شامی تیل
پر قبضے
کا امریکی اعلان
امریکی حکومت نے ترکی سے معاہدے کے بعد شمالی شام سے اپنی
فوج کی واپسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی فوج کے کچھ سپاہی مشرقی شام
میں تیل کے میدانوں اور تنصیات کے قریب تعینات کئے جائینگے تاکہ یہ وسائل داعش کے
ہاتھ نہ لگیں۔
تیل و گیس کے شامی
وسائل کا حجم بہت زیادہ نہیں اور اسکے دریافت شدہ ذخائز کا تخمینہ ڈھائی ارب بیرل ہے۔ شامی تیل کی یومیہ پیداوار میں مسلسل کمی واقع ہورہی
ہے اور 1985 میں تیل کی پیدوار 6 لاکھ روزانہ تھی جو 2010 تک کم ہوکر لاکھ 85 ہزار
بیرل یومیہ رہ گئی۔ یہا ں تیل و گیس کی تلاش
و ترقی شام پیٹرولیم کمپنی یا SPCکی ذمہ داری ہے۔ SPCکو شام کی OGDCسمجھ لیں ۔ SPC کے علاوہ ایک اہم ادارہ شرکۃ الفرات النفظ یا Al-Furat Petroleum Company (AFPC)ہے جو دراصل SPC،
ڈچ شیل اور ہمالیہ انرجی کی مشارکہ
ہے۔ ہمالیہ انرجی ہندوستان کی IONGCاور چین کی CNPC کا مشترکہ منصوبہ ہے۔اسکے علاوہ فرانس کی TOTALاور برطانیہ کی Gulfsandsپیٹرولیم بھی یہاں قسمت آزمائی کررہی ہیں۔
خانہ جنگی اور یورپی یونین کی جانب اقتصادی پابندیوں کی
بناپر شیل، ٹوٹل اور گلف سینڈز نے یہاں سے
اپنی دوکان اٹھالی ہے۔
تیل و گیس کےبڑے میدان سویدہ، عمر ، شدادی اور الرصافہ عراقی سرحد کے
قریب مشرقی شام کے دیرہ الزور صوبے میں
ہیں۔ اگرچہ کہ عالمی معیار سے یہاں تیل کی پیداوار کا حجم بہت زیادہ نہیں لیکن
شامی حکومت کی آمدنی کا 25 فیصد تیل وگیس
سے وابستہ ہے۔
یہ تو تھاتیل و گیس کی شامی صنعت کا مختصر سا تعارف۔ اب آتے
ہیں اصل موضوع کی طرف
خانہ جنگی کے دوران
مبینہ طور پر دیرہ الزور سمیت مشرقی اور شمالی شام کے بڑے حصے پرداعش نے قبضہ
کرلیا اور امریکیوں کا کہنا ہے کہ تیل کی
فروخت سے ہونے والی رقم داعش دہشت گردی کیلئے استعمال کرتی رہی ہے۔ تیل کے میدانوں پر
داعش کے قبضے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن دہشت گرد اس تیل کو عالمی منڈی تک کیسے پہنچاتے
تھے وہ ترکیب ہمیں اب تک سمجھ نہ آئی۔ شام
سے خام تیل کی برآمد بحر روم میں کھلنے
والی اسکی بندرگاہوں سے ہوتی ہے اور اب تک کوئی
بھی بندرگاہ یا گودی باغیوں کے قبضے میں نہیں آئی۔ یہ تو ممکن ہے کہ داعش نے کچھ تیل قریب کے
کسی بجلی گھر کا بیچ دیا ہو لیکن ٹینکروں کے ذریعے 3 لاکھ بیرل تیل بندرگاہ
پہنچانا اور پھر اسے جہازوں پر لادنا شامی حکومت کی مرضی و تعاون کےبغیر ممکن نہیں۔ خیر جو چائے آپکا حسن کرشمہ ساز کرے۔
علاقے سے داعش کا قبضہ چھڑانے کیلئےامریکہ نے کردوں کو آگے بڑھایا جنکی قیادت ترک کردوں کی جماعت PKKکررہی تھی۔ ترک عدالت PKK اوراسکے عسکری ونگ YPGکو دہشت گرد قرار دے چکی ہے۔ YPGکو امریکہ بھی دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے۔ داعش سے لڑائی
کیلئے YPGنے خود کو سرین
(شامی) ڈیفنس فورس (SDF) کے نام سے منظم
کرلیا جسے امریکہ نے اسلحہ فراہم کیااور ان گوریلوں کی تربیت بھی امریکی فوج نے
کی۔
ترکی سے معاہدے کے بعد جب
صدر ٹرمپ نے شمالی شام سے امریکی فوج کی واپسی کا اعلان کیا تو اسکی وضاحت
کرتے ہوئے وزیردفاع مارک ایسپر نے کہا کہ فوجی انخلا کے باجود امریکہ تیل کے
میدانوں اور تنصیبات کی حفاظت کیلئے اپنی فوج تعینات رکھے گا۔
گزشتہ روز (28 اکتوبر)کابینہ کے اجلاس میں صدر ٹرمپ نے واضح
طور پر کہا کہ امریکہ تیل پر قبضہ برقرار رکھے گا۔ اپنے اس عزم کا اعادہ انھوں نے
شکاگو میں پولیس افسران سے خطاب کرتے ہوئے بھی کیا۔ امریکی صدر نے کہا کہ وہ ہمیشہ
سے اس بات کے حامی رہیں ہیں کہ ہمیں مشرق وسطیٰ میں تیل پر قبضہ رکھنا چاہئے۔ امریکی صدر
نے کہا کہ شام میں تیل کی فروخت سے ساڑھے چار کروڑ ڈالر ماہانہ کی آمدنی ہوگی۔اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی
صدر ٹرمپ نےکہا تھا کہ ہمیں عراقی تیل پر
مالِ غنیمت کے طور پر قبضہ کرلیناچاہئے تھا
اسکے بعد امریکی وزیردفاع مارک ایسپر نے اسکی مزید وضاحت
کرتے ہوے کہا کہ شامی تیل سے کردوں کو
مالی وسائل فراہم ہونگے یعنی تیل کی فروخت
سے حاصل ہونے والی رقم SDFاور YPGکو دی جائیگی۔
تیل پر امریکی قبضے
کا فیصلہ اخلاقی وسیاسی دونوں اعتبار سے غلط ہے۔ شام کا تیل شامی عوام کی ملکیت ہے
جس پر غیر ملکی قبضے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔کسی دوسرے ملک کے قدرتی وسائل پر
قبضہ خود امریکی دستور کی رو سے بھی غلط ہے۔
تیل کی آمدنی SDFکے حوالے کرنے کا مطلب Terror Financingہے ۔ ترکی اس معاملے کو FATFمیں لے جاسکتا ہے کہ SDFعملاً YPG دہشت گردوں پر مشتمل جتھہ ہے جسکی مالی اعانت FATFکے مطابق ایک سنگین
جرم ہے۔
No comments:
Post a Comment