شمالی شام میں ترک فوج کی کاروائی ۔۔ خدشات اور
اندیشے
شمالی شام میں امریکہ کے نائب صدر مائک پینس اور ترک صدر کے
درمیان مذکرات کے بعد عارضی جنگ بندی ہوگئی ہے۔ صدر ٹرمپ کے نمائندے کی حیثیت سے
مائک پینس، وزیرخارجہ مائک پومپیو کے
ہمراہ 17 اکتوبر کا انقرہ پہنچے لیکن امریکی صدر
کے توہین آمیز خط پر حد درجہ برہم ایردوان امریکی نائب صدر سے ملنے پر راضی
نہ تھے۔ تاہم جب ترک وزیرخارجہ سے ملاقات میں امریکی وفد نے جنگ بندی کیلئے ترکی
کی شرائط مان لینے پر آمادگی ظاہر کی تو صر ایردوان نے نائب صدر کو اپنے دفتر آنے
کی اجازت دے دی جہاں پانچ طویل مذاکرات کے بعد جو امور طئے پائے اسکے مطابق:
·
کرد دہشت تنظیم YPG اور پیش مرگا
کے چھاپہ ماروں کو ترک شام سرحد سے 20 میل دور کردیا جائیگا اور مشرق میں عراقی
سرحد سے مغرب میں منبج تک کی پٹی جسے حٖفاظتی راہداری کا نام دیا گیا ہے ترک فوج
کے زیر انتظام رہیگی۔
·
انخلا کے اس عمل کا ضامن امریکہ ہے اور اس کام کیلئے 120
گھنٹے تک عارضی جنگ بندی رہیگی
·
انخلا کی تکمیل پر مکمل جنگ بندی کردی جائیگی
·
صدر ٹرمپ نے ترکی کے خلاف جن اقتصادی پابندیوں کا اعلان کیا
ہے وہ عارضی طور پر معطل کردی جائینگی اور مکمل جنگ بندی کی صورر ت میں امریکی
صدارتی حکمنامہ واپس ہو جائیگا۔
ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ترک امریکی معاہدہ کب اور کس
حد تک موثر رہیگا کہ یہ بندوبست خود امریکہ کے عسکری اور سیاسی حلقوں کو قطعاً
پسند نہیں۔ صدر کے معتمد سینیٹر لنڈے گراہم نے معاہدے کی تنسیخ اور ترکی پر پابندی
لگانے کیلئے سینیٹ میں ایک قرارداد لانے کا اعلان کیا ہے جسکی ڈیموکریٹک پارٹی دل و جان سے حامی ہے۔
کانگریس کی اسپیکر نینسی پلوسی اور سینیٹ کے قائد حزب اختلاف سینٹر چک شومر کا
خیال ہے کہ صدر ٹرمپ نے صدرایردوان کی تمام شرائط کو تسلیم کرکے اپنے کرد اتحادیوں
کی پشت میں چھرا گھونپا ہے۔
شام
میں ترکی کی عسکری مہم کس حد تک کامیاب رہیگی اس کے بارے کچھ کہنا ابھی قبل ازوقت
ہے۔ سیانے کہتے ہیں جنگ شروع کرنا آسان
لیکن اسے ختم کرنا بے حد مشکل ہے۔اس کی
عبرتناک مثال افغانستان ہے جہاں امریکہ
بہادر نے ایک کھرب ڈالر سے زیادہ پھونک
دئے، سارا افغانستان راکھ کا ڈھیر بن کیا۔
لاکھوں مہہ پارے پیوند خاک ہوگئے دوسری طرف امریکہ کے طول وعرض میں عبرت کا نشان
بنے ہزاروں معذور جوان اس بے مقصد و بے نتیجہ مہم جوئی میں اپنی
جوانی کے لٹ جانے پر ماتم کناں
ہیں۔صدراوباما اس دلدل سے نکلنے کی 8 سال
تک کوشش کرتے رہے لیکن کامیاب نہ ہوسکے اور اب
جناب ٹرمپ گلے میں اٹکی اس چھچھوندر کو اگلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
سامراجی سیاست کے تناظر میں عراق کے کوئت پر حملے اور ترکی
کی شمالی شام میں عسکری کاروائی میں ایک ہلکی کی مماثلت نظر آرہی ہے جب صدام حسین 1990
میں زیر زمین افقی (Horizontal)کھدائی کے ذریعے عراقی تیل کشید کرنے کا الزام لگاکر کوئت
پر چڑھ دوڑے تھے۔ اس جارحیت کو بہانہ بناکر آنجہانی صدر بش نے سارے عراق کو کھنڈر
بنادیا اور 12 سال بعد رہی سہی کسر انکے صاحبزادے نے پوری کردی۔
ہمارے خیال میں یہ محض ایک اتفاق ہے لیکن کیا کریں کہ دودھ کا جلا
ساری عمر چھاج سے بھی دہشت زدہ رہتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ کوئت سے واشنگٹن کے قریبی
تعلقات کی بناپر صدام حسین کو امریکہ کی جانب سے شدید ردعمل کا خوف تھا۔ اسی بنا
پر انھوں نے کئی بار حملے کا ارادہ ملتوی کیا تاہم25جولائی 1990کو بغداد میں امریکی سفیر محترمہ اپریل گلیسپی (April Glaspie)سے ملاقات کے بعد انکا رویہ تبدیل ہوگیا۔ بات چیت میں عراقی
وزیرخارجہ طارق عزیز بھی موجود تھے۔ ملاقات کے بعد سفیر صاحبہ نے واشنگٹن میں امریکی
دفتر خارجہ کو اس ملاقات کی جو روداد روانہ کی اسکے مطابق سفیر صاحبہ نے بہت ہی
دوٹوک انداز میں صدام حسین کو یقین دلایا کہ عراق کوئت تنازعہ سمیت عرب ممالک کے
باہمی معاملات میں امریکہ غیر جانبدار ہے اورامریکی وزیرخارجہ جیمز بیکر نے غیر
مبہم انداز میں 1960 سے جاری پالیسی کا اعادہ کرتے ہوئے مجھے باور کرایا ہے کہ
عراق کوئت کشیدگی سے امریکہ کا کوئی تعلق نہیں۔ اس
غیر تحریری یقین
دہانی کے بعد 2 اگست کو عراقی فوجیں کوئت میں داخل ہوگئیں۔ اسکے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کے
سامنے ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق 4اکتوبر کو ترک صدر ایردوان نے اپنے
امریکی ہم منصب سے فون پر بات کرتے ہوئے انھیں بتایا کہ ترک فوج شمالی شام میں
دریائے فرات کے مغربی کنارے پر کرد دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا ارادہ
رکھتی ہے۔ جس پر صدر ٹرمپ نے انھیں مطلع
کیاکہ وہ نہ صرف علاقے سے امریکی فوج کو واپس بلارہے ہیں بلکہ امریکہ نے اپنے کرد
اتحادی Syrian
Democratic Force یا SDFسے ناطہ توڑ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترکی SDF کو کرد دہشت
گرد تنظیم PKKاور اسکی عسکری ونگ YPGکا حصہ اور تسلسل سمجھتا ہے جس نے ترکی و شام کی سرحد پر دہشت گردی کے اڈے
قائم کررکھے ہں۔
صدر ٹرمپ نے دہشت گردی کے حوالے سے ترکی کے تحفظات کو
'مناسب' قراردیتے ہوئے کہا کہ انکا ملک اس معاملے میں غیر جانبدار ہے۔بعد میں
امریکہ کے وزیرخارجہ مائک پومپیو نے اس خبر کی سختی سےتردید کی کہ صدر ٹرمپ نے ٹیلی
فون گفتگو میں ترک صدر کو حملے کی اجازت دی تھی۔
اس گفتگو کے 2 دن بعد یعنی 6 اکتوبر صدر ٹرمپ نے شمالی شام سے امریکی فوج کو واپس
بلانے کا اعلان کی اور 8 اکتوبر کو ترک فضائیہ نے عراق سے SDF کیلئے اسلحہ لیکر منبج اور کوبانی یا
عین العرب جانیوالے قافلے کا نشانہ بناکر عسکری کاروائی کا آغاز کردیا جسکے دوسرے
دن ترک فوج نے عین العرب کا محاصرہ کرلیا۔ اس آپریشن کو صدر ایردوان نے آپریشنPeace Springیا 'بہارِ امن' کا نام دیا ہے جس میں ترکوں کو شامی فوج کے
ایک حصے کی حمائت حاصل ہے جسے Syrian National Army (SNA)کہا جاتا ہے۔
امریکی
سیاستدانوں سمیت دنیا بھر کے عسکری و سیاسی حلقے امن کیلئے صدر ٹرمپ کے اخلاص پر
شک کا اظہار کررہے ہیں۔ 20 اکتوبر کو
امریکی وزارت دفاع نے اعلان کیا کہ شمالی شام سے واپس ہونے والی امریکی فوج کو
مغربی عراق بھیجا جارہا ہے۔ اس سے پہلے 6 اکتوبر کو صدر ٹرمپ نے 'وردی میں ملبوس
اپنے بیٹے اور بیٹیوں' وطن واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔ امریکی صدر مسلسل کہہ رہے
ہیں کہ وہ بے مقصد مہم جوئی اور غیر ضروری خطرات میں جھونکنے کئ بجائے ان سجیلے
جوانوں کو ملک کی تعمیر نو کی ذمہ داری سونپنا چاہتے ہیں لیکن امریکہ آتے جوانوں کواب اچانک عراق بھیجنے سے اندازہ ہوتاہے
کہ یہ انخلا کے بجائے پینترا بدلنے کی ایک کوشش ہے۔ ان سپاہیوں کی حتمی منزل بھی
واضح نہیں۔ ٓمغربی عراق کے صوبے الانبار میں دریاے فرات کے کنارے پر شامی سرحد کے
نزدیک قائم کے مقام پر ایک بڑا امریکی اڈا موجود ہے اور بہت ممکن ہے کہ ان سپاہیوں
کو قائم میں تعینات کیا جائے لیکن روسی خفیہ ایجنسیوں کا خیال ہے کہ انھیں شمالی
مغربی عراق میں نینواصو بے کے شہر سنجر کے
قریب تعینات کیا جارہاہے۔ دریائے دجلہ کے مغرب کا یہ علاقہ قمشیلی کے جنوب مشرق
میں ہے۔ یہ کرد علاقہ ہے اور یہاں PKKکے ٹھکانے موجود ہیں۔ ترکوں کو ڈر ہے کہ امریکہ کی تھپکی سے
کہیں سنجر PKKاور YPG کا نیا گڑھ نہ بن جائے۔
عسکری
کاروائی کے آغاز پر صدر ایردوان نے اہداف کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن بہار
امن کا مقصد شمالی شام سے SDFکے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا ہے۔ ترکی چاہتا ہے کہ مشرق
میں عراقی سرحد پر تیل کے بڑے میدان
دیرالزور اور قمشیلی سے بحرروم کے ساحل پر عفرین تک ایک محفوط
داری قائم کردی جائے جہاں ترکی آنے والے شامی پناہ گزینوں کو بسایا جاسکے۔ اسی بنا
پر گزشتہ برس ترکی نے عفرین میں اپنی فوج داخل کی تھی۔
ترکی
کو شکائت ہے کہ اسکی جنوبی سرحد سے متصل علاقے میں کرد دہشت گردوں نے اپنے ٹھکانے
قائم کررکھے ہیں جہاں سے وہ ترکی آکر اسکے شہریوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ یہ صورتحال
اسوقت مزید خراب ہوئی جب 2014 میں داعش نے کوبانی کے بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا۔کوبانی
کو عین العرب بھی کہا جاتا ہے۔ داعش کے خاتمے کیلئے امریکہ نے یہاں اپنی فوج
اتاردی۔ امریکیوں کو جنگ کیلئے لڑنے والوں کی تلاش تھی۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے
ترک کردوں کی تنظیم PKKنے امریکی فوج سے رابطہ استوار کرلیا اور داعش کا مقابلے
کرنے کیلئے اسکے عسکری ونگ YPGاور پیش مرگا
چھاپہ ماروں کو امریکہ نے مسلح کرنا شروع کردیا۔مشرق میں قمشیلی سے مغرب میں بحر
روم تک عرب کردوں کی اس راہداری کو شامی خودمختار کرد زون کہا جاتا ہے۔ سطح مرتفع
پر واقعہ یہ علاقہ انتہائی زرخیز ہے جسے دریائے فرات، اس پر قائم ہونے والے ڈیم سے
نکلنے والی نہریں، چھوٹی بڑی ندیاں اور پہاڑی نالے سیراب کرتے ہیں۔ مشرق میں عراقی
سرحد کے قریب تیل وگیس کے ذخائر بھی ہیں۔
امریکی فوج نےYPG اور پیش مرگا کی بھرپور مدد کی اور انھیں جدید ترین اسلحہ فراہم کیا۔ دوسری
طرف امریکی حکومت سے PKKکےسیاسی روابط
بے حد مستحکم ہوگئے۔ ستم ظریفی کہ PKK اس فہرست میں
شامل ہے جنھیں امریکہ دہشت گرد قراردیتا ہے لیکن
صدر اوباما نے ترکی کے شدید اعتراض کے باوجود PKKاور انکے عسکری جتھوں کی حمائت جاری رکھی جنھوں نے اب اپنا نام SDFرکھ لیا ہے۔ امریکہ کے علاوہSDF کو روس، شام اورپاسدارانِ انقلاب کی حمائت بھی حاصل ہے۔ ان دہشت گردوں نے داعش
کے تعقب کی آڑ میں کئی بار جنوبی ترکی کے دیہاتوں کا نشانہ بنایا اور چھاپہ مار حملوں میں درجنوں ترک فوجی مارے گئے۔
کئی مرتبہ ترک فوج اور SDFکے درمیان
خوفناک جنگ چھڑی اور ہربار امریکہ نے نہ صرف SDFکی حمائت کی بلکہ ترکی کو بدترین انجام سے ڈرایا گیا۔اسی حوصلہ افزائی کا
نتیجہ ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران شمالی شام پر PKKکی گرفت مضبوط ہوگئی اور ترکی و شام کی سرحد پر واقع یہ پٹی عملاً دہشت گرد
راہدرای میں تبدیل ہوچکی ہے۔
اس سال کے آغاز سے صورتحال خاصی تشویشناک ہوگئی ہے۔ داعش کے
خاتمے کے بعد SDFنے ترکی کو
اپنا ہدف بنالیا اور پیمانہ صبر لبریزہونے پر اس سال جون میں صدر ایردوان نے صاف
صاف کہا کہ اگر SDFکو لگام نہ دی
گئی تو ترکی ان دہشتگردوں کے خلاف ویسی ہی کارروائی کریگا جیسی گزشتہ سال عفرین
میں کی گئی تھی۔اسی کے ساتھ صدرایردوان نے ترک فوج کو شامی سرحد کی طرف کوچ کرنے
کا حکم دیدیا۔ امریکی حکومت نے ترکی کے اس اقدام پر شدید رد عمل کا اظہارکرتے ہوئے
کہا کہ SDFپر حملہ داعش کی حمائت اور امریکہ پر حملہ تصور ہوگا لیکن
ترک فوج نے امریکی دھمکی مسترد کرتے ہوئے تیاری جاری رکھی جس پر صدر ٹرمپ نے اپنے وزیردفاع کو ترکوں کے تحفظات دور کرنے
کی ہدائت کی۔
اس سال اگست میں ترک شام سرحد پر ایک bufferزون قائم کرنے کی تجویز پر اتفاق ہوا اور طئے پایا کہ SDF کو ترک سرحد سے پیچھے ہٹاکر امن راہداری یا Peace Corridor تشکیل دی جائیگی جسکی
نگرانی ترک و امریکی فوج کا مشترکہ دستہ کریگالیکن راہدرای کے قیام کے بعد پہلے ہی مشترکہ دورے پر ترک جرنیلوں
نے اسے مسترد کردیا اور صدر ایردوان نے صاٖ ف صاف کہا کہ یہ امن کی راہداری نہیں
بلکہ ہماری سرحدوں پر دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے قائم کر دئے گئے ہیں۔ ترک صدر نے
دھمکی دی کہ اگر 30 ستمبر تک امریکہ نے SDFکو ترک سرحد سے ہٹانے کا وعدہ پورا نہ کیا تو پھر ترکی اپنی حفاظت کیلئے جو
مناسب سمجھے گا کریگا جسکے ساتھ ہی ترک فوج نے شمالی شام میں کاروائی کی منصوبہ
بندی شروع کردی۔
اس پس منظر میں علاقے سے امریکی فوج کی واپسی کے ساتھ ہی 9 اکتوبر کو ترکی نے بھرپور کاروائی شروع کی
اورکوبانی کے ساتھ تل الابیض اور راس العین کی طرف فوج بھیجدی۔ تیزرفتار پیش قدمی کرتی ترک فوج نے
ان شہروں کے بڑے علاقے پر کسی قابل ذکر مزاحمت کے بغیر قبضہ کرلیا۔ صدر ایردوان کا
کہنا ہے کہ ترک فوج کا ہدف صرف اور صرف دہشت گرد ہیں اور انکا اپنے کرد اور عرب شامی
بھائیوں سے کوئی جھگڑا نہیں۔ ترک وزارت دفاع کے ترجمان نے سینکڑوں دہشت گردوں کی
ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ ترک فوجیں شہر کےاندر داخل نہیں
ہونگی اور شہری انتظام و انصرام SNAکی ذمہ داری ہے جو مقامی شامیوں پر مشتمل ہے۔
حسب توقع ترکی کو
ساری دنیا کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل نے فرد جرم میں
ایک الزام یہ بھی ٹانک دیا کہ لڑائی کے دوران کوبانی اور راس العین اور تل ابیض کی
جیلوں سے سینکڑوں داعش دہشت گرد اسلحہ لے کر فرارہوگئے جو اب دنیا میں کسی بھی جگہ
کاروائی کرسکتے ہیں۔ ساتھ ہی ترکی پر نیپام اور سفید فاسفورس بم استعمال کرنے کا
الزام لگایا جارہا ہے۔ اسرائیل نے اس مسئلے کو سلا متی کونسل کی سطح پر اٹھانے کا
عندیہ دیا ہے۔
یورپی ممالک نے ترکی کو اسلحے کی فراہمی پر پابندی لگادی۔ خودصدر
ٹرمپ جنھوں نے ترکی کی سلامتی کو لاحق خطرات کو اعتراف کرتے ہوئے SDFاور ترک لڑائی میں غیر جانبدار رہنے کا اعلان کیا، تھا ترک معیشت کو برباد
کرنے کے بلندوبانگ دعوے کررہے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا امریکی صدر نے اپنے
ترک ہم منصب کو ایک دھمکی آمیز خط بھیجا ہے جسکا ایک ایک لفظ شرمناک اور حقارت سے
مزین ہے۔ اسکے ساتھ ہی ترکی پر سخت ترین معاشی پابندیاں عائد کرد گئیں۔
ترک صدر ان دھمکیوں
سے مرعوب ہوتے نظر نہیں آتے۔ جنگ بندی کے مطالبے پر وہ صرف 120 گھنٹے کی عارضی
فائر بندی پر راضٰ ہوئے وہ بھی اس شرط پر کہ اس دوران SDFکو مجوزہ حفاظتی پٹی سے پیچھے دھکیل دیا جائیگا۔ ترک وزیرخارجہ نے امریکہ اور
ترکی کے درمیاں فائر بندی کے معاہدے کی وضاحت کرتے ہوئے صاٖف صاٖف کہا کہ جب
تک دہشت گرد ہتھیار پھینک کر راہداری خالی نہیں کردیتے ترک فوج کی کاروائی
جاری رہیگی۔ امریکی صدر کے خط پر تبصرہ کرتے ہوئے ترکی کے وزیرخارجہ نے کہا کہ
اسکا مناسب وقت پر جواب دیا جائیگا۔
سفارتی محاذ پر انقرہ تنہائی اور شدید مشکل میں ہے۔ دہشت
گردی کے خلاف جنگ کے بلندوبانگ دعووں کے باوجود پاکستان کے سوا ایک بھی ملک دہشت
گردی کے خلاف اس جنگ میں ترکی کا حامی نہیں۔ سیاسی مخالفت کے ساتھ میدان جنگ میں
بھی ترکی کیلئے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ 16 اکتوبر کو
شامی فوج کوبانی میں داخل ہوگئی اور خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق بشار الاسد کی
وفادار فوج نے تل الابیض اور منبج کی طرف پیش قدمی شروع کردی ہے۔ حسکہ اور قمشیلی کے مضافات میں شامی فوج کے دستے پہلے ہی سے
تعینات ہیں۔ شام SDFکو امریکہ کا
تنخواہ دار اور غدار سمجھتا ہے لیکن دشمن کا دشمن دوست کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے
بشار الاسد SDFسے ہاتھ ملاتے نظر آرہے ہیں، جس سے ترک فوج کیلئے مشکلات
پیدا ہوسکتی ہیں۔
اقتصادی پابندیوں کی بنا پر ملک کی معیشت بھی شدید دباو میں
ہے۔ لیرے کی قیمت میں گراوٹ، بیروزگاری اور شدید مہنکائی سے ترک عوام بے حد پریشان
ہیں۔ اس پس منظر میں طویل جنگ ترکی کے لئے
کسی طورمناسب نہیں۔مشرق وسطیٰ کے ممتاز عسکری و سیاسی تجزیہ نگار جناب کاوہ
افراسیابی نے خطرہ ظاہر کیا ہے کہ اگر ترک فوج فوری طور پر بڑی کامیابیاں حاصل
کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی تو صدر اردوان کی بہار امن مہم ایک طویل جنگِ خزاں میں
تبدیل ہوسکتی ہے۔ فلسطین، کشمیر، برما، چیچنیا اور چینی مسلمانوں کی غیر مشروط
حمائت، اسرائیل کی ہر فورم پر کھل کر مذمت کے ساتھ حسینہ واجد، جنرل السیسی اور
مسلمانوں کے سروں پر مسلط آمروں کے خلاف دوٹوک موقف کی بناپر ساری دنیا ایردوان
کی دشمن ہے۔چنانچہ انکے خلاف 'سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے'اور
انکا ہر مخالف ترکی کے خلاف تیزاندازی میں مصروف ہے۔اس جنگ کو جلد از منظقی انجام
تک پہنچانا بے حد ضروری ہے۔ تاخیر کی صورت میں شمالی شام ترکی کیلئے دلدل بن سکتا
ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 25 اکتوبر
2019
No comments:
Post a Comment