نامناسب فیصلہ ۔۔ منفی اشارے
روزنامہ جنگ کے مطابق مقتدرہ پاک چین اقتصادی راہداری المعروف CPEC Authorityکے چیئر مین اور مقتدرہ کے دوسرے اعلی حکام کو قوی احتساب بیورو (NAB) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (FIA)کی تحقیقات سے استثنیٰ دینے کیلئے ضروری قانون سازی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اخبار کا کہنا ہے کہ کابینہ کمیٹی نے قانون کے نئے مسودے کی منظوری دیدی ہے
اس ضمن میں جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اسکے مطابق:
· نئے قانون میں چیئرمین اور سی پیک اتھارٹی کے اختیارات میں کمی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
· اب مقتدرہ سی پیک کےسربراہ کو چئیرمین کہا جائیگا جبکہ سی ای او (CEO)منصب ختم کیا جارہا ہے۔
· مقتدرہ اب وزارتِ منصوبہ بندی و ترقی کے بجائے براہ راست وزیراعظم کے ماتحت ہوگی۔
· مقدرہ کے اہم فیصلوں کے باب میں اب چیئرمین کے فیصلہ کن ووٹ کا اختیار بھی ختم کیا جارہاہے۔
· سی پیک سے متعلق کاروباری سرگرمیوں کے فروغ کاانتظام و انصرام اب بورڈ آف انویسٹمنٹ (BOI)کے ہاتھ میں ہوگا
جہاں تک ادارے کی تنظیم نو اور ضابطوں میں تبدیلی و ترمیم کا تعلق ہے تو یہ معمول کی بات ہے اور شعبہ جات کی ہئیت اور ڈھانچوں میں وقتاً فوقتاً تبدیلی آتی رہتی ہے۔نئے بندوبست کا تنقیدی جائزہ لیا جاسکتا ہےا ور اس پربحث ومباحثے کی گنجائش بھی موجود ہے۔تاہم اس معاملے میں وزیراعظم اپنے صوابدیدی اختیار بھی استعمال کرسکتے ہیں کہ انتظامی امور کے حوالے سے انھیں حتمی اختیارات حاصل ہیں۔
لیکن مقتدرہ کے حسابات کا قومی احتساب بیورو اور وفاقی تحقیقاتی ادارے سے استثنیٰ کسی طور مناسب نہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مجوزہ قانون کی تفصیلات سرکاری طور پر جاری نہیں ہوئیں اور تادم تحریر ساری بحث ان نکات کی بنیاد پر ہے جو پیٹ کے ہلکے وزرا نے کابینہ کے اجلاس کے بعد اخباری نمائندوں کے گوش گزار کی ہیں۔
امید ہے کہ حکومت قانون سازی کیلئے آرڈینینس جاری کرنے کے بجائے پارلیمان میں بل پیش کریگی تاکہ کھلی بحث کے بعد اسے شفاف بنایا جاسکے۔
یہ منصوبہ ملک کی قومی سلامتی کیلئے بے حد اہم ہے اور اسکی سفارتی نزاکت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ چین اس معاملے میں بہت حساس ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اسی بناپر اسکے حسابات و معاملات کو منظر عام پر لانا مناسب نہ ہو
اس صورت میں نیب کے بجائے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے ذریعے اسکے معاملات پر نظر رکھی جاسکتی ہے۔ ذریعہ اور طریقہ جو بھی ہو مقتدرہ کے مالی معاملات کی شفافیت یقینی بنانے کیلئے موثر احتسابی نظام ضروری ہے۔
No comments:
Post a Comment