Thursday, October 10, 2019

افغان انتخابات ۔ ووٹنگ اور انجنیرنگ


افغان انتخابات ۔ ووٹنگ اور انجنیرنگ
افغانستان  میں صدارتی انتخابات 28 ستمبر کو مکمل ہوگئے لیکن  تادم تحریر یعنی ایک ہفتہ  بعد بھی  ووٹوں کی گنتی مکمل نہیں ہوسکی ہے۔ آزاد الیکشن کمیشن (IEC)کی سربراہ محترمہ حوا عالم نورستانی کا کہنا ہے کہ تصدیق کیلئے ہر پرچہ انتخاب  کو بایو میٹرک ریکارڈ کے مطابق کھنگالا جارہا ہے۔
یہ انتخابات 20 اپریل کو ہونے تھے لیکن گزشتہ برس دسمبر میں الیکشن کمیشن نے تیاری نہ ہونے کی بنا پر انتخابات 20 جولائی تک موخر کردئے  اور 20 مارچ کو اسے  بڑھا کر 28 ستمبر کردیا گیا۔ انتخابات کے بار بار التوا کے نتیجے میں صدر اشرف غنی کی مدت صدارت ختم ہوچکی ہے لیکن وہ اب تک مسند سنبھالے ہوئے ہیں۔ انتخابات میں 16 امیدواروں نے حصہ لیا جن میں صدر ڈاکٹراشرف غنی، چیف ایگزیکیوٹیو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، حزب اسلامی کے امیر گلبدین حکمتیار، سابق سیکیورٹی ڈائریکٹر رحمت اللہ نبیل، ممتاز سفارتکار شیدا محمد ابدالی، رکن پارلیمنٹ عبدالطیف پدرم چند اہم نام ہیں۔ سابق مشیر سلامتی محمد حنیف اتمار سیکیورٹی کے خدشے کے تحت اور سابق وزیرخارجہ زلمے رسول صدر اشرف غنی کے حق میں دستبردار ہوگئے۔
ڈاکٹر اشرف غنی کی ریلی پر حملے کی بنا پر انتخابی مہم شروع ہی سے ویران اور پھیکی پھیکی رہی۔  سڑکوں پر لگے بینر اور پوسٹرز کے علاوہ کوئی اور سرگرمی نظر نہ آئی۔ اس بار  جنبش ملی کے سربراہ جنرل عبدالرشید دوستم المعروف قصابِ شبر غن ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی حمائت کررہے تھے  اسلئے شمالی افغانستان کے کچھ علاقوں میں ڈاکٹر صاحب ایک آدھ جلسہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
ان انتخابات کی سب سے مثبت بات یہ ہے  کہ طالبان نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے  پولنگ کے روز بڑے پیمانے پر حملوں سے گریز کیا۔ بعض علاقوں سے تشدد کی خبریں  آئیں لیکن  زیادہ تر واقعات طالبان اور افغان و نیٹو فوج کے درمیان تصادم کا نتیجہ تھے۔طالبان کا کہنا ہے کہ جب  عوام خود ہی انتخابی عمل سے دور رہے تو انھیں خالی پولنگ اسٹیشنوں پر مکھی مارتے انتخابی عملے کو نشانہ بنانے کی کیا   ضرورت  تھی۔
 افغان انتخاب کے   چند اہم نکات اور اعدادوشمار:
·        الیکشن کمیشن کے مطابق  افغانستان میں اہل ووٹروں کی کل تعداد ایک کروڑ 60 لاکھ ہے
·        ان 16 ملین  لوگوں میں سے  96 لاکھ خواتین و حضرات نے  ووٹ کیلئے خود رجسٹر کرایا
·        28 ستمبر کو 18 صوبوں کے 445 پولنگ اسٹیشنوں پر پولنگ کے عملے نے  خوف  کی بنا پر ذمہ داری اداکرنے سے انکار کردیا
·        5 اکتوبر کو الیکشن کمیشن  کی سربراہ  نے اعلان کیا کہ  ان انتخابات میں 26 لاکھ افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا
·        30 ستمبر کو ووٹوں کی کل  تعداد10 لاکھ اور اسکے ایک دن بعد 14 لاکھ  بتائی گئی تھی۔
ان اعداووشمار پر کئی  امیدواروں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔  ابتدا میں کہا جارہا تھا کہ شمالی علاقوں میں ووٹ ڈالنے کی شرح  جنوب اور مشرقی صوبوں کے مقابلے  میں زیادہ ہے۔ تجزیہ نگاروں  کا خیال تھا  کہ جنوب و مشرقی علاقوں میں  جہاں پشتونوں کی اکثریت  ہے  بدامنی  کی بنا پر ووٹ ڈالنے کی شرح کم رہی۔ لیکن 2 اکتوبر  کو حوا صاحبہ نے جواعدادو شمار جاری کئے ہیں اسکے مطابق جنوب  اور مشرقی افغانستان  میں  ووٹ ڈالنے کا تناسب40 سے 60 فیصد رہا۔ چند دلچسپ مثالیں:
·        الیکشن کمیشن کے مطابق  پکتیا صوبے میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد  4لاکھ 40 ہزار ہے جن میں سے  1لاکھ 60 ہزار ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ پکتیا کی کل آبادی 5 لاکھ 52 ہزار کے قریب ہے۔  ساڑھے پانچ لاکھ کی آبادی میں ساڑھے چار لاکھ ووٹر ہونا بڑا عجیب محسوس ہورہا ہے۔
·        پکتیا کے زرمت  ضلع میں 24000 ووٹ ڈالے گئے جو رجسٹرڈ ووٹ کے 99 فیصد کے برابر ہے
·        یہی حال پکتیا کے روحانی بابا علاقے میں ہوا جہاں  10305رجسٹرڈ ووٹوں میں سے 9999ووٹ کاسٹ ہوئے۔ روحانی بابا کا پورا علاقہ کئی سالوں سے طالبان کے کنٹرول میں ہے اور یہاں پولیس  تھانہ تو دور کی بات  کوئی چھوٹی موٹی چوکی  بھی  نہیں۔
·        پروان صوبے  میں جہاں   امریکی فوج کے بگرام اڈے کی بنا پر نیٹو فوج کی گرفت خاصی مضبوط ہے وہاں ووٹ ڈالنے کا تناسب  19 فیصد رہا اور اسکے تین بڑے ضلعوں  بگرام، چاریکار اور سرخ  پارسا میں 5 فیصد کےقریب ووٹ ڈالے  گئے۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے عرض ہے کہ پروان حزب اسلامی کا گڑھ ہے اور  جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا حزب کے امیر گلبدین حکمتیار بھی صدارتی امیدوار ہیں۔
·        قندھار میں جہاں نصف سے زیادہ پولنگ اسٹیشن مقفل رہے  1لاکھ 90 ہزار ووٹ ڈالے گئے جو مجموعی ووٹوں کے 63 فیصد سے زیادہ ہے
·        ایک  امیدوار ڈاکٹر  فرامرز تمنا نے   انکشاف کیا کہ انکے آبائی صوبے ہیرات میں  ایک لاکھ 4 ہزار سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے جبکہ صوبے  کےاکثر پولنگ اسٹیشنوں پر انتخابی عملہ بھی موجود نہ تھا۔
·        کچھ ایسا ہی معاملہ ننگرہار میں پیش آیا جہاں 2 لاکھ 32 ہزار ووٹ ڈالے گئے جو رجسٹرڈ وووٹوں کے  55 فیصد کے قریب ہے جبکہ تین چوتھائی صوبہ افغان اور نیٹو افواج کیلئے ایک سال سے  no goعلاقہ بنا ہوا ہے۔
·        ہلمند کے ایک دور افتادہ پولنگ اسٹیشن کے ایک بوتھ پر 411 ووٹ ڈالے گئے لیکن بایو میٹرک کے مطابق یہاں صرف 11ووٹ تھے۔ سوال یہ ہے کہ ایک درجن سے بھی کم ووٹوں کیلئے علیحدہ پولنگ بوتھ بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ لوگ برابر کے بوتھ پر ووٹ ڈال سکتے تھے۔
·        ہلمند ہی کے ایک اور پولنگ اسٹیشن پر رجسٹرد ووٹوں کی تعداد 360ہے لیکن یہاں 421 ووٹ ڈالے گئے
·         پشتون علاقوں میں  خواتین  کے پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ ڈالنے کی شرح  60 فیصد سے زیادہ رہی بلکہ بعض جگہ تو 90 فیصد خواتین  نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ مزے کی بات کہ پشتون علاقوں میں خواتین کے اکثر پولنگ اسٹیشن سارا دن بند رہے۔ خوف کی وجہ سے خواتین ووٹ دینے کیلئے نکلی ہی نہیں۔
·        4 اکتوبر کو  حوا صاحبہ نے چشم کشا انکشاف فرمایا کہ  الیکشن کمیشن نے  انتخابات سے چندروز پہلے انتخابی فہرستوں سے 4لاکھ نام حذف کردئے تھے۔ وضاحت و  داد رسی کاموقع دئے بغیر  آخری لمحات میں جن لوگوں کے نام  انتخابی فہرستوں سے نکالے گئے انکی اکثریت پشتون خواتین کی ہے۔اسکی وجہ بتاتے ہوئے فاضل کمشنر صاحبہ نے کہا کہ ووٹر کے نام   اور اس سے منسلک شناختی کارڈز کی بائیو میٹرک نظام سے تصدیق نہیں ہوسکی تھی۔ سوال یہ ہے کہ لوگوں کو طلب کئے بغیر انکے بائیو میٹرک Dataکے غیر مستند ہونے کا فیصلہ کس بنیاد پر کیا گیا۔
غیر جانبدار مبصرین کا خیال ہے کہ  نصف  کے قریب  ووٹ ٹھپے بازی کا نتیجہ ہیں۔ خاص طور سے شمال کے فارسی بان علاقوں میں ووٹ  ڈالنے کا تناسب زیادہ رہا جو دراصل  جنرل رشید دوستم کی بندوق کا نتیجہ ہے۔ اسے برابر کرنے کیلئے طرح مشرق اور جنوب کے پشتوں علاقوں میں  ڈاکٹر اشرف غنی کے حامیوں نے کھل کر ٹھپے بازی کی۔
ابتدائی گنتی میں ڈاکٹر عبداللہ  عبداللہ  کو برتری  حاصل تھی جسکی بنیاد پر ڈاکٹر صاحب نے  کامیابی کا دعویٰ بھی کردیا ۔ اس دعوے پر ڈاکٹر اشرف غنی کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن  شمالی علاقوں میں ٹھپے بازی  پر انھیں شدید تشویش ہے اور وہ ان نتائج کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرینگے۔ ایک اور اہم امیدوار حزب اسلامی کے سربراہ  گلبدین حکمتیار  بھی انتخابات  کی شفافیت کے حوالے سے اپنے تحفظات   کااظہار کرچکے ہیں۔
الیکشن کمیشن کیلئے سب سے بڑا مسئلہ ڈالے جانے والے ووٹوں اور بائیومیٹرک data کے درمیان حائل خلیج ہے جو جانچ پڑتال کے ساتھ مزید وسیع ہوتی جارہی ہے۔ 6 اکتوبر کو الیکشن کمیشن نے اعداوشمار کی صحت جانچنے کیلئے آزمائشی طور پر مختلف مقامات کے  1806پولنگ بوتھوں  پر ڈالے جانے والے 2لاکھ 80 ہزار 6سو 88ووٹوں کو بائیومیٹرنظام سے پرکھا تو صرف 98 ہزار 90 ووٹوں کی تصدیق ہوسکی۔ دوسرے الفاظ میں 65 فیصد ووٹ کراچی برانڈ ٹھپہ بازی کا نتیجہ نکلے۔
اس بے مثال تفاوت نے الیکشن کمیشن کو سخت آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ حوا صاحبہ ٓمصر ہٰیں کہ صرف انھیں ووٹوں کو شمار کیا جائیگا جنکی بائیو میٹرک نظام سے تصدیق ہوچکی ہے۔ اکثر امیدوار کمشنر صاحبہ کے موقف کے حامی ہیں۔ لیکن افغان مشرانو جرگہ (سینیٹ) کے سربراہ فضل ہادی مسلم یار کا کہنا ہےکہ ہر پرچہ انتخاب کو گن کر نتیجہ مرتب کیا جائے کہ ووٹ ایک مقدس امانت ہے اور الیکشن کمیشن کی نااہلی کی بنا پر 65 فیصد ووٹوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈالدینا عوامی مینڈیٹ کی بے توقیری ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر بائیومیٹرک کسوٹی پر پورا نہ اترنے والے ووٹوں کو نکال دیا جائے تو پھر مستند ووٹوں کی تعداد ساڑھے 9 لاکھ کے قریب رہ جائیگی جو کل ووٹوں کے 10 فیصد سے بھی کم بنتی ہے۔
اکثر امیدواروں کا خیال ہےکہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندھلی ہوئی ہے جس میں الیکشن کمیشن کا عملہ بھی ملوث نظر آرہا ہے۔ ایک امیدوار سید نوراللہ جلیلی نے الیکشن کمیشن کے عملے کو گرفتارکرکے انکے خلاف  قومی خیانت کا  مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ بہت سے امیدواروں کی طرف الیکشن کالعدم کرکے دوبارہ ووٹنگ کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ انتخابات کے سرکاری نتائج کے اعلان پرناکام رہنے والے امیدواروں کا ردعمل کیاہوگا۔ لیکن خیال یہی ہے کہ  ہارنے والے امیدوار دھاندھلی کے خلاف محض الیکشن کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹانے پر اکتفا نہیں کرینگے بلکہ 2014 کی تاریخ بھی دہرائی جاسکتی ہے جب پشتو ں و فارسی بان تصادم تک کی نوبت آچکی تھی ۔  اگراسوقت  امریکی وزیرخارجہ جان کیری دباو ڈال کر دونوں ڈاکٹر صاحبان کو شرکت اقتدار کے فارمولے پر راضی نہ کرتے تو خونریز تصادم ہوسکتا تھا۔
انتخابات میں عوام کی عدم دلچسپی سے اٖفغان حکومت کے ساتھ امریکہ و مغرب بھی پریشان ہے۔افغانوں کے اس روئیے کی کئی تشریح ممکن ہے۔طالبان کے ہمدرد ملاوں سے یکجہتی میں ووٹنگ سے دور رہے تو پولنگ اسٹیشنوں پر حملے کے خوف  نے بہت سے لوگوں کو پولنگ اسٹیشنوں تک آنے سے باز رکھا   جبکہ جمہوری نظام سے عوام کی مایوسی بھی عدم شرکت کی ایک وجہ ہے۔
عام لوگوں نے پولنگ اسٹیشنوں سے دور رہ کر امن مذکرات کے حوالے سے کابل انتظامیہ کی پوزیشن کو مشکوک و مخدوش بنادیاہے۔ کابل کے ڈاکٹر صاحبان طالبان امریکہ مذاکرات معطل ہونے پر بہت خوش تھے اورانتخابات کے بعد وہ سینہ پھلا کر کہہ سکتے تھے کہ ہم  افغان عوام کے منتخب نمائندے ہیں لہذاہماری رضامندی کے بغیر اٖفغانستان کی قسمت کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔لیکن پرامن ماحول  کے باوجود انتخابات میں عوام کی عدم شرکت سے منتخب ہونے والے صدر کا مینڈیٹ گنتی کی تکمیل  سے پہلے ہی مشکوک ہوچکا ہے۔
نتائج کے اعلان میں غیر ضروری تاخیر سے جہاں پولنگ کے نظام پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں وہیں افواہ سازی کی صنعت بھی عروج پر ہے۔ گنتی کے آغاز پر ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اپنی فتح کیلئے بے حد پراعتماد تھے لیکن 2 اکتوبر کو پشتون علاقوں کے 'چشم کشا'اعدادو شمار سے صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی اور ڈاکٹر اشرف غنی کےحامیوں نے مبارک سلامت  کا ورد شروع کردیا۔ جبکہ باقی امیدواروں خیال میں  الیکشن کمیشن ووٹوں کی گنتی کے بجائے پولیٹیکل انجنیرنگ کررہا ہے۔
کہا جارہا تھاکہ افغانستان امریکہ کے گلے کی چھچھوندر  ہے جسے اگل دینا مشکل اور نگل جانا ناممکن ہے۔ اب انتخاب میں بائیومیٹرک کے قضئے سے لگتا ہے کہ چچا سام کے گلے میں اٹکی بی بی چھچھوندر کے گھر ولادت بھی ہوچکی ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 11 اکتوبر 2019

No comments:

Post a Comment