کرونا
وائرس اور تیل کی صنعت
چین میں جنم لینے والے جرثومے کرونا وائرس کی تباہ کاریاں اب
تک قابو میں آتی نظر نہیں آرہیں۔ عالمی ادارہ صحت
کاکہنا ہے کہ اس آفتابِ مرگ کا
غروب تو دور کی بات اسکے نصف النہار تک آنے میں بھی ابھی کافی دن لگیں گے۔ عالمی ادارہ صحت نے
اس وبا کو COVID-19کا نام دیا ہے اور
ماہرین کا کہنا کہ اس نامراد وبا سے
صرف چین کو خطرہ نہیں بلکہ اب سارا کرہ
عرض اسکا ہدف بنتا نظر آرہا ہے۔
کرونا وائرس سے قیمتی انسانی جانوں کے زیاں کے ساتھ دنیا
بھر کی اقتصادیات پر منفی اثرات مرتب ہوئے
ہیں اور پاکستان
سمیت ایشیائی بازارِ حصص میں غیر یقینی
صورتحال ہے ۔
تیل کی صنعت اس سے بری طرح متاثر ہے کہ تیل درآمد کرنے والے ملکوں میں چین کا پہلا نمبر
ہے۔
تیل بر آمد کرنے والے ملکوں کی انجمن اوپیک نے اس
وبا کے نازل ہونے سے پہلے 2020 کے دوران تیل کی کھپت میں اضافے کا تخمینہ 1 کروڑ 20 لاکھ بیرل یومیہ لگایاتھا لیکن آج ہونے والے اجلاس کے بعد اوپیک نے اضافے کی متوقع شرح کو 99
لاکھ بیرل یومیہ کردیا ہے۔ خیال ہے کہ اس سال دنیا میں تیل کی اوسط کھپت 10کروڑ سات لاکھ بیرل روزانہ رہیگی۔
امریکہ سے تجارتی جنگ کے بنا پر چین میں تیل کی طلب پہلے ہی
کم تھی، کرونا وائرس نے معاملےکو مزید
سنگین کردیا اور اب چین سے تیل
کی درآمد میں 2 لاکھ بیرل روزانہ کی مزید کٹوتی کردی گئی ہے۔
قیمتوں کو سہارا دینے کیلئےاوپیک نے اپنی مجموعی پیداوار میں 21 لاکھ بیرل یومیہ کمی کا اعلان ہے۔ لیکن پیدوار میں کٹوتی، ایرانی تیل پر پابندی اور
لیبیا میں بندرگاہوں کی بندش کے باوجود قیمتیں
زوال کا شکار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 7لاکھ
بیرل تیل روزانہ ذخیرہ کیا جارہا ہے کہ مال کاکوئی خریدارمیسر نہیں۔
اس پریشانی کا سامنا صرف اوپیک ممالک کو ہے جو اپنا تیل ایشیا
اور افریقی ممالک کو تیل فروخت کرتے ہیں۔ برینٹ Brentبیچنے واالوں کو فی
الحال کوئی مشکل نہیں کہ اب تک یورپ میں تیل کی مانگ برقرار ہے۔ درآمدی LNGکی قیمتیں برینٹ سے
وابستہ ہیں اسلئے پاکستان کیلئے یہ کوئی اچھی خبر نہیں۔
دوسری طرف برینٹ
بیچنے والوں کو ایک اور مصیبت کا سامنا ہے
یہاں پیدواری لاگت
بہت زیادہ ہے۔ اوپیک تیل کی قیمتوں سے برینٹ بھی دباو کا شکار ہے جسکی وجہ سے انکے
منافع کی شرح سکڑتی جارہی ہے۔
اچھی خبر یہ ہے کہ
آج عالمی منڈی میں اضافے کا رجحان دیکھا گیا اور WTIکی قیمت 51 ڈالر فی
بیرل سے تجاوز کرگئی۔
No comments:
Post a Comment