صدر ٹرمپ کو مواخذے Impeachmentکا سامنا
ڈانلڈ ٹرمپ امریکی تاریخ کے پہلے صدر ہیں جنکے مواخذے کی
بازگشت انکے حلف اٹھانے سے بھی پہلے سے سنائی دے رہی ہے۔
·
جنوری 2017 میں جیسے ہی صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا، ہیوسٹن سے رکن کانگریس ایل گرین
نے بریڈ شرمن کیساتھ مل کر مواخذے کی تحریک ترتیب دینی شروع کردی۔
·
فروری 2017میں ڈیموکریٹ رہنما جیرلڈ نیڈلر Jarrold Nadlerنے امریکی کانگریس میں ایک
قرارداد پیش کی جس میں صدر ٹرمپ کے روسی حکومت سے کاروباری تعلقات اور رابطوں کی
تحقیق کا مطالبہ کیا گیا
·
اسی سال مارچ میں ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما میکسین واٹرز کی ایک ٹویٹ کو بڑی
شہرت نصیب ہوئی جس میں محترمہ نے کہا 'مواخذے کیلئے تیار ہوجاو'۔
·
دسمبر 2017 میں ایل گرین نے صدر ٹرمپ پر نسل پرستی کا الزام لگاتے ہوئے مواخذے
کی قرارداد پیش کی جو 58 کے مقابلے میں 364 ووٹوں سے مسترد ہوگئی۔قائد حزب اختلاف
نینسی پلوسی کا کہنا تھا کہ کانگریس کے دونوں ایوانوں میں ریپبلکن پارٹی کو برتری
حاصل ہے لہٰذا حکمران جماعت سے پارلیمانی
ٹکراو اس وقت مناسب نہیں۔ ڈیمو کریٹس کی اکثریت نے قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا۔
·
نومبر 2018 کے وسط مدتی انتخابات میں جب ڈیموکریٹک پارٹی نے ایوان زیریں میں
اکثریت حاصل کرلی تو مواخذے کی کوششوں میں تیزی آگئی اور مارچ میں پہلے بریڈشرمن اور اسکے بعد محترمہ رشیدہ طالب
نے مواخذے کی تحریک کانگریس کی مجلس قائمہ برائے انصاف کو جمع کرادی۔
2016 کے صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت کی تحقیق کرنے
والے مولر کمیشن کے سامنے صدر ٹرمپ کے وکیل مائیکل کوہن نے امریکی صدر کی
ہدائت پر دروغِ حلفی (Lie under oath) کا اعتراف کیا۔
مسٹر کوہن کے اعتراف سے مواخذے کیلئےصدر کے مخالفین کو تقویت حاصل ہوئی۔کوہن صاحب
اس جرم میں قید کاٹ رہے ہیں۔
اس سال اپریل میں
رابرٹ مولر نے جو تحقیقاتی رپورٹ جاری کی وہ خاصی مبہم تھی۔ دستاویز میں کہا گیا
کہ روسی مداخلت میں صدر ٹرمپ کے براہ راست
ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا لیکن وہ بے گناہ بھی نہیں۔ بعد میں کانگریس کے رو
برو سماعت کے دوران رابرٹ مولر نے کہا کہ امریکی آئین کے تحت صدر کو جو استثنیٰ حاصل ہے اسکی بنا پرانکے لئے صدر کو مجرم قراردینا
ممکن نہ تھا۔ سوالات کا جواب دیتے ہوئے دبے الفاظ میں انھوں نے کانگریس کو مزید
تحقیقات کا مشورہ دیا۔
·
جناب مولر کے اس بیان پر ٹیکسس کی رکن کانگریس شیلا جیکسن لی نے مواخذے کی
قرارداد متعلقہ کمیٹی کو جمع کرادی ۔
·
اسی سال جولائی میں رکن کانگریس ایل
گرین نے ایک بار پھر مواخذے کی قرارداد
پیش کردی۔ نینسی پلوسی نے جو 2018 کے
انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی کامیابی کے بعد اسپیکر بن چکی تھیں قراراداد کو
مجلس قائمہ کے حوالہ کرنے کیلئے کہا لیکن جناب گرین نے فوری رائے شماری پر اصرار
کیا اور یہ قرارداد95 کے مقابلے میں 332 ووٹوں سے مسترد ہوگئی۔ اسپیکر سمیت
ڈیموکریٹس کی اکثریت نے اسے قبل از وقت قراردیتے ہوئے اسکی مخالفت کی۔
منگل 24 ستمبر کو جب صدر ٹرمپ اقوام متحدہ کے اجلاس میں
دنیا بھر کے رہنماوں کے سامنے اپنی کامیابیوں اور کامرانیوں کا فخریہ ذکر رہے تھے
کانگریس کی اسپیکر محترمہ نینسی پلوسی نے مواخذے کی کاروائی کا باقاعدہ آغاز
کردیا۔ اس ابتدائی مرحلے کو یہاں قانونی اصطلاح میں Impeachment Inquiryکہا جاتا ہے۔ مواخذے کی اس
تجویز پر گفتگو سے پہلے امریکی صدور کے
خلاف اس قسم کا تحریکوں کا ایک مختصر سا جائزہ قارئین کی دلچسپی کیلئے۔
امریکی تاریخ میں سب سے پہلے 1868میں صدر اینڈریو جانسن کا
مواخذہ کیا گیاجو صدر ابراہام لنکن کے قتل کے بعد صدر بنے تھے۔ سینیٹ میں یہ قراراد دوتہائی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام
رہی۔ صدر جانسن اپنی صدارت بچانے میں تو
کامیاب ہوگئے لیکن وہ چند ماہ بعد ہونے
والے صدارتی انتخابات کیلئے اپنی پارٹی کا ٹکٹ نہ حاصل کرسکے۔
مواخذے کا دوسرا
واقعہ 1973 میں پیش آیا جب صدر رچرڈ نکسن مخالفین کی گفتگو ٹیپ کرنے کے
الزام المعروف واٹر گیٹ اسکینڈل میں ملوث پائے گئے اور موصوف 9 اگست کو خود ہی
مستعفی ہوگئے۔
تیسرے اور آخری مواخذے کا ہدف صدر بل کلنٹن تھے جن پر وہائٹ
ہاوس کی ایک جوانسال کارکن سے نازیبا حرکات کا الزام لگا۔ لڑکی سے تعلق پر امریکی
کانگریس کو کوئی اعتراض نہ تھا بلکہ الزام یہ تھا کہ موصوف نے اس تعلق سے انکار
کیا جو بعد میں جھوٹ ثابت ہوا اور ایک دروغ گو امریکی صدر نہیں رہ سکتا۔ صدر کلنٹن کا کہنا تھا
کہ واقعے سے لاتعلقی کا اعلان انھوں نے صحافیوں کے سامنےکیا تھا اور وہ کوئی حلفیہ
بیان نہ تھا۔ اپنے حلفیہ بیان میں بل کلنٹن نے گلوگیر آواز میں مانیکالیونسکی سے
تعلقات کا اعتراف کرلیا چنانچہ انکی گلو خلاصی ہوگئی۔
اب جناب ٹرمپ کا معاملہ درپییش ہے جو امریکہ کی 243 سالہ
تاریخ کا چوتھا واقعہ ہے۔ اس اسکینڈل کا پس منظر :
یوکرین مشرقی یورپ میں سوا چار کروڑ نفوس پر مشتمل ایک ملک ہے۔
اسکی جنوب مشرقی سرحدوں پر بحر بلقان اور بحر ازاق (Azov)موجزن ہے۔ بحر ازاق دراصل بحر اسود کا تسلسل ہے
جبکہ بلقان بحر اوقیانوس کا حصہ۔ ان دونوں سمندروں کے درمیان جزیرہ نمائے کریمیاہے
جس پر 2014میں روس نے قبضہ کرلیا۔ تیل و گیس سے مالامال کریمیا بنیادی طور پر مسلم
تاتاروں کا وطن ہے۔
2014 میں صدر اوباما نے یوکرین پر امریکی اثرورسوخ بڑھانے
کیلئے تیل و گیس کی صنعت میں تعاون اور
وسائل کی ترقی کیلئے 1 ارب ڈالر پیش کئے ۔
معلوم نہیں یہ اتفاق تھا یا سوچا سمجھا منصوبہ کہ اسی دوران امریکی نائب صدر اور 2020کے
صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی ٹکٹ کے خواہشمند جو بائیڈن کے صاحبزادے
ہنٹر بائیڈن یوکرین کی ایک نجی گیس کمپنی بورسما ہولڈنگز (Burisma
Holdings) میں ملازم ہوگئے
اور انھیں بورڈ آف ڈائریکٹرز کا رکن بنالیا گیا۔ مراعات سمیت انکی تنخواہ
50 ہزار ڈالر ماہانہ تھی۔ مزید یہ کہ قانونی مشوروں کیلئے بورسما نے جس لا
فرم کی خدمات حاصل کیں وہاں ہنٹر پہلے بطور وکیل کام کیا کرتے تھے۔ 2 سال بعد امریکی سی آئی آے کے سابق ڈائریکٹر
انسدادِ دہشت گردی جوزف کوفر Joseph Coferبھی بورسما سے وابستہ ہوگئے۔ بورسما کے مالک یوکرین کے وزیر ماحولیات و
قومی وسائل مائیکولا لوچوسکی (Mykola
Zlochevsky)تھے۔ جب روس نواز حکومت کے خلاف انقلاب برپا ہوا تو
مائیکولا فرار ہوگئے۔ بورسما کے خلاف وہاں کی نیب نے کھاتہ کھول دیا اور کرپشن کی
چشم کشا کہانیاں سامنے آٗئیں۔ نئی حکومت نے وکٹر شوکن (Victor Shokin)کو تحقیقات کی ذمہ داری سونپی لیکن وکٹر صاحب خود ہی کرپشن
کے ایک الزام میں برطرف کر دئے گئے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وکٹر نے ایک بڑا
گھپلا پکڑ لیا تھا جس میں مبینہ طور پر ہنٹر بائیڈن ملوث تھے اور نائب صدر نے اپنے
بیٹے کو بچانے کیلئ حکومت پر دباو ڈال کر وکٹر کو برطرف کروایا۔ دوسری طرف جو
بائیڈن کا کہنا ہے کہ بورسما سے اپنے بیٹے کی وابستگی کی اطلاع انھیں میٖڈیا سے
ملی تھی اور اس بارے میں نائب صدر کو کچھ
بھی پتہ نہ تھا۔ تحقیقات کے بعد یوکرین کی حکومت نے بورسما کو کرپشن کے الزام سے
بری الذمہ دے دیا۔
اس دلدل میں صدر ٹرمپ کچھ اسطرح پھنسے کہ انھوں نے 25
جولائی کو یوکرین کے صدر ولادیمر زیلینسکی Volodmyr
Zelenskyسے فون پر طویل گفتگو کی جس میں یوکرین روس کشیدگی پر بات
ہوئی۔ حال ہی میں امریکی کانگریس نے
یوکرین کیلئے 40 کروڑ ڈالر کی مدد منظور کی ہے۔ جس میں سے 25 کرو ڑ ڈالرفوجی
سازوسامان جبکہ 15 کروڑ سماجی بہبور
کیلئےہیں۔ گفتگو کے دوران صدر ٹرمپ نے یوکرین میں کرپشن کی شکائت کی اور صدر
زیلینسکی سے پوچھا کہ بورسما کے خلاف کرپشن کی تحقیقات کرنے والے وکٹر شوکن کو
کیوں برطرف کیا گیا اور اس معاملے میں ہنٹر بائیڈن کا کیا کردار تھا؟۔ انھوں نے اس
دوران دھمکی بھی دی کہا اگر شفاف تحقیق
نہیں کی گئی تو وہ یوکرین کی امداد روک لینگے۔
امریکی صدر کی یہ گفتگو خفیہ ادارے کا کوئی مخبر سن رہا
تھا۔ اسکے مطابق صدر ٹرمپ نے کئی بار جو بائیڈن اور انکے بیٹے ہنٹر بائیڈن کا نام
لیا ہے۔ اس شخص نے یہ بات حکومت کی ممکنہ
بد عنوانیوں پرنظر رکھنے والے انسپکٹر جنرل تک پہنچادی۔ مشتبہ خبر ذمہ داروں کو
پہنچانے والے شخص کو انگریزی محاورے میں Whistleblowerکہا جاتا ہے جسکی شناخت کو امریکی قانون پردہ راز میں رکھنے
کی ضمانت دیتا ہے۔
یہ خبر منظر عام پرآنے سے ایک ہلچل مچ گئی۔ حسب توقع صدر
ٹرمپ سخت مشتعل ہوئے اور 'سیٹی بجانے
والے' کو انھوں نے غدار قراردیا جس نے امریکی صدر کی جاسوسی کی۔انکا کہنا تھا کہ
میں دنیا بھر کے رہنماوں سے انتہائی حساس معاملات پر گفتگو کرتا ہوں اور بہت سے
امور ایسے بھی ہیں جو اگر افشا ہوجائیں تو ملکی سلامتی خطرے میں پڑسکتی ہے۔ انھوں
نے سراغرساں اداروں سے اس شخص کے خلاف سخت کاروائی کا مطالبہ کیا۔
تاہم دوسرے دن امریکی صدر نے اس بات کا اعتراف کیا کہ انھوں
نے صدر زیلنسکی سے یوکرین میں کرپشن پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ انھوں نے
اپنی بات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر کی حیثیت سے وہ اس بات کو یقینی
بنانے کی کوشش کررہے تھے کہ ٹیکس دہندگاں کے خون پسینے کی کمائی کرپشن میں نہ
اڑائی جائے۔ انکا کہنا تھاکہ جو بائیڈن یا انکے صاحبزادے کا نام نہیں لیا گیا لیکن
اگر وہ اسکا ذکر کر بھی دیتے تو غلط نہ ہوتا کہ یہ کروڑوں ڈالر کا سوال ہے۔ دوسری
طرف سیٹی بجانے والا مصر ہے کہ صدر ٹرمپ نے 3 بار سے زیادہ جو بائیڈن اور انکے
بیٹے ہنٹر بائیڈن کا نام لیا تھا۔
اسے بنیاد بناکر کانگریس کی اسپیکر نینسی پلوسی نے مواخذے
کی کاروائی کا آغاز کردیا۔مواخذے کے بیانئے میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے
اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنے ایک مخالف کے خلاف غیر ملک سے مواد
حاصل کرنے کی کوشش کی جسے وہ مبینہ طور پر انتخابی مہم کیلئے استعمال کرنا چاہتے
ہیں۔ صدر ٹرمپ نے امریکی امداد روکنے کی
دھمکی دیکر سیاسی مفادات حاسل کرنے کی کوشش۔ صدر کا یہ قدم 2020کے صدارتی انتخابات
میں ایک غیر ملک کو مداخلت کی دعوت دینے کے مترادف ہے جسکی بنا پر وہ امریکی صدارت
کے اہل نہیں رہے۔
امریکی صدر کا مواخذہ ایک طویل اور انتہائی گنجلک مرحلہ ہے،
جس کے مطابق:
·
پہلے ایوان زیریں کے اجلاس میں اسکے کلیدی پہلووں پر بحث ہوگی
·
کانگریس کی مجلس قائمہ برائے انصاف تفصیلی بحث کے بعد ان الزامات کے درست یا غلط
ہونے کا فیصلہ کریگی
·
اگر ضروری سمجھا گیاتو ایوان زیریں
خصوصی کمیٹی تشکیل دے سکتا ہے اور کسی وکیل یا ماہر کی خدمات بھی حاصل کرجاسکتی
ہیں۔
·
مجلس کی سفارش پر مشتمل مواخذے کی قرارداد رائے شماری کیلئے ایوان میں پیش
ہوگی۔ سادہ اکثریت سے منظور ہونے کی صورت میں یہ سفارشات امریکی سینیٹ کو پیش کردی جائینگی۔
امریکی صدر چونکہ وفاق کا نمائندہ ہے اسلئے اسکی قسمت کا
فیصلہ سینٰیٹ کی ذمہ داری ہے۔ سینیٹ کی حیثیت دراصل جیوری یا عدالت کی ہے جو تمام
متعلقہ فریق کو سماعت کیلئے طلب کریگی۔ بحث مباحثے کے بعد معاملے پر رائے شماری
ہوگی۔اگر 2 تہائی سنیٹ نے ایوان نمائندگا ن سے آنے والی سفارش کومنظور کرلیا تو صدر معزول ہو جائیگا۔ دوسری
صورت میں صدر کو تمام الزامات سے باعزت بری سمجھا جائیگا۔
25 ستمبر کو صبح
ایوان صدر نے ٹیلیفوں گفتگو کا متن جاری کردیا۔ یہ ریکارڈنگ نہیں بلکہ لکھا ہوا
مسودہ ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے اسے مسترد کردیا ہے۔انکا کہناہے کہ اصل ریکارڈنگ
ایوان نمائندگان کو دی جائے۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے
مبینہ طور پر اپنے یوکرینی ہم منصب سے کئی بار گفتگو کی تھی۔ ان تمام بات چیت کی
آڈیو کاپی کے بغیر تحقیق ممکن نہیں۔
اسکے دوسرے روز قائم مقام ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلیجینس یا DNIجناب جوزف میگوائر Joseph
Maguire ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے
سراغرسانی میں پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران DNIنے اس بات کا اعتراف کیا کہ 'سیٹی بجانے والے' نے جو
الزامات لگائے ہیں وہ انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں تاہم انکی تحقیقات کی ضرورت ہے۔
جناب میگوائر کے مطابق تفصیلی تحقیقات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ صدارتی
اختیارات و استثنیٰ ہے جسکے تحت وہائٹ ہاوس کے فون کی ریکارڈنگ منظر عام پر نہیں
لائی جاسکتی۔ خیال ہے کہ امریکی کانگریس اپنے اختیار ات کو استعمال کرتے ہوئے
اسپیکر سے ریکارڈنگ کیلئےسمن جاری کرنے کی سفارش کریگی۔
مواخذے کی تحریک پر صدر ٹرمپ کا رویہ بے حد جارحانہ ہے۔
نیویارک میں یوکرینی صدر کی موجودگی میں
انھوں نے مواخذے کو Presidential harassment کی ایک کوشش قرار دیا۔ انھوں نے صحافیوں کے سامنے اپنے
یوکرینی ہم منصب سے پوچھا کہ کیا میں نے دباو ڈالنے کی کوشش کی تو صدر زیلنسکی نے
اسکی تردید کرتے ہوئے کرپشن کے خلاف اپنی کوششوں کاذکر کیا۔ یوکرینی صدر نے جناب
ٹرمپ کے روئے کی تعریف کرتے ہوئے انھیں اپنے ملک کا دوست قراردیا۔
ریپبلکن پارٹی بھی اپنے
صدر کےدفاع کیلئے پرعزم نظر آرہی ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کو ایوان نمائندگان میں تو برتری
حاصل ہے لہٰذا ایوان زیریں سے قرارداد کی مظوری کچھ مشکل نہیں لیکن سینٹ سے اسکی
منظوری ناممکن حد تک مشکل نظر آرہی ہے جہاں دوتہائی اکثریت کیلئے 67ووٹ درکار ہیں
جبکہ دوآزاد اتحادی ارکان ملا کر ڈیموکریٹس کے پاس صرف 47 نشستیں ہیں۔ یعنی فی ؒالحال مواخذے کی
کامیابی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا لیکن اسکی وجہ سے امریکہ کو ایک بحران نے گھیر
لیا ہے۔ بازارحصص جو چین امریکہ تجارتی جنگ کی بناپر پہلے دباو میں ہے مواخذےکی
خبروں کے بعد مندی کا شکار نظر آرہا ہے۔
اسی کے ساتھ ڈیموکریٹک پارٹی میں مخالفینِ جو بائیڈن کو
حملے کیلئے زہرآلود تیر میسر آگئے ہیں، پارٹی ٹکٹ کی دوڑ میں اسوقت بائیڈن سب سے
آگے ہیں لیکن یوکرین اسکینڈل انکے لئے خوفناک دلدل ثابت ہوسکتا ہے۔ یعنی اس دودھاری تلوار سے صدر ٹرمپ اور جو بائیڈن دونوں
ہی گھائل ہوتے نظر آرہے ہیں۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 4 اکتوبر 2019
No comments:
Post a Comment