Friday, October 30, 2020

فرانس! یورپ کا سنکیانگ ؟؟؟

فرانس! یورپ کا سنکیانگ ؟؟؟

فرانس میں مسلمانوں کیخلاف مہم عروج پر ہے۔ صدر ایمیونل میخواں ایک عرصے سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں مصروف ہیں لیکن اسلام کے خلاف دل میں چھپی نفرت کا کھلا اظہار انھوں نے 2 اکتوبر کو پیرس کے مضافات میں ایک سیمینار سے خطاب میں کیاجسکا عنوان 'انتہاپسندی سے نمٹنے کی حکمت عملی' تھا۔ اپنی گفتگو کے آغاز میں میخواں نے کہا کہ اسلام ساری دنیا میں بحران کا شکار ہے۔ ہم فرانس کو اس بحران کا حصہ نہیں بننے دینگے اور اسلامی انتہا پسندی سے  سیکیولراقدارکی ہر قیمت پر حفاظت کی جائیگی'۔ اس 'خطرے' کے سدباب کیلئے اپنی حکمت عملی بیان کرتے ہوئے فر انسیسی صدر نے کہا کہ تعلیم اور عوامی مقامات سے اسلام کو بیدخل کرنے کیلئے موثر قوانین وضع کئے جارہے ہیں۔ جناب میخوان نے انکشاف کیا کہ انتہا پسندی، متوازی رویوں اور  مسلم ثقافت خاص طور سے ذبیحہ، حجاب و پردہ جیسے خطرات سے نبٹنے کیلئے اس سال کے آخر تک ایک مسودہ قانون پارلیمان میں پیش کیا جارہا ہے۔انکا کہناتھا کہ مسلم انتہا پسند اپنے محلوں، مساجد  اورمدارس میں شریعت نافذ کرکے ریاست کے اندر ریاست قائم کررہے ہیں جسکی بیخ کنی کیلئے موثر قانون سازی ضروری ہے۔

فرانسیسی جریدے چارلی ہیبڈو نے 2015 میں چھاپے جانیوالے گستاخانہ خاکے ستمبر میں دوبارہ میں شایع کئے تھے جس پر مسلمانوں کے احتجاج کو ہدف تنقید بناتے ہوئے میخواں نے کہا کہ 'گستاخی' کی حد تک  آزادی اظہارِ رائے فرانسیسی دستور کا حصہ ہے اور یہاں رہنے والوں کو ہمارے آئین کا احترام کرنا ہوگا۔  انھوں نے خاکوں کی مخالفت کو فرانسیسی اقدارسے متصادم اور متوازی رجحان (Islamic Separatism)قراردیا۔ مسلمانوں کی اشک شوئی کرتے ہوئے فرانس کے صدر نے کہا ہم اسلام کے خلاف نہیں لیکن اسلام کو بطور معاشرت اپنانے والے انتہا پسندوں سے فرانس کی سالمیت کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ جناب میخواں کا کہنا تھا کہ فرانس سیکولر ملک ہے۔ یہاں مسلم انتہا پسندوں کو متوازی معاشرہ بنانے کی قطعی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ فرانسیسی اقدار سے متصادم کسی رسم ورواج یا ثقافت کی یہاں کوئی گنجائش نہیں۔

اسی کیساتھ معاشرتی تطہیر کا آغاز ہوا اور 75 کے قریب مساجدکو یہ کہہ کر مقفل کردیا گیاکہ یہاں تعینات خطیب عرب ممالک کے سند یافتہ ہیں اور انھیں فرانسیسی تہذیب سے آگاہی حاصل نہیں۔ درجنوں مدارس اور مسلمانوں کے نجی اسکول بھی انتہا پسندی پھیلانے کے الزام میں بند ہیں۔ اپنے خطاب میں  جناب میخواں نے کہا کہ اگلے تعلیمی سال سے تمام بچوں کے لیے، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے ہوں، سرکاری اسکول جانا لازمی ہوگا۔اس سکھا شاہی حکم کا شان نزول بیان کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ تعلیم کا مقصد تربیت یافتہ شہری پیدا کرنا ہے نہ کہ مذہبی جذبے سے سرشار جنونی۔ گلی کوچوں میں قائم بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھانے کے روائتی 'مکتب' بھی بند کردیئے گئے ہیں۔ پولیس کا موقف ہے کہ درس و تدریس کا کام صرف رجسٹرڈ اسکولوں ہی میں ہوسکتا ہے۔

حجاب پر پابندی کا دائرہ  سرکاری اداروں کیساتھ نجی دفاتر و کاروبار تک بڑھادیا گیا ہےاور اب کوئی خاتون اپنی دوکان پر حجاب کیساتھ نہیں بیٹھ سکتی۔ اسلامی مدارس کی طالبات کو بھی اسکارف لینے کی اجازت نہیں۔ 'بچیوں اور خواتین پر قدغنوں' کو ناکام بنانے کیلئے پولیس مسلمانوں کی دوکانوں، ڈاکٹروں کے مطب، وکلا کے دفاتر اور کاروباری اداروں پر چھاپے مار رہی ہے۔

اسلام اور مسلمانوں کیخلاف معاشرتی تطہیر کی اس مہم نے دائیں بازو کے انتہا پسندوں کو حوصلہ دیا اور پیرس کے مضافاتی علاقے کے ایک مڈل اسکول میں تاریخ کے 47 سالہ استاد سموئل (Samuel Patty)نے اپنے شاگردوں کوآزادی اظہار رائے کا سبق دیتے ہوئے کلاس میں  نبی محترم صلعم کے چند توہین آمیزخاکے دکھائے۔کچھ طلبہ کے مطابق اس  سے پہلے استاد  نے کہا کہ  'میں جو دکھانے جارہاہوں، وہ شائد مسلمان  طلبہ کو پسند نہ آئے لہٰذا وہ اگرچاہیں تو کلاس سے چلے جائیں'

بہت سے مسلمان طلبہ نے اس بات کا ذکر اپنے گھروں میں کیا چنانچہ والدین نے ہیڈماسٹر سے اس واقعہ کی شکائت کی۔ والدین کا کہنا تھاکلاس میں بارہ تیرہ سال کے نوخیز بچے ہیں جنکے سامنے استاد کی جانب سے انکے عقیدے کی توہین کسی طور بھی مناسب نہیں اور سموئیل پیٹی سے جواب طلبی ہونی چاہئے۔ایک لڑکی کے والد نے پولیس تھانے میں بھی شکائت  درج کروائی

طلبہ اور والدین نے سوشل میڈیا پر  احتجاج کیا  اور کچھ عناصر کی طرف سے سموئیل پیٹی اور اسکول انتظامیہ کو قتل کی دھمکیاں بھی موصول  ہوئیں۔ اسکول انتطامیہ نے ان تمام اعتراضات کو  یہ کہہ کر مسترد کردیاکہ اسکول کے اساتذہ سبق کی تیاری کے سلسلے میں بااختیار ہیں،  خاکے دکھا کر سموئیل نے اسکول کے ضابطوں یا ملکی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی۔ مزیدیہ کہ   مذہبی جذبات کے نام پر  آزادی اظہاررائے کو محدود نہیں کیا جاسکتا۔

جمعہ 23 اکتوبر کو اسکول سے چھٹی پر جب  سموئیل پیدل اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا تو  اسکے انتطار میں کھڑے ایک 18 سالہ شیشانی نوجوان عبداللہ انذروف نے چھرے سے وار کرکے  سموئیل  کا سرقلم کردیا۔ کاروائی کے بعد فرارہونے کے بجائے وہیں کھڑے ہوکر عبداللہ نے مقتول کی تصویر اپنے ٹویٹرپر اس پیغام کے ساتھ لگادی کہ 'میں نے محمد صل اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے والے جہنم کے ایک کتے کوسزا دیدی ہے' اسی دوران انسداد دہشت گردی حملہ وہاں پہنچ گیا جنھیں دیکھ کر عبداللہ نے اللہ اکبر کے نعرے لگائے جواب میں پولیس کی فائرنگ سے عبداللہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔

اس واقعے پرمیخواں اور اسلام مخالف عناصر آپے سے باہر ہوگئے۔ فرانسیسی صدر نے اسکول کے باہر ایک ریلی کی قیادت کی جہاں لوگ خاکوں کے پلے کارڈ لئے کھڑے تھے۔بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ وہ تمام والدین تھانوں میں تعذیب بھگت رہے ہیں جنھوں نے سموئیل پیٹی کے خلاف اسکول انتطامیہ اور پولیس کو درخواست دی تھی۔ عبداللہ سے سہولت کاری  کے الزام میں درجنوں طلبہ اور انکے والدین زیر حراست ہیں۔

گزشتہ ہفتے چارلی ہیبڈو نے کچھ نئے گستاخانہ خاکے شایع کئے ہیں اور اس بار جو خاکے بنائے گئے اسکا وضاحتی ذکر بھی یہاں مناسب نہیں۔ رسالے میں اشاعت کے ساتھ پروجیکٹر کے ذریعے ان خاکوں کی بڑی بڑی عمارات پر نمائش کی گئی اور پوسٹر کی شکل میں چھاپ کر مسلم محلوں میں دیواروں پر آویزاں کیا گیا۔ صدر میخواں نے ایک بار پھر اس گستاخی کی بھرپور حمائت کی اور فرمایا مسلمانوں کو اب اسکا عادی ہوجانا چاہئے۔ وہ شوق سے احتجاج کریں جوابی خاکے بناکر اسی طرح دیواروں پر لگائیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن و زیر داخلہ منوئیل واس نے ایک حکم کے ذریعے خاکوں کے خلاف مظاہروں پر پابندی لگادی ہے۔ وزارت داخلہ نے پولیس کو ہدائت کی ہے کہ خاکوں کی مذمت میں ہونے والے مظاہروں کو بھرپور طاقت سے کچل دیاجائے  اور منتظمین کے خلاف دہشت گردی کے پرچے کاٹے جائیں۔یہ دفعہ 144جیسا کوئی حکم نہیں بلکہ اس پابندی کا اطلاق صرف اور صرف  خاکوں کے خلاف مظاہروں پر ہوگا۔

آج اسلام اور مسلم ثقافت کو فرانس سے کھرچ دینے کا عزم رکھنے والے میخواں 2017 کے صدارتی انتخابات میں مسلمانوں کی حمائت سے برسراقتدار آئے تھے۔ مسلمانوں کیساتھ یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ 2000میں امریکی مسلمانوں نے ایسے ہی جوش خروش سے صدر جارج بش کا ساتھ دیا تھا۔ اسوقت انکے مخالف سابق نائب صدر ایل گور نے ایک یہودی جو لائیبرمین کو نائب صدر کیلئے اپنا امیدوار نامزد کیا تھا۔ جارج بش نے خود کو مسلمانوں کا ہمدرد ظاہر کیا۔ حجاب و پردے کی مکمل حمائت، سرکاری اسکولوں میں عبادت کی اجازت، منشیات کیخلاف سخت اقدامات کے نعروں سے مسلمان بے حد متاثر ہوئے اور ایک جائزے کے مطابق اسی فیصد مسلمانوں نے جارج بش کو ووٹ دیا لیکن 9/11کی آڑ میں مسلمانوں کے اسی ہمدرد نے مسلم دنیا کو جہنم زار بنادیا اور انکی لگائی ہوئی آگ امت کی خوشی و خوشحالی کے ساتھ امنگوں اور آرزووں کو بھی چاٹ گئی۔

گزشتہ انتخابات میں میخواں کا مقابلہ نیشنل فرنٹ (National Front) کی Marine Le Pen سے تھا۔ اسوقت مسلمانوں کے بارے میں میری لاپن کا بیانیہ اور لب و لہجہ بالکل وہی تھا تو جناب میخواں نے اب اختیار کیا ہے۔ ۔نیشنل فرنٹ کے بانی میری لاپن کے والد جین لاپن تھے اور اس جماعت کی بنیاد ہی فرانس کو مسلمانوں سے پاک کرو کے نعرے پر تھی۔ ابتدا میں اسے پزیرائی نصیب نہیں ہوئی لیکن 2016 میں جب صدر ٹرمپ نے 'مسلم بین') (Muslim Banکے نعرے پر مقبولیت حاصل کی تو اسی بیانئے کو ہنگری کے وکٹر اوربن، ہالینڈ کے گیرت وائلڈرزاور فرانسیسی میرین لاپن نے آگے بڑھایا۔ مسلم مخالفین کو ہالینڈ میں تو کوئی خاص کامیابی نہ ہوسکی لیکن وکٹڑ اوربن اور فرانس میں لاپن کی مقبولیت کا گراف بہت تیزی سے اوپر گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے نیشنل فرنٹ دوسری بڑی جماعت بن گئی۔ اسی قوت کا اثر تھا کہ صدارتی انتخابات میں میخواں 50 فیصد ووٹ نہ حاصل کرسکے اور ضابطے کے مطابق  دوسرے مرحلے یا run-offکی ضرورت پیش آئی۔ آج اسکارف کو سالمیت کیلئے خطرہ قراردینے والے ایمیونل میخواں کو تین سال پہلے لاپن کی تنگ نظری، فرانس کی سالمیت کیلئے خطرہ نظر آرہی تھی۔ انتخابی مہم کے دوران میخواں مساجد بھی گئےجہاں کی دبیز قالینوں پر ننگے پیر چلنا انکو بہت اچھا لگا۔مدارس میں فرانسیسی بچوں کی قرات بھی انکے کانوں پر بار نہ محسوس ہوئی۔ یہ مسلمانوں کی پرجوش حمائت کا نتیجہ تھا کہ میخواں  نے 66 فیصد ووٹ لے کر میرین  لاپن کو شکست دے دی ۔ تاہم لوگوں کو تعجب تھا کہ ایک آزاد و روشن خیال ملک میں دائیں بازو کی نیشنل فرنٹ سے 33 فیصد ووٹ کیسے لے لئے۔ پاکستان کے ممتاز صحافی جناب ضیا چترالی کی گرانقد تحقیق کے مطابق میری لاپن کی انتخابی مہم کی مالی اعانت متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زید نے فراہم کی تھی اور یہ مدد آج تک جاری ہے ۔

کچھ عرصے سے جناب میخواں کو ملک کے اندر شدید سیاسی دباو کا سامناہے۔ موصوف تین سال پہلےدودھ و شہد کی نہر بہانے کے وعدے پر برسراقتدار آئے تھے۔ لیکن معیشت کی بحالی کیلئے انکی قدامت پسندانہ اصلاحات کومزدور اور غریب طبقے کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور زرد صدری (Yellow Jacket) مظاہرین نے سارے فرانس کو مفلوج کرکے رکھدیا۔ ملک گیر مظاہروں ، دھرنوں اور ہڑتالوں سے ملکی معیشت کا دیوالہ نکل گیا اور رہی سہی کثر کرونا وائرس نے پوری کردی۔ وبا سے نبٹنے کیلئے فرانسیسی حکومت کے غیر موثر اقدامات پر عام لوگ حکومت سے سخت ناراض ہیں۔ معیشت کا پہیہ چالو رکھنے کی فکر میں میکراں حکومت لاک ڈاون سے گریز کرتی رہی جسکی وجہ سے ہزاروں جانیں ضایع ہوئیں اور اسکا دورانیہ بھی طویل رہا۔ لاک ڈاون ختم ہونے کے بعد معیشت کی بحالی کے لئے اقدامات شروع ہی ہوئے تھےکہ کرونا کی نئی وبا سرپر آگئی  اور اب نئے لاک ڈاون نے ملکی معیشت کا کچومر نکال دیاہے۔ دوسری طرف میرین لاپین نے 'نااہل میخوان' کے عنوان سے مہم شروع کررکھی ہے جسکی عوامی حمائت میں برابر اضافہ ہورہاہے۔ فرانسیسی صدر کو اندازہ ہے کہ نیشنل فرنٹ کی اصل قوت مسلم مخالف عناصر ہیں۔ سیاسی مبصرین کے خیال میں صدر میخوان نے میری لاپن کے ووٹ بینک میں نقب لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور انکی حالیہ مسلم مخالف مہم کے پیچھے یہی شیطانی فکر کارفرما ہے۔

صدر میخواں کے اس روئے نے فرانسیسی مسلمانوں کی زندگی جہنم بنادی ہے۔ چھاپے اور پکڑ دھکڑ عام ہے، لاتعدادنوجوانوں پر دہشت گردی کے مقدمات قائم کئے گئے ہیں۔ مساجد بند اور مدارس ویران ہیں۔ اخبارات  توہین آمیز خاکوں اور شرمناک مواد سے بھرے پڑے ہیں۔ خبر گرم ہے کہ خاکوں پر مشتمل ایک کتاب بھی شایع ہورہی ہے۔

تاہم یہ مہم جوئی خود فرانس کیلئے بھی نقصان دہ ہے۔میخواں صاحب کی شیخی اپنی جگہ لیکن فرانس، امریکہ، روس اور چین کی طرح کو ئی عالمی طاقت نہیں۔ فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی ترک اپیل پر دنیا بھر کے مسلمانوں نے مثبت ردعمل ظاہرکیا ہے۔ قطر، کوئت، مراکش اور الجزائر میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم شروع ہوچکی ہے۔ فرانس سے ان چار ممالک کی سالانہ درآمدات کا حجم 27 ارب ڈالر کے قریب ہے جبکہ ترکی تقریبا 7 ارب ڈالر مالیت کا سامان ہر سال فرانس سے خریدتا ہے۔ پیرس میں بائیکاٹ کے اثرات محسوس ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ 26 اکتوبر کو فرانسیسی وزارت خارجہ نے عرب ممالک کو ایک مراسلہ بھیجا ہے جس میں درخواست کی گئ ہے کہ فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ فوراً ختم کر دیا جائے۔فرانس کے اقتصادی ماہرین  کا خیال ہے کہ کرونا سے تباہ حال معیشت عالمی بائیکاٹ کی ضرب برداشت نہیں کر پائیگی۔

فرانس کو سب سے زیادہ ڈر اپنی منافع بخش دفاعی صنعت کے متاثر ہونے کا ہے۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران ترکی نے اس میدان خاصی پیشرفت کی ہے۔ اسکے میزائیل بردار ڈرونز نے لیبیا اور اسکے بعد باغ نگورنو کاراباخ میں اپنی کارکردگی کی دھاک بٹھادی ہے۔ اسکے علاوہ ترک ساختہ بکتر بند گاڑیاں، ٹینک اور فضائی دفاعی نظام کی بڑی مانگ ہے۔ماضی قریب میں ترکی نے قطر، لیبیا، آذربائیجان، قازقستان یوکرین اور دوسرے ممالک کو دفاعی سازوسامان فروخت کیا۔ یہ تمام ممالک فرانسیسی اسلحے کے بڑے گاہک ہیں۔

فرانسیسی صدر طاقت کے ذریعے مسلمانوں کو توہین رسالت برداشت  کرنے پر مجبور کرہے ہیں حالانکہ سخت ترین قوانین کے باوجود   توہین رسالت پر اشتعال انگیز ردعمل میں کوئی کمی میں  نہیں آئی۔ حالیہ  واقعہ سے چند ہفتہ پہلے جب بدنام زمانہ چارلی ہیبڈو نے 2015 میں شایع ہونے والے خاکے دوبارہ شایع کئے تو اس پر مشتعل ہوکر ایک پاکستانی لڑکے نے چھرے سے وار کرکے پیرس میں دو افراد کو زخمی کردیا تھا۔

صدر میخواں نے سیکیولرازم کے نام پر فرانسیسی مسلمانوں کی مذہبی شناخت ختم کرنےکا جو بیڑہ اٹھایا ہے اس سے ملکی اقتصادیات کے ساتھ فرانس کی نظریاتی و اخلاقی ساکھ کو بھی سخت خطرہ لاحق ہے۔فرانسیسی صدر  کے سخت گیر روئے کو ممتاز دانشور، صدر میخوان کی سوشلسٹ پارٹی کی رہنما  اور سابق وزیرتعلیم محترمہ نجات ولید ابوالقاسم نے سیکیولر انتہا پسندی یاMilitant Secularityقراردیاہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کو ڈر ہے کہ اگر مسلم مخالف قانون سازی کیلئے انکی مہم کامیاب ہوگئی تو عدم برداشت کےحوالےسے فرانس چین کے ہم پلہ ہوجائیگا۔ میخواں اور فرانسیسی انتہا پسندوں کی طرح چینی کمیونسٹ پارٹی کا موقف بھی یہی  ہے کہ بطور عقیدہ اسلام عظیم مذہب ہے لیکن چینی ثقافت کے متوازی  اقدارو رسوم کی یہاں کوئی گنجائش نہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کے مطابق خوراک، لباس اور رسوم و عبادت حتیٰ کہ چینی زبان کے سوا کسی اور زبان میں روزمرہ تہنیتی الفاظ ناپسندیدہ 'ثقافتی آلودگی' اور ملک سلامتی کیلئے سخت خطرہ ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 30 اکتوبر


2020

 

متحدہ عرب امارات اوربحرین کے بعد سوڈان

سوڈان اور اسرائیل اپنے باہمی تعلقات معمول پر لانے کیلئے تیار ہوگئے ہیں۔ اس بات کا اعلان جمعہ (23 اکتوبر) کو قصرِ مرمریں کے اپنے بیضوی دفتر میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر  ڈونالڈ ٹرمپ نے کیا جہاں فون پر اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتھن یاہو، سوڈان عبوری فوجی کونسل کے سربراہ جنرل عبدالفتاح برہان اور وزیراعظم ڈاکٹر عبداللہ حملوک بھی موجود تھے۔ امریکی صدر نے بتایا کہ اسرائیل اور سوڈان نے ایک دوسرے کے ساتھ امن قائم کرنے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔ صدر ٹرمپ نے فخریہ اندازمیں کہا کہ سوڈان تیسرا ملک ہے جو معاہدہ ابراہیم کے تحت اسرائیل سے تعلقات قائم کررہا ہے۔ اس موقع پر امریکی صدر نے دعویٰ کیا کہ جلد ہی کئی دوسرے  ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کریں گے۔صدر ٹرمپ یہاں تک کہہ گئے کہ جلد ہی فلسطینی بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے۔ تاہم جس وقت امریکی صدر واشنگٹن میں اپنے امیدافزا الفاظ سےامن کے دیپ جلا رہے تھے عینی اسی وقت رملہ سے جاری ایک بیان میں مقتدرہ فلسطین کے صدر محمود عباس نے اسرائیل اور سوڈان کے مابین اس  پیش رفت کو فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے سے تعبیر کیا۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اسرائیل سے تعلقات کے باب میں سوڈان کی فوجی جنتا کوعوام کی جانب سے شدید ردعمل کا خوف ہے اسی بنا پر مشترکہ اعلامئے میں الفاط کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے۔ بیان کے مطابق آئندہ چند ہفتوں میں دونوں ممالک زراعت، معیشت، تجارت، ہوا بازی اور سوڈانی یہودیوں کی اسرائیل منتقلی کے معاملات سمیت باہمی امور پر تعاون کی راہیں تلاش کرنے کیلئے مذاکرات شروع کریں گے۔ یعنی اس میں سفارتی تعلقات قائم کرنے کے بارے میں کوئی یقین دہانی شامل نہیں۔ اس احتیاط کا مزید مظاہرہ اسوقت دیکھنے میں آیا جب سوڈان کے عبوری وزیرخارجہ عمر جمال الدین نے خرطوم میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ تعلقات کو معمول پر لانے کا آغاز  سوڈانی مقنہہ سے توثیق کے بعد ہوگا اوراب تک کے اقدامات تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے محض گفتگو کا آغاز ہے۔ ہمیں سفارتی تعلقات کی بحالی کیلئے پارلیمان اور جمہوری اداروں کے قیام (انتخاب) تک انتظار کرنا ہوگا کہ اہم فیصلے عوامی امنگوں کے مطابق  منتخب ہونے والی قیادت ہی کرسکتی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل وزیرِ اعظم اس اعلان پر بہت پرجوش ہیں۔ اپنے ایک بیان میں انھوں نےمعاہدے کو امن کے لیے ایک زبردست کوشش قرار دیا۔

سوڈانی عوام کی مخالفت کے باوجود فوجی جنتا یہ کڑوی گولی نگلنے کو کیوں تیار ہوئی تو آج کی نشست میں اسی حوالے سے چندگزارشات نذر قارئین کی جائینگی جسکا آغاز ہم  پس منظر سے پہلے پیش منظر پر گفتگو سے کرتے ہیں

گزشتہ ہفتے  اپنے ایک ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ سوڈان کو دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے ممالک کی فہرست سے نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور صدر کی ترجمان کیلی این مک اینی نے ایک بیان میں بتایا کہ صدر نے اپنے ارادے سے امریکی کانگریس کو بھی مطلع کر دیا ہے۔ اسی کے ساتھ امریکہ نے بین الاقوامی قرضے کے حصول کیلئے سوڈان کی مدد کا وعدہ کیا ہے۔ یعنی دہشت گردی کی زنجیر کٹتے ہی سوڈان برضا و رغبت آئی ایم ایف اور وولڈ بینک قرضوں کا نقرئی بلکہ طلائی قلادہ اپنے گلے میں ڈال لے گا۔ زنجیر بھی تیری ہے دیوانہ بھی تیرا ہے۔

سوڈان سے پہلے ملا عبدالغنی برادر، ملا عبدالسلام ضعیف اور عباس ستانکزئی سمیت بہت سے نامی گرامی افغان 'دہشت گردوں ' کو بیک جنبش قلم نیک چال چلن کی اسناد جاری کی جاچکی ہیں۔ ان میں سے کئی پاکستان کے بدنام زمانہ 'سیف ہاوسز' (safe houses) میں بدترین تشدد کی بھٹی سے گزارے گئے اور کچھ 'خوفناک دہشت گرد'  گوانتا نامو کے عقوبت کدوں کی زینت بھی بنے لیکن نہ تو ان میں سے کسی پر فرد جرم عائد ہوئی اور نہ ہی انکے ماتھے پر ثبت کلنک کے ٹیکے کو کھرچ کر پہلو نشینی سے سرفراز کرنے وجہ بتائی گئی۔ پس ثابت یہ ہوا کہ دہشت گرد وہ ہے جو ہماری بات نہ مانے۔ حکم عدولی پر ملا ضعیف جیسے مستند سفارتکار کو سرعام برہنہ کرکے  مشکیں کس دی گئیں لیکن ضرورت پڑنے پر اسی 'دہشت گرد' کو مذاکرات کار قرار دیکر انکا سفارتی رتبہ بحال کردیا گیا۔ سب سے بڑے دہشت گردملا برادر کی عزت افزائی کا توکیا پوچھنا کہ ملا صاحب کو  شہنشاہ معظم نے بذریعہ فون ہم کلامی کا شرف عطا فرمایا۔کس میں ہمت ہے کہ اقوام متحدہ کی انسداد دہشت گردی کمیٹی سے پوچھے کہ نیک بخت! دہشت گرد کے اوصاف حمیدہ ہیں کیا جسکی بنیاد پر کسی شخص کو بمعہ زن و بچہ کولہو پلوادیا جائے؟

اب کچھ گفتگو صدر ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ امن منصوبے پر جسکا اعلان اس سال 28 جنوری کو کیا گیا۔ اس معاہدے میں  اسرائیل کے ساتھ فلسطینی ریاست کی ضمانت دی گئی تھی۔ لیکن معاہدے کی تیاری میں تنازعے کے دوسرے فریق یعنی فلسطین کو شریک مشورہ تو دور کی بات اعلان سے پہلے اعتماد میں بھی نہیں لیا گیا۔181 صفحات پر مشتمل یہ دستاویزجسے صدر ٹرمپ نے ڈیل آف دی سنچری قراردیا تھا، امریکہ کے داماد اول جیررڈ کشنر نے تحریر فرمائی ہے۔ فلسطینیوں نے یہ ' ڈیل' یکسر مسترد کردی۔ مقتدرہ فلسطین کے سربراہ محمود عباس کا کہنا تھا کہ تجویز پر غور تو دور کی بات وہ متعفن  کچرے کے اس181صفحاتی ڈھیر کو ردی کی ٹوکری میں بھی جگہ دینے کو تیار نہیں۔

فلسطینیوں کے اس صاف انکار پر جیرارڈ کشنر نے عرب و اسرائیل امن معاہدے سے فلسطینیوں کو الگ کردینے کی مہم شروع کی جسے معاہدہ ابراہیم کا نام دیا گیا یعنی حضرت ابراہیم سے منسوب تینوں مذاہب کے ماننے والوں کا عہدِ امن۔ یہ مہم کامیاب رہی اور سب سے پہلے متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا جسکے کچھ ہی دن بعد بحرین نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان کردیا۔ان دستاویزات کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان دونوں میں فلسطینی ریاست یا اسرائیل فلسطین تنازعے کے حل کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئےصدر ٹرمپ کی موجودگی میں امریکہ کے داماد اول نے کہا کہ معاہدہ ابراہیم کے بعد عرب و مسلم ممالک فلسطینی ترجیحات سے بالاتر ہوکر اپنے قومی مفاد کے مطابق فیصلے کررہے ہیں۔ گویا جیررڈ کشنرنے عرب اسرائیل تعلقات کے گلے میں پھنسی فلسطین کی ہڈی کو بہت خوبصورتی سے باہر نکال دیاہے۔

انتخابی مہم میں تیزی آنے پر صدر ٹرمپ کو  ایک چشم کشا سفارتی کامیابی کی ضرورت تھی۔ اسی دوران یورپ کے مسلم اکثریتی ملک کوسووو نے نہ صرف اسرائیل کو تسلیم کرلیا بلکہ انکے وزیراعظم عبداللہ ہوتی نے یہ کہہ کر صدر ٹرمپ کی طبیعت کو باغ باغ کردیا کہ کوسووو اپنا سفارتخانہ بیت المقدس میں تعمیر کریگا۔

اس کامیابی کے باوجود صدر ٹرمپ چاہتے تھے کے امریکی انتخابات سے پہلےسعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرلے۔ اس مقصد کیلئے جیررڈ کشنر نے اپنے 'دوست' سے فون پر تفصیلی گفتگو کی۔ جناب کشنر نے اس بات چیت کو امریکی اصطلاح میں 'دوستانہ chatقراردیا۔ جس کے بعد سعودی عرب کو راضی کرنے کیلئے امریکی وزیرخارجہ ریاض تشریف لے گئے لیکن بات نہ بنی۔ 24 اکتوبر کو اسرائیلی اخبارہارٹز Haaretz نے سعودہ ولی عہد کے قریبی دوست و معروف سرمایہ کار و فلمسازجناب حائم شعبان کے حوالے سے انکشاف کیا کہ سلمان بن محمد (MBS)اپنی جان کے ڈر سے اسرائیل کو تسلیم نہیں کررہے ہیں۔ اسکندریہ ،مصر کے یہودی خاندان میں جنم لینے والے 76 سالہ حائم شعبان اسرائیل کیساتھ امریکی شہریت کے بھی حامل ہیں۔ جمعہ  کو فلورڈا میں جو بائیڈن کے ایک آن لائن انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے معروف حائم شعبان نے بتایا کہ ان سے گفتگو میں MBSنے خطرہ ظاہر کیا تھا کہ اگر سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات اور بحرین کی طرح اسرائیل کے تسلیم کیا تو ایرانی و قطری ایجنٹ بلکہ شائد سعودی ہی اپنے ولی عہد کو قتل کردیں۔ تادم تحریر مسٹر شعبان کے اس انکشاف پرسعودی عرب کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

سعودی عرب کی جانب سے مایوسی کے بعد اسرائیل کیلئے نئے دوستوں کی تلاش کا کام شروع ہوا اور  قرعہ فال سوڈان کے نام نکلا ۔ بحر احمر کے ساحل پر لیبیا، چاڈ، ایریٹیریا اور ایتھوپیا کے پڑوس میں واقع  4 کروڑ نفوس پر مشتمل سوڈان ایک وقت میں افریقہ کا نسبتاً خوشحال ملک شمار ہوتا تھا۔زراعت عروج پر تھی اور تیل کے چشموں نے اسکی قومی دولت میں اضافہ کردیا۔ لیکن  پڑوسی ممالک اور بڑی طاقتوں کی مداخلت سے فروغ پانے والی  خانہ جنگی نے اسکا دیوالیہ نکال دیا۔رہی سہی کسر باوردی حکمرانوں کی کرپشن نے  پوری کر دی۔

1993میں امریکہ نے اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کا الزام لگا کر سوڈان کو  دہشت گردوں کی اعانت   کرنے والے ملکوں کی فہرست میں ڈال دیا۔اسکے نتیجے میں ملک پر سخت معاشی پابندیاں عائد کردیں  گئیں۔ سوڈان نے اسکی تردید کی لیکن چچا سام کے آگے کس کی چلتی ہے۔1998میں تنزانیہ اور کینیا کے امریکی سفارتخانوں پر حملے کا الزام بھی  سوڈان کے سر منڈھ دیا گیا۔ امریکی حکام کاکہنا تھا کہ  حملے کے منصوبہ بندی القاعدہ نے سوڈان میں کی تھی۔ اسکے دوسال بعد  12 اکتوبر 2000کو عدن (یمن) کی بندرگاہ پر ایندھن بھرتے ہوئے امریکہ کے جنگی جہاز کول (USS Cole)کو نشانہ بنایا گیا۔ خود کش حملے میں 16 امریکی اہلکار ہلاک ہوگئے۔ سی آئی اے کا خیال ہے کہ اس  حملے کی منصوبہ بندی بھی سوڈان میں کی گئی تھی۔

نائن الیون (9/11)حملوں کے بعد ایک غیر تحریری 'نئے عالمی نظام یا New World Orderکا اجرا ہوا جسکی بنیاد کا اعلان کرتے ہوئے امریکی صدر بش نے کہا تھا کہ ' اگر دہشت گردی کی جنگ میں تم ہمارے ساتھ نہیں تو دہشت گردوں کیساتھ ہو'۔ اور دنیا کے مخلتف ممالک اور تنظیموں پر دہشت گرد کا ٹھپہ لگانے کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔سوڈان پر پابندیاں مزید سخت کرنے کیساتھ امریکہ اور یورپی یونین نے جنوبی سوڈان کے علیحدگی پسندوں کی حمائت تیز کردی. سوڈان کے آمر مطلق جنرل عمر البشیر کو لارا دیاگیا کہ اگر وہ جنوبی سوڈان کی برضا و رغبت علیحدگی قبول کرلیں تو انکے ملک کو دہشت گردوں کی فہرست سے نکال لیا جائیگا چنانچہ عمرالبشیر ریفرنڈم پر رضامند ہوگئے۔ جنوری 2011کے استصواب میں 98 فیصد افراد نے مکمل آزادی کے حق میں رائے دی اور سوڈانی پارلیمنٹ نےعوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے جنوبی سوڈان کوآزاد کرنے کا اعلان کردیا۔

تیل سے مالامال جنوبی حصے کی علیحدگی نے سوڈان کی کمر توڑ دی اور غلہ برآمد کرنےوالےسوڈان کو کھانے کے لالے پڑگئے۔ لیکن ان مشکلات کے باوجود ملک کی بے ایمان و بے رحم  فوجی جنتا نے لوٹ مار جاری رکھی۔ 2018کے آخر میں سوڈانیوں کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا اور نہتے عوام فوجی ہیڈکوارٹر کے باہر دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ اسی کیسا تھ سارے ملک میں لوگ سڑکوں پر آگئے۔عوامی تحریک کے نتیجے میں جنرل عمرالبشیر کو فوجی جنتا نے  معزول  تو کردیالیکن ملک کی باگ ڈور 'بلڈی' سویلین کے حوالے کرنے کے بجائے ایک انقلابی عبوری کونسل تشکیل دیدی گئی جسکے سربراہ  جنرل عبدالفتاح البرہان ہیں۔ عوام کی اشک شوئی کیلئے ماہر معاشیات ڈاکٹر عبداللہ حمدوک کو وزیراعظم بنادیا گیا۔ عبوری کونسل جیسا کہ نام سے ظاہر ہے انتخابات کے انتظامات کیلئے بنائی گئی ہے لیکن  انتخابات سے پہلے احتساب کا نعرہ لگاکر چناو کو  2022 تک ملتوی کردیا گیا۔

عبوری کونسل کے سربراہ مغرب میں قبولیت کیلئے پہلے دن سے اسرائیل کوتسلیم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ سویلین وزیراعظم چاہتے ہیں کہ اس قسم کے کلیدی فیصلے کو منتخب حکومت کیلئے چھوڑدیاجائے لیکن جنرل صاحب دوامِ اقتدار کی خواہش میں  اسرائیل سے تعلقات کیلئے بے قرارہیں۔ اس سال سال فروری میں انھوں نے اسرائیلی وزیراعظم سے  براہ  راست ملاقات کی تھی۔ یہ  رازونیاز یوگینڈا کے شہر انتیبے  میں ہوئے جسے سوڈانیوں سے خفیہ رکھا گیا لیکن اسرائیلی میڈیا نے اسکا بھانڈا پھوڑدیا۔

ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے سوڈان کو ترغیب دی گئی ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی صورت میں اسے دہشت گرد ملکوں کی فہرست سے نکال دیا جائیگا۔ افغانستان میں جس فراخدلی سے 'دہشت گردوں' کو نیک چلن کے اسناد جاری کی گئی ہیں جباریت سے لبریز کچھ ایسا ہی مشفقانہ انداز یہاں بھی ہے۔ سوال یہ ہےکہ اگر  تنزانیہ وکینیا کے سفاتخانے اور امریکی بحری جہاز پر حملے میں واقعی سوڈان ملوث ہے تو کیا یہ گھناونے جرائم اس کے نامہ اعمال سے بس اتنی سی بات پر محو کردئےجائینگے کہ خرطوم نے اسرائیل کو ایک آزاد و خودمختار ریاست تسلیم کرلیا ہے؟

عوامی امنگوں کے خلاف فیصلہ کرکے بھی سوڈان کی مشکلات اتنی آسانی سے ختم ہوتی نظر نہیں آتیں۔ دہشت گرد واقعات کے متاثرین کو سوڈان کی جانب سے  تاوان کی ادائیگی بھی اس سودے کا حصہ ہے۔واشنگٹن کے صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ  سوڈان کی عبوری حکومت نے 33 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی رقم ایک امریکی اکاؤنٹ میں جمع کرادی ہےجو متاثرین و لواحقین کو دی جائے گی۔ سوڈان کے قانونی ماہرین  کو اس بندوبست پر تشویش ہے۔ انکا کہنا ہے کہ تاوان کی ادائیگی کا مطلب دہشت گرد سرگرمی کا اعتراف ہے اور پہلی قسط کی ادائیگی پر ذیلی و اضافی  متاثرین بھی سامنے آسکتے ہیں لیکن خود کو عقلِ کل سمجھنے والے جنرل صاحب نے اپنے اقتدار کا تسلسل یقینی بنانے کیلئے سوڈانی ماہرین سے مشورہ کئے بغیر یہ خطیر رقم امریکہ کے حوالے کردی۔  

سوڈان کے ماہرینِ  قانون نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ ابھی سے درست ثابت ہونے لگے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی پریس کانفرنس کے فوراً بعد دہشت گردی متاثرین کے وکلا نے سوڈان کی جانب سے فراہم کردہ رقم کو بہت کم قراردیا ہے۔ یہ ایک دیوانی مقدمہ ہے جس میں امریکی حکومت مداخلت نہیں کرسکتی اور اب جبکہ سوڈان نے جرم کا سرکاری طور پر اعتراف کرلیا ہے خرطوم عدالت کے فیصلے کا پابند ہے۔ عدالتیں اس قسم کے مقدمات میں عام طور سے سائلین کے مطالبات کی حمائت کرتی ہیں۔ متاثرین کی  نمائندہ تنظیم Sudan Terror Victims Groupنے سوڈان کی جانب سے معاوضہ کی پیشکش کو مسترد کر دیا ہے۔

سوڈان کی گلو خلاصی کی ضمن میں ایک اور رکاوٹ یہ بھی ہے کہ اسکو امریکی کانگریس نے دہشت گرد ملک قراردیا تھا چنانچہ پاکدامنی کی سند بھی کانگریس کی توثیق کے بعد جاری ہوگی۔ عام انتخابات میں اگر صدر ٹرمپ شکست کھاگئے تو جو بائیڈن اس پورے معاملے پر نظر ثانی کا حکم دے سکتے ہیں اور کانگریس بھی متاثرین کے دباو میں آکر تاوان کی رقم میں اضافے کا مطالبہ کرسکتی ہے۔

دوسری طرف سوڈانی فوجی جنتا اور عبوری حکومت کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کی تجویز کو سوڈان کی سیاسی جماعتوں نے مسترد کردیا ہے۔ملک کی سب سےبڑی جماعت نیشنل اُمّہ پارٹی، بائیں بازو کی بعث پارٹی اور قوم پرست پاپولر کانگریس پارٹی نے جنرل برہان کے فیصلے کو مینڈیٹ سے تجاوز قرار دیا ہے۔خرطوم میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے سابق وزیراعظم اور اُمّہ پارٹی کے سربراہ صادق المہدی نے کہا کہ عبوری کونسل کا کام انتخاب کروانا ہے اور اسے اس نوعیت کے کلیدی فیصلے کرنے کا اختیار نہیں۔جناب مہدی نے کہا کہ سوڈان کے عوام جرنیلوں کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے
سوڈان کے شہروں میں اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کے خلاف مظاہرے بھی شروع ہوگئے ہیں، فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی بڑے پیمانے پر اشاعت نے مسلم دنیا میں ہیجان پیدا کردیا ہے اور اس تناظر میں اسرائیل سے تعلقات پر عام سوڈانی خاصہ مشتعل ہے۔

خرطوم کے صحافتی حلقوں کا خیال ہے کہ جلد بازی میں جنرل برہان نے اپنے ملک کو ایک نئی مشکل میں مبتلا کردیا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے برعکس سوڈانی عوام اپنے حقوق اور رائے کے جرات مندانہ اظہار کیلئے سڑکوں پر آنے کے عادی ہیں۔ ایک طرف سوڈانی عوام مسئلہ فلسطین کے حل سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تودوسری جانب امریکی کانگریس سے دہشت گردی کا لیبل ہٹوانا بھی ایک صبر آزما کام ہے۔ اگلے ہفتے عام انتخابات کے بعد نئی کانگریس کا  اجلاس جنوری کے پہلے ہفتے میں ہوگا۔ پارلیمانی سال کا پہلا ایک مہینہ کمیٹی سازی میں صرف ہوجاتا ہے۔ اسکے علاوہ کرونا وائرس کے متاثرین کی مالی مدد یا stimulus  پیکیج، بیمہ صحت، امیگریشن اصلاحات اور دوسری اہم قانون سازی ہونی ہے۔ اس دوران ترغیب کاروں (Lobbyists) کے ذریعے متاثرین اور ان کے وکلا کانگریس کو اپنے حق میں ہموار کرچکے ہونگے۔ دوام اقتدار کی جرنیلی خواہشات نے سوڈان کو بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے اور ڈر ہے کہ کہیں سوڈانیوں کیلئے یہ سو پیاز اور سو جوتےوالامعاملہ نہ بن جائے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 30 اکتوبر 2020

ہفت روزہ دعوت دہلی 30 اکتوبر 2020

ہفت روزہ رہبر سرینگر یکم نومبر


2020

 

Thursday, October 29, 2020

 

وقت کی ضرورت !!بیان بازی یا بردباری؟؟

بیان بازی کے حوالے سے  ہمارے رہنماوں کا حالیہ  غیر ذمہ دارانہ رویہ حزب اختلاف، حکومت اور مسلح افواج  بلکہ ساری قوم کیلئے شرمندگی کا باعث بناہواہے۔ جب اس مسئلے پر کچھ لکھنے کیلئے تختہ کلید (keyboard)کے سامنے بیٹھا تویاد آیا کہ آج 12 ربیع الاول ہے۔ یہ دسیوں سال پرانی بات ہے کہ کراچی جمیعت کے جناب تسنیم احمد صاحب درس حدیث دے رہے تھے جس میں انھوں نے رحمت عالم کا یہ ارشاد سنایا کہ 'جوخاموش رہا وہ نجات پاگیا' یہ ارشاد لایعنی و بے معنی گفتگو سے پرہیز کے حوالے سے ہے جسکے لئے ایک بڑی عمدہ نصیحت آپ سب نے اپنے بزرگوں سے سنی ہوگی کہ 'پہلے بات کو تولوپھر منہہ سے بولو (یا منہہ کھولو)۔  ہماری والدہ مرحومہ  ہم بھائی بہنوں کو سمجھاتی تھیں۔  'ایسی جگہ مت بیٹھ کہ کوئی کہے کہ اٹھ، ایسی بات مت بول کہ کوئی کہے کہ چپ'۔

تقریر کے دوران تو  صرف لہجے سے بھی مفہوم بدل جاتا ہے۔ یعنی

 پکڑو! مت جانے دو

اور

پکڑومت! جانے دو 

بالکل ایک جیسے الفاظ سے متضادہدائت  جاری کی جاسکتی ہے

گزشتہ  چند دنوں میں ہمارے سیاستدان خطابت  کا جوش دکھاتے ہوئے جو فاش غلطیاں کرگئے   وہ کچھ اسطرح ہیں:

 کوئٹہ کے جلسہ عام میں   مولانا اویس نورانی پاکستان  کے تحفط کیلئے ہر قربانی کا عزم ظاہر کرتے ہوئے  لغزشِ زباں سے  پاکستان کی جگہ بلوچستان بول گئے جس سے یہ تاثر ابھرا کہ وہ بلوچستا ن کو 'آزادی' دلانے کیلئے پرجوش  ہیں۔ انھوں نے فوراً ہی اسکی تردید کردی لیکن کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح منہہ سے نکلے  الفاظ کہاں واپس ہوتے ہیں

آپ کو یاد ہوگا کہ پڑوسیوں کے درمیان اچھے تعلقات کیلئے جرمنی اور فرانس  کا حوالہ دیتے ہوے عمران خان کے منہہ سے جرمنی اور جاپان نکل گیا تھا۔

دوروز قبل قومی اسمبلی  کے سابق اسپیکر ایاز صادق صاحب نے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی انتہائی عجلت میں ہندوستان حوالگی کاذکر کرتے ہوئے جو کچھ ارشاد فرمایا وہ اگر سچ تھا تو ایک حساس قومی راز کو اسطرح طشت ازبام کرنا قائدین گرامی کے شایان شان نہیں اور اگر حکومت کودباو میں لانے کیلئے انھوں نے جھوٹ تصنیف فرمایا تو پھر  وہ  بدترین  بددیانتی کے مرتکب ہوئے ہیں

بھارتی میڈیا نے سابق اسپیکر کی اس تقریر کو پاکستانی عسکری قیادت کی  بزدلی کا سرکاری اعتراف قرار دیا۔اب ایاز صادق  صاحب لاکھ وضاحت  کرتے پھریں   یہ خبر  جنگل کی آگ کی طرح ساری دنیا میں پھیل چکی ہے اور سوشل میڈیا پر یہ بحث بہت عرصے جاری رہیگی

ابھی پاکستانی قوم اس  غیرذمہ دارانہ  گفتگو  کی شرمندگی بھگت  ہی رہی تھی  کہ وزیرسائنس و ٹیکنالوجی جناب فواد چودھری نے ایک نیا گل کھلادیا۔ فاضل وزیر نے ایاز صادق کی مذمت میں جو  ارشاد فرمایا وہ حماقت کے نہلے پر نااہلی کا دہلا تھا۔ قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے  وزیراعظم  کے منہہ چڑھے وفاقی وزیر نے فرمایا

'پاکستان کے شاہینوں نے بھارت کو گھس کے مارا، قوم کے عظیم بیٹوں نے جس طرح بھارت کی پٹائی کی  اس پر انکی قیادت بھی شرمندہ ہے۔ پلوامہ میں کامیابی پوری قوم کی کامیابی ہے۔یہ لوگ نہیں سوچتے کہ انکی بات کا بھارت کیا ترجمہ کریگا، ہمارا پلوامہ کے بعد کا بیانیہ دنیا میں مانا گیا تھا' (حوالہ جنگ آن لائن)

فواد چودھری 27 فروری کو پاکستان اور ہندوستانی فضائیہ کی جھڑپ کا ذکر کررہے تھے جس میں پاکستان نے مبینہ طور پر روسی ساختہ بھارتی  مگ   21 گراکر جہاز کے پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کرلیا تھا۔بلا سوچے سمجھے بولنے کے نتیجے میں فواد صاحب  طیاروں کی اس محدود جنگ کو  دوہفتہ پہلے یعنی 14 فروری کو پلوامہ میں بھارتی فوج پر ہونے والے حملے سے گڈمڈ کرگئے۔  ہندوستان کے فوجی قافلے پر اس  خودکش حملے میں بھارتی فوج کے 39 سپاہی ہلاک ہوگئے تھے۔  بھارت  نے پلوامہ حملے  کا الزام پاکستان پر  لگایا ہے لیکن  پاکستان اس میں ملوث ہونے کاانکار کررہا ہے۔ یہ بات FATFمیں بھی اٹھائی گئی ہے اور اسلام آباد نے وہاں بھی یہی موقف اختیار کیا ہے کہ پلوامہ  خودکش حملے سے پاکستان  کا کوئی تعلق نہیں

جیسے سابق اسپیکر کے بیان کو  بھارتی میڈیا پر  بزدلی کے اعتراف سے تعبیر کیا گیا ویسے ہی وفاقی وزیر سائینس و ٹیکنالوجی کے بیان  کو پلوامہ حملے میں پالستان کے ملوث ہونے کا سرکاری اقرارکہا جارہا ہے۔ خدشہ ہے کہیں فروری کے FATFاجلاس میں  فواد چودھری صاحب کی تقریر کی Audio-Video clipبطور ثبوت نہ  پیش کردی جائے ۔

وطن کے بیدار سورماو!! خدا کیلئے بولنے سے پہلے ذرا سوچ لو تاکہ بعد میں وضاحت نہ کرنی پڑے۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اب تخلئے میں کی جانیوالی سرگوشی بھی  چند ہی لمحوں میں چار دانگ عالم گونج اٹھتی ہے۔