Thursday, October 17, 2019

تیونس میں جمہوریت کا تسلسل ۔ النہضہ کی معاملہ فہمی اور عمدہ حکمت عملی


تیونس میں جمہوریت کا تسلسل ۔ النہضہ کی معاملہ فہمی اور عمدہ حکمت عملی  
شمالی افریقہ کے مسلم اکثریتی ملک تیونس میں گزشتہ دوماہ کے دوران  پے درپئے انتخابات منعقد ہوئے۔
·        ستمبر کی 15 تاریخ کو صدارتی انتخابات ہوئے جس میں کوئی بھی امیدوار مطلوبہ 50 فیصد ووٹ حاصل نہ کرسکا چنانچہ پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدراروں کے درمیان دوسرے مرحلے یا Run-offانتخابات کی ضرورت پیش آگئی
·        6اکتوبر کو پارلیمانی انتخابات ہوئے جسکے
·        ایک ہفتے بعد یعنی 13 اکتوبر کو  تیونس نے صدر کیلئے run-offانتخابات کا مرحلہ عبور کیا۔
علمی سطح پر تیونس کی وجہ شہرت مسجد و جامعہ الزيتونہ ہے۔ دوسری صدی ھجری کے آغاز میں قائم ہونے والایہ مدرسہ دینا کے قدیم ترین مدارس میں شمار ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صدر اوباما کے والد بارک حسین اوباما مرحوم  نےبھی جامعہ الزیتونہ سے ابتدائی دینی تعلیم حاصل کی ہے۔
تیونس کے حالیہ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا تناسب خاصہ کم رہا لیکن  تیسرے بروقت اور کامیاب انتخابات سے ایسا لگ رہا ہے کہ  شمالی افریقہ کے اس چھوٹے سے ملک میں جمہوریت نے اپنے قدم جمالئے ہیں۔
2010کے اختتام پر  شروع ہونے والی عرب دنیا کی تحریکِ آزادی یا ربیع العربی(Arab Spring) کا آغاز تیونس ہی سے ہو اجسے عرب کے سیاسی علماء نے" انقلاب یاسمین" کا نام دیا ہے کہ چنبیلی کے معطر پھول کو عرب دنیا میں امن اور پر جوش محبت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ جلد ہی  انقلابِ یاسمین کی خوشبو الجزائر، مصر، اردن، یمن، لیبیا اور شام حتیٰ کہ سعودی عرب،کوئت اور بحرین میں بھی محسوس کی جانے  لگی۔ بدقسمتی سے  عرب دنیا میں عوامی بیداری کی یہ مہم مختلف سازشوں کا شکار ہوگئی۔
·        مصر میں   مغرب و اسرائیل کی ایما پر فوج نے عوامی امنگوں کا گلا گھونٹ دیا
·        لیبیا اور یمن میں اٹھنے والی تحریک خانہ جنگی کا شکار ہوگئی
·        بحرین میں فرقہ واریت کا سہارا لے کر حکمرانوں نے تحریک کو پوری قوت سے کچل دیا
·        یہی حال یمن، شام اور لیبیا کا ہے جہاں  فرقہ ورانہ محاذ آرائی نے ان ہنستے بستے ممالک کو برباد کرڈالا
 اسکے برعکس  تیونس میں کاغذی مرد آہن زین العابدین بن علی کی مٰعزولی کے ساتھ ہی آئین ساز اسمبلی کے انتخابات منعقد کرائے گئے۔ان انتخابات میں اخوانی فکر سے متاثر حزب النہضہ پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد تیونسی عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے حزب کے سربراہ جناب راشدالغنوشی نے اعلان کیا کہ انکی جماعت پارلیمان اور اسکے باہر موجود تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر قومی دستور بنائگی اور مزدور انجمنوں، طلبہ تنظیموں، بارایسوسی ایشنوں سمیت ہر طبقے کو اعتماد میں لیا جائگا تاکہ ایک ایسی دستاویز ترتیب جاسکے جو حقیقی معنوں میں عوامی امنگوں کی ترجمان ہو۔
ایک متفقہ آئین کی تدوین بلاشبہ النہضہ کا بہت بڑا کارنامہ تھا جسکے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اسلامی فکر کی حامل النہضہ نے جو آئین ترتیب دیا ہے وہ عملاً انسانی حقوق کا منشور ہے جس میں قیدیوں کے حقوق کی بھی ضمانت دی گئ  ہے۔ تفتیش کیلئے تشدد کی ہر شکل کو قابل دست اندازی پولیس قراردیا گیاہے۔ ضلعوں کی بنیاد پر سارے ملک میں انسانی حقوق کی کمیٹیاں بنائی جائینگی جسکی سربراہی حاضر سروس ججز کرینگے۔ یہ کمیٹیاں تشدد کے ہر الزام کی تحقیق کرینگی اور سماعت عوامی مقامات پر میڈیا کے سامنے ہونگیں۔ الزام ثابت ہونے پر ذمہ داروں کو سزا کا تعین بھی یہی کمیٹیاں ہی کرینگی۔ آئین کے مطابق رنگ، نسل، مذہب اور لسانیت کی بنیاد پر امتیاز ایک جرم ہوگا جسکے مرتکب کو سخت سزا دینے کیلئے پارلیمنٹ قانون سازی کریگی۔ شہریوں کو روزگار کے یکساں مواقع فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور بیروزگاروں کی کفالت ریاست کو سونپی گئی ہے ۔ملک کے ہر شہری کو تعلیم و علاج کی سہولت فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوگی۔ ہرصنعتی ادارہ  اپنےکارکنوں کو  کام کیلئے محفوظ اور صحت افزا جگہ فراہم کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔ آجر اپنےمزدوروں کی عزت نفس کی حفاظت کے ذمہ دار بھی ہونگے۔ آزادی اظہار کو آئینی تحفظ فراہم کیا گیا ہے جبکہ عدالتیں انتظامیہ کے اثر سے کلیتاً آزاد ہونگی۔
 آئین کی منظوری کے بعد النہضہ نے اقتدار نگراں حکومت کو منتقل کردیا۔ تیونس کی  تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب حکومت  اپنی مہلت ختم ہونے سے قبل ہی  اقتدار واختیار سے رضاکارانہ طور پر دستبردار ہوئی  اور عبوری حکومت نے بھی ٹال مٹول اور طول اقتدار کے حیلے وضع کرنے کے بجائے دیانت داری سے انتخابات منعقد کرادئے۔
النہضہ تیونس کو ایک قابل رشک دستور دینے میں تو کامیاب ہوگئی لیکن  دوسال کے اس عرصے میں معیشت کی بحالی، مہنگائی میں کمی اور روزگار کی فراہمی کی طرف توجہ نہ دی جاسکی  جسکی وجہ سے غربت کے مارے تیونسی برسراقتدار جماعت سے مایوس ہوئے اور عوامی سطح پر النہضہ کی مقبولیت کم ہو گئی۔
2014 کے انتخابات میں النہضہ کا مقابلہ  لبر ل و سیکیولر اتحاد ندائے تیونس سے ہواجسکی قیادت الباجي قائد السبسی مرحوم کر رہے تھے۔ السبسی حبیب بورقیبہ کے قریبی ساتھی اور انکی حکومت میں وزیر داخلہ، خارجہ اور وزیر دفاع رہ چکے تھے۔ فوج اور بیوروکریسی کے منظور نظر السبسی صدر زین العابدین کی حکومت میں بھی شامل تھے جبکہ عبوری انقلابی حکومت میں انھیں وزیراعظم نامزد کیا گیا۔ انتخابات سے قبل ملک کے تمام لبرل اور مذہب بیزار عناصر النہضہ کا راستہ روکنے کیلئے ندائے تیونس کے پرچم تلے جمع ہوگئے۔ اس اتحاد کو تیونسی فوج اور بیوروکریسی کی بھی حمائت حاصل تھی۔
ملکی تاریخ کے اس دوسرے آزادانہ انتخابات میں النہضہ 217رکنی ایوان نمائندگان میں 69 نشستوں پر کامیاب ہوئی جبکہ 86 کے ساتھ ندائے پہلے نمبر پر آگئی۔ نتائج کا اعلان ہوتے ہی النہضہ نے اپنی شکست کو کھلے دل سے تسلیم کرلیا۔حکومت کی تشکیل کے دوران النہضہ نے صدائے تیونس سے بھرپور تعاون کیا اورخیر سگالی کا اظہار کرتے ہوئے صدارتی انتخاب کیلئے میدان کھلا چھوڑدیا۔النہضہ نے مفاہمتی سیاست اور متفقہ جمہوری دستور بناکر تیونسی عوام کے حق حاکمیت کو محفوظ کردیا۔
انقلابِ یاسمین اور پہلے دوانتخابات کے مختصر تعارف کے بعد حالیہ انتخابات کی روداد و تبصرہ:
تیونس کی جمہوریت کو اس سال شدید آزمائش کا سامنا کرنا پڑاجب 25 جولائی کو صدر السبسی انتقال کرگئے۔اس خبر کےساتھ ہی فوجی انقلاب کی افواہ عام ہوئی لیکن اسی شام اسپیکر محمد الناصر نے قائم مقام صدر کا حلف اٹھاتے ہی 15 ستمبر کو صدارتی انتخاب کا اعلان کردیا۔
صدارتی انتخاب کے اعلان سے النہضہ کیلئے ایک نئی مشکل پیدا ہوگئی۔ جماعت نے فیصلہ کیا تھا کہ اگر پارلیمانی انتخابات میں النہضہ کو برتری حاصل ہوگئی تو وہ صدارتی انتخاب نہیں لڑیگی تاکہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو شریک اقتدار کیا جاسکےلیکن صدارتی انتخابات پہلے ہونے کی بنا پر النہضہ کو صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا کڑوا گھونٹ پینا پڑا۔
صدارتی انتخابات میں 6 آزادامیدواروں سمیت 26 افراد نے حصہ لیا۔ النہضہ نے اپنے نائب امیر عبدالفتاح مورو کو میدان میں اتارا جو ایوان نمائندگان کے نائب اسپیکر بھی ہیں۔مورو صاحب  نے فرانس میں قانون کی تعلیم حاصل کی اور  جامعہ الزییتونہ  سے اصول الدین کی سند۔  اپنا تعارف کرتے ہوئے خود ہی کہاکہ  ' میں مولوی، وکیل اور جج کے علاو ہ برسوں  قیدی رہ چکا ہوں۔ انصاف  کی  اہمیت مجھ سے زیادہ  اور کون جانتا ہے؟'
 15 ستمبر کو ہونے والے انتخابات میں تیو نس کے لوگوں نے آزاد امیداروں کوترجیح دی۔ ممتاز ماہر قانون پروفیسر قیس سعید 18 فیصد ووٹوں کیساتھ پہلے نمبر پر رہے جبکہ تیونس کے سب سے بڑے میڈیا ہاوس اور نسما ٹیلی ویژن کے مالک جناب نبیل قروئی ساڑھے 15 فیصد ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر آگئے۔ سیاسی جماعتوں میں النہضہ پہلے نمبر پر رہی اور  جناب مورو  کو 13 فیصد ووٹ ملے۔  دلچسپ بات کہ دوسرے نمبر پر آنے والے نبیل قروئی کرپشن کے الزام میں زیرحراست ہیں اور عدالت نے انتخابی مہم کیلئے انکے ضمانت منظور نہیں کی۔ ووٹ ڈالنے کا تناسب 49 فیصد رہا جبکہ 4 برس پہلے یہ 64 فیصد تھا
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا تیونس کے قانوں کے تحت صدر کیلئے کل ڈالے جانے والے ووٹ کا کم ازکم 50 فیصد لینا ضروری ہے چنانچہ پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوراوں کے درمیان 13 اکتوبر کو دوبارہ انتخاب یا Run-offکی تاریخ طئے پائی۔
 اسی دوران 6 اکتوبر کو متناسب نمائندگی کی بنیاد پر پارلیمانی انتخابات ہوئے۔ یعنی لوگوں نے پارٹیوں کو ووٹ ڈالے اور ہر  جماعت کو ملنے والے مجموعی ووٹوں کے تناسب سے انھیں اسمبلی کی نشستیں عطا کردی گئیں۔ جناب نبیل قروئی صدارتی انتخاب تو آزاد امیدوار کی حیثیت سے لڑرہے تھے لیکن ایوان نمائندگان کے انتخابات کیلئےانھوں نے قلب تیونس نام سے اپنی پارٹی رجسٹر کرالی۔
 نتائج کے مطابق 217 کے ایوان میں 52 نشستوں کے ساتھ النہضہ پہلے نمبر پر رہی۔قلب تیونس دوسرے نمبر پر آئی جسے 38 نشستیں ملیں جبکہ ڈیموکریٹک کرنٹ 22 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔سابق حکمراں جماعت ندائے تیونس کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی اور اسے صرف 3 نشستیں ملیں۔ ووٹ ڈالنے کا تناسب صدارتی انتخاب سے بھی 8 فیصد کم ہوکر 41 فیصد رہ گیا۔ 
اتوار 13 اکتوبر کو صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے یا run-offکا میدان سجا۔ اس مرحلے میں جناب قیس سعید اور قروئی صاحب کے درمیان براہ راست مقابلہ تھا۔  نبیل قروئی جیل میں تھے چانچہ قیس سعید نے اعلیٰ طرفی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اس نئے مرحلے کیلئے انتخابی مہم چلانے سے انکار کردیا۔ انکا کہنا تھا کہ دونوں فریق کو مہم چلانےکا مساوی موقع ملنا چاہئے اور انکا ضمیر  یہ گوارہ نہیں کرتا کہ وہ توایک ایک فرد تک جاکر ووٹ مانگیں اورنظر بندی کی بناپر انکا مخالف اس سہولت سے محروم ہو۔
جیل میں ہونے کے باوجود نبیل قروئی کی میڈیا ٹیم نے زبردست مہم چلائی۔ غریبوں کی حمائت حاصل کرنے کیلئے انھوں نے ساری ملک میں غذائی اجناس Pastaاور Macaroni کی مفت تقسیم کے اسٹال لگائے۔ اسی بنا پر  مخالفین نے  انکا نام ہی نبیل میکرونا رکھدیا۔
 قیس سعید 72 فیصد ووٹ لیکر صدر منتخب ہوگئے۔ جامعہ تیونس کے 61 سالہ پروفیسر قیس سعید آئینی امور کے ماہر اور تیونس بار ایسوسی ایشن کے سربراہ ہیں۔ اخلاقی و مالی کرپشن کا خاتمہ اور  تجدیدِانقلابِ یاسمین انکے منشور کے بنیادی نکات تھے۔خارجہ پالیسی کے باب میں وہ لیبیا میں مداخلت سے اجتناب اور اسرائیل سے سفارتی تعلقات میں غیر ضروری گرمجوشی کے خلاف ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے تیونس میں ہم جنس پرست تحریک عروج پر ہے۔ ایک اعلانیہ ہم جنس پرست (Gay)منیر بطار  صدارتی امیدوار کی حیثیت سے سامنے بھی آئے لیکن عوام کے شدید احتجاج پر انکے کاغذاتٓ نامزدگی مسترد کردئے گئے۔ پروفیسر قیس سعید کاکہنا ہے کہ مغرب اخلاقی کرپشن پھیلانے کیلئے ہم جنسی کو غیر ضروری طور پر ابھاررہا ہے۔
خواتین کے حقوق کے معاملے میں  بھی پروفیسر صاحب متوازن خیالات کے حامل ہیں۔ سابق صدر السبسی نے جب میت کا ترکہ  بیٹے اور بیٹیوں میں برابر تقسیم کرنے کیلئے قانون وراثت میں ترمیم کیلئے قانون سازی کی کوشش کی تو النہضہ کے ساتھ پروفیسر صاحب نے بھی اسکی مخالفت کی۔ قیس سعید کی اہلیہ اشرف شبیل نے جو ایک وفاقی جج ہیں اس ترمیم کو غیر فطری قراددیا۔ جج صاحبہ کا کہنا تھا کہ اللہ کے بنائے قانون میں ترمیم کے بجائے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ اسی منطقی و نظریاتی مخالفت کی بنا پر صدر السبسی نے ترمیم واپس لے لی۔تیونس کے نو منتخب صدر  عرب تشخص کے حامی ہیں اور  وہ فرانسیسی کے بجائے عربی کا فروغ چاہتے ہیں۔ وہ قانون کی حکمرا نی اور اسکے بلاامتیاز  مساوی اطلاق کے لئے پرعزم ہیں۔ اسی کے ساتھ وہ قتل، اغوا اور آبروریزی جیسے وحشیانہ جرائم کے مرتکبین کیلئے سزائے موت بحال کرنا چاہتے ہیں۔
 پارلیمان میں النہضہ سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے اور اسکے قائد جناب راشد الغنوشی حکومت سازی کیلئے سیاسی جماعتوں سمیت پارلیمان کے 12 آزاد ارکان سے بات چیت میں مصروف ہیں۔ النہضہ کا کہنا ہے کہ انکی ترجیح ایک مستحکم و موثر عوام دوست حکومت ہے اور وہ وزارت عظمیٰ اپنے پاس رکھنے پر اصرارا نہیں کرینگے۔
نظریاتی امور اور بہتر و شفاف طرزحکمرانی پر النہضہ اور نو منتخب صدر میں مکمل ہم آہنگی نظر آرہی ہے۔  تیونس کے لوگوں نے بڑے ارمان اور لازوال قربانیوں سے انقلاب یاسمین برپا کیا تھالیکن گزشتہ حکومت کی کرپشن سے عوام میں شدید مایوسی پیدا ہوئی۔ اب جناب قیس نے ملک کو اخلاقی و اقتصادی کرپشن سے نکالنے کا وعدہ کیا ہے اورالنہضہ کے اعلانات سے ایسا لگ رہاہے کہ تجدیدِ انقلاب یاسمین کے اس مبارک عزم کو پارلیمان کی مکمل و غیر مشروط حمائت حاصل رہیگی۔ ہر رخِ صبیح کہ یاسمین، ترے لب کہ برگِ گلاب ہیں۔ ٹویٹر: masood@masoodabdali
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 18 اکتوبر
2019

No comments:

Post a Comment