Friday, October 9, 2020

سیکیولرازم اور اسلام فوبیا۔ نئے فرانسیسی سکے کے دورخ

سیکیولرازم اور اسلام فوبیا۔ نئے فرانسیسی سکے کے دورخ

جارج ہولیوک (George Holyoake)کو سیکیولر ازم کا باواآدم سمجھا جاتا ہے۔ اس برطانوی نژاد مصنف نے سب سے پہلے لفظِ سیکیولر ازم استعمال کیا تھا۔ جناب ہولیوک نے 'مذہبی عقائد سے ماوراسماج' کوسیکیولر معاشرہ قراردیا تھا۔ تاہم جارج نے بہت صراحت کیساتھ کہا کہ سیکیولرازم  مسیحیت (مذہب) مخالف دلیل و نظریہ نہیں بلکہ  ایک آزاد طرز فکر ہے۔ ایک متنوع معاشرے میں اسکی آسان سی تعریف یہ ہے کہ 'اپناعقیدہ مت چھوڑو اور دوسروں کا عقیدہ مت چھیڑو'

لیکن یورپ میں ایک عرصے سے سیکیولرازم کے نام پر اسلامی عقائد اور معاشرت خاص طور سے حجاب کو نشانہ بنایا جارہاہے۔ ایران کے روحانی پیشوا حضرت آئت  اللہ خمینی نے جامعہ تہران میں طالبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'دشمن ہمارے بموں اورمیزائیلوں سے اتنا نہیں ڈرتا جتنا تمہارے سروں پر پڑی چادروں سے خوفزدہ ہے'۔ مسلم بچیوں کےاسکارف  سے مغربی دنیا کی بیچینی و  پریشانی بلکہ خوف دیکھ کر خمینی صاحب کی بات درست محسوس ہوتی ہے۔ مغربی دانشوروں کی تشویش سے تاثر ابھرتا ہے  کہ معصوم لڑکیوں  کے سر پربندھا اسکارف  وہ مہلک  میزائل ہے جس سے پوری مغربی تہذیب بھسم ہوسکتی ہے۔ یہ خوف نیا نہیں۔ پرانے دور کے کمال اتاترک  سے تیونس کے حبیب بورقییبہ اور دور حاضر کے آذربائیجانی الہام علیوف تک سب کو اسکارف انتہاپسندی کا پھریرا نظر آتا ہے۔

اب  فرانس کے صدر ایمیونل ماکروں نے اسکارف کے ساتھ سیکیولرازم کے نام پر فرانسیسی مسلمانوں کی مذہبی شناخت ختم کرنےکا بیڑا اٹھالیا ہے اور اگر قانون سازی کیلئے انکی مہم کامیاب ہوگئی تو عدم برداشت کےحوالےسے فرانس چین کے ہم پلہ ہوجائیگا۔

2 اکتوبر کو پیرس کے مضافات میں 'انتہاپسندی سے نمٹنے کی حکمت عملی' بیان کرتے ہوئے جناب ماکروں نے فرمایا کہ 'اسلامی انتہا پسندی سے  سیکیولراقدارکی ہر قیمت پر حفاظت کی جائیگی'۔ انکا کہنا تھا کہ  صرف فرانس ہی نہیں بلکہ اسلام ساری دنیا میں بحران کا شکار ہے۔جناب ماکروں نے فرانسییسیوں کویقین دلایا کہ  تعلیم اور عوامی مقامات سے اسلام کو بیدخل کرنے کیلئے موثر قوانین وضع کئے جارہے ہیں۔انھوں نے اعلان کیا کہ دسمبر میں ایک مسودہ قانون پارلیمان میں پیش کیا جارہا ہے جس میں  1905 کے اس قانون کو مزید تقویت دی جائیگی جسکے تحت گرجا اور ریاست کو علیحدہ کردیا گیا تھا۔انھوں نے کہا کہ مسلم انتہا پسندی سے ہماری اندرونی سلامتی کو سخت خطرہ لاحق ہے۔

دلچسپ بات کہ اسلامی ثقافت کے حوالے سے امامِ آزادی و جمہوریت فرانس اور مطلق العنان اشتراکی چین ہم مشرب و ہمخیال نظر آتے ہیں۔چینی کمیونسٹ پارٹی کا کہنا ہے کہ بطور عقیدہ اسلام عظیم مذہب ہے لیکن چینی ثقافت کے متوازی  اقدارو رسوم کی یہاں کوئی گنجائش نہیں۔ کمیونسٹ پارٹی نے خوراک، لباس اور رسوم و عبادت حتیٰ کہ چینی زبان کے سوا کسی اور زبان میں روزمرہ تہنیتی الفاظ کو بھی 'ثقافتی آلودگی' قراردیتے ہوئے تطہیرِ افکاروخیالات کیلئے لاکھوں یغور مسلمانوں کو بیگارکیمپ نما 'تربیتی مراکز' میں داخل کردیا ہے۔

اسلام کے 'خطرے' سے نبٹنے کیلئے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے فرانسیسی صدر نے کہا کہ مسلم انتہا پسندی قبول نہیں، حجاب پر مکمل پابندی کو یقینی بنایا جائیگا اور گلی کوچوں میں پھیلے مدارس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ انہوں نے کہا ہم اسلام کے خلاف نہیں لیکن اسلام کو بطور معاشرت اپنانے والے انتہا پسندوں سے فرانس کی سالمیت کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ جناب ماکروں کا کہنا تھا کہ فرانس سیکولر ملک ہے۔ یہاں مسلم انتہا پسندوں کو متوازی معاشرہ بنانے کی قطعی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ فرانسیسی اقدار سے متصادم کسی رسم ورواج یا ثقافت کی یہاں کوئی گنجائش نہیں۔ ہم نے متوازی کہہ کر فرانسیسی صدر کے ارشاد گرامی کو متوازن بنانے کی کوشش کی ہے ورنہ موصوف نے اپنی تقریر میں قوم پرستی کا تڑکہ لگانے کیلئے Islamic Separatismکہا تھا یعنی مسلمان فرانس میں علیحدہ ریاست بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔

فرانسیسی صدر نے اعلان کیا کہ گلی کوچوں کی سطح تک پہنچ جانیوالی مسلم انتہاپسندی کے استیصال کے لیے حکومت ایک نیا قانون لا رہی ہے جسکے ذریعے:

  • مذہبی اور سماجی تنظیموں کے مالی معاملات کی کڑی نگرانی کی جائے گی
  • انتہا پسندی پھیلانے والی مساجد و مدارس کے خلاف کارروائی ہوگی اور
  • مذہب کے نام پر بچیوں اور خواتین پر قدغنیں لگانے کی حوصلہ شکنی کی جائے گی
  • پردے اور اسکارف پر پابندی کو سخت بنانے کیلئے نئے قانون میں سرکاری اسکول و جامعات، دفاتر، ساحلِ سمندر،پارک اور تفریحی مقامات کے ساتھ نجی اداروں میں بھی سرڈھانکنے پر پابندی ہوگی

جناب میکراں نے مزید کہا کہ اگلے سال سے تمام بچوں کے لیے، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے ہوں، اسکول جانا لازمی ہوگا۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ کہ تعلیم کا مقصد تربیت یافتہ شہری پیدا کرنا ہے نہ کہ مذہبی جذبے سے سرشار جنونی۔ فرانس میں لازمی تعلیم کا قانون دہائیوں سے ناٖفذ ہے لہٰذا انکے ارشاد گرامی کے اس حصے کے شانِ نزول میں ابہام ہے۔ مسلم حلقے خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ نئے قانون سے حکومت کو نجی اسکولوں کاگلا گھونٹنے کی سہولت حاصل ہوجائیگی۔

ستمبر کے آغاز میں جب فرانسیسی جریدے چارلی ہیبڈو نے 2015 میں چھاپے جانیوالے گستاخانہ خاکے دوبارہ شایع کئے تو اسکا دفاع کرتے ہوئے فرانسیسی صدر نے اسکی مخالفت کو فرانسیسی اقدارسے متصادم اور متوازی رجحان (Islamic Separatism)قراردیا۔ انھوں نے کہا کہ 'گستاخی' کی حد تک  آزادی اظہارِ رائے فرانسیسی دستور کا حصہ ہے اور یہاں رہنے والوں کو ہمارے آئین کا احترام کرنا ہوگا۔ 

اس مرحلے پر آزادی اظہار رائے کے باب میں فرانس ہی کا ایک اور واقعہ۔

 چالی ہیبڈو میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت سے تین سال قبل فرانس میں طنزو مزاح کے ایک  اور رسالےکلوزر Closer نے برطانوی شہزادی کیتھریں ولیم کی نیم عریاں تصاوہر چھاپ دیں۔کلوزر کے ساتھ یہ تصاویر ایک اور فرانسیسی رسالے شائی (Chi) میں بھی شایع ہوگئیں۔ شہزادی صاحبہ کی یہ تصاویر ایک فوٹو گرافر نے اسوقت بنائی تھیں جب یہ عفیفہ اپنے شوہر شہزادہ ولیم کے ہمراہ جنوبی فرانس کے شہر Luberonمیں چھٹیاں منارہی تھیں۔ اکثر تصاویر میں شہزادی صاحبہ غسلِ آبی و آفتابی فرمارہی ہیں۔ ان تصاویر کی اشاعت کے ساتھ ہی برطانیہ کے شاہی خاندان نے اسکے خلاف فرانسیسی عدالت میں اپیل دائر کردی۔ عدالتی کاروائی کے دوران رسالے کی انتظامیہ نے موقف اختیار کیا کہ یہ کیمرے سے کھینچی ہوئی تصویریں ہیں اور محل کے باہر سے لی گئی ہیں۔شہزادی صاحبہ کھلے عام بے لباسی کا مظاہرہ فرمارہی تھیں لہٰذا رسالے کے قارئین بھی اس منظر کو دیکھنے کا حق رکھتے ہیں اور پابندی سے اظہار رائے کا حق مجروح ہوگا لیکن عدالت نے دودن کی سرسری سماعت کے بعد فیصلہ دیا کہ ان تصاویر کی اشاعت سے برطانوی عوام کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور تصویر کشی شاہی جوڑے کے تخلئے میں مداخلت ہے۔ عدالت نے رسالے پر 2600ڈالر جرمانہ کرتے ہوئے مزید تصاویر کی اشاعت پر پابندی لگادی اور انتظامیہ کو حکم دیا کہ شہزادی کی تمام مطبوعہ و غیر مطبوعہ تصاویر فوری طور پر شاہی خاندان کو واپس کردی جائیں۔واپسی میں  تاخیر کی صورت  13000ڈالر یومیہ کے حساب سے جرمانہ ہوگا اور اگر مزید تصویر شایع ہوئی تو ڈیڑھ لاکھ ڈالر جرمانہ کیا جائیگا۔ فرانس کے ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ یہ ازالہ حیثیت عرفی کا مقدمہ تھا اور حالیہ فیصلے کی روشنی میں فرانس کی وزارت انصاف رسالے کی اس "صریح جسارت" کے خلاف فوجداری مقدمے کا حق محفوظ رکھتی ہے ۔ شہزادی صاحبہ کی یہ تصاویر آئرلینڈ کے ایک اخبار آئرش اسٹار نے بھی شایع کی ہیں جسکی پاداش میں اخبار کے ایڈیٹر کو فوری طور پر معطل کردیا گیا۔ انٹرنیٹ پر خرید و فروخت کے سب سے بڑے ادارے eBay نے اپنےکسی بھی لنک پر  کلوزر، شائی اور آئرش اسٹار کو اپ لوڈ کرنے پر بھی پابندی لگادی جو  کئی برس برقرار ہی۔

چارلی ہیبڈو نے جب فر وری 2007میں شریعہ ہیبڈو کے نام سے ایک خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا تھا تواسکے خلاف مسلمان تنظیموں نے عدالت کو دروازہ کھٹکھٹایا۔ مسلمانوں کا موقف تھاکہ توہین آمیزخاکوں سےمسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے جبکہ تمام مذاہب کا یکساں احترام فرانسیسی دستور کا حصہ ہے۔ عدالت کے روبرو اپنے ایک تحریری بیان میں اسوقت کے فرانسیسی صدر نکولس سارکوزی نے خاکوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ طنزو مزاح فرانسیسی ثقافت کاحصہ ہے جبکہ انکے بعد آنے والے صدر فرانکو ہولیندے نے تو عدالت میں پیش ہوکر رسالے کا دفاع کیا اور کہاکہ مذہبی جذبات کے نام پر اظہار رائے کو محدود نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت نے مسلمانوں کی درخواست مسترد کردی اور فیصلہ سنایا کہ یہ کارٹون محض طنزو مزاح ہیں اور اسکا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔عدالتی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے چالی ہیبڈوکے ایڈیٹر اسٹیفن عرف شارب نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ  رسالہ نہ پڑھیں بالکل ایسے ہی جیسے میں انکی مسجد نہیں جاتا۔ شارب نے انتہائی ڈھٹائی سے کہا کہ میں محمد صل اللہ علیہ وصلم کو کوئی متبرک شخصیت نہیں سمجھتا لھٰذا مجھ پر انکا احترام لازم نہیں۔

پردے اور حجاب کے خلاف قانون سازی کیساتھ فلم وثقافت کا ہتھیار بھی بے شرمی سے استعمال ہورہا ہے۔ بے شرمی اس اعتبار سے کہ اب 8 سے گیارہ سال کی بچیوں کو بے لباس کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں Netflixپر 'پیاری' (Curies) کے عنوان سے ایک فرانسیسی فلم جاری کی گئی ہے۔ یہ “پابندیوں”میں جکڑی ایک گیارہ سالہ سینیگالی مسلمان  بچی  ایمی کی کہانی ہے  جسکا  گھٹن آمیز ماحول میں دم نکل رہا تھا۔ اس بچی کو رقص  و موسیقی سے آراستہ مغربی کلچر تازہ ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا محسوس  ہوا اور اس نے اپنی ہم عمر ساتھیوں کے ساتھ ہنسنے بولنے کا سہارا تلاش کرلیا۔ یہاں تک بھی ٹھیک تھا لیکن یہ فلم ایمی اور اسکی ہم عمر کم سن بچیوں  کے نیم عریاں لباس میں بیباک رقص پر مشتمل ہے۔نظریاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے شوق میں غریب افریقی گھرانوں کی بے خبر، معصوم و بھولی بھالی بچیوں سےنیم عریاں  لباس میں رقص  کرانابدطینت شیطانوں کیلئے بصری فرحت کا سامان اور معصوم بچیوں کا استحصال ہے جسکی مہذب دنیا کو مذمت کرنی چاہئے 

اسکارف اور پردے پر غیر ضروری پابندیوں سے دیندار مسلمانو ں کیساتھ اعلیٰ ظرف سیکیولر طبقہ بھی پریشان ہے۔ ممتاز فرانسیسی دانشور محترمہ نجات ولید ابوالقاسم نے 2017 میں کہا تھا کہ سیکیولر سکھاشاہی مسلم بچوں کو انتہاپسندی کی طرف مائل کر رہی ہے۔ محترمہ نے اسکے لئے Militant Secularity کا لفظ استعمال کیا ہے جسکا لغوی ترجمہ تو سیکیولر شدت پسندی ہوگا لیکن ہمیں متبادل کے طور پر سکھا شاہی کا لفظ زیادہ مناست لگتا ہے۔43 سالہ مراکش نژاد نجات سابق صدر ہولیندے کابینہ کی وزیرتعلیم اور فرانس کی حکمراں جماعت سوشلسٹ پارٹی کی ایک سرگرم رکن اہیں۔ موصوفہ پیرس کے انسٹیٹیوٹ برائے علوم سیاسیات کی فارغ التحصیل ہیں۔ یہ ادارہ سیاسی و سماجی امور کی تعلیم کے لئے ساری دنیا میں مشہور ہے۔ نجات یا نزہت کو فرانس کی پہلی خاتون وزیرتعلیم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس سے پہلے وہ خواتین کے حقوق، امورِ نوجوانان اور بلدیات کی وزیر بھی رہ چکی ہیں۔فرانس کی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے نجات نے کہا کہ اسکولوں میں اسکارف اور کپاہ )یہودی ٹوپی) پر غیر ضروری پابندیوں سے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ نجات کا کہنا تھاکہ جب مسلم بچی یہ دیکھتی ہے کہ اسکول چھوڑنے کیلئے آنے والی اسکی اسکارف پوش ماں محض اسلئے اسکی کلاس تک نہیں آسکتی کہ ماں نے اپنا سر ڈھکا ہوا ہے تو اس نوخیز طالبہ کے دل میں نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مذہی شعائر اور علامات پرپابندی سے برداشت اور ہم اہنگی پیدا نہیں ہوسکتی اور سیکیولر شدت پسندی مسلمانوں میں  احساس محرومی پیدا کر رہاہے۔ نجات ابولقاسم نے کہا کہ گاڑی چلانے کیلئے حجاب اتارنے کی شرظ لگا کر ہم ان ملکوں کی صفوں میں شامل ہوگئے ہیں جہاں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ہی نہیں۔ یہ ایک قسم کا امتیازی سلوک ہے جسکا مہذب سیکیولر معاشرے میں تصوربھی نہیں کیا جاسکتا۔انھوں نے کہا کہ سیکیولرانتہا پسندی سے معاشرے میں تناو اور ہیجان پیدا کررہی ہے۔ اسکولوں کے تفریحی دوروں میں باحجاب مائیں اپنے بچوں کے ساتھ نہیں جاسکتیں جسکی وجہ سے نوخیز بچوں کے ذہن میں سیکیولرازم کے خلاف جذبات پیدا ہورہے ہیں۔ نجات کے خیال میں غیرضروری سختی مسئلے کا حل نہیں اور لباس کے انتخاب میں ریاست کا کوئی عمل دخل نہیں ہوناچایئے

آج اسلام اور مسلم ثقافت کو فرانس سے کھرچ دینے کا عزم رکھنے والے میکران 2017 کے صدارتی انتخابات میں مسلمانوں کے ہمدرد بن کر ابھرے تھے۔ اسوقت انکی حریف محترمہ میرین لاپن کا بیانیہ وہی تھا جو آجکل میکراں صاحب  کا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران ایمیونل میکران نے لاپن کی تنگ نظری کو فرانس کی سالمیت کیلئے خطرہ قراردیا تھا۔ اس دوران مساجد کے دورے میں نہ تو اسکارف انھیں غلامی کا نشان نظر آیا نہ عمدہ عربی میں قرآن کی تلاوت کرتے فرانسیسی بچوں کو دیکھ کر انھیں اپنے پیروں تلے زمین کھسکتی محسوس ہوئی۔

تین برسوں میں ایسا کیا ہوگیا کہ مسلمانوں کو گلے سے لگانے والے میکران اب اسلامیوں کو مٹانے پر تل گئے ہیں۔ انکے نئے رجحان  کا تجزیہ کچھ اس انداز میں کیا جاسکتا ہے۔

مسلمانوں سے موصوف کی نفرت کی بنیادی وجہ بحر روم میں ترکی کی بڑھتی ہوئی قوت ہے۔ ترک بحریہ ، یونانی قبرص اور یونانی جزیرے کریٹ Creteکے قریب نشانہ بازی کی مشق کررہی ہے جسکی بناپر گزشتہ کئی ماہ سے بحر روم میں یورپی جہازوں کی نقل و حرکت محدود ہوچکی ہے۔ تجارتی پابندی، ناکہ بندی اور مزہ چکھانے کی دھمکیوں کے بجائے جرمن چانسلر مذکرات کیلئے صدر ایردوان سے رابطے میں ہیں۔ ترکی کے تباہ کن ڈرون اور راکٹوں سے لیس لیبیا کی فوج نے مغرب کے دلارے حفتر کو کاری ضرب لگائی ہےاورطرابلس پر قبضہ جنرل السیسی، متحدہ عرب امارات، روس، فرانس اور اسرائیل کیلئے ایک بھیانک خواب بن چکا ہے۔ بحرروم کے ساتھ بحر خزر یا کیسپین کے مضبوط ملک اور ترک اتحادی آذربائیجان کی آرمینیا کے خلاف کامیاب کاروائی نے بھی صدر میکراں کے فرانسیسی تکبر پر کاری ضرب لگائی ہے۔

ترکی بلکہ 'عثمانیوں' سے نفرت یورپی رہنماوں کی فطرت میں داخل ہے۔ صدر ایردوان ترکی کے قابل فخر ماضی کا ذکر کرتے ہوئے سلطان فاتح کے ساتھ عثمانی بحریہ کے امرائے بحر خیرالدین باربروس اورعروج رئیس کا ذکر بڑے فخر سے کرتے ہیں۔ ان ماہر ملاحوں نے بحرروم اور بحر اسودکو دشمن جہازوں کا قبرستان بنادیا تھا۔ان دلاوروں کا ذکر مغرب کو تیر کی طرح جگر میں گھپتا محسوس ہوتاہے۔ چنانچہ معاملہ صرف میکراں تک محدود نہیں، مسلم حکمرانوں کے فدویانہ بلکہ غلامانہ انداز کے خوگر چچا سام کو بھی  ترک صدر کی باغیانہ روش ایک آنکھ  نہیں بھارہی۔  میٖڈیا رپورٹس کے مطابق ترکی کی جنوبی سرحد غیر مستحکم کرنےکے لئےامریکہ  دہشت گردملیشیا YPGکو 40 کروڑ ڈالر کی عسکری مدد فراہم کررہا ہے حالانکہ YPG امریکی قانون کے تحت بھی دہشت گرد تنظیم ہے۔ جناب جو بائیڈن نے وعدہ کیا ہے کہ اگر صدر منتخب ہوگئے تو وہ ترکی میں تبدیلیِ اقتدار المعروف Regime Changeکیلےاپنے اتحادیوں سے مل کر کام کرینگے۔

اسی کیساتھ جناب میکراں کو ملک کے اندر شدید سیاسی دباو کا سامناہے۔ موصوف تین سال پہلے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ اور میرین لاپن کے اسلاموفوبیا کے سدباب کے ساتھ ملک میں دودھ و شہد کی نہر بہانے کے وعدے پر برسراقتدار آئے تھے۔ لیکن معیشت کی بحالی کیلئے انکی قدامت پسندانہ اصلاحات کومزدور اور غریب طبقے کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور زرد صدری (Yellow Jacket) مظاہرین نے سارے فرانس کو مفلوج کرکے رکھدیا تھا۔ ملک گیر مظاہروں ، دھرنوں اور ہڑتالوں سے ملکی معیشت کا دیوالہ نکل گیا جبکہ رہی سہی کثر کرونا وائرس نے پوری کردی۔ وبا سے نبٹنے کیلئے فرانسیسی حکومت کے غیر موثر اقدامات پر عام لوگ حکومت سے سخت ناراض ہیں۔ معیشت کا پہیہ چالو رکھنے کی فکر میں میکراں حکومت لاک ڈاون سے گریز کرتی رہی جسکی وجہ سے ہزاروں جانیں ضایع ہوئیں اور اسکا دورانیہ بھی طویل رہا۔ لاک ڈاون ختم ہونے کے بعد معیشت کی بحالی کے لئے اقدامات شروع ہی ہوئے تھےکہ کرونا کی نئی وبا سرپر آگئی ۔ اگلے ہفتے سے پیرس اور تمام بڑے شہروں میں مکمل لاک ڈاون کی تیاری کی جارہی ہے۔

فرانس کے مسلم حلقوں کا ٓخیال ہے کہ جناب میکراں معاشی بدحالی اور بیروزگاری سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے قوم کو اسلام فوبیا کی بتی کے پیچھے لگارہے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں انھوں نے مسلمانوں کی پشتیبانی کا وعدہ کرکے ووٹ بٹورے تھے۔ انکا خیال ہے کہ مسلمانوں کیلئے میرین لاپن کے پرچم تلے جانا ممکن نہیں چنانچہ وہ  سیکیولر ازم اور فرانسیسی قوم پرستی کا راگ الاپ کر اپنی ناکامیوں پر پردے کے ساتھ میرین لاپن کے مسلم مخالف ووٹ بینک میں نقب لگانا چاہتے ہیں۔  تاہم یہ حکمت عملی الٹ بھی سکتی ہے۔ 2016 میں امریکی انتخابات میں صدر ٹرمپ کی جارحانہ مہم سے خوفزدہ ہوکر سینیٹر ہیلری کلنٹن نے دائیں بازو کے ووٹ توڑنے کیلئے سیاہ فاموں اور ہسپانویوں کو نظر انداز کردیا تھا۔ سینیٹر صاحبہ کا خیال تھا کہ سیاہ فاموں کیلئے ڈانلڈ ٹرمپ کو ووٹ دینا ناممکن ہے۔ انتخاب کے دن سیاہ فاموں نے اپنی وفاداری تو تبدیل نہیں کی لیکن وہ مایوس ہوکر گھر بیٹھ رہے جسکے نتیجے میں ڈیموکریٹک پارٹی اپنے گڑھ مشیگن اور وسکونسن میں ہارگئی۔ فلورڈا اور پیسلوانیہ کے سیاہ فام علاقوں میں بھی ووٹ ڈالنے کا تناسب کم رہا، نتیجاً یہ دونوں ریاستیں اور وہائٹ ہاوس کی کنجی کے ساتھ کانگریس کے دونوں ایوان ہاتھ سے نکل گئے۔

 فرانسیسی مسلمانوں کی تعداد 60 لاکھ اور آبادی میں انکا تناسب 9 فیصد ہے۔ساری دنیا کی طرح فرانسیسی  مسلمانوں میں افزائش نسل کی شرح دوسرے مذاہب کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ مسلمان نوجوان کم عمری میں شادی کرتے ہیں اور انکے ٰیہاں شادی محض ساتھ رہنے کی قانونی دستاویز نہیں بلکہ یہ خانہ آبادی کا نقطہ آغاز ہے چنانچہ فرانس میں مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور عمرانیات کے علما 'خدشہ' ظاہر کررے ہیں کہ 2050 تک فرانس مسلمان اکثریتی ملک بن سکتا ہے۔ شائد اسی خوف نے میری لاپن اور ایمیونل میکراں کے درمیان نظریاتی ہم آہنگی پیدا کردی ہے لیکن مسلم دنیا کے سیکیولر رہنماوں کی طرح فرانسیسی صدر بھی اعتراف کی جرات سے محروم ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 9 اکتوبر


2020

 

No comments:

Post a Comment