افغان امن! زلمے خلیل زاد کا اہم دورہ
امریکہ طالبان امن معاہدے پر عملدرآمد کو
یقینی بنانے کیلئے امریکی وزارت خارجہ
کے خصوصی نمائندے جناب زلمے خلیل زاد دوبارہ کابل پہنچ گئے۔ واشنگٹن کے صحافتی
حلقوں کا خیال ہے کہ جناب خلیل زاد صدر ٹرمپ کی خصوصی ہدائت پر کابل آئے ہیں۔امریکی
صدر معاہدے کی راہ میں کابل انتطامیہ خاص طور پر ڈاکٹر اشرف غنی کی جانب سے ایک کے
بعد ایک رکاوٹ پر شدید برہم ہیں۔ صدر ٹرمپ
چاہتے ہیں کہ نومبر کے صدارتی انتخابات سے پہلے بین الافغان معاہدہ ہوجائے تاکہ وہ
اپنے حامیوں کو فخر سے بتاسکیں کہ انھوں نے دودہائی پر مشتمل اس لڑائی کو پرامن
انداز میں ختم کرکے اپنے بچوں کو میدان جنگ سے واپس بلالیا۔
امریکی ماہرین افغان امن کو سانپ اور
سیڑھی کا کھیل قراردے رہے ہیں کہ اوج ثریا کی طرف بلند ہوتےقدم ذراسی ٹھوکر اور لغزش سے زمین پر آرہتے ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں طالبان اور
امریکہ امن معاہدے پر اس قدر قریب پہنچ چکے تھے کہ صدر ٹرمپ نے معاہدے پر دستخط
کیلئے ملا صاحبان کو واشنگٹن آنے کی دعوت بھی دیدی لیکن ایک امریکی فوجی قافلے پر
طالبان کے مہلک حملے نے بساط پلٹ دی اور امریکی صدر نے مذاکرات معطل کردئے۔ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ '18 سال سے جاری افغان جنگ کے پر امن اختتام کی امید
دم توڑچکی ہے' انکا کہناتھا کہ ہمارے فوجیوں کوقتل کرکے طالبان مذاکرات کی میز پر
اپنی پوزیشن بہتر بنانا چاہتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امن نہیں بلکہ طالبان کو مکمل فتح مطلوب ہے۔
اسوقت تو بظاہرایسا لگا کہ گویا بات چیت کے باب کو قفل لگ گیالیکن اکثر ماہرین کا
خیال تھا کہ بات چیت ختم نہیں بلکہ معطل کی گئی ہے۔اور ہوا بھی ایسا ہی، چند ہفتوں
بعد جناب زلمے خلیل زاد'کون کہتا ہے ہم تم میں جدائی ہوگی' گنگناتے قطر پہنچ گئے۔ مصافحوں، معانقوں اور شکوہ
شکایات کے بعد مذاکرات کی میز دوبارہ بچھا دی گئی۔ زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ
فارسی لہجے میں ملا عبدالسلام ضعیف کی شستہ اور بامحاوہ انگریزی انکے کانوں کو بہت
بھلی لگتی ہے۔ 2001 کے امریکی حملے کے دوران ملا ضعیف اسلام آباد میں افغانستان کے
سفیر تھے جنھیں پاکستانی حکومت نے سفارتی استثنیٰ پس پشت ڈالتے ہوئے زنجیروں میں
جکڑ کر پشاور ائر پورٹ پر امریکی سی آئی اے کے حوالے کردیا۔ بدترین توہین کیلئے امریکہ
کے فوجی ہیلی کاپٹر پر سوار کرنے سے پہلے
ملا صاحب کو پاکستان کے اعلی عسکری عہدیداروں کے سامنے برہنہ کرکے بری طرح
تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ملا عبدالسلام ضعیف طالبان کے مذاکراتی وفد کے سینئر
رہنما اور نائب سربراہ ہیں جنھیں اردو، فارسی، پشتو، دری انگریزی اور روسی زبان پر
مکمل عبور حاصل ہے۔ اردو تو وہ اہل زبان سے بھی اچھی بولتے ہیں۔ علامہ اقبال کے
خوبصورت اشعار سے مزین انکی باتیں تو بس وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ خیر یہ تو ایک
ضمنی سی بات تھی جو ملا صاحب کے حوالے سے آگئی۔
طالبان کے اصرار پر کابل انتظامیہ کو
مذاکرات سے دور رکھا گیا تھا جسکی وجہ سے افغان صدر کو اس معاہدے پر شدید تحفظات
ہیں اور انکے اقدامات سے صاف لگتا ہے کہ کابل انتظامیہ معاہدے پر عملدرآمد میں
مخلص نہیں۔ دوسری طرف امریکہ کے جنگجو قدامت پسند عسکری انخلا کو شکست سمجھتے ہیں
اسلئے مختلف امریکی مراکز دانش میں انخلا کے مضمرات پر بحث و مباحثہ کا سلسلہ جاری
ہے۔
قدامت پسندوں کا کہنا ہے کہ افغان سرزمین
کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے کا وعدہ قابل اعتبار نہیں کہ طالبان کے
القاعدہ سے اب بھی بہت قریبی مراسم ہیں اور ملاوں کے فوجی اخراجات القاعدہ کی فکر
سے متاثر متمول عرب شیوخ پورا کررہے ہیں۔ ادھر کچھ عرصے سے یہ خبر بھی گرم ہے کہ روس کے عسکری سراغ رساں ادارے امریکی فوجیوں
کو ہلاک کرنے والے طالبان کو نقد انعامات کی پیشکش کررہے ہیں۔کسی ثبوت کے بغیر یہ
خبر نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے شائع کی تھی جسکی سختی سے تردید کرتے ہوئے
صدر ٹرمپ نے اسے fake
newsقراردیا تھا لیکن امریکی میڈیا پر یہ خبر چھائی ہوئی ہے
حتیٰ کے آنے والے انتخابات میں صدر ٹرمپ کے متوقع ڈیموکریٹ حریف جو بائیڈن نے بھی اس
پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اسی کیساتھ جنگی قیدیوں کی رہائی میں افغان حکومت کی سست
رفتاری معاملے کو خراب کررہی ہے۔ معاہدے کے مطابق قیدیوں کا تبادلہ مارچ میں مکمل
ہونا تھا۔ طالبان نے 5000 قیدیوں کے عوض اپنی قید سے سرکاری فوج کے 1000 قیدیوں کو
رہا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ کابل کے صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ صدر اشرف غنی کو
یقین تھا کہ حملوں کے دوران طالبان نے جن سرکاری فوجیوں کو قیدی بنایا ہے وہ
پاکستان میں آئی آیس آئی کی جیلوں میں ہیں اور رہائی کے وقت پاکستان سے افغان
فوجیوں کی رہائی طالبان کیلئے شرمندگی کا سبب بنے گی لیکن اب تک جتنے افغان فوجی
رہا ہوئے ہیں وہ سب کے سب افغانستان میں طالبان کے مختلف اڈوں پر صحافیوں کے سامنے
اقوام متحدہ کے افسران اور ہلال احمر کے حوالے کئے گئے۔
امریکی وزارت خارجہ کو اشرف غنی کی جانب سے امن معاہدے کی
راہ میں روڑے اٹکانے پر کوئی تعجب نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا افغانستان میں نہ کوئی ماضی
ہے اور نہ مستقبل۔ انھوں نے اپنی عمرِ عزیز کا بڑا حصہ یورپ و امریکہ میں گزارا
ہے۔ امریکیوں کو معلوم ہے کہ گزشتہ دونوں انتخابات میں وہ ٹھپے بازی اور جھرلو سے
کامیاب ہوئے ہیں۔ اسکے مقابلے میں انکے دونوں بڑے حریف یعنی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ
اور حامد کرزئی کی افغان عوام میں جڑیں گہری ہیں۔ احمد شاہ مسعود کی گہری رفاقت کی
بنا پر فارسی بانوں میں جناب عبداللہ عبداللہ کو پزیرائی حاصل ہے۔ جنگجو رہنما اور گلم جم ملیشیا
کے سربراہ عبدالرشید دوستم بھی عبداللہ عبداللہ کے حلیف ہیں۔ اسی طرح حامد کرزئی
پشتونوں میں اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ اسکے مقابلے میں ڈاکٹر اشرف غنی افغان سیاست میں
اجنبی ہیں۔ طالباں سے معاہدے کے بعدبننے والے بندوبست میں ڈاکٹر صاحب کا کوئی
کردار نظر نہیں آتا۔
اس سے پہلے بھی ایک نشست میں ہم عرض کرچکے ہیں کہ امریکی
قدامت پسندوں کی مخالفت اور افغان حکومت کی جانب سے بے دلی و رکاوٹ کے باوجود
معاہدے کے دونوں فریق یعنی امریکہ اور طالبان مسلسل رابطے میں ہیں۔ زلمے خلیل زاد
کے علاہ صدر ٹرمپ بھی وقتاً فوقتاً ملا عبدالغنی برادرسے فون پر بات کرلیتے ہیں۔
امن
مذاکرات سے ڈاکٹر عبدالغنی کو علیحدہ رکھنے کیلئے امریکہ کی نگرانی میں اعلیٰ اختیاراتی قومی مفاہمتی کمیشن یاNational
Reconciliation High Commission کی سربراہی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو سونپ دی
گئی ہے۔ اس کمیشن کو مالی وسائل فراہم کرکے خودمختار و بااختیار بنایا جارہا ہے
اور امن مذاکرات میں صدر اشرف غنی کا کردار علامتی رہ گیا ہے۔
قطر
معاہدے پر عملدرآمد میں سب سے بڑی رکاوٹ جنگی قیدیوں کا تبادلہ ہے۔ زلمے خلیل زاد
کے حالیہ دورے کے مقاصد بیان کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کےترجمان نےکہا کہ دوحہ اور کابل میں خلیل زاد قیدیوں
کے حتمی تبادلے اور تشدد کی کارروائیوں میں کمی لانے پر زور دیں گے۔اس دوران انھیں پاکستانی قیادت کو بحالی امن کی کوششوں اور اس
میں مثبت پیش رفت سے آگاہ کرنے کیلئے
اسلام آباد بھی آنا تھا لیکن 29 جولائی کو امریکی دفتر خارجہ نے بتایا کہ جناب
خلیل زاد اس بار پاکستان نہیں آئینگے۔
امن مذاکرات کیلئے ناروے کے دارالحکومت اوسلو کا
نام تجویز کیا گیا ہے جبکہ متبادل کے طور پر بلغاریہ کی راجدھدانی صوفیہ کا نام
لیاجارہاہے۔ اس دورے میں زلمے خلیل زاد اوسلو اور صوفیہ بھی جائینگے جہاں نیٹو اتحادیوں کو اعتماد میں لینے کے
ساتھ مذکرات کے انتظامات پر غور کیا جائیگا
روانگی سے پہلے جناب زلمے خلیل زاد
نے 24 جولائی کو امریکی مرکز دانش یونائٹیڈ
اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس یا USIPکی ایک تقریب سے خطاب کیا۔ 1984 میں یہ ادارہ امریکی کانگریس
کی ایک قرارداد کے نتیجے میں قائم کیا گیا تھا۔ امریکی حکومت USIPکو ہرسال 4 کروڑ
ڈالر کی اعانت فراہم کرتی ہے۔ کہنے کو تو USIPایک مرکز دانش ہے اور ایسے درجنوں ادارے امریکہ میں موجود
ہیں۔لیکن دوسرے مراکزِ دانش کی طرح یہ محض تحقیق اور بحث مباحثے کا فورم نہیں بلکہ
USIP بین القوامی امور
پر پالیسی سازی میں امریکی حکومت کو مدد فراہم کرتا ہے
جناب خلیل زاد کا
خطاب دراصل سیاست، دفاع اور بین الاقومی تعلقات کے ماہرین کو افغان امن پر ہونے
والی اب تک کی کوششوں سے آگاہ
کرنا تھا۔اپنے خطاب میں امریکہ کے خصوصی سفیر نے کہا کہ کئی دہائیوں سے خانہ جنگی
کے شکار ملک میں تشدد کو ختم کرنا بہت مشکل کام ہے۔ افغانستان میں پرتشدد کاروائیاں
جاری ہیں لیکن افغان فوج اور طالبان کے درمیان جھڑپوں میں کمی آرہی ہے
اور ملاوں کے ہاتھوں سرکاری اہل کاروں کی ہلاکتیں گزشتہ برس کے مقابلے میں 40 فی
صد کم ہیں۔انھوں نے کہا کہ طالبان امریکی
فوج پر حملہ نہ کرنے کے وعدے پر قائم ہیں اور قطر معاہدے کے بعد سے افغانستان میں کوئی
بھی امریکی یا اتحادی فوجی ہلاک یا زخمی نہیں ہوا۔
اس تجزئے سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی
ماہرین کابل انتطامیہ کے اعدادوشمار پر اعتبار کرنے کے بجائے زمینی صورتحال پر
براہ راست نظر رکھے ہوئے ہیں۔جناب خلیل زاد نے USIPکے ماہرین کو بتایا کہ امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قیدیوں کے تبادلے میں تعطل ہے
جسکی وجہ سے بین الافغان امن مذاکرات کے آغاز میں تاخیر ہو رہی ہے اور یہ غیر
یقینی صورتحال پر تشدد کاروائیاں کو مہمیز لگارہی ہے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے خلیل زاد نے یہ بھی کہا کہ افغان حکومت نے 5000 طالبان قیدیوں میں سے 4400
قیدیوں کو رہا کر دیا ہے، جسکے جواب میں طالبان سرکاری فوج کے 1000 اہل کاروں میں
سے 861 کو ہلال احمر کے حوالے کرچکے ہیں۔زلمے خلیل زاد نے زور دیکر کہا کہ امریکہ
قیدیوں کے تبادلے کے سلسلے میں اپنے وعدے پر قائم ہے اور وہ قیدیوں کی رہائی کیلئے
کوشش جاری رکھے گاتاکہ بین الافغان امن
مذاکرات جلد از جلد شروع کیے جا سکیں۔کابل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ باقی
ماندہ 600 طالبان قیدی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں جنھیں رہا کرنا خطرناک
ہوگا۔خلیل زاد نے افغان حکومت کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کو رہائی
میں تعطل پر سخت مایوسی ہے، انھوں نے کہا کہ قیدیوں کی رہائی تاریخی قطر معاہدے کا
حصہ ہے جس کا مقصد امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کا پرامن اختتام ہے۔
جناب خلیل زاد نے اس بات کی تصدیق کی کہ افغانستان میں امریکی فوج کی
تعداد 15000 سے کم کرکے 8600 کردی گئی ہے اور بقیہ امریکی فوج کا انخلا جولائی 2021
تک مکمل کرلیا جائیگا، انھوں نے بتایا کہ
امریکہ اپنے پانچ فوجی اڈے خالی کرچکا ہے۔ انھوں نے خالی کے جانیوالے اڈوں کے نام
نہیں بتائے۔ اسوقت افغانستان میں امریکی فوج کے چھ اڈے،کابل کے قریب بگرام، ہرات
میں شین ڈنڈ، قندھار ائرپورٹ، گرم سیر ہلمند، کیمپ لیدرنیک ہلمند اور
صوبہ نمروز کے شہر دلارام میں ہیں۔ خیال ہے کہ بگرام کے سوا تمام دوسرے اڈے خالی
کردئے گئے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری کہ اکثر اڈوں پر امریکیوں کیساتھ نیٹو کے فوجی
بھی تعینات ہیں لہٰذا خالی کئے گئے یہ اڈے اب نیٹو کے استعمال میں ہیں۔
خلیل
زاد کے ساتھ کابل کا سفارتی عملہ بھی کابل انتظامیہ پر دباو ڈال رہا ہے۔ 26 جولائی
کو افغانستان میں امریکہ کے قائم مقام سفیر راس ولسن نے افغان صدر اشرف غنی اور
ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ پر زور دیا کہ طالبان کے ساتھ قیدیوں کا تبادلہ جلد از جلد مکمل
کرکے بین الافغان مکالمے کا آغاز کیا جائے۔انکا کہناتھا کہ بات چیت میں تاخیر سے
امن کی کوششوں کو ناقابل تافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
کابل
انتظامیہ کو امریکیوں کے تجزئے سے شدید اختلاف ہے۔ USIPمیں زلمے خلیل زاد کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے ا فغان قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل نے کہا کہ قطر معاہدے
کے بعد سے تشد میں بالکل کمی نہیں آئی اور صرف ایک ہفتے کے دوران طالبان کے401
دہشت گردحملوں میں 46 شہری ہلاک ہوئے جس سے قیام امن کیلئے طالبان کا عزم مشکوک
نظرآتا ہے۔
زلمے خلیل زاد نے جاوید فیصل کے ٹویٹ کا جواب
تو نہیں دیا لیکن گزشتہ ہفتے ہیرات کے ضلع خم زیارت میں افغان فضائیہ کے حملے کی
شدید مذمت کی جس میں شیرخوار بچوں سمیت 45 شہری ہلاک بحق ہوگئے تھے۔ اپنے ٹویٹ میں
امریکی سفارتکار نے شہریوں کی ہلاکت کی
تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ انکا کہنا تھا کہ سرکاری فوج کے اس حملے سے امن کی کوششوں
کا دھچکہ لگا ہے۔طالبان کا کہنا ہے کہ بمباری شادی کی تقریب پر کی گئی جہاں حال ہی
میں رہا ہونے والے کئی کمانڈر موجود تھے
تاہم وہ سب محفوظ رہے۔ قطر میں طالبان کے ترجمان ملا سہیل شاہین نے الزام لگایا ہے
کہ کابل انتظامیہ کے زیر اثر علاقوں میں
سرکاری فوج ان طالبان کو گرفتار کررہی ہے جو حال ہی میں معاہدے کے تحت رہا کئے گئے
ہیں۔ چھاپوں کے دوران پردہ دار خواتین سے بدسلوکی کے واقعات بھی ہیں پیش آرہے ہیں۔
تاہم طالبان نے قیام امن کیلئے اپنی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اگر عید الضحیٰ سے قبل تمام قیدی رہا کر دیے جائیں تو عید کے فوراً
بعد بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہوسکتا ہے۔ اس ضمن میں یہ
خبر بھی عام ہے کہ بین الافغان مذکرات میں طالبان وفد کی قیادت کیلئےملا عمر کے
صاحبزادے ملا محمد یعقوب کو نامزد کیا گیا ہے۔کہا جارہا ہے کہ 30 برس کے یعقوب اپنے
والد کی طرح سخت و غیر مصالحانہ روئے رکھتے ہیں۔ تاہم اس سلسلے میں کچھ کہنا قبل
ازوقت ہے کہ فی الحال ڈاکٹر اشرف غنی طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کیلئے تیار نہیں
اور جب تک قیدیوں کا تبادلہ مکمل نہیں ہوجاتا طالبان مذکرات یا یتھیار رکھنے پر
تیار نہیں۔
کابل
انتظامیہ کی جانب سے دھمکی آمیز بیانات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے ڈاکٹر
اشرف غنی کے مشیرِ قومی سلامتی حمد اللہ محب نے افغان وزارتِ دفاع کی ایک تقریب سے
خطاب کر تے ہوئے کہا اگر قطر معاہدہ نہ ہوتا تو طالبان کو اس سال شکست دی جا سکتی تھی۔اس تقریب میں امریکی افواج
کے کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر بھی موجود تھے جو ساراقت خاموش رہے۔
پروپیگنڈے،
الزامات اور بد اعتمادیوں کے باوجود زلمے خلیل زادکی تقریروں، ٹویٹ پیغامات،
امریکی سفیر کے بیانات اور صٖدر ٹرمپ کی ملا برادر سے براہ راست بات چیت خوش آئند
ہے۔ ان اقدامات سے نہ صرف امن کیلئے امریکہ کے اخلاص اور عزم کا اظہار ہوتا بلکہ
جناب خلیل زاد کے پئے درپئے دوروں سے صاف لگ رہا ہے کہ معقولیت پر آمادہ کرنے
کیلئے واشنگٹن ڈاکٹر غنی پر دباو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ سیانے توقع کررہے ہیں کہ موجودہ
دورے میں 600 طالبان قیدیوں کی رہائی کا مسئلہ حل ہوجائیگا جسکے بعد بین الافغان
مذاکرات کا سنسنی خیز آغاز ہوگا۔
ہفت روزہ دعوت دہلی 31 جولائی 2020
ہفت روزہ فرائیٖڈے اسپیشل کراچی 31 جولائی 2020