Thursday, October 1, 2020

نکورنوکارا باخ تنازعہ

 

نکورنوکارا باخ تنازعہ

آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان نگورنو اباخ کے قریب جھڑپیں شدت اختیار کرگئیں ہیں۔ نگورنو کاراباخ ہے تو آذربائیجان کا حصہ لیکن یہاں آباد آرمینیائی نسل کے لوگوں اور وفاقی حکومت میں آزادی کے وقت سے چپقلش چلی آرہی ہے۔ آذربائیجان کا کہناہے کہ شرپسندی اور فساد میں انکا مغربی پڑوسی آرمینیا ملوث ہے۔ یہ مسئلہ ہے کیا اس پر چند سطور

نگورنو کاراباخ، جنوبی کوہ قاف کے 1700 مربع میل پر مشتمل دبیز جنگلوں سے گھرا  پہاڑی علاقہ ہے جہاں  ڈیڑھ لاکھ نفوس آباد ہیں۔ آرمینیائی مسیحیوں کا تناسب 90 فیصد ہے جبکہ آبادی کا 9 فیصد حصہ  تاتار نسل کے ترک مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یہاں آبادآرمینیائی،  نگورنو کاراباخ کو ارتکش (Artkash)ور اپنے 'ملک' کو آرتکش ریپبلک کہتے ہیں۔ تاتاریوں کا اصرار ہے کہ نگورنو کاراباخ آذربائیجان کا حصہ ہے۔ وفاقی حکومت نے نگورونو کاراباخ کو خودمختار حیثت دے رکھی ہے اور انھیں آرتکش ریپبلک کے لفظ پر بھی اعتراض نہیں لیکن صدیوں پرانی ارمینیا ترکی آویزش وقتا فوقتا خونزیز جنگ کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔

 آرمینیائیوں کی تجویز ہے کہ نگورنو کاراباخ کو آرتکش اور آزادتاتار ریپبلک میں تقسیم کردیا جائے اور تاتاروں کو اس جانب مائل کرنے کیلئے سنی شیعہ کارڈ بھی کھیلا گیا۔ آذربائیجان میں شیعوں کی اکثریت ہے لیکن تاتار اپنی سنی ریاست کے لئے آذربائجان کا ساتھ چھوڑنے کو تیار نہیں۔

بحیرہ کیسپین (Caspian Sea) کے کنارے مشرقی روس اور مغربی ایشیا کے سنگم پر واقع ایک کروڑ افراد پر مشتمل سو فیصد خواندہ آذربائیجان کی اکثریت شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے جہاں فرقہ وارانہ تعصب نام کو بھی نہیں۔اکثر مساجد میں ترکی کے سنی علماء امامت و خطابت کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور شیعہ انکی مجلسیں بہت شوق سے سنتے ہں۔مسا جد نماز اور مذہبی امور کے علاوہ شادی بیاہ کی تقریبات اوردوسری سماجی سرگرمیوں کیلئے بھی استعمال ہو تی ہیں، ہر مسجد کے ساتھ مکتب اور دارالمطالعے ہیں۔ ایک عمدہ بات یہ کہ مساجد کی لایبریریوں میں ہر مسلک کی مستند کتابیں رکھی جاتی ہیں اور مذہبی رجحان رکھنے والے افراد تمام مکا تب فکر کے لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ دیندار آذری مسلمانوں میں رواداری اور برداشت بہت زیادہ ہے اور پاکستان کی طرح یہاں فتوے بازی کا رواج نہیں اور نہ ہی مسلکی تعصب پایا جاتاہے۔ اسی رواداری کا نتیجہ ہے نگورنو کاراباخ کے سنی تاتار، آذربائجان کے شیعوں ساتھ مل کر رہناچاہتے ہیں۔

پندرھوں صدی میں یہ علاقہ ترک قبائلی سرداروں کے زیرانتطام تھا۔ پہلی جنگ عظیم میں عثمانیوں کی شکست کے بعد نگورنو کاراباخ سلطنتِ برطانیہ کا حصہ بن گیا۔سوویت یونین کے قیام کے بعد خودمختار صوبہ نگورنو کاراباخ آذربائیجان سوویت سوشلسٹ ریپبلک کا حصہ بن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جوزف اسٹالن کو نکورنو کاراباخ سے دلچسپی نہیں  تھی اور وہ اسے آرمینیاکے حوالے کرنا چاہتے تھے لیکن انھیں ڈر تھا کہ کہیں ترکی اس پر قبضہ نہ جمالے اسلئے انھوں نے نگورنو کارابخ کو آذربائیجان کا حصہ بنادیا۔ آزربائیجان پر روس کے قبضے کی دلیل و منطق بہت خوب ہے۔ جب لینن سے پوچھا گیا کہ انھوں نے آذربائیجان پر قبضہ کیوں کیا تو موصوف نے معصومیت سے فرمایا کہ"باکو (دارالحکومت) سے نکلنے والے تیل کے بغیر روسی ریاست کا بقا ناممکن ہے "

سوویت یونین کے وقت تک تو معاملہ ٹھیک رہا لیکن افغان جہاد کے نتیجے میں یونین کی تحلیل پر جب آذربائیجان کی آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو ارمینائی نسل کے لوگوں نے نگورنو کاراباخ کے ارمینیا سے الحاق کا مطالبہ کردیا۔ 1988 میں نگورنوکاراباخ اسمبلی نے آزادی کی قرارداد بھی منظور کرلی جسے آذربائیجان نے ترنت مسترد کردیا۔ اسی کیساتھ تاتار بھی میدان میں آگئے۔خونریز تصادم میں کئی ارمینیائی  اور تاتاری مارے گئے۔ نومبر 1989 میں روسیوں نے نگورنوکاراباخ کو آذربائیجان کا حصہ بنادیا۔ نومبر1991میں ریپبلک آف آذربائیجان کے قیام پر نگورنو کاراباخ کی صوبائی حیثیت ختم کرکے علاقے کو وفاق کے زیرانتظام لے لیا گیا۔ اعلان کے ایک ماہ بعد آرمینیائی آبادی نے آزادی کے سوال پر استصواب رائے منعقد کیا جس میں علیحدگی پسندوں کے مطابق غالب اکثریت نے آزادی کے حق میں رائے دی۔ تاتاروں نے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا اور آذری حکومت نے ریفرنڈم کے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔

اسکے بعد سے نگورنوکاراباخ اور آرمینیائی باشندوں کے درمیان ایک سرد جنگ جاری ہے اور اکثر یہ کشیدگی خونریز جھڑپوں کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ آبادیوں پر حملوں میں جانی ومالی نقصان کے علاوہ ایکدوسرے کو انکے مکانوں سے بیدخل کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور دونوں جانب کے ہزاروں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوچکے ہیں۔ آرمینیا کا دعوی ہے کہ ایک چوتھائی نگورنو کاراباخ کا علاوہ ارمینیائی  'مجاہدین' نے 'آذری غاصبوں'  سے آزاد کرالیا ہے۔ اسی کے ساتھ ترکی اور آرمینیا کے مابین کشیدگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ انقرہ الزام لگارہا  ہے کہ کرد دہشت گرد گروپ YPG نہ صرف آرمینیا کے دہشت گردوں کو تربیت دیکر نگورنو کاراباخ کی طرف دھکیل رہا ہے بلکہ کرد دہشگرد خود بھی براہ راست کاروائی کررہے ہیں۔ دوسری طرف ارمینیا کو شکائت ہے کہ ترک فوج تاتاروں کو تربیت دیکر انھیں آرمینیائی باشندوں پر حملے کیلئے شہہ دے رہی ہے۔ آذری حکومت کا خیال ہے کہ روس آرمینیائی علیحدگی پسندوں کو اسلحہ فراہم کررہا ہے۔ ایک طرف روس آرمیینا کے علیحدگی پسندوں کو اسلحہ فراہم کررہا ہے تو دوسری طرف کریملن  نے تنازعے کے حل کیلئے ثالث کی ٹوپی بھی سر پر سجا رکھے ہے، گویا کریملن کے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہیں۔

روس اورترکی کی کوششوں سے مئی 1994 میں وفاقی حکومت اور علیحدگی پسندوں کے درمیان مذاکرات کے بعد جنگ بندی ہو گئی اور اس کے بعد سے نگورنوکارباخ کا کنٹرول عملاً آرمینیائی علیحدگی پسندوں کے پاس ہے، تاہم تاتار علاقوں پر اب بھی آذری پرچم لہرارہے ہیں۔ 1988 سے 1994 کی جنگ بندی سے قبل جھڑپوں میں دونو ں طر ف کے 30 ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے تھے۔ جنگ بندی اور غیر تحریری امن معاہدے کے باجود تصادم کا سلسلہ جاری ہے۔ آرمینیا الزام لگارہا ہے کہ  صدر الحان علیوف  'مفاہمت' کی خلاف وزری کرتے ہوئے ترکی کی مدد سے نگورنوکاراباخ پر قبضے کیلئے مقامی آبادی کا قتل عام کررہے ہں۔

4 سال پہلے بھی نگورنو کاراباخ میں آذربائیجان اورآرمینیا کے درمیان خوفناک تصادم ہوا تھا جس میں ہیلی کاپٹر اور ٹینک بھی استعمال ہوئے۔

حالیہ جنگ کا آغاز 27 ستمبر کو ہوا جس میں 58 آرمینیائی سپاہی اور 9 شہری مارے گئے۔ علیحدگی پسندوں کا کہنا ہے کہ جھڑپوں میں آذری فوج کا بھاری جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ آرمینیا نے الزام لگایا کہ آذری فوج نے نگورنوکاراباخ کے شہری علاقوں پر بمباری کی اور ٹینکوں نے کئی شہریوں کو کچل دیا۔ آرمینیا کے وزیراعظم نکول پاشنيان نے آذربائیجان کے ہیلی کاپٹر گرانے اور ٹینک تباہ کرنے کا دعوٰی بھی کیالیکن آذربائیجان کا کہنا ہے کہ اس نے گولہ باری کے جواب میں کارروائی کی ہے۔آذربائیجانی فوج  نے اپنے ایک ہیلی کاپٹر کی تباہی کااعتراف کرتے ہوئے جو تصاویر جاری کی ہیں اس میں آرمینی فوج کی بکتر بندگاڑیاں جلتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ آذری فوج کا کہنا ہے کہ آرمیینی فوج کی گولہ باری سے تاتار شہری مارے گئے۔صدر علیوف نے دعویٰ کیا کہ نگورنوکارباخ کے علاقے میں ارمینیائی علیحدگی پسندوں کے فضائی نظام کو مفلوج کردیا گیا ہے اور چھ دیہات دشمن سے چھین لئے گئے ہیں۔انھوں نے پراعتماد لہجے میں کہا کہ جنگ آرمینیا نے شروع کی ہے جسکا اختتام آذر فوج کی مکمل فتح پر ہوگا۔ صدر الہام علیوف نے کہا کہ وہ اپنی مقدس سرزمین کا قبضہ واپس لینےکے لیے پراعتماد ہیں۔ قوم سے اپنے خطاب میں انھوں نے کہا کہ ہم اپنے معصوم 'شہیدوں' کے قتل کا بدلہ لینگے اور ہماری جوابی کاروائی علاقے پر دہشت گردوں کے 30 سالہ قبضے کا جنازہ نکال دیگی۔ جناب علیوف ایک سکہ بند سیکیولر ہیں۔ اسقدر مذہب بیزار کہ انھوں نے اسکول کی طالبات کے اسکارف اوڑھنے پر پابندی لگارکھی ہے لیکن آذری صدر نے اپنی تقریر میں  شہدا کیلئے مغفرت کی دعا کی،  اور انشااللہ و نصرمن اللہ فتح قرب کا ورد کرتے رہے۔ جب دیا رنج بتوں نے خدا یاد آیا۔

آرمینیا نے دیہاتوں پر آذری فوج کے قبضے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ لڑائی جاری ہے اورا سی کے ساتھ ملک میں مارشل لا اور لام بندی اعلان کردیا گیا۔ آذربائیجان نے بھی اپنے کچھ علاقوں میں مارشل لا نافذ کردیا ہے۔

اس جھگڑے کے ساتھ ہی ترک آرمینیا روائتی چپقلش دوبارہ ابھرتی نظر آرہی ہے۔ آرمینیا کے وزیراعظم نے کہا کہ آذربائیجانی جارحیت ترک پشت پناہی کا نتیجہ ہے اور آرمینیا کی مکمل نسل کشی کے بعد بھی ہمارے خون کیلئے ترکوں کی پیاس نہیں بجھی ۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ خطہ ایک ’ہولناک جنگ‘ کے دہانے پر ہے اور مہذب دنیا کو  ترک جارحیت کے  ’شیطانی طرز عمل‘ کے خلاف متحد ہوجانا چاہئے۔

آرمینیا الزام لگارہا ہے کہ پہلی جنگِ عظیم کے دوران عثمانی فوج نے پندرہ لاکھ آرمینیا ئی شہریوں کوہلاک کیا تھا۔جسکے جواب میں ترکی کا موقف ہے کہ جنگ کے دوران بہت سے  شہری مارے گئے تھے جن میں آرمینیا کے باشندے بھی شامل ہیں، انقرہ کو نہتے شہریوں کے قتل کا افسوس ہے لیکن مارے جانے والے سب کے سب مسیحی نہیں تھے بلکہ لاتعداد مسلمان شہری بھی مارےگئے۔ غیر ارادی نقصان کو نسل کشی نہیں کہاجاسکتا۔ فرانس سمیت یورپ کے بہت سے ممالک کی جانب سے ارمینیائی باشندوں کے قتل کو نسل کشی قراردینےپر ترکوں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آتا ہے۔ 2015 میں جنگ عظیم کی پہلی صدسالہ تقریب کے موقع پر جب مسیحیوں کے روحانی پیشوا اعلیٰ حضرت پوپ فرانسس نے عثمانی دور میں آرمینیائی باشندوں کے قتل کو ’بیسویں صدی کی پہلی نسل کشی‘ قرار دیا تو ترکی نے سخت احتجاج کرتے ہوئے  ویٹیکن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔

وزیراعظم نکول پاشنيان کےالزام کا جواب دیتے ہوئے ترکی کے صدر نے کہا کہ آرمینیا علاقائی امن و امان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔انھوں نے قومی سلامتی و خودمختاری کے دفاع اور اپنے شہریوں کی حفاظت کیلئے آذربائیجان کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔استنبول میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے نگورنو کاراباخ سے آرمینیائی فوج کے فوری اور مکمل انخلا کا مطالبہ کیا۔ ترک وزارت دفاع نے الزام لگایا ہے کہ YPGکے دہشت گرد نگورنو کاراباخ کے تاتار شہریوں پر حملوں میں ملوث ہیں۔ اس اہم قومی معاملے پر ترکی میں مکمل اتفاق پایا جاتا ہے۔ برسراقتدار انصاف و ترقی پارٹی کے ساتھ حزب اختلاف کی ریپبلکن (CHP)، قوم پرست مادروطن پارٹی (MHP)اور جماعت خیر (IYI)نے اپنے مشترکہ بیان میں آرمیینائی فوج کےبالائی نگورنو کاراباخ میں آذری شہریوں پر حملے کی سخت مذمت کی ہے۔

اب تک ارمیینیا کے ترک مخالف اتحادی، فرانس اور یورپی ممالک نے صدرایردوان اور ترکی پر تبرہ پڑھنا شروع نہیں کیا اور بظاہر سب کو کشیدگی پر تشویش ہے۔ آرمینیا کے سب سے بڑے اتحادی روس نے طرفداری سے پرہیز کرتے ہوئےفوری طور پر جنگ بندی اور صورتحال کو مستحکم کرنے کے لیے بات چیت کا مطالبہ کیا۔ صدر ایردوان کے شدید مخالف فرانسیسی صدر میکراں نے بھی فوری جنگ بندی اور امن مذاکرات پر زور دیا ہے۔ فرانس میں بہت بڑی تعداد میں آرمینیائی باشندے آباد ہیں اور پیرس جنگ عظیم اول  کے دوران آرمینیائی باشندوں کے قتل کا الزام عثمانی سلطنت پر عائد کرتا ہے۔

امریکی صدر نے کہا کہ علاقے کے ممالک سے امریکہ کے بہترین تعلقات ہیں اور دوستوں کے درمیان خونریزی پر انھیں سخت تشویش ہے۔

جنگ پرتشویش اور امن و استحکام کیلئے اقوام عالم کی فکر مندی قابل تحسین ہے لیکن مغرب کی بیقراری و بیچینی سے لگتا ہے کہ میدان کارزار میں آذربائیجان کو برتری حاصل ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 3 اکتوبر


2020

No comments:

Post a Comment