کینیڈا!! جسٹن ٹروڈو کی جزوی کامیابی
کینیڈا
کے حالیہ انتخابات میں وزیراعظم جسٹن ٹروڈو دوسری مرتبہ اقتدار حاصل کرنے میں
کامیاب تو ہوگئے لیکن اس بار انھیں کسی نہ کسی
جماعت سے شرکت اقتدار کا کڑوا گھونٹ پینا
پڑیگا کہ انکی لبرل پارٹی 338 رکنی دارالعوام قومی اسمبلی میں واضح اکثریت نہ حاصل
کرسکی۔جناب ٹروڈو کی کارکردگی اس اعتبار سے مایوس کن رہی کہ 2015کے
مقابلے میں انکی پارٹی کے ووٹ 6.37فیصد کم
ہوگئے۔ حلقہ جاتی نظام کی خرابی کہ لبرل پارٹی 33.1فیصد ووٹ لے کر 157 نشستیں جیت گئی جبکہ اینڈریو شیئر Andrew Scheerکی قدامت پسند المعروف
ٹوری پارٹی34.4 ووٹ لیکر صرف122 فیصد نشست حاصل کرسکی۔کینیڈا اور برطانیہ کے علاوہ سارے یورپ
میں انتخابات متناسب نمائندگی پر ہوتے ہیں یعنی ہر پارٹی کے حاصل کردہ ووٹ کے
تناسب سے اسے نشتیں مختص کردی جاتی ہیں۔ حلقہ جاتی انتخابات کا ایسا ہی فرسودہ انتخابی پاکستان میں
بھی ہے۔
حالیہ
انتخابات میں مقابلہ سخت تھا ور انتخابات سے کچھ عرصہ قبل وزیراعظم ٹروڈو
کی کچھ ایسی تصاویر شایع ہوئیں جن میں موصوف سیاہ فام اور رنگدار لوگوں کا سوانگ
رچاتے ہوئے ماسک پہنے نظر آئے۔ جناب جسٹس ٹروڈو نے ان تصاویر کے درست ہونے کا
اعتراف کیا۔ انکا کہنا تھا یہ اسوقت کی بات ہے جب وہ اسکول میں استاد تھے اور یہ
محض کھیل تھا جسکا رنگ و نسل سے کوئی تعلق نہیں تاہم انھوں نے اسے اپنی ایک 'بہت
بڑی غلطی' تسلیم کیا۔ انکے مخالفین نے ان تصاویر کی بنیاد پر زبردست اشتہاری مہم
چلائی جسکی بنا پر انکی پارٹی شدید دباو میں رہی۔ قدامت پسندوں نے
لبرل پارٹی اور جسٹن ٹروڈو پر کرپشن کے الزام لگائے اور ان الزامات کو تسلسل سے
دہرایاگیا۔موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسری جماعتوں نے بھی لبرل پارٹی پر اعتراض
و الزامات کے پتھر پھینکے۔ شکستہ شاہراہوں، خستہ پلوں، ٹوٹ پھوٹ کا شکار بنیادی
ڈھانچہ اور پبلک ٹرانسپورٹ کے 'ردی' نظام کو انکے مخالفین سے شدید تنقید کا نشانہ
بنایا۔
گرین
پارٹی نے ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے لبرل پارٹی کے اخلاص پر شدید تحفظات کا
اظہار کیا۔ گرین پارٹی کے اس سوال کا کوئی تشفی بخش جواب جسٹن ٹروڈو کے پاس نہ تھا
کہ پیٹرول وڈیزل کے استعمال کی حوصلہ شکنی کیلئے جو کاربن ٹیکس عائد کیا گیا تھا
اس سے حاصل ہونے والے محصولات کن مدات میں استعمال ہورہے ہیں۔ کاربن ٹٰیکس لگاتےوقت
وعدہ کیا گیا تھا کہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی ماحولیاتی کثافت کم کرنے کے
اقدامات پر خرچ ہوگی۔گرین پارٹی کا موقف تھا کہ ماحول کے حوالے سے ٹروڈو حکومت کے
اقدامات نامناسب اور غیر موثر ہیں۔
انتخابات کے نتائج ٹوریوں کیلئے اس لحاظ سے مایوس کن ہیں کہ
مہم کے دوران انکی جانب سے متواز ن بجٹ، کاروباریوں خاص طور سے تیل کمپنیوں کیلئے
مراعات اور کاربن ٹیکس کے خاتمے کا نعرے کو عوامی سطح پر بہت کامیای نصیب ہوئی۔
اسکینڈل میں دھنسے وزیراعظم کا انداز بھی خاصہ
مدافعانہ تھا۔اسکے مقابکے میں40 سالہ اینڈریو شئیر نے انتخابی مہم بہت موثر
انداز میں چلائی اور بڑا وقت اونٹاریو صوبے میں گزارا جو لبرل کا گڑھ ہے۔ شاندار و
انتھک مہم کے نتیجے وہ پاپولر ووٹ میں ڈھائی فیصد اضافے کرنے میں کامیاب ہوگئے اور
انکی پارٹی کے پارلیمانی حجم میں بھی 26 کا اضافہ ہوا لیکن وہ لیلےٰ اقتدرا کو
اپنی طرف مائل نہ کرسکے۔
سیاسی تقسیم کے حوالے سے کینیڈا کی بڑی جماعتوں کا جھکاو
دائیں بازو کی طرف ہے۔لبرل و ٹوری دونوں ہی اقتصادی پالیسیوں کے حوالے سے آزاد
معیشت، نجکاری اور زرداروں کو کھلی چھوٹ دینے کے حق میں ہیں جسکے لئے سرمایہ
دارانہ نظام کے حامیوں نے Less Government is the best Government کا نعرہ وضع کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لبرل پارٹی اور انکے ٹوری
حریفوں کے اقتصادی منشور میں بہت زیادہ فرق نہیں۔سیاسی و ثقافتی امور یعنی
امیگریشن، نسلی مساوات، مذہبی آزادیوں اور پناہ گزینوں کے امور پر جسٹن ٹروڈو کی
لبرل پارٹی ازاد خیالی کی طرف مائل ہے۔ اسکے مقابلے میں ٹوری 'کینیڈا کینڈینز'کیلئے
پر یقین رکھتے ہیں اور انھیں رنگدار غیر ملکیوں خاص طور سے پناہ گزینوں کی ملک میں
آمد پسند نہیں۔شائد یہی وجہ ہے کہ غیر ملکی نژاد شہریوں اور نوجوان کینیڈین لبرل
پارٹی کے حامی ہیں۔
اس بار لبرل پارٹی کے قدامت پسندی کی طرف مائل معاشی پالیسیوں
سے نیو ڈیمو کریٹک پارٹی یاNDPکے جگمیت سنگھ نے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کی۔اپنی
تقریروں میں انھوں نے لبرل اور ٹوری پارٹیوں کو ایک ہی سکے کے دورخ قراردیا۔ بائیں
بازو کی طرف واضح جھکاو رکھنے والی NDPمزدوروں کی کم سے کم اجرت، کم آمدنی والوں کیلئے سرکاری وظیفوں
میں اضافے اور تعلیم و صحت پر خصوصی اعانت کاری یا Subsidizationکی حامی ہے۔40 سالہ جگمیت سنگھ ایک سکھ امیگرینٹ خاندان کے
چشم و چراغ ہیں۔ان کے والدین لدھیانہ سے کینیڈا آئے تھے۔اپنے مزدور و عوام دوست
منشور کی بنا پرجگمیت صاحب غریب و نادار طبقے اورٹورنٹو و مانٹریال کے ایشیائی
نژاد کینیڈین شہریوں میں خاصے مقبول تھے۔انکی انتخابی کارکردگی کے بارے میں بہت ہی
مثبت جائزے شائع ہوے اور تجزیہ نگار انتخابات میں قابل ذکر 'سنگھ سیلاب' یا Singh Surgeکی توقع کررہے تھے
لیکن انتخابی مہم کے آخری دنوں میں ٹوری کا زور دیکھ کر جگمیت سنگھ کے بہت سے
حامیوں نے اس خوف سے لبرل پارٹی کے حق میں ٹھپہ لگادیا کہ لبرل اور NDPکے درمیان ووٹ کی
تقسیم سے کہیں ٹوری نہ جیت جائیں۔ یعنی چھوٹی و بڑی بڑائی کی بحث جگمیت سنگھ کی 15
نشستیں نگل گئی۔اس ناکامی کے باوجود نئی پارلیمان میں NDPکو بادشاہ گر کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے جسکی حمائت وزیراعظم
ٹروڈو کی نئی حکومت کی بقا کیلئے ضروری ہے۔
ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے پرپارلیمانی حجم کے اعتبار سے جسٹن
ٹروڈو کی حکمراں لبرل پارٹی پہلے نمبر پر اور ٹوری دوسرے نمبر پرہیں۔تیسری ا ور
چوتھی پوزیشن پر اس بار ڈرامائی تبدیلی دیکھی گیی یعنی گزشتہ انتخابات میں 39
نشستوں کیساتھ تیسرے نمبر پر آنیوالی جگمیت سنگھ کی پارٹی 24 نشستیں لے کر چوتھے
نمبر آگئی اور چوتھے نمبر پر آنے والی فرانسیسی قوم پسند جماعت بلاک کوبیک (BQ)نے 10 کے مقابلے میں 32 نشستیں لے
کرتجزیہ نگاروں کو حیران اور شری جگمیت سنگھ کو پریشان کردیا۔ ماحولیاتی آلودگی سے
فکر مند جماعت گرین پارٹی اس بار 2 کے بجائے 3 نشتیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی تو
پیپلز پارٹی اپنی اکلوتی نشست بھی ہار کر ایوان سے باہر ہوگئی۔
کینیڈا میں بھی پاکستان کی طرح آبادی کے اعتبار سے مختلف صوبوں میں گہری تفاوت پائی جاتی
ہے۔338 رکنی دارالامرا کی 198 یا 59 فیصد نشستیں اسکے دوصوبوں اونٹاریو Ontario اور کیوبیک Quebecمیں ہیں۔ان دونوں
صوبوں میں قدامت پسند بہت زیادہ مقبول نہیں۔احباب کی دلچسپی کیلئے عرض ہے کہ مشہور
شہر ٹورنٹو اور دارالحکومت اٹاوا صوبے اونٹاریو اور مانٹریال صوبہ کوبیک میں ہے
جہاں سب سے زیادہ پاکستانی آباد ہیں۔
کینیڈا کے مغرب پر قدامت پسند چھاپ بہت واضح نظر آئی۔تیل سے
مالامال و خوشحال صوبوں البرٹا اور سیسکیٹچوان Saskatchewanکی 48 میں سے47 نشستیں ٹوری نے جیت لیں۔اسی طرح برٹش
کولمبیا اور مونیٹوبا Manitobaمیں بھی قدامت پسندوں کی کارکردگی بہتر رہی لیکن اسکے مشرق میں اونٹاریو سے
بحر اوقیانوس کے ساحل تک جناب ٹروڈو کاطوطی بولتا رہا۔ کیوبیک، اونٹاریو اور 3
ساحلی صوبوں سے لبرل پارٹی نے 136نشستوں پرکامیابی حاصل کرلی۔
اب 47
سالہ جسٹسن ٹروڈو کو حکومت سازی کا مرحلہ در پیش ہے۔ واضح اکثریت کیلئے انھیں کم
از کم 13 مزید ارکان پارلیمان کی حمائت درکار ہے۔ جگمیت سنگھ کی NDP نے وزیراعظم ٹروڈو
کی حمائت کا عندیہ دیا ہے لہٰذا انھیں حکومت سازی کے بعد اعتماد کا ووٹ لینے میں کسی بڑی مشکل کا سامنا نہیں لیکن
پارلیمانی حجم اور پاپولر ووٹ دونوں اعتبار سے لبرل اب ایک اقلیتی جماعت ہے چنانچہ
جناب ٹروڈو سارا وقت دباو میں رہیں گے۔ خیال ہے کہ جگمیت سنگھ اعتماد کے ووٹ کے
عوض شرکت اقتدار کا مطالبہ نہیں کرینگے۔لیکن پالیسی سازی میں اپنی جماعت کے موقف
اور امنگوں کی ترجمانی پراصرار خارج ازامکان نہیں۔ اکثریت سے محروم
ہونے کی بناپر قانون سازی جناب ٹروڈو کو جگمیت سنگھ پر انحصار کرنا پڑیگا اورNDPاقتصادی امور پر بہت واضح رائے رکھتی ہے۔انتخابات کے بعد
پارٹی اجلاس میں جگمیت سنگھ نے کہا کہ
انکی پارٹی کو ووٹ ڈالنے والوں کو توقع ہے کہ NDP تعلیم و صحت، کم آمدنی والے طبقے
کیلئے کم قیمت مکانات کی فراہمی اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے مطالبے سے دستبردار
نہیں ہوگی اور ہم وقتی ہزیمت سے قطع نظر اپنے حامیوں کو مایوس نہیں کرینگے۔پارٹی
کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے جگمیت سنگھ نے جسٹن ٹروڈو کو یاد دلایا کہ نئی لبرل
سرکار ایک اقلیتی حکومت ہوگی اور کامیابی کیلئےانھیں NDPکے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔دواوں کی قیمتوں میں استحکام
کیلئے Universal Prescription Drug Plan کی پارلیمان سے
منظوری NDP کی ترجیح اول
ہے۔ انتخابی مہم کے دوران جگمیت سنگ ہر تقریر میں آسمان سے باتیں کرتی دواوں کی
قیمتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ اس پلان کے بارے میں ملک کی دواساز کمپنیوں
کو شدید تحٖفظات ہیں اور ان اداروں نے انتخابی مہم کے دوران اپنے موقف کے حق میں
کروڑوں ڈالر خرچ کئے ہیں۔ شدید دباو کی بنا پر جسٹس ٹروڈو بھڑ کے چھتے میں فی
الحال ہاتھ ڈالنے کو تیار نہیں لیکن NDPاسکی منظوری اور فوری اطلاق کیلئے پرعزم ہے۔
ماحول کو بہتر بنانے اور آلودگی پر قابو کیلئے سنجیدہ
اقدامات بھی NDPکے منشور کا حصہ ہے
اورگرین پارٹی کی تو بیناد ہی آلودگی سے پاک 'صاف و سرسبز' کینیڈا ہے۔جگمیت سنگھ
نے گرین پارٹی کی حمائت سے ماحول کی حفاظت کا جو منصوبہ تشکیل دیا ہے اسکے لئے
اگلے پانچ سالوں کے دوران حکومت کو 12 ارب ڈالر خرچ کرنے ہونگے۔ وزیراعظم ٹروڈو
ماحولیاتی تبدیلی پر نظر رکھنے کے پرجوش حامی تو ہیں لیکن انکا خیال ہے کہ کنیڈا
کی مقروض معیشت جسکا خسارہ 21 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے 12 ارب ڈالر کے اس نئے
ٹیکے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
آلودگی پر قابو کے اکثر اقدامات کی ضرب تیل و گیس کی تلاش
اور اسکی ترسیل کے نظام پر پڑتی ہے۔ تیل پیداکرنے والی مغربی ریاستیں اس قسم کی
قانون سازی کو غیر ضروری اور اپنی صنعت کیلئے مضر سمجھتی ہیں اور یہ متمول ریاستیں
ماحولیات کے حوالے سے حکومتی مداخلت کی شدت سے مخالفت کررہی ہیں۔ 'تیلیوں' کو
شکائت ہے کہ پائپ لائن کی تعمیر پر مشرقی صوبوں کےغیر ضروری اعتراض کی وجہ سے
مغربی کینیڈا کے کنووں سے حاصل ہونے والا تیل ملک کے اندر فروخت ہونے کے بجائے
ہزاروں میل لمبی Keystone Pipelineکے ذریعے
امریکہ بھیجنا پڑرہا ہےجسکے بھاری اخراجات تیل کمپنیوں کے منافع کو کم کررہے ہیں۔ادھر
کچھ عرصے سے امریکی تیل کی پیداور بڑھ جانے کی بناپر وہاں کینیڈین تیل کی طلب بھی
کم ہوگئی ہے اور نتیجے کے طور پرکینیڈا میں تیل کی صنعت بحران کا شکار ہے۔جیسا کہ
ہم نے پہلے عرض کیا کینیڈا کے مشرق و مغرب میں گہری نظریاتی خلیج حائل ہے۔ حالیہ
انتخابات کے بعد اس کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ حتیٰ کہ مغربی ریاستوں البرٹا
اور سیسکیٹچوان میں BREXITکے وزن پر WEXITکے عنوان سے علیحدگی کی تحریک بھی شروع ہوتی نظر آرہی ہے۔ ابھی
یہ باتیں محض سوشل میڈیا پر ہیں لیکن سیاسیات کے علماکا خیال ہے کہ اگر مشرق و
مغرب نے خیالات میں ہم آہنگی نہ پیدا کی تو چند سالوں میں معاملہ ریفرنڈم تک بھی
جاسکتا ہے۔
اس پس منظر میں جسٹن ٹروڈو کی حکومت کیلئے آنے والا وقت ذرا
مشکل نظر آرہا ہے۔ بعض سیانے اور سیاسی پنڈت دوسال بعد قبل ازوقت انتخابات کی پیشن
گوئی کررہے ہیں جس پر رائے زنی ہمارے خیال میں فی الحال قبل از وقت ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی یکم نومبر
2019