وقت کی ضرورت !!بیان بازی یا بردباری؟؟
بیان بازی کے حوالے سے ہمارے رہنماوں کا حالیہ غیر ذمہ دارانہ رویہ حزب اختلاف، حکومت اور مسلح افواج بلکہ ساری قوم کیلئے شرمندگی کا باعث بناہواہے۔ جب اس مسئلے پر کچھ لکھنے کیلئے تختہ کلید (keyboard)کے سامنے بیٹھا تویاد آیا کہ آج 12 ربیع الاول ہے۔ یہ دسیوں سال پرانی بات ہے کہ کراچی جمیعت کے جناب تسنیم احمد صاحب درس حدیث دے رہے تھے جس میں انھوں نے رحمت عالم کا یہ ارشاد سنایا کہ 'جوخاموش رہا وہ نجات پاگیا' یہ ارشاد لایعنی و بے معنی گفتگو سے پرہیز کے حوالے سے ہے جسکے لئے ایک بڑی عمدہ نصیحت آپ سب نے اپنے بزرگوں سے سنی ہوگی کہ 'پہلے بات کو تولوپھر منہہ سے بولو (یا منہہ کھولو)۔ ہماری والدہ مرحومہ ہم بھائی بہنوں کو سمجھاتی تھیں۔ 'ایسی جگہ مت بیٹھ کہ کوئی کہے کہ اٹھ، ایسی بات مت بول کہ کوئی کہے کہ چپ'۔
تقریر کے دوران تو صرف لہجے سے بھی مفہوم بدل جاتا ہے۔ یعنی
پکڑو! مت جانے دو
اور
پکڑومت! جانے دو
بالکل ایک جیسے الفاظ سے متضادہدائت جاری کی جاسکتی ہے
گزشتہ چند دنوں میں ہمارے سیاستدان خطابت کا جوش دکھاتے ہوئے جو فاش غلطیاں کرگئے وہ کچھ اسطرح ہیں:
کوئٹہ کے جلسہ عام میں مولانا اویس نورانی پاکستان کے تحفط کیلئے ہر قربانی کا عزم ظاہر کرتے ہوئے لغزشِ زباں سے پاکستان کی جگہ بلوچستان بول گئے جس سے یہ تاثر ابھرا کہ وہ بلوچستا ن کو 'آزادی' دلانے کیلئے پرجوش ہیں۔ انھوں نے فوراً ہی اسکی تردید کردی لیکن کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح منہہ سے نکلے الفاظ کہاں واپس ہوتے ہیں
آپ کو یاد ہوگا کہ پڑوسیوں کے درمیان اچھے تعلقات کیلئے جرمنی اور فرانس کا حوالہ دیتے ہوے عمران خان کے منہہ سے جرمنی اور جاپان نکل گیا تھا۔
دوروز قبل قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق صاحب نے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی انتہائی عجلت میں ہندوستان حوالگی کاذکر کرتے ہوئے جو کچھ ارشاد فرمایا وہ اگر سچ تھا تو ایک حساس قومی راز کو اسطرح طشت ازبام کرنا قائدین گرامی کے شایان شان نہیں اور اگر حکومت کودباو میں لانے کیلئے انھوں نے جھوٹ تصنیف فرمایا تو پھر وہ بدترین بددیانتی کے مرتکب ہوئے ہیں
بھارتی میڈیا نے سابق اسپیکر کی اس تقریر کو پاکستانی عسکری قیادت کی بزدلی کا سرکاری اعتراف قرار دیا۔اب ایاز صادق صاحب لاکھ وضاحت کرتے پھریں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح ساری دنیا میں پھیل چکی ہے اور سوشل میڈیا پر یہ بحث بہت عرصے جاری رہیگی
ابھی پاکستانی قوم اس غیرذمہ دارانہ گفتگو کی شرمندگی بھگت ہی رہی تھی کہ وزیرسائنس و ٹیکنالوجی جناب فواد چودھری نے ایک نیا گل کھلادیا۔ فاضل وزیر نے ایاز صادق کی مذمت میں جو ارشاد فرمایا وہ حماقت کے نہلے پر نااہلی کا دہلا تھا۔ قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے وزیراعظم کے منہہ چڑھے وفاقی وزیر نے فرمایا
'پاکستان کے شاہینوں نے بھارت کو گھس کے مارا، قوم کے عظیم بیٹوں نے جس طرح بھارت کی پٹائی کی اس پر انکی قیادت بھی شرمندہ ہے۔ پلوامہ میں کامیابی پوری قوم کی کامیابی ہے۔یہ لوگ نہیں سوچتے کہ انکی بات کا بھارت کیا ترجمہ کریگا، ہمارا پلوامہ کے بعد کا بیانیہ دنیا میں مانا گیا تھا' (حوالہ جنگ آن لائن)
فواد چودھری 27 فروری کو پاکستان اور ہندوستانی فضائیہ کی جھڑپ کا ذکر کررہے تھے جس میں پاکستان نے مبینہ طور پر روسی ساختہ بھارتی مگ 21 گراکر جہاز کے پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کرلیا تھا۔بلا سوچے سمجھے بولنے کے نتیجے میں فواد صاحب طیاروں کی اس محدود جنگ کو دوہفتہ پہلے یعنی 14 فروری کو پلوامہ میں بھارتی فوج پر ہونے والے حملے سے گڈمڈ کرگئے۔ ہندوستان کے فوجی قافلے پر اس خودکش حملے میں بھارتی فوج کے 39 سپاہی ہلاک ہوگئے تھے۔ بھارت نے پلوامہ حملے کا الزام پاکستان پر لگایا ہے لیکن پاکستان اس میں ملوث ہونے کاانکار کررہا ہے۔ یہ بات FATFمیں بھی اٹھائی گئی ہے اور اسلام آباد نے وہاں بھی یہی موقف اختیار کیا ہے کہ پلوامہ خودکش حملے سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں
جیسے سابق اسپیکر کے بیان کو بھارتی میڈیا پر بزدلی کے اعتراف سے تعبیر کیا گیا ویسے ہی وفاقی وزیر سائینس و ٹیکنالوجی کے بیان کو پلوامہ حملے میں پالستان کے ملوث ہونے کا سرکاری اقرارکہا جارہا ہے۔ خدشہ ہے کہیں فروری کے FATFاجلاس میں فواد چودھری صاحب کی تقریر کی Audio-Video clipبطور ثبوت نہ پیش کردی جائے ۔
وطن کے بیدار سورماو!! خدا کیلئے بولنے سے پہلے ذرا سوچ لو تاکہ بعد میں وضاحت نہ کرنی پڑے۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اب تخلئے میں کی جانیوالی سرگوشی بھی چند ہی لمحوں میں چار دانگ عالم گونج اٹھتی ہے۔
No comments:
Post a Comment