مسلم امت کا 'زرد' چہرہ
کل
اقوام متحدہ میں چین کے
مسلم اکثریتی علاقے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی
پامالی کے حوالے سے اقوام
عالم تقسیم نظر ائی اور یہ تقسیم بھی کچھ عجیب سی تھی
یعنی اسلاموفوبیا میں مبتلا مغربی
ممالک نے چینی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیا تو پاکستان سمیت زیادہ تر مسلم ممالک نے یغور مسلمانوں کے خلاف چینی اقدامات کی تعریف کی۔ اس متنازعہ ووٹنگ پر تبصرے سے پہلے معاملے
کا ایک مختصر جائزہ۔
چین کے شمال مغرب میں واقع
6 لاکھ 40 ہزار مربع میل پر مشتمل سنکیانگ رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے
بڑا صوبہ ہے۔ اسکے جنوب مغربی حصے کی ایک پٹی کو جو اقصائے چین کہلاتی ہے ہندوستان لداخ کا حصہ سمجھتا ہے
اور اس مسئلے پر 1962 میں چین اور ہندوستان کے درمیان خونریز فوجی تصادم بھی ہوچکاہے۔
منگولیا،
روس، قازقستان، کرغستان، تاجکستان، افغانستان، پاکستان اور ہندوستان سے گھر ایہ
علاقہ تیل و گیس کی دولت سے مالامال ہے اور اسکے منجمد صحرائے تارم کی تہوں میں
تیل و گیس کے بڑے ذخائر مدفون ہیں۔ علامہ اقبال نے 'نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک
کاشغر' مسلم اتحاد کا خواب دیکھا تھا۔ کاشغر کا خوبصورت شہر سنکیانگ ہی کا حصہ ہے۔
سنکیانگ
بنیادی طور پر تاتاروں کا ملک ہے جو ترک عثمانی خلافت کا ہراول دستہ
تھا۔ اس علاقے کو التی شہر (تارم کے 6
شہر)، منگولستان ، چغتائی خانات اوربخارہِ
جدیدبھی کہتے ہیں۔ ترک و تاتاری مسلمان
اسے مشرقی ترکستان پکارتے ہیں۔چینی شروع میں اسے مغربی علاقہ کہتے تھے لیکن بعد اسے سنکیانگ کا نام دے
دیا گیا۔ماوزے تنگ نے 1955 میں مسلم ثقافت کی تحفظ و
احترام کے عز م کے ساتھ اسے سنکیانگ یغور خودمختار علاقہ (Xinjiang
Uyghur Autonomous Region) قراردیا۔
سنکیانگ کی کل سوا دوکروڑ آبادی کا 55 فیصد ترک نژاد یغور
اور قازق مسلمانوں پر مشتمل ہے جنھیں اپنی تہذیب وثقافت پر بڑا ناز ہے۔ تاتاروں اور
ترکوں کی غیرت سارے چین میں ضرب المثل ہے۔
چین کے موجودہ صدر شی جنگ پنگ کو ثقافت میں تنوع پسند نہیں۔
انکا خیال ہے کہ چین بس چینیوں کا ہے اور تمام مذہبی، نسلی اور ثقافتی اکائیوں کیلئے
چینی ثقافت و رسم ورواج کی غیر مشوط اطاعت ضروری ہے۔ اکل وشرب، عقائد، رسم و رواج، پہناوا بلکہ
اوڑھنا بچھونا سب چینی کمیونسٹ پارٹی کے مطابق ہوناچاہے۔ مثلاً روزہ چینی ثقافت سے
مطابقت نہین رکھتا۔ اسکولوں اور کام کی جگہوں پر جب لنچ کے دوران سب لوگ کھارہے ہوں
تو کچھ لوگوں کی روزے کی بناپر علیحدگی سے قومی وحدت متاثر ہوتی ہے ۔ اسی طرح
داڑھی چینی ثقافت کے مطابق نہیں۔ چینی عوام کے لباس میں بھی یکسانیت ہونی چاہئے
لہٰذا برقعے اور حجاب کی چین میں کوئی گنجائش نہیں۔ گوشت کی دکانوں اور ریستورانوں
میں 'حلال' کے بورڈ بھی قومی وحدت کے خلاف ہیں اور تو اور بچوں کے نام بھی چینی ثقافت کے مطابق ہونے چاہئیں اور عرب و
ترک ناموں کا چینی معاشرے میں کوئی جواز
نہیں۔
ان پابندیوں پر یغور مسلمانوں کی طرف سے شدید ردعمل سامنے
آیا جسے چینی فوج سے شدت سےکچل دیا اور 10 لاکھ سے زیادہ نوجوانوں کو کیمپ نما جیلوں میں بند کردیا گیا۔ چینیوں کا
کہنا ہے کہ یہ جیل نہیں بلکہ فنی تعلیم کے ادارے ہیں جہاں انتہاپسندی سے دور رکھنے اور تہذیب سکھانے کیلئے
انکی ذہنی تربیت کی جارہی ہے جبکہ یغوروں
کے خیال میں یہ جرمن نازی کیمپ کی ایک بدترین شکل ہے۔ ان کیمپوں کی تعداد 1000 کے
قریب ہے۔
منگل
30 اکتوبر کو برطانیہ نے اقوام متحدہ میں یغور مسلمانوں کے انسانی حقوق کی پامالی کا معاملہ اٹھایا ۔ برطانیہ
نے موقف اختیار کیا کہ حراستی کیمپوں میں :
·
ثقافتی اور مذہبی
رسومات کو محدود کرنے کی کوششیں کی جارہی ہے
·
ایغور مسلمانوں کی
غیر قانونی نگرانی کی جارہی ہے اور
·
یغوروں کے انسانی
اور دیگر بنیادی حقوق کی خلاف وزرزیاں کی جاری ہے
برطانیہ
کے اس موقف کی 23 ارکان نے حمائت کی جو امریکہ ، کینیڈا، آسٹریلیا اورکینیڈسمیت سب کے سب مغربی ممالک ہیں۔مسلم ملکوں
میں صرف ترکی نے لندن کے موقف کی حمائت کی۔ہندوستان اس معاملے پر غیر جانبدار رہا۔
اس کے
فوراً بعد مشرقی یورپ کے
ملک بلاروس (Belarus)نے ایک بیان جاری کیا جسکے مطابق:
·
چین نے دہشت گردی کے سدباب کیلئے بمباری اور قتل عام کے بجائے انسداد انتہا
پسندی کیلئے ایک جامع تربیتی نظام ترتیب دیا ہےاور جن مقامات کو مغرب بدنیتی سے
حراستی کیمپ کہہ رہا ہے وہ دراصل تربیتی مراکز ہیں
·
ان مراکز کا قیام انسانی
حقوق کے باب میں گراں قدر کامیابی ہے
·
مذہبی انتہا پسندی
کے خاتمے کیلئے ذہنی تربیت ضروری ہے اور وکیشنل ایجوکیشن سینٹرز کا قیام اسی مقصد کے
حصول کا ایک ذریعہ ہے
·
ہم چین میں نظریے
کی پاسداری اورانسانی حقوق کے تحفظ پر کامیابیوں کو سراہتے ہیں۔
·
چینی حکومت کے ان اقدامات سے سنکیانگ میں رہائش پذیر غریب افراد کو
معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔
بیلارس
کے اس بیان پر پاکستان،مصر اور خلیجی ممالک اور روس سمیت 54 ممالک کے دستخط ہیں۔
دلچسپ بات کہ ہندودستان نے اس بیان کی حمائت نہیں کی۔
No comments:
Post a Comment