کاروباریوں کی دونمبری یا حفیظ شیخ صاحب کی
لاعلمی
بدھ کی شب کاروباری
قیادت سے جنرل باجوہ کی ملاقات کا بڑا
چرچا ہے۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن پر جس طرح اسے پیش کیا گیا اس سے تو لگا کہ تاجروں
کو درپیش تمام مسائل حل ہوگئے اور اب دودھ
شہد کی نہریں عنقریب بہنے والی ہیں۔ تاہم اس ضمن میں جناب حفیظ شیخ نے چین نے آنے
والے مال کے بارے میں جو انکشاف فرمایا ہے اس سے محسوس ہوا کہ وہ وزیراعظم کے مشیر
نہیں بلکہ ائی ایم ایف کے وائسرائے ہیں جو
چوریاں پکڑنے پاکستان آئے ہیں۔
انھوں نے فرمایا کہ چین سے 12 ارب ڈالر کا مال بھیجا گیا جبکہ پاکستان پہنچنے وا لے سامان کی
مالیت صر ف 6 ارب ڈالر تھی۔اسکا مطلب ہوا
کہ پاکستانی سرمایہ کاروں نے under invoicing کے ذریعے حکومت کا چونا لگایا۔کاش حفیظ شیخ صاحب یہ کہنے سے پہلے کسٹمز کے کسی کلرک سے درآمدات
کا طریقہ پوچھ لیتے۔
جو قیمت مال کی روانگی کے وقتbill of lading (BOL) کے ساتھ کمرشل
انوائس پر لکھی ہوتی ہے اسی کی بنیاد پر درآمدی
ڈیوٹی کا تعین کیا جاتا ہے۔ BOL میں جعلسازی کے ہلکے سے شک پر برآمد کنندہ مال حوالے نہیں
کرتا۔BOLکی اصلاح اور تصدیق تک مال بندرگاہ پر پھنسا رہتا
ہے اور پورٹ چارجز سمیت دوسرے اخراجات
یومیہ بنیاد پر بڑھتے رہتے ہیں لہٰذا تاجروں سے ایسی حماقت کا تصور بھی
محال ہے۔
جو بات فاضل مشیر
کو نہیں سمجھ آسکی وہ Trans-Shipmentکا معاملہ ہے۔ پاکستانی تاجروں کی ملک سے باہر بھی فیکٹریاں
ہیں اور وہ چین سے خریدے ہوئے خام مال کو
بنگلہ دیش، سری لنکا اور مشرقی وسطیٰ کے ممالک
بھی بھیجتے ہیں۔ یعنی چین سے 12 ارب کا مال خریدا گیا اور برآمد
کنندہ نے چین میں پورٹ
چارجز اور دوسرے اخراجات کیلئے
کمرشل انوائس 12 ار ب ڈالر کا بنایا ۔ جہاز راں کمپنی سے اضافی پیسوں کے عوض Trans-Shipment ی سہولت حاصل کر لی گئی۔ جب یہ جہاز کولمبو کی بندرگاہ پر پہنچا تو اس میں سے کچھ سامان بنگلہ دیش اور دوسرے ملک جانے والے جہازوں پر رکھ دیاگیا اور ضمنی BOLتیار کرلئے گئے۔ چنانچہ 6 ارب ڈالر کا مال پاکستان پہنچا اور باقی دوسرے
ملکوں کو بھیج دیا گیا۔
اس میں فراڈ، under invoicingاور دونمبری کہاں سے آگئی۔ اب تجارت بین الاقوامی ہوچکی ہے
اور trans-shipment روز مرہ کامعمول
ہے۔ شیخ صاحب کوکسٹمز مینول کا مطالعہ کرنا چاہئے۔
سر آپ کی پوسٹیں فیس بک پر نظر نہیں آ رہیں۔کیا اکائونٹ ڈی ایکٹیویٹ تو نہیں کردیا۔
ReplyDeleteجی ایسا ہی ہے
ReplyDelete