Tuesday, October 27, 2020

امریکہ و ہندوستان میں خلائی و دفاعی تعاون

امریکہ و ہندوستان میں خلائی و دفاعی تعاون

27اکتوبر کو امریکہ اور ہندوستان  نےایک دفاعی معاہدے پر دستخط کئے جسے  دونوں ملکوں نے تاریخی قراردیا ہے۔ معاہدے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے  لگایاجاسکتا ہےکہ معاہدے پر دستخط کیلئے کرونا  کے باوجود  امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو اور وزیردفاع مارک ایسپر بنفس نفیس ہندوستان تشریف لائے۔  

اس عہد کو Basic Exchange and Cooperation Agreement for Geo-Spatial Cooperationیا  بیکاBECAکا نام دیا گیا ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے  معاہدے کے تحت  دونوں ممالک  دفاع سے متعلق ضروری معلومات  کا غیر مشروط تبادلہ کرینگے جس میں سیارچوںSatellite  سے حاصل ہونے والی معلومات بھی شامل ہیں۔اب تک یہ واضح نہیں کہ ریکارڈ کی ہوئی معلومات  ایک دوسرے کے علم میں لائی جائینگی یا معلومات کا تبادلہ براہ راست (live)ہوگا۔ ہندوستانی وزرات دفاع کا کہنا ہے کہ تبادلہ براہ راست ہوگا جسکی بناپر ہندوستان کو  بحر ہند، خلیج بنگال  سے آبنائے ملاکا  تک اور بحر عرب کی حدود میں محوِسفر  سمندری جہازوں اور فضا میں اڑتےطیاروں کی نقل وحرکت کا نہ صرف  ٹھیک ٹھیک اندازہ ہوگا بلکہ علاقے میں داغے  جانیوالے  راکٹ و میزائیل   اور ڈرونز کی  معلومات  بھی بروقت میسر ہونگی اور ضرورت پڑنے پر انھیں تباہ و ناکارہ کرنا ہندوستان کیلئے انتہائی آسان ہوجائیگا۔

بظاہر بیکا چین کے گھیراو کو موثر بنانے کی کوشش ہے۔ اس ضمن میں علاقے کی  جغرافیہ پر چند سطور (نقشہ)۔

چین کیلئے بحرجنوبی چین( (South China Seaسے بحرہند میں آنے کا آسان و تیز رفتار راستہ آبنائے ملاکا (Strait of Malacca)سے گزرتا ہے ۔ ملائیشیا اور انڈونیشی جزیرے سماٹرہ کے بیچ واقع یہ  آبنائے ساڑھے پانچ سو میل لمبی اور اسکی کم سے کم چوڑائی 1.7میل ہے۔ بحر جنوبی چین سے بحر ہند آنے کیلئے  جنوب میں آسٹریلیا اور انڈونیشیا کے درمیان سے بھی جہاز رانی ہوسکتی ہےلیکن بحر ہند جانے کا یہ  پیچ در پیچ یہ راستہ   کٹھن اور طویل  ہے۔

 امریکی حکام کے مطابق  آبنائے ملاکا کے شمال مغربی دہانے  پر نظر رکھنے کی ذمہ داری ہندناو سنیا (ہندوستان بحریہ) کو سونپی گئی ہے۔اس مقصد کیلئے ہندوستان نے خلیج بنگال میں اڈے قائم کر رکھے ہیں اوربحر انڈمان میں اسکے جہاز اور آبدوزیں گشت کررہی ہیں۔ اس معاملے پر آبی حدود کے حوالے  سے دہلی اور ڈھاکہ کے درمیان اختلاقات بھی جنم لے رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کو شکوہ ہے کہ ہندوستانی بحریہ اسکی حدود میں بلااجازت مٹر گشتی کرنے سے باز نہیں آتی ۔

بیکا معاہدہ بظاہر خطے میں چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوششوں کا حصہ نظر آرہا ہے لیکن اس پر پاکستان اور بنگلہ دیش کو بھی  تشویش ہے۔ ڈھاکہ کی فکر تو اسکے چین سے تعلقات کی بنا پر ہے کہ بنگلہ دیش امریکہ و چین  اور ہندوچین جھگڑے سے خود کو دور بلکہ بہت دور رہنا چاہتا ہے۔ چین کے   جہاز چاٹگام کی بندرگاہ کو  ایندھن بھرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں اور مہمان جہاز وں کی  ہندوستان کے ہاتھوں جاسوسی بنگلہ دیش کو گوارا نہیں

چین کے گھیراو میں ہندوستان کے علاوہ جاپان اور آسٹریلیا بھی امریکہ کے حلیف ہیں لیکن   واشنگٹن کا خیال ہے کہ آسٹریلیا اس معاملے میں سردمہری کا مظاہرہ کررہا ہے اور آسٹریلیا کو اس طرف مائل کرنے کی ذمہ داری دلی کو سونپی گئی ہے۔امریکہ اس معاملے میں خاصہ پرجوش ہے اور ہندوستان روانگی سے پہلے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے  مائک پومپیو نے اپنے دورے  کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ ملاقاتوں کا مقصد چینی کمیونسٹ پارٹی کے توسیع پسندانہ عزائم سے نبٹنے کیلئے  ایک لائحہِ عمل پر جمہوری ریاستوں سے مشاورت ہے۔ کہا جارہا ہے   ہندوستان سے واپسی پر امریکی وزیرخارجہ  سری لنکا، مالدیپ اور انڈونیشیا  بھی جائینگے۔

جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا بیکا پر بنگلہ دیش کی پریشانی سیاسی، اخلاقی اور ضمنی نوعیت کی ہے لیکن اسلام آباد کے تحفظات منطقی بلکہ حقیقی ہیں۔ Geo-Spatial ٹیکنالوجی  کے نتیجے میں پاکستان کے چپے چپے اور   اسکے سمندروں پر ہندوستان نظر رکھ سکے گا۔ ڈرونز، میزائیل  اورطیاروں کی نقل و حرکت اور انکے راستوں کی پوری معلومات بھارت کے پاس ہونگی۔ صرف فضا ہی نہیں بلکہ زمین پر ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں اور پیادہ دستوں کے ساتھ بحر عرب میں پاکستان بحریہ کے جہازوں  اور تنصیبات  کی پوزیشن ہندوستان کے علم میں ہوگی اور  ضرورت پڑنے پر  طیاروں، میزائلوں ، مسلح ڈرونز، ٹینکوں، بحری جہازوں اور بری فوج کے مورچوں کو بھی   نشانہ بنایا جاسکے گا۔

خیال ہے کہ اگلے ماہ بحر ہند اور بحر عرب میں جو فوجی مشقیں  ہورہی ہیں ان میں Geo-Spatialٹیکنالوجی کی ابتدائی جانچ کی جائیگی۔ مالابار بحری مشق کے عنواں سے اس جنگی کھیل میں امریکہ و ہندوستان کے علاوہ  آسٹریلیا اور جاپان کی شرکت بھی متوقع ہے۔ بحر ہند و بحرالکاہل  کو چینی 'تسلط ' سے محفوظ رکھنے کیلئے ان ملکوں نے چار کا ٹولا یا  Quadگروپ تشکیل دیاہے۔

دیکھنا ہے کہ اس خطرے کے سدباب کیلئے پاکستان کیاقدم اٹھاتا ہے کہ اب ملک کی سلامتی خطرے میں  پڑتی نظر آرہی  ہے


 

No comments:

Post a Comment