احتیاط اور اعتدال
اسلامی
دنیا اور پاکستان کا سب سے بڑا سماجی
مسئلہ ذہنی انتہا پسندی ہے اور اس معاملے میں قدامت پسند مولوی اور مسٹر و سیکیولر
میں کوئی فرق نہیں۔
تازہ ترین معاملہ کرونا کے پھیلاو کے دوران نماز
باجماعت کی ادائیگی ہے۔ تاثر کچھ ایسا ابھر رہا ہے کہ گویا:
·
مولوی احتیاط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے
تزک واحتشام کے ساتھ نماز باجماعت اداکرنا چاہتے ہیں
·
دوسری طرف بعض مذہبی
عناصر کو ڈر ہے کہ موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سیکیولر طبقہ مساجد و مدارس کو بند کردینا چاہتا
ہے
·
دنیا بھر میں
مساجد کو تالہ لگادیا گیا
تاہم
حقیقت یہ ہے کہ
حرمین
شریف، کربلا معلی ، مسجد اقصیٰ سمیت کہیں
بھی مساجد کو تالہ نہیں لگایا گیا بلکہ احتیاط کے پیش نظرعام لوگوں سے گھروں پر نماز ادا کرنے کی درخواست کی گئی ہے
مسجد
الحرام اور امریکہ سمیت ساری دنیا میں کعبہ
کی بیٹیاں الحمد اللہ آباد ہیں اور جہاں جہاں لاوڈاسپیکر پر اذان کی اجازت ہے وہاں
پانچوں وقت باقاعدگی سے اذان بھی د ی
جارہی ہے۔ سعودی عرب میں اذان کے دوران موذن
یہ جملہ بھی ارشاد کردیتے ہیں کہ 'نماز گھروںپر ادا کرلو' دور رسالت میں حضرت بلال
یہ جملہ بارش کے دوران ادا کرتے تھے۔
حرم
پاک میں خادمین طواف بھی کررہے ہیں۔ پیش
امام، موذن اور خادمین دنیا بھر کی مساجد میں
پنج وقتہ اورحرمین شریفین میں تہجد بھی ادا کررہے ہیں۔
اس
بندوبست پر تمام مکاتب فکر کے علما متفق ہیں
کہ اسطرح احتیاط کے ساتھ مساجد
منور و آباد بھی ہیں۔
نماز جمعہ کے بارے میں سندھ حکومت نے جو اعلان جاری
کیا ہے اس میں بھی کہیں مسجد کی بندش کا ذکر نہیں بلکہ صراحت کے ساتھ درج ہے کہ
امام اور خادمین نماز جمعہ کا احترام کریں اورعام لوگ گھر پر نماز پڑھ لیں۔
اس
ضمن میں وفاقی وزیر فواد چودھری کا رویہ انتہائی اشتعال انگیز ہے اور وزیر اعظم کو
اسکا نوٹس لینا چائے۔
اس حساس
موضوع پر ہیجان پیدا کرنے میں سب سے منفی
کردار غیر سنجیدہ اینکرز ادا کررہے ہیں۔ٹاک شو میں غیر سنجیدہ گفتگو اور بار
بار مساجد کو بند کردینے کی باتیں سن کر ہم بھی
کئی بار مشتعل ہوئے اور میری طرف سے کچھ ایسی پوسٹ اور تبصرے شائد احباب نے دیکھے
ہوں جنھیں میں نے خود ہی نا مناسب سمجھتے
ہوئے حذف کردیا۔
نہ
تو علما اس آفت کو نظر انداز کرتے
ہوئے نماز باجماعت سمیت اجتماعات کو جاری
رکھنا چاہتے ہیں اور نہ طبی ماہرین مساجد کو تالا ڈالنے کی سفارش کررہے ہیں۔ گزشتہ
ہفتے وفاقی وزیراوقاف کی صدارت میں ہونے والے علما کے اجلاس میں سب لو گ Social
distancingرکھتے ہوئے اللہ کے گھروں کو آبادرکھنے پر رضامند ہوگئے جو کچھ اسطرح ہے:
·
مساجد آباد رہیں گی
·
معمول کے مطابق پانچوں وقت لاوڈاسپیکر
پراذان دی جائیگی
·
صرف پیش امام، موذن اور خادمین پر مشتمل جماعت ہوگی کہ لوگ مسجد ہی میں رہتے ہیں اور گویا گھر پر نماز
پڑھ رہے ہیں
·
احتیاط اور مفاد عامہ کے پیش نظر عوام سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ نماز گھر پر
ادکریں
اسکے بعد بھی الیکٹرانک
اور سوشل میڈیا پر غیر ذمہ دارانہ گفتگو
آزمائش کی اس گھڑی میں انتشار کی کوشش کے سوا اور کچھ نہیں۔
یہ درست کہ جمعہ کو سندھ میں کئی جگہ لوگوں نے حکومت کی ہدائت نظرانداز کرتے ہوئے بڑے
پیمانے پر نماز ادا کی جو بالکل غلط اور دین کی حکمت کی صریح خلاف وزری تھا تاہم ہمارے
خیال میں یہ اینکرز کی منفی گفتگو کا ردعمل ہے۔ ادھر پولیس نے کچھ ائمہِ
مساجد کے خلاف پرچے بھی کاٹ دئے ہیں جو کسی طور مناسب نہیں۔ اس معاملے پر کمال
یکسوئی کی ضرورت ہے جو جبروطاقت سے نہیں بلکہ باہمی گفتگو اور رواداری سے ہی ممکن
ہے۔