمانی بورڈز کا کوئی کردار ہے۔  ٹکٹ کیلئے ہر ریاست میں عام انتخابات منعقد ہوتے ہیں۔ پارٹی کی رکنیت کیلئے  مرکزی مجلس عاملہ یا قیادت کی منظوری  کی  ضرورت  ہے اور نہ کوئی فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ ووٹر رجسٹریشن کے وقت رائے دہندہ سے پارٹی وابستگی کے بارے میں اسکی ترجیح معلوم کرلی جاتی ہے۔اکثر ریاستوں میں تو اس تکلف  کی بھی ضرورت نہیں اور پولنگ اسٹیشن کے دروازے پر ووٹر کے حسب خواہش متعلقہ پارٹی کا بیلٹ جاری کردیا جاتا ہے۔
 تمام جماعتیں  اپنے امیدوار کا انتخاب مرکزی اجتماع یا National Conventionمیں کرتی ہیں اور ریاستی انتخابات میں جنھیں پرائمری الیکشن کہا جاتا ہے سالانہ اجتماع کیلئے مندوبین کا چناوہوتا ہے۔ہر ریاست سے مندوبین کی نشستیں آبادی کے مطابق ہیں یعنی سالانہ اجتماع میں  چھوٹی ریاستوں سے کم اور بڑی ریاستوں سے زیادہ مندوبین شریک ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پرآیوواIowa  سے جہاں گزشتہ پیر کو معرکہ جما  ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن کیلئے مخصوص نشستوں کی تعداد صرف 41ہے جبکہ کیلی فورنیا سے415 مندوبین منتخب ہوتے ہیں۔اس ضمن میں امریکہ کے سیاسی ضمیر اور اجتماعی دیانت کا ذکر  بہت ضروری ہے۔  یہ منتخب مندوبین سالانہ اجتماع میں اپنی مرضی سے ووٹ ڈال سکتے ہیں اور وہ قانونی طور پر اس بات کے پابند نہیں کہ ٹکٹ کیلئے ہونے والی رائے شماری میں اسی امیدوار کو ووٹ دیں جسکی حمائت کا وعدہ کرکے وہ منتخب ہوئے ہیں لیکن گزشتہ ڈھائی  سو سال کے دوران ایک بھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جب کسی مندوب نے اپنے ووٹ کا سودا کیا ہو۔ ہمارے یہاں ایسے مواقع پر جو مویشی منڈیاں سجتی ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ بیلٹ پر امیدواروں کا نام لکھا ہوتا ہے۔ ووٹ براہ راست امیدوار کو ہی دئے جاتے ہیں اور پرائمری انتخابات میں امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے انکے مندوبین کو منتخب قرار دے دیا جاتا ہے۔
اس مرحلے پر انتخابی اجتماع (Caucus)اور پرائمری انتخابات کا فرق؟ آیووا میں پرائمری انتخابات نہیں بلکہ  ریاست میں جگہ جگہ اجتماعات Caucusesمنعقدہوئےا۔ پرائمری انتخابات میں روائتی انداز میں ووٹنگ ہوتی ہے یعنی لوگ مشین یا کاغذی بیلٹ پر مہر لگا کر اپنی رائے دیتے ہیں جبکہ Caucus کی حیثیت اجتماعِ ارکان کی ہے جس میں 'بندوں کو گنا جاتاہے'ْ انتخاب کے روزحلقے کے ووٹر کسی ہال، جمنازیم، لائبریری، مسجد وگرجا یا کسی گھر میں جمع ہوتے ہیں۔ ہر امیدوار کیلئے الگ کمرہ یا جگہ مختص ہوتی ہے جہاں اسکے حمائتی بیٹھ جاتے ہیں۔ ووٹنگ سے کچھ پہلے گھنٹی بجائی جاتی ہے جو اس بات کا اعلان ہے کہ اب رائے شماری شروع ہونے کو ہے اور لوگ آخری فیصلہ کرلیں۔ ووٹنگ کی گھنٹی بجنے کے بعد ہر امیدوار کیلئے مختص کمرے یا علاقے میں موجود ووٹروں کو گن لیا جاتا ہے۔ جس امیدوار کو 15 فیصد سے کم ووٹ ملیں اسے دوڑ سے فارغ کرکے تمام ووٹروں کو ایک بار پھر اپنے پسندیدہ امیدواروں کے علاقوں میں جمع ہونے کی ہدائت کی جاتی ہے جسکے بعد گنتی کرکے نتائج کا اعلان ہوتا ہے۔ کاکس کے دوران ووٹروں کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ تمام امیدواروں سے الگ تھلگ رہیں اور اگر یہ تعداد کل ووٹروں کی 15 فیصد سے زائد ہوئی تو یہ لوگ آزاد مندوب منتخب کرسکتے ہیں جنھیں قومی کنونشن میں اپنی مرضی سے ووٹ ڈاکنے کا حق حاصل ہے
اس بار ڈیموکریٹک پارٹی کا انتخابی اجتماع 13 تا 16 جولائی ریاست وسکانسن کے شہر مل واکی میں منعقد ہوگا جہاں 4750 مندوبین اپنے صدارتی امیدوار کا چناو کرینگے۔ ضابطے کے تحت جیتنے کیلئے کم ازکم پچاس فیصد مندوبین کی حمائت ضروری ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن میں منتخب مندوبین کے علاوہ پارٹی کے ریاستی سربراہان، پارلیمان کے منتخب نمائندے، سابق صدور و نائب صدور بر بنائے عہدہ مندوب شمار ہوتے ہیں ان لوگوں کو مندوبینِ اشرافیہ یاSuper Delegatesکہا جاتا ہے یہ سپر ڈیلیگیٹس امیدوار کے چناو میں اپنی مرضی سے ووٹ ڈالتے ہیں۔ اس سال ڈیمو کریٹک پارٹی کے مندوبینِ اشرافیہ کی تعداد 771 ہے جبکہ 3979 مندوبین ملک بھر سے  منتخب ہونگے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے کارکن سپر ڈیلیگیٹس کے نظام کو پسند نہیں کرتے کہ یہ تعداد کل مندوبین کے 19 فیصد سے زیادہ ہے۔ عام کارکن یہ سمجھتے ہیں کہ کنونشن  میں ٹکٹ کیلئے رائے شماری کے دوران سپر ڈیلیگیٹس عام طور سے اپنے منظور نظر امیدوار کو بلاک کی شکل میں ووٹ ڈال کر فیصلوں پر انداز ہوسکتے ہیں۔
ریپبلکن پارٹی نے اپنے کنونشن کیلئے  ریاست شمالی کیرولائینا  کے شہر شارلیٹ کا انتخاب کیا ہے جہاں 24 سے 27 اگست  تک مجلس جمے گی۔ عام انتخابات کیلئے صدر ٹرمپ کے مقابلے پر کوئی دوسرا مضبوط امیدوار موجود  نہیں اسلئے صدراتی ٹکٹ کیلئے ریپبلکن پارٹی کے پرائمری انتخابات محض رسمی کاروائی ہے اور امریکی صدر اس دوڑ میں اکیلے ہیں۔
آیو وا کے بعد پہلا پرائمری معرکہ 11 فروری کونیوہیمپشائر میں ہوگا جسکے نتائج اس مضمون کی اشاعت سے پہلے آپکے سامنے ہونگے۔ایووا میں پیٹ بیوڈیجج (Pete Buttgieg)اور سینیٹر برنی سینڈرز کے درمیان مقابلہ تقریباً برابر رہااور دونوں امیدواروں نے باالترتیب 13 اور ٍ12 مندوبین کے ساتھ اپنےکھاتے کھول لئے۔سٰنیٹر ایلزبیتھ کے حصے میں 8 اور سابق نائب صدر جو بائیڈن کو 6 مندوبین کی حمائت حاصل ہوگئی۔
ایک بڑا مقابلہ 3 مارچ کوبرپاہوگا جسے  Super Tuesdayکہا جاتاہے۔ اس روز  کیلی فورنیا اور ٹیکسس سمیت  14ریاستوں سے  1357 مندوبین کا فیصلہ ہوگا۔ خیال ہے کہ 'منگلِ آعظم' کے بعد صورتحال خاصی واضح ہوجائیگی۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ کیلئے اب بھی ایک درجن کے قریب امیدواربرسرپیکار  ہیں جن میں سابق نائب صدر جو بائیڈن اور سینٹر برنی سینڈرز پہلے بھی قسمت آزمائی کرچکے ہیں۔ جو بائیڈن 1988 اور اسکے بعد 2008 میں صدارتی ٹکٹ کے خواہشمند تھے لیکن ناکام رہے تاہم صدر بارک حسین اوباما نے 2008 میں انھیں  نائب صدر کا امیدوار نامزد کردیا اور موصوف 2016 تک ملک کے نائب صدر رہے۔ برنی سینڈرز 2016 کے انتخابات میں ہلیری کلنٹن سے شکست کھاگئے تھے۔
 ڈیموکریٹک پارٹی کے دوسرے معروف امیدواروں میں ایک ابھرتا ستارہ پیٹ بیوڈیجج ہیں۔ 38 سالہ پیٹ ریاست انڈیانا (Indiana)کے ایک چھوٹے سے شہر ساوتھ بینڈ کے دوبار رئیس شہر رہ چکے۔ اس دوران انھوں نے سات ماہ افغانستان میں فوجی خدمات بھی انجام دیں۔ جناب پیٹ علی الاعلان ہم جنس پرست (Gay)ہیں اور 2018 میں انھوں نے ایک مرد چیسٹن گلیزمین سے شادی کی جنھیں وہ اپنا شوہر کہتے ہیں۔ پیٹ بیوڈیجیج  جو بائیڈن کی طرح دائیں بازو کی طرف مائل ڈیموکریٹ ہیں۔ آزاد تجارت، کارپوریشنز کو ٹیکسوں میں چھوٹ کے علاوہ پیٹ اسرائیل کے پرجوش حامی ہیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی ٹکٹ کی ایک اور خواہشمند ریاست میسیچیوسٹس (Massachusetts)کی سینٹر ایلزبیتھ وارن ہیں۔ 70 سال کی ایلزیبیتھ پیشے کے اعتبار سے استانی ہیں۔ وہ 2012 میں سینٹر منتخب ہوئیں اور 2018 کے انتخابات میں انھوں نے اپنی نشست برقرار رکھی۔ محترمہ وارن صاحبہ امریکی سینیٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کی نائب پارلیمانی قائد ہیں۔ صدر ٹرمپ ایلزبیتھ وارن اور برنی سینڈرز پر سوشلسٹ کی پھبتی کس رہے ہیں کہ یہ دونوں محصولات کے نظام کو منصفانہ بناتے ہوئے بڑی کارپویشنوں کیلئے ٹیکس میں چھوٹ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ مضبوط اسرائیل کے ساتھ فلسطینیوں کے لئے آزاد و مختار ریاست ایلزبیتھ وارن کے منشور کا حصہ ہے۔ایلزبیتھ تمام امریکیوں کیلئے صحت بیمہ، دواوں کی قیمتوں میں کمی، اعلیٰ تعلیم کے لئےسود سے پاک قرضے اور تارکین وطن سے باعزت سلوک کی حامی ہیں اور انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ برسراقتدار آتے ہی وہ ایمیگریشن کے حوالے سے صدڑ ٹرمپ کے تما م حکمناموں کو بیک جنبش قلم منسوخ کردینگی جو انکے خیال میں تعصب، سفید فام احساس برتری اور مسلم مخالف جذبات کے آئینہ دار ہیں۔ زیادہ تر نظریاتی و معاشی امور پر برنی سینڈرز اور ایلزیبتھ کے طرز فکر میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ یہ دونوں افغانستان سے فوری اور غیر مشروط فوجی انخلا کے حامی ہیں۔
عقیدے کے اعتبار سے یہودی، برنی سینڈرز دہشت گردی کے خلاف جنگ میں  مسلمانو ں کو ساتھ لے کر چلنے کے حامی ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ عراق اور افغانستان پر امریکی حملوں سے دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔ سینیٹر سینڈرز آلودگی کے خاتمے اور ماحول کی حفاظت کیلئے انتہائی پرجوش ہیں اور سمندر میں تیل کی تلاش کے منصوبوں کی کڑی نگرانی انکے منشور کا حصہ ہے۔ سلیٹی چٹانوںShale اور ٹھوس و غیر نفوذ پذیر ریت Tight Sandسے تیل و گیس کشید کرنے کیلئے چٹانوں کو پھاڑنے کی حکمت عملی پر سینیٹرز سنیڈرز کو شدید تحفظات ہیں۔ اس طریقہ کار کو Fracturing (عام تلفظ فریکنگ) کہتے ہیں جس میں شدید دباو کے ذریعے چٹانوں میں شگاف ڈال کر  تیل و گیس کے بہاو کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ پمپوں کے ذریعے ڈالےجانیوالے دباو سے سطح زمین سے متصل چٹانیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں اور فریکنگ کے دوران  استعمال ہونے والا کیمیکل زیرزمین پانی کے ذخیرے کو آلودہ کر رہا ہے جس سے صحت عامہ کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔  ہمارے خیال میں  آلودگی کا خوف غیر ضروری ہے کہ فریکنگ کے دوران جو کیمیکل سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے وہ گوار سے تیار ہوتا ہے اور گوار کی پھلی برصغیر کی ایک مقبول سبزی ہے۔ برنی سینڈرز نے سرکاری جامعات میں مفت تعلیم کا وعدہ بھی کیا ہے۔
نیویارک کے سابق رئیس شہر مائک بلوم برگ بھی قسمت آزمائی کررہے ہیں جو محتاط اندازے کے مطابق  ایک ارب ڈالر اپنی انتخابی مہم پر پھونک چکے ہیں۔ لیکن  انکی کارکردگی مایوس کن ہے جسکی وجہ سے امیدواروں کے درمیان مباحثوں  میں انھیں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ آیووا کاکس میں وہ 100 ووٹ بھی نہ حاصل کرسکے۔ 
ڈیموکریٹک پارٹی ٹکٹ کی دوڑ میں ریاست مینیسوٹا (Minnesota)  کی سینیٹر ایمی کلوبچر، چینی (تائیوان) نژاد تاجر اینڈریو یانگ، ریاست ہوائی سے رکن کانگریس ہندوستانی نژاد تلسی گیبرڈ، ارب پتی ٹام اسٹئر بھی حصہ لے رہے  ہیں۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اصل مقابلہ سابق نائب صدر جو بائیڈن، سینیٹر برنی سینڈرز، پیٹ بیوڈیجیج اور سینیٹر ایلزبیتھ وارن کے درمیان ہے۔ اسی بنا پر ہم نے اپنے مضموں میں ان چاروں کا ذکر نسبتاً تفصیل سے کیا ہےتاہم ان جائزوں کی بنیاد پر کوئی رائے قائم کرناقبل ازوقت ہے کہ ابھی 50 میں سے صرف 1 ریاست میں رائے شماری ہوئی ہے یا یوں کہئے کہ 3979 میں سے صرف 41 مندوبین کا فیصلہ ہوا ہے اور دلی ۔ یعنی ہنوز (بہت) دور است۔ انتخابات کی مزید تفصیل ہم وقتاً فوقتاً آپکی خدمت میں پیش کرتے رہینگے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 14 فروری 2020

No comments:

Post a Comment