آسمان سے آگ اور منجمد زمین۔۔۔ نہ پائے ماندن نہ
جائے رفتن
ایک سچی کہانی
مصطفےٰحمادی ادلب
ایک گاوں معرات النعمان میں اپنی بیوی اور 12 سالہ بیٹی کے ساتھ ہنسی خوشی رہ رہا
تھا۔ گزشتہ سال شامی و روسی فوجوں نے اسکے گاوں کا محاصرہ کرلیا اور 12
گھنٹوں کے نوٹس پر دوسرے ہزاروں افرادکے ساتھ نظار کا پورا گھر مہاجر کیمپوں میں
آگیا۔ کچھ سخت جان مزید سفر کرکے ترکی چلے گئے جبکہ باقی لوگ گھر سے 50 میل دور ایک میدان میں پناہ گزین ہوگئے۔
ایک ہفتہ پہلے فاتح شامی فوج نے شمال کی طرف پیشقدمی کا آغاز کیا اور فوج ظفر موج کا راستہ ہموار کرنے کیلے روسی فضائیہ نے آسمان سے آگ برسانی شروع کردی۔
نظاراپنی بیوی عمون اور 12 سالہ بیٹی ہدی ٰ کو لے کر کافی دور شمال منتقل ہوگیا۔ اس
دوران اسکی 3 سالہ نواسی حور بھی ساتھ آگئی۔ معلوم نہیں ہجرت در ہجرت کے دوران حور
کی ماں جاں بحق ہوگئی یا اس نے حفاظت کی خاطر اپنی ننھی سی بیٹی کو اپنی ماں کےحوالے کردیا۔
شیرخوار بچی سمیت 4 افراد پر مشتمل خاندان نے ایک اور میدان
میں خیمہ ڈال لیا۔ یہ اس خاندان کی ایک
سال میں دوسری ہجرت تھی۔صرف ادلب میں ایسے شامی پناہ گزینوں کی تعداد 9 لاکھ ہے۔
11 فروری کو سارا دن برف باری ہوتی رہی اور رات کو درجہ
حرارت منفی 9 ڈگری سنٹی گریڈ یا 15.8Fہوگیا۔ خیمہ یخ ہورہا تھا۔ بچیوں
کے جسم منجمد ہونے لگے۔ خیمے کو گرم رکھنے کیلئے کوئی چیز نہ تھی۔ مصطفےٰ بار بار ایس ایم ایس
کرکے اپنے بھائی نظار حمادی کو خون جمادینے والی سردی کے بارے میں بتاتا رہا
جو وہاں سے کچھ دور ایسے ہی ایک خیمے میں
اپنے بچوں کے ساتھ ٹھٹھر رہا تھا۔ دونوں بھائی ایک ہی صورتحال سے دوچار تھے اور ایک دوسرے کو دلاسے کے سوا کچھ نہ کر سکتے
تھے۔ شدید سردی کی وجہ سے ننھی حور کا جسم نیلا پڑنے لگا ۔
جب کچھ سمجھ نہ آیا تو مصطفےٰ نے باہر جاکر کھانا پکانے کا
چولہا اٹھالیا جسکے ساتھ گیس سلینڈر بھی موجود تھا۔ اسکے بھائی نے مصطفےٰ کو احتیاط کی ہدائت کی کہ کپڑے اور پلاسٹک کا خیمہ آگ پکڑ سکتا ہے۔
مصطفےٰ نے بے حد احتیاط سے چولہا جلایا اور اسکی بیوی اپنی نواسی کا جسم سینکنا شروع کردیا۔ بچی کو آرام
آگیا اور وہ سو گئی۔ کچھ دیر بعد اسکی بیوی اور بیٹی کو بھی نیند آگئی لیکن مصطفےٰ
احتیاطاً جاگتا رہا ۔خیمہ بہت چھوٹا تھا
اور اسے ڈر لگا کہ کہیں نیند کے دوران کسی کا پیر لگنے سے چولہا الٹ نہ جائے۔ خیمے
کو گرم رکھنے کیلئے اس نے اسے ہرطرف سے بند کردیا اور چولہے کے قریب بیٹھا رہا۔
وقتاً فوقتاً بھائی سے ایس ایم ایس پر بات ہوتی رہی۔ رات کے تیسرے پہر اسکا بھائی
بھی سوگیا لیکن مصطفےٰ اپنے خاندان کی حفاظت کیلئے جاگتا رہا۔ معلوم نہیں کس وقت
اسے بھی نیند آگئی۔
صبح جب اسکا بھائی
ملنے آیا تو مصطفےٰ، اسکی بیوی، 12 بیٹی اور 3 سال کی نواسی خیمے میں کاربن مونو
آکسائیڈ بھرجانے کی وجہ سے انتقال کرچکے تھے۔ مصطفےٰ بیچارا آتشزدگی کے خوف سے
ساری رات جاگتا رہا۔ اسے کیا خبر تھی کہ کاربن مونو اکسائیڈ بھی اسکے انتظار میں
بیٹھی ہے۔
یہ ایک خاندان کا واقعہ ہے اس منجمد میدان میں لاکھوں
خاندان ایسی ہی مصیبت جھیل رہے ہیں۔ہنستا بستا شام کئی دہائیوں سے غیر ضروری جنگ
کی آگ میں جل رہا ہے اور ساری دنیا اس عظیم انسانی المئے کو ایک تماشہ سمجھ کر
دیکھ رہی ہے۔
No comments:
Post a Comment