Tuesday, October 6, 2020

تیل پائپ لائن پر حملہ ۔۔۔ نگورنو کاراباخ تنازعہ نئی بلندیوں پر

 

تیل پائپ لائن پر حملہ  ۔۔۔ نگورنو کاراباخ تنازعہ نئی بلندیوں پر

نگورنوکارباخ کے مسئلے پر آذربائیجان اور آرمینیا کی لڑائی اب دسویں روز میں داخل ہوچکی ہے۔ اپیلوں کے باوجود  اب تک امن کی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔ آذربائیجان کا اصرارہے کہ نگورنو کاراباخ سے آرمینیا کے گھس بیٹھیوں کو نکالے بغیر جنگ بند نہیں ہوگی جبکہ آرمینیا کا مطالبہ ہے کہ آذری فوج کو نگورنو کارباخ سے واپس بلایا جائے۔ آرمینیا کا موقف اخلاقی اعتبار سے کمزور ہے، اسلئے کہ نگورنوکاراباخ میں اکثریت تو آرمینیا ئی نسل کے لوگوں کی ہے لیکن اقوام متحدہ اسے آززبائیجان کا اٹوٹ انگ  سمجھتی ہے

کچھ دیر پہلے آذری صدر الہام علیوف نے انکشاف کیاکہ ارمینیا نے آج باکو سے ترک بندرگاہ جیہاں (Cehan)جانے والی خام تیل کی پائپ  لائن پرراکٹوں سے حملہ کیا۔ بحر خزر (کیسپین) میں آذربائیجان کے چراغ   گنشلی تیل میدان سے شروع ہونے والی 1100 میل  لمبی یہ پائپ لائن جارجیا کے شہر تلبسی سے گرز کر بحر روم کے جیہان  آئل ٹرمینل پہنچتی  ہےجہاں سے آذری تیل برآمد کیا جاتا ہے۔ اسے باکو، تلبسی، جیہاں یا BTCپائپ لائن کہا جاتا ہے۔ بحرخزر خشکی سے گھرا سمندر ہے جہاں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں  چنانچہ  بی پی (BP)کی قیادت میں 12 رکنی مشارکے نے  2006 میں یہ پائپ لائن ڈالی تھی۔ آذربائیجان کی   SOCAR، امریکی Chevron،ConocoPhilips،  HESS، اٹلی کی Eni، فرانس کیTOTAL ، ناروے کی Statoil اور ترکی کی قومی تیل کمپنی TPAOاس پائپ لائن کے بڑےحصہ دار ہیں۔ پائپ لائن کی  گنجائش 10 لاکھ بیرل ہے اور اسکے ذریعے ساڑھے چھ لاکھ بیرل تیل یومیہ برآمد کیا جاتا ہے۔

آذری صدر کے مطابق آرمینیا نے 300 چھوٹے بموں پر مشتمل  کلسٹر راکٹ  سےآزربائیجان کے علاقے یولاخ میں پائپ لائن کو نشانہ بنایا۔ ایک راکٹ  پائپ  لائن سے 10 میٹر کے فاصلے پر گرا۔ تیل تنصیبات تو محفوظ رہیں  لیکن ایک شہری ہلاک ہوگیا۔ آذری صدر کا دعوی ٰ ہے کہ انکی فوج نے کلسٹر کے 144 نہ پھٹنے والے روسی ساختہ M85بم قبضے میں لے لئے ہیں ۔ اقوام متحدہ نے ان بموں  کے شہری علاقوں میں استعمال پر پابندی عائد کررکھی ہے۔

تیل  کی یہ پائپ لائن  آذربائیجان کی معاشی شہہ رگ ہے اور اس پر حملے  کوٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلینا باکو کیلئے ممکن نہیں۔ آرمینیا کے اس حملے نے پہلے سے جاری کشیدگی کوآسمان پر پہنچادیا ہے۔اگر  وسیع پیمانے پر ہلاکت پھیلانے والے ہتھیار کا استعمال معمول بن گیا تو علاقے میں شدید تباہی آسکتی ہے۔



No comments:

Post a Comment