Friday, October 30, 2020

فرانس! یورپ کا سنکیانگ ؟؟؟

فرانس! یورپ کا سنکیانگ ؟؟؟

فرانس میں مسلمانوں کیخلاف مہم عروج پر ہے۔ صدر ایمیونل میخواں ایک عرصے سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں مصروف ہیں لیکن اسلام کے خلاف دل میں چھپی نفرت کا کھلا اظہار انھوں نے 2 اکتوبر کو پیرس کے مضافات میں ایک سیمینار سے خطاب میں کیاجسکا عنوان 'انتہاپسندی سے نمٹنے کی حکمت عملی' تھا۔ اپنی گفتگو کے آغاز میں میخواں نے کہا کہ اسلام ساری دنیا میں بحران کا شکار ہے۔ ہم فرانس کو اس بحران کا حصہ نہیں بننے دینگے اور اسلامی انتہا پسندی سے  سیکیولراقدارکی ہر قیمت پر حفاظت کی جائیگی'۔ اس 'خطرے' کے سدباب کیلئے اپنی حکمت عملی بیان کرتے ہوئے فر انسیسی صدر نے کہا کہ تعلیم اور عوامی مقامات سے اسلام کو بیدخل کرنے کیلئے موثر قوانین وضع کئے جارہے ہیں۔ جناب میخوان نے انکشاف کیا کہ انتہا پسندی، متوازی رویوں اور  مسلم ثقافت خاص طور سے ذبیحہ، حجاب و پردہ جیسے خطرات سے نبٹنے کیلئے اس سال کے آخر تک ایک مسودہ قانون پارلیمان میں پیش کیا جارہا ہے۔انکا کہناتھا کہ مسلم انتہا پسند اپنے محلوں، مساجد  اورمدارس میں شریعت نافذ کرکے ریاست کے اندر ریاست قائم کررہے ہیں جسکی بیخ کنی کیلئے موثر قانون سازی ضروری ہے۔

فرانسیسی جریدے چارلی ہیبڈو نے 2015 میں چھاپے جانیوالے گستاخانہ خاکے ستمبر میں دوبارہ میں شایع کئے تھے جس پر مسلمانوں کے احتجاج کو ہدف تنقید بناتے ہوئے میخواں نے کہا کہ 'گستاخی' کی حد تک  آزادی اظہارِ رائے فرانسیسی دستور کا حصہ ہے اور یہاں رہنے والوں کو ہمارے آئین کا احترام کرنا ہوگا۔  انھوں نے خاکوں کی مخالفت کو فرانسیسی اقدارسے متصادم اور متوازی رجحان (Islamic Separatism)قراردیا۔ مسلمانوں کی اشک شوئی کرتے ہوئے فرانس کے صدر نے کہا ہم اسلام کے خلاف نہیں لیکن اسلام کو بطور معاشرت اپنانے والے انتہا پسندوں سے فرانس کی سالمیت کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ جناب میخواں کا کہنا تھا کہ فرانس سیکولر ملک ہے۔ یہاں مسلم انتہا پسندوں کو متوازی معاشرہ بنانے کی قطعی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ فرانسیسی اقدار سے متصادم کسی رسم ورواج یا ثقافت کی یہاں کوئی گنجائش نہیں۔

اسی کیساتھ معاشرتی تطہیر کا آغاز ہوا اور 75 کے قریب مساجدکو یہ کہہ کر مقفل کردیا گیاکہ یہاں تعینات خطیب عرب ممالک کے سند یافتہ ہیں اور انھیں فرانسیسی تہذیب سے آگاہی حاصل نہیں۔ درجنوں مدارس اور مسلمانوں کے نجی اسکول بھی انتہا پسندی پھیلانے کے الزام میں بند ہیں۔ اپنے خطاب میں  جناب میخواں نے کہا کہ اگلے تعلیمی سال سے تمام بچوں کے لیے، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے ہوں، سرکاری اسکول جانا لازمی ہوگا۔اس سکھا شاہی حکم کا شان نزول بیان کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ تعلیم کا مقصد تربیت یافتہ شہری پیدا کرنا ہے نہ کہ مذہبی جذبے سے سرشار جنونی۔ گلی کوچوں میں قائم بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھانے کے روائتی 'مکتب' بھی بند کردیئے گئے ہیں۔ پولیس کا موقف ہے کہ درس و تدریس کا کام صرف رجسٹرڈ اسکولوں ہی میں ہوسکتا ہے۔

حجاب پر پابندی کا دائرہ  سرکاری اداروں کیساتھ نجی دفاتر و کاروبار تک بڑھادیا گیا ہےاور اب کوئی خاتون اپنی دوکان پر حجاب کیساتھ نہیں بیٹھ سکتی۔ اسلامی مدارس کی طالبات کو بھی اسکارف لینے کی اجازت نہیں۔ 'بچیوں اور خواتین پر قدغنوں' کو ناکام بنانے کیلئے پولیس مسلمانوں کی دوکانوں، ڈاکٹروں کے مطب، وکلا کے دفاتر اور کاروباری اداروں پر چھاپے مار رہی ہے۔

اسلام اور مسلمانوں کیخلاف معاشرتی تطہیر کی اس مہم نے دائیں بازو کے انتہا پسندوں کو حوصلہ دیا اور پیرس کے مضافاتی علاقے کے ایک مڈل اسکول میں تاریخ کے 47 سالہ استاد سموئل (Samuel Patty)نے اپنے شاگردوں کوآزادی اظہار رائے کا سبق دیتے ہوئے کلاس میں  نبی محترم صلعم کے چند توہین آمیزخاکے دکھائے۔کچھ طلبہ کے مطابق اس  سے پہلے استاد  نے کہا کہ  'میں جو دکھانے جارہاہوں، وہ شائد مسلمان  طلبہ کو پسند نہ آئے لہٰذا وہ اگرچاہیں تو کلاس سے چلے جائیں'

بہت سے مسلمان طلبہ نے اس بات کا ذکر اپنے گھروں میں کیا چنانچہ والدین نے ہیڈماسٹر سے اس واقعہ کی شکائت کی۔ والدین کا کہنا تھاکلاس میں بارہ تیرہ سال کے نوخیز بچے ہیں جنکے سامنے استاد کی جانب سے انکے عقیدے کی توہین کسی طور بھی مناسب نہیں اور سموئیل پیٹی سے جواب طلبی ہونی چاہئے۔ایک لڑکی کے والد نے پولیس تھانے میں بھی شکائت  درج کروائی

طلبہ اور والدین نے سوشل میڈیا پر  احتجاج کیا  اور کچھ عناصر کی طرف سے سموئیل پیٹی اور اسکول انتظامیہ کو قتل کی دھمکیاں بھی موصول  ہوئیں۔ اسکول انتطامیہ نے ان تمام اعتراضات کو  یہ کہہ کر مسترد کردیاکہ اسکول کے اساتذہ سبق کی تیاری کے سلسلے میں بااختیار ہیں،  خاکے دکھا کر سموئیل نے اسکول کے ضابطوں یا ملکی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی۔ مزیدیہ کہ   مذہبی جذبات کے نام پر  آزادی اظہاررائے کو محدود نہیں کیا جاسکتا۔

جمعہ 23 اکتوبر کو اسکول سے چھٹی پر جب  سموئیل پیدل اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا تو  اسکے انتطار میں کھڑے ایک 18 سالہ شیشانی نوجوان عبداللہ انذروف نے چھرے سے وار کرکے  سموئیل  کا سرقلم کردیا۔ کاروائی کے بعد فرارہونے کے بجائے وہیں کھڑے ہوکر عبداللہ نے مقتول کی تصویر اپنے ٹویٹرپر اس پیغام کے ساتھ لگادی کہ 'میں نے محمد صل اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے والے جہنم کے ایک کتے کوسزا دیدی ہے' اسی دوران انسداد دہشت گردی حملہ وہاں پہنچ گیا جنھیں دیکھ کر عبداللہ نے اللہ اکبر کے نعرے لگائے جواب میں پولیس کی فائرنگ سے عبداللہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔

اس واقعے پرمیخواں اور اسلام مخالف عناصر آپے سے باہر ہوگئے۔ فرانسیسی صدر نے اسکول کے باہر ایک ریلی کی قیادت کی جہاں لوگ خاکوں کے پلے کارڈ لئے کھڑے تھے۔بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ وہ تمام والدین تھانوں میں تعذیب بھگت رہے ہیں جنھوں نے سموئیل پیٹی کے خلاف اسکول انتطامیہ اور پولیس کو درخواست دی تھی۔ عبداللہ سے سہولت کاری  کے الزام میں درجنوں طلبہ اور انکے والدین زیر حراست ہیں۔

گزشتہ ہفتے چارلی ہیبڈو نے کچھ نئے گستاخانہ خاکے شایع کئے ہیں اور اس بار جو خاکے بنائے گئے اسکا وضاحتی ذکر بھی یہاں مناسب نہیں۔ رسالے میں اشاعت کے ساتھ پروجیکٹر کے ذریعے ان خاکوں کی بڑی بڑی عمارات پر نمائش کی گئی اور پوسٹر کی شکل میں چھاپ کر مسلم محلوں میں دیواروں پر آویزاں کیا گیا۔ صدر میخواں نے ایک بار پھر اس گستاخی کی بھرپور حمائت کی اور فرمایا مسلمانوں کو اب اسکا عادی ہوجانا چاہئے۔ وہ شوق سے احتجاج کریں جوابی خاکے بناکر اسی طرح دیواروں پر لگائیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن و زیر داخلہ منوئیل واس نے ایک حکم کے ذریعے خاکوں کے خلاف مظاہروں پر پابندی لگادی ہے۔ وزارت داخلہ نے پولیس کو ہدائت کی ہے کہ خاکوں کی مذمت میں ہونے والے مظاہروں کو بھرپور طاقت سے کچل دیاجائے  اور منتظمین کے خلاف دہشت گردی کے پرچے کاٹے جائیں۔یہ دفعہ 144جیسا کوئی حکم نہیں بلکہ اس پابندی کا اطلاق صرف اور صرف  خاکوں کے خلاف مظاہروں پر ہوگا۔

آج اسلام اور مسلم ثقافت کو فرانس سے کھرچ دینے کا عزم رکھنے والے میخواں 2017 کے صدارتی انتخابات میں مسلمانوں کی حمائت سے برسراقتدار آئے تھے۔ مسلمانوں کیساتھ یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ 2000میں امریکی مسلمانوں نے ایسے ہی جوش خروش سے صدر جارج بش کا ساتھ دیا تھا۔ اسوقت انکے مخالف سابق نائب صدر ایل گور نے ایک یہودی جو لائیبرمین کو نائب صدر کیلئے اپنا امیدوار نامزد کیا تھا۔ جارج بش نے خود کو مسلمانوں کا ہمدرد ظاہر کیا۔ حجاب و پردے کی مکمل حمائت، سرکاری اسکولوں میں عبادت کی اجازت، منشیات کیخلاف سخت اقدامات کے نعروں سے مسلمان بے حد متاثر ہوئے اور ایک جائزے کے مطابق اسی فیصد مسلمانوں نے جارج بش کو ووٹ دیا لیکن 9/11کی آڑ میں مسلمانوں کے اسی ہمدرد نے مسلم دنیا کو جہنم زار بنادیا اور انکی لگائی ہوئی آگ امت کی خوشی و خوشحالی کے ساتھ امنگوں اور آرزووں کو بھی چاٹ گئی۔

گزشتہ انتخابات میں میخواں کا مقابلہ نیشنل فرنٹ (National Front) کی Marine Le Pen سے تھا۔ اسوقت مسلمانوں کے بارے میں میری لاپن کا بیانیہ اور لب و لہجہ بالکل وہی تھا تو جناب میخواں نے اب اختیار کیا ہے۔ ۔نیشنل فرنٹ کے بانی میری لاپن کے والد جین لاپن تھے اور اس جماعت کی بنیاد ہی فرانس کو مسلمانوں سے پاک کرو کے نعرے پر تھی۔ ابتدا میں اسے پزیرائی نصیب نہیں ہوئی لیکن 2016 میں جب صدر ٹرمپ نے 'مسلم بین') (Muslim Banکے نعرے پر مقبولیت حاصل کی تو اسی بیانئے کو ہنگری کے وکٹر اوربن، ہالینڈ کے گیرت وائلڈرزاور فرانسیسی میرین لاپن نے آگے بڑھایا۔ مسلم مخالفین کو ہالینڈ میں تو کوئی خاص کامیابی نہ ہوسکی لیکن وکٹڑ اوربن اور فرانس میں لاپن کی مقبولیت کا گراف بہت تیزی سے اوپر گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے نیشنل فرنٹ دوسری بڑی جماعت بن گئی۔ اسی قوت کا اثر تھا کہ صدارتی انتخابات میں میخواں 50 فیصد ووٹ نہ حاصل کرسکے اور ضابطے کے مطابق  دوسرے مرحلے یا run-offکی ضرورت پیش آئی۔ آج اسکارف کو سالمیت کیلئے خطرہ قراردینے والے ایمیونل میخواں کو تین سال پہلے لاپن کی تنگ نظری، فرانس کی سالمیت کیلئے خطرہ نظر آرہی تھی۔ انتخابی مہم کے دوران میخواں مساجد بھی گئےجہاں کی دبیز قالینوں پر ننگے پیر چلنا انکو بہت اچھا لگا۔مدارس میں فرانسیسی بچوں کی قرات بھی انکے کانوں پر بار نہ محسوس ہوئی۔ یہ مسلمانوں کی پرجوش حمائت کا نتیجہ تھا کہ میخواں  نے 66 فیصد ووٹ لے کر میرین  لاپن کو شکست دے دی ۔ تاہم لوگوں کو تعجب تھا کہ ایک آزاد و روشن خیال ملک میں دائیں بازو کی نیشنل فرنٹ سے 33 فیصد ووٹ کیسے لے لئے۔ پاکستان کے ممتاز صحافی جناب ضیا چترالی کی گرانقد تحقیق کے مطابق میری لاپن کی انتخابی مہم کی مالی اعانت متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زید نے فراہم کی تھی اور یہ مدد آج تک جاری ہے ۔

کچھ عرصے سے جناب میخواں کو ملک کے اندر شدید سیاسی دباو کا سامناہے۔ موصوف تین سال پہلےدودھ و شہد کی نہر بہانے کے وعدے پر برسراقتدار آئے تھے۔ لیکن معیشت کی بحالی کیلئے انکی قدامت پسندانہ اصلاحات کومزدور اور غریب طبقے کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور زرد صدری (Yellow Jacket) مظاہرین نے سارے فرانس کو مفلوج کرکے رکھدیا۔ ملک گیر مظاہروں ، دھرنوں اور ہڑتالوں سے ملکی معیشت کا دیوالہ نکل گیا اور رہی سہی کثر کرونا وائرس نے پوری کردی۔ وبا سے نبٹنے کیلئے فرانسیسی حکومت کے غیر موثر اقدامات پر عام لوگ حکومت سے سخت ناراض ہیں۔ معیشت کا پہیہ چالو رکھنے کی فکر میں میکراں حکومت لاک ڈاون سے گریز کرتی رہی جسکی وجہ سے ہزاروں جانیں ضایع ہوئیں اور اسکا دورانیہ بھی طویل رہا۔ لاک ڈاون ختم ہونے کے بعد معیشت کی بحالی کے لئے اقدامات شروع ہی ہوئے تھےکہ کرونا کی نئی وبا سرپر آگئی  اور اب نئے لاک ڈاون نے ملکی معیشت کا کچومر نکال دیاہے۔ دوسری طرف میرین لاپین نے 'نااہل میخوان' کے عنوان سے مہم شروع کررکھی ہے جسکی عوامی حمائت میں برابر اضافہ ہورہاہے۔ فرانسیسی صدر کو اندازہ ہے کہ نیشنل فرنٹ کی اصل قوت مسلم مخالف عناصر ہیں۔ سیاسی مبصرین کے خیال میں صدر میخوان نے میری لاپن کے ووٹ بینک میں نقب لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور انکی حالیہ مسلم مخالف مہم کے پیچھے یہی شیطانی فکر کارفرما ہے۔

صدر میخواں کے اس روئے نے فرانسیسی مسلمانوں کی زندگی جہنم بنادی ہے۔ چھاپے اور پکڑ دھکڑ عام ہے، لاتعدادنوجوانوں پر دہشت گردی کے مقدمات قائم کئے گئے ہیں۔ مساجد بند اور مدارس ویران ہیں۔ اخبارات  توہین آمیز خاکوں اور شرمناک مواد سے بھرے پڑے ہیں۔ خبر گرم ہے کہ خاکوں پر مشتمل ایک کتاب بھی شایع ہورہی ہے۔

تاہم یہ مہم جوئی خود فرانس کیلئے بھی نقصان دہ ہے۔میخواں صاحب کی شیخی اپنی جگہ لیکن فرانس، امریکہ، روس اور چین کی طرح کو ئی عالمی طاقت نہیں۔ فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی ترک اپیل پر دنیا بھر کے مسلمانوں نے مثبت ردعمل ظاہرکیا ہے۔ قطر، کوئت، مراکش اور الجزائر میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم شروع ہوچکی ہے۔ فرانس سے ان چار ممالک کی سالانہ درآمدات کا حجم 27 ارب ڈالر کے قریب ہے جبکہ ترکی تقریبا 7 ارب ڈالر مالیت کا سامان ہر سال فرانس سے خریدتا ہے۔ پیرس میں بائیکاٹ کے اثرات محسوس ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ 26 اکتوبر کو فرانسیسی وزارت خارجہ نے عرب ممالک کو ایک مراسلہ بھیجا ہے جس میں درخواست کی گئ ہے کہ فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ فوراً ختم کر دیا جائے۔فرانس کے اقتصادی ماہرین  کا خیال ہے کہ کرونا سے تباہ حال معیشت عالمی بائیکاٹ کی ضرب برداشت نہیں کر پائیگی۔

فرانس کو سب سے زیادہ ڈر اپنی منافع بخش دفاعی صنعت کے متاثر ہونے کا ہے۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران ترکی نے اس میدان خاصی پیشرفت کی ہے۔ اسکے میزائیل بردار ڈرونز نے لیبیا اور اسکے بعد باغ نگورنو کاراباخ میں اپنی کارکردگی کی دھاک بٹھادی ہے۔ اسکے علاوہ ترک ساختہ بکتر بند گاڑیاں، ٹینک اور فضائی دفاعی نظام کی بڑی مانگ ہے۔ماضی قریب میں ترکی نے قطر، لیبیا، آذربائیجان، قازقستان یوکرین اور دوسرے ممالک کو دفاعی سازوسامان فروخت کیا۔ یہ تمام ممالک فرانسیسی اسلحے کے بڑے گاہک ہیں۔

فرانسیسی صدر طاقت کے ذریعے مسلمانوں کو توہین رسالت برداشت  کرنے پر مجبور کرہے ہیں حالانکہ سخت ترین قوانین کے باوجود   توہین رسالت پر اشتعال انگیز ردعمل میں کوئی کمی میں  نہیں آئی۔ حالیہ  واقعہ سے چند ہفتہ پہلے جب بدنام زمانہ چارلی ہیبڈو نے 2015 میں شایع ہونے والے خاکے دوبارہ شایع کئے تو اس پر مشتعل ہوکر ایک پاکستانی لڑکے نے چھرے سے وار کرکے پیرس میں دو افراد کو زخمی کردیا تھا۔

صدر میخواں نے سیکیولرازم کے نام پر فرانسیسی مسلمانوں کی مذہبی شناخت ختم کرنےکا جو بیڑہ اٹھایا ہے اس سے ملکی اقتصادیات کے ساتھ فرانس کی نظریاتی و اخلاقی ساکھ کو بھی سخت خطرہ لاحق ہے۔فرانسیسی صدر  کے سخت گیر روئے کو ممتاز دانشور، صدر میخوان کی سوشلسٹ پارٹی کی رہنما  اور سابق وزیرتعلیم محترمہ نجات ولید ابوالقاسم نے سیکیولر انتہا پسندی یاMilitant Secularityقراردیاہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کو ڈر ہے کہ اگر مسلم مخالف قانون سازی کیلئے انکی مہم کامیاب ہوگئی تو عدم برداشت کےحوالےسے فرانس چین کے ہم پلہ ہوجائیگا۔ میخواں اور فرانسیسی انتہا پسندوں کی طرح چینی کمیونسٹ پارٹی کا موقف بھی یہی  ہے کہ بطور عقیدہ اسلام عظیم مذہب ہے لیکن چینی ثقافت کے متوازی  اقدارو رسوم کی یہاں کوئی گنجائش نہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کے مطابق خوراک، لباس اور رسوم و عبادت حتیٰ کہ چینی زبان کے سوا کسی اور زبان میں روزمرہ تہنیتی الفاظ ناپسندیدہ 'ثقافتی آلودگی' اور ملک سلامتی کیلئے سخت خطرہ ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 30 اکتوبر


2020

 

No comments:

Post a Comment