Thursday, October 15, 2020

امریکی خواتین! امتیازی سلوک کا شکار

امریکی خواتین! امتیازی سلوک کا شکار

امریکہ کی موقر جامعہ رجرز (Rutgers University)کے کلیہِ قانون سے وابستہ 5 خواتین پروفیسروں نے تنخواہوں میں عدم مساوات کی شکائت پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹادیا ہے۔ 1766 میں کوئینز کالج کے نام سے قائم ہونے والے اس ادارے کو 1825میں ریاست نیوجرسی کے زیرانتظام لے کر اسے جامعہ رجرز کا نام دیدیا گیااور اس نجی تعلیمی ادارے نےسرکاری جامعہ کی شکل اختیار کرلی۔ یہ اچھے وقتوں کی بات ہے جب تعلیم حکومتوں کی ترجیح تھی۔ اب ساری دنیا کی طرح امریکہ میں بھی تعلیمی اداروں کی نجکاری عروج پر ہے اور فروغِ تعلیم کا مقدس مشن فروختِ تعلیم کے مکروہ کاروبار میں تبدیل ہوتاجارہاہے۔

اس جامعہ کا لا اسکول سرکار ی انتظام (public) میں چلنے والا قانون کی تعلیم کاسب سے بڑاادارہ ہے جہاں 1200 کے قریب طلبہ زیرتعلیم ہیں۔تعلیمی معیار کے حوالے سے امریکہ کے 201 کلیہ قانون میں یہ 41 ویں درجے پر فائز ہے۔

رجرز کی خواتین پروفیسروں کو شکائت ہے کہ انکی تنخواہیں یکساں صلاحیت و تجربے کے حامل مرد پروفیسروں سے کئی ہزار ڈالر کم ہیں۔ یہ اس جامعہ کے کلیہ قانون میں اپنی نوعیت کا دوسرا مقدمہ ہے۔ 50 برس  پہلے اسی جامعہ کی ایک پروفیسر آنجہانی روتھ بدر گنسبرگ نے تنخواہوں میں عدم مساوات پر مقدمہ دائر کیاتھا۔ تاہم جامعہ نے دفاع کے بجائے افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرتے ہوئے پروفیسرگنسبرگ کی تنخواہ بڑھانے کے ساتھ انھیں ہرجانہ اداکرکے جان چھڑالی۔ بعد میں گنسبرک صاحبہ امریکی سپریم کورٹ کی جج مقرر ہوئیں اور انکے انتقال سے خالی ہونے والی نشست پر بھرتی ایک بڑا سیاسی مسئلہ بناہوا ہے۔

بد ھ کی شب دائر ہونے والے مقدمے کی مدعی پانچوں پروفیسر، معروف اور انتہائی قابل و تجربہ کار ہیں۔ ان ماہرین کے سینکڑوں گرانقدر مقالے شایع ہوچکے ہیں اور دو خواتین کئی کتابوں کی مصنف ہیں۔ ہندوستان نژاد ڈاکٹر دیپا کمار نے اسلاموفوبیا اور نسل پرستی کیخلاف بھی کئی مقالے لکھے ہیں۔ توہین آمیز خاکوں اور قران جلانے کی کاروائی کو شریمتی کمار نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ی قراردیتے عالمی قانون سازی کی تجویز دی ہے۔

گروپ کی ترجمان پروفیسر نینسی وولف نے کہا کہ قانون کی کلاس میں ہم  پہلا سبق یہی دیتے ہیں کہ انصاف و مساوات  کو یقینی بنانا ہر وکیل کی بنیادی ذمہ داری ہےاورگریجویشن کی تقریب میں نئے وکلا سے اسی اصول کی بالادستی کا حلف بھی لیا جاتا ہے۔ آجر کی جانب سے بلاامتیاز یکساں اجرت ہر ملازم کا حق اور اس سے روگردانی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔

چند روز قبل اسی ریاست کی جامعہ پرنسٹن (Princeton University)نے ایک تنازعے میں اپنی خواتین پروفیسرز کو 12 لاکھ ڈالر اداکئے ہیں۔ اسی قسم کے مقدمات جامعہ شمالی مشیگن، جامعہ ایرزونا اور جامعہ ڈینور کی خواتین اساتذہ کی طرف سے بھی  دائر کئے گئے ہیں۔

ستم ظریفی کہ امریکہ انسانی حقوق اور صنفی مساوات کا علمبردار ہے لیکن اجرت میں تفاوت کے اعتبار سے امریکی خواتین بھی اپنی ایشیائی و افریقی بہنوں کی طرح امتیازی سلوک کی شاکی ہیں۔ صنفی مساوات کے موضوع  پراقوام متحدہ ہر پانچ سال بعد ایک عظیم الشان عالمی خواتین کانفرنس منعقد کرتی ہے۔اس سلسلے کا آغاز 1995 کی بیجنگ کانفرنس سے ہوا  جسکے اختتام پر جاری ہونے والےاعلانِ بیجنگ میں صنفی مساوات کو بین الاقوامی قانون کا درجہ دے دیا گیا۔ اس اعلان پر پاکستان سمیت189 ممالک نے دستخط کئے ہیں جبکہ اسقاط حمل کے مسئلے پر امریکہ اور ویٹیکن نے اختلافی نوٹ لکھے۔ بیجنگ کانفرنس، بعد میں منعقد ہونے والے اجتماعات کیلئے سنگ میل قرار پائی اورانھیں بیجنگ پلس 5 ، بیجنگ پلس 10،بیجنگ پلس 15اور بیجنگ 20 کے نام دئے گئے۔ کرونا کی وجہ سے بیجنگ 25 اس  سال جون میں بصری یا Virtualہوئی۔

ان کانفرنسوں میں امریکیNGOs بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں لیکن عہدِ بیجنگ پر عملدرآمد کیلئے جب ایک تفصیلی جائزہ لیا گیا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ امریکہ میں جس کام کا معاوضہ خواتین کیلئے  71سینٹ ہے مردوں کو اسی کام کاایک ڈالر دیا جاتاہے۔ حالانکہ اس سلسلے میں Fair Standard Labor Actکے عنوان سے ایک قانون نافذالعمل ہے جسے حرفِ عام میں یکساں مٰعاوضے کا قانون کہا جاتاہے۔ اس سروے کے منظر عام پر آتے ہی مساویانہ قانون سازی کی کوششیں شروع ہوئیں اور منصفانہ اجرت کا بل (Paycheck Fairness Act)ایوانِ نمائندگان میں پیش ہوا۔ طویل بحث و مباحثے اور کئی ترامیم کے بعد یہ بل جولائی 2008 میں ایوان زیریں سے منظور ہوگیا۔ مخالفت میں ڈالے گئے تمام کے تمام 178 ووٹ ریپبلکن پارٹی کے تھے جس نے رائے شماری کو موخر کرنے کیلئے لمبی تقریروں، غیر ضروری ترامیم اور قانونی موشگافیوں سمیت وہ تمام مروجہ ہتھکنڈے استعمال کئے جسے امریکہ کی پارلیمانی زبان میں Filibuster کہا جاتاہے۔ ضابطے کے مطابق ایوانِ زیریں سے منظوری کے بعد یہ بل اگست 2008 میں امریکی سینیٹ میں پیش کیا گیا۔ ایوانِ بالا میں بھی ڈیموکریٹس کو واضح برتری حاصل تھی لیکن ریپبلکن پارٹی مختلف حیلوں بہانوں سے اس بل پر رائے شماری موخر کراتی رہی حتیٰ کہ وسط مدتی انتخابات ہوئےاورایوانِ زیریں سے ڈیموکریٹس کی برتری ختم ہوگئی۔ انتخابات کے بعد سینیٹ کے قائد ایوان ھیری ریڈ نے سینیٹ میں پیش کرنے کا اعلان  کیا اورریپبلکن پارٹی نے ایک بار پھر تاخیری حربے اختیار کرکے اسے غیر موثر کردیا۔ دلچسپ بات کہ ریپبلکن پارٹی کی خواتین ارکان نے اس مسئلے پر خواتین کا ساتھ دینے کے بجائے اپنی پارٹی سے وفاداری کو ترجیح دی۔ 2007 میں پیش ہونے والا یہ مسودہ قانون آج تک امریکی مقننہ سے منظور نہ ہوسکا۔

جامعات میں دائر ہونے والے مقدمات کے بعدمنصفانہ اجرت قانو ن کی بازگشت پھر سنائی دے رہی ہے۔ حسب توقع ریپبلکن پارٹی اسکی مخالفت کیلئے پرعزم ہے اور ڈیموکریٹک پارٹی کیجانب سے بھی کوئی مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا۔ یعنی مسلم معاشروں میں بچیوں کے سر پر بندھے اسکارف کو خواتین کی غلامی قراردینے والا مغرب اپنی خواتین کو مردوں کے برابر اجرت دینے کو تیار نہیں۔ پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات

 

 

No comments:

Post a Comment