لگے ہے
آگ اک گھر میں تو ہمسایہ ہوا دے ہے
بدنصیب لیبیا 2011سے خانہ جنگی کا شکار ہے۔تیل کے دریافت شدہ ذخائر کے اعتبار
سے لیبیا کا افریقہ میں پہلا نمبر ہے۔ یہاں سے نکالا جانیوالا سدرہ لائٹ دنیا کا
بہترین خام تیل ہے جس کی صفائی کی لاگت نہ
ہونے کے برابر ہے۔ 2010 تک لیبیا 17 لاکھ بیرل تیل روزانہ
برآمد کرتاتھا۔ خام تیل کے علاوہ لیبیا میں جپسم اور دوسری معدنیات کے بڑے ذخائر
بھی ہیں۔
دسمبر 2010 میں تیونس سے اٹھنے والی عوامی بیداری کی لہر المعروف ربیع العربی یا عرب اسپرنگ سے ساری عرب دنیا کی طرح لیبیا بھی متاثر ہوا اور فروری
2011سے ملک کے طول و عرض میں مظاہرے شروع
ہوگئے۔ طاقت کے غیر ضروری استعمال نے جلتی
پر تیل کا کام کیا اورجواب میں مظاہرین بھی مسلح ہوگئے یا کردئے گئے۔ اسی کے ساتھ
شرپسندوں نے اپنے جتھے منظم کرلئے۔ایسے ہی
ایک جتھے کے ہاتھوں سابق مردآہن کرنل
قذافی مارے گئے۔
اب لیبیا کو جس دہشت
گردی کا سامنا ہے اسکے سرغنہ امریکی شہریت
کے حامل خودساختہ فیلڈ مارشل جنرل خلیفہ
ابوالقاسم حفتر ہیں۔ 76 برس کے حفتر کرنل قذافی کی آنکھ کاتارہ تھے اور چاڈ کی
خانہ جنگی کو کچلنے کیلئے 1986 میں جب لیبیاکی فوج وہاں بھیجی گئی تو اسکے سربراہ کرنل حفتر ہی تھے۔اس
دوران انکا رویہ انتہائی خراب تھا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر انکے خلاف
مقدمہ بھی قائم ہوا۔ کرنل قذافی کے خلاف تحریک کو کچلنے کیلئے بھی حفتر صاحب نے
انتہائی وحشیانہ ہتھکنڈے استعمال کئے لیکن جیسے ہی انھیں اندازہ ہوا کہ قذافی اقتدار
کی بنیادیں ہل چکی ہیں موصوف فوج سے استعفیٰ دے کر امریکہ چلے گئے جہاں کچھ عرصہ
بعد انھیں شہریت دیدی گئی۔ 2014 میں وہ لیبیا واپس آئے اور بھتہ خوری کیلئے لیبیا نیشنل آرمی (LNA) کے نام سے اپنی ملیشیا بنالی۔LNAکو متحدہ عرب امارات اور جنرل السیسی کی حمائت حاصل ہے۔
اسرائیل، یونان اور مغربی ممالک بھی انکی پشت پر ہیں۔ ان ساری قوتوں کا اصل ہدف
ترکی ہے جسکی مضبوط بحریہ نے بحرروم میں اپنی برتری قائم کررکھی ہے۔
2016 میں سیاسی قوتوں کے درمیاں تفصیلی مذاکرات کے بعد الوفاق
الوطنی (GNA) کے نام سے ایک
قومی حکومت قائم ہوئی جسکے وزیر اعظم فائرالسراج ہیں۔ اقوام متحدہ GNAکو لیبیا کی نمائندہ حکومت تسلیم کرتی ہے اور سلامتی کونسل
کے پانچوں مستقل ارکان کی یقین دہانی کے
بعد ہی فائزالسراج نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا لیکن اب ترک لیبیا دفاعی معاہدے کے بعد سے فرانس اور برطانیہ
GNAکی پشت میں چھرا گھونپ رہے ہیں۔
گزشتہ کئی ہفتوں سے حفتر مافیا نے لیبیا کی بندرگاہوں کا
گھیراو کررکھا ہے جسکی وجہ سے تیل کی برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جس ملک کی 84 فیصدآمدنی تیل کی فروخت سے حاصل ہوتی ہو اس صورتحال
میں اسکی مشکلات کا اندازہ لگانا کچھ مشکل
نہیں۔
12 فروری کو سلامتی کونسل نے 14-0سے ایک قرارداد
منظور کی جس میں لیبیا کے تمام متحارب
گروہوں کو فوری جنگ بندی کا حکم دیا گیا ہے۔ خلیفہ حفتر نے نہ صرف اسے ماننے سے صاف انکار کردیا بلکہ انھوں نے اقوام
متحدہ اور تمام ہوائی جہاز کمپنیوں کو ہدائت کی ہے کہ وہ دارالحکومت طرابلس کی فضائی حدود سے دور رہیں۔
طرابلس پر GNAکامکمل کنٹرول ہے
لیکن متحدہ عرب امارات کے فراہم کردہ جدید
ڈرون کی وجہ سے حفتر مافیا کو فضائی برتری حاصل ہوگئی ہے۔ GNA کا کہنا ہے کہ ان ڈرون پر نصب میزائل
اسرائیل نے فراہم کئے ہیں جنھیں بحرروم
میں قائم اسرائیل کی بحری تنصیبات سے
کنٹرول کیا جارہا ہے۔ اس کار خیر میں خلیفہ جی کو مصری ماہرین کی حمائت بھی حاصل
ہے۔
گزشتہ روز ترکی نے اعلان کیا ہے کہ LNA کی فضائی دہشت گردی سے نبٹنے کیلئے انقرہ ڈرون، زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائیل
اور دوسرا دفاعی سامان GNAکوفراہم کررہا ہے۔
ستم ظریفی کے حفتر کی جارحیت پر خاموش رہنے والی طاقتیں ترکی کے ان دفاعی اقدامات
کو جارحیت گردانتے ہوئے اسے سلامتی کونسل کی حالیہ قراردادکی خلاف وزری قراردے رہی
ہیں۔اماراتی رہنما اب سوڈان کے آمرِمطلق
جنرل عبدالفتاح برہان کوLNA کی حمائت پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے
جنرل برہان نے یوگینڈا کے دارالحکومت میں اسرائیلی وزیراعظم سے خفیہ ملاقات کی اورراز کے افشا ہونے پر ملک
کے اندر جنرل صاحب کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ جنرل صاحب کیلئے MBZکی فرمائش نظرانداز
کرنا مشکل ہے کہ سعودی عرب اور امارات کی مالی اعانت انکے لئے ضروری ہے۔
تیونس پر بھی لبیا میں مداخلت کیلئے شدید دباو ہے لیکن یہاں
اخوان المسلمون کی نظریاتی حلیف النہضہ کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ النہضہ کے امیراور
پارلیمان کے اسپیکرراشد الغنوشی نے صاف صاف کہا ہے کہ لیبیا کی پریشانیوں پر ہمارے
دل خون کے انسو رورہے رہے ہیں۔ پرامن، مستحکم
ا ور خوشحال لیبیا تیونسی عوام کی دلی خواہش ہے۔
اس سے افسوسناک اور کیا
ہوسکتا ہے کہ لیبیا کے پڑوسی ہی اسکی پریشانیاں بڑھانے کی فکر میں ہیں اور
اس سلسلے میں سب سے موثر کردار برادر مسلم ممالک ادا کررہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment