افغانستان سے غیر ملکی فوج کا انخلا!! 'دوستوں' کو تشویش
8 اکتوبر کی صبح ایک مختصر ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ "ہمیں افغانستان میں خدمات سرانجام دینے والے اپنے بہادر مردو خواتین کو کرسمس تک واپس امریکہ بلا لینا چاہیے۔" عجیب اتفاق کہ امریکی صدر کی 'خواہش' سے صرف چند گھنٹے پہلے انکے مشیر برائے قومی سلامتی رابرٹ اوبرائن نے جامعہ نواڈا، لاس ویگاس میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ برس کے اوائل تک افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد 2500 کردی جائیگی۔ انکا کہنا تھا کہ افغان دھڑوں کی امن معاہدے پر رضامندی طویل اور کٹھن ہے لیکن افغانوں کیلئے امن کا کوئی متبادل نہیں۔
تادم تحریرصدر ٹرمپ نے بطور کمانڈر انچیف فوجی حکام کو مکمل انخلا کا کوئی حکم جاری نہیں کیا اور پینٹاگون یا امریکی وزارت دفاع میں اب تک خاموشی ہے۔ لیکن اگر ماضی کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو اس معاملے پر صدر ٹرمپ کے موقف میں مستقل مزاجی پائی جاتی ہے۔ وہ ایک سے زیادہ موقعوں پر امریکی سپاہ کی بیرونِ ملک موجودگی کو بیوقوفی قراردےچکے ہیں۔ انکا خیال ہے کہ دوسروں کے جھگڑے میں اپنے بہادر جوانوں کو کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ میں جھونک دیناحماقت کے سوا اور کچھ نہیں۔
ایک دن قبل افغان رسالے طلوع نیوز کے نمائندے لطف اللہ نجفی زادہ سے باتیں کرتے ہوئے افغانستان کیلئے امریکی وزارت خارجہ کے خصوصی نمائندے جناب زلمے خلیل زاد نے بہت اعتماد سے کہا تھا کہ افغان قیادت سال نہیں بلکہ چند ماہ میں پائیدار امن کی منزل پر پہنچ جائیگی۔ صدر ٹرمپ اپنے ان لائق و فائق سفارتکار کےتجزئے سے متفق نظرآتے ہیں۔ انھوں نے فاکس ٹیلی ویژن کو بتایاکہ 'طالبان سمیت تمام افغان دھڑے امن کیلئے مخلص ہیں اور کچھ ہی عرصے میں امن معاہدے پر دستخط ہوجائینگے'۔امریکی صدر کا خیال ہے کہ طالبان جنگ و جدل پر آمادہ، بہادر، مضبوط اور بہت تیز تو ہیں لیکن امن کیلئے انکے اخلاص پر شک کی کوئی وجہ نہیں'
امریکی زعما کی افغان امن کے تعلق سے مثبت توقعات اس اعتبار سے معنی خیز ہیں کہ قطر مذاکرات تعطل کا شکار ہیں اور بات چیت کے نکات طئے کرنے والے رابطہ گروپوں میں بھی کئی ہفتوں سے رابطہ نہیں ہوا۔ اس منظر میں امن کی امید کس بنیاد پر ہے؟ اس سوال کا جواب آگے آئیگا۔ طالبان کا اصرار ہے کہ فروری میں ہونے والے طالبان امریکہ معاہدے کو بین الافغان مذاکرات کی بنیاد بنایا جائے۔ اگر ملاوں کی یہ بات مان لی جائے تو اسکا مطلب ہوا کہ قطر بات چیت برابری کے مذاکرات نہیں بلکہ یہ طالبان سے مراعات کیلئے کابل انتطامیہ کی منت سماجت ہے۔ اس بات کا 'ڈاکٹڑ صاحبان'کو پورا ادارک ہے لہٰذاوہ یہ تاثر دے رہے کہ اصل اختلافی مسئلہ نئے نظام میں حنفی فقہ کی حیثیت کا ہے یعنی طالبان نئے آئین کی بنیاد فقہ حنفیہ پر رکھنا چاہتے ہیں جو اٖفغانستان کے شیعہ عناصر کو قبول نہیں۔ دوسری طرف طالبان اپنی نشستوں میں کھل کر کہہ چکے ہیں کہ فقہی معاملات پر کوئی تنازعہ نہیں اور نہ یہ حالیہ مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ فقہ کےباب میں بحث طلب امور پر مفاہمت کیلئے تمام مکتبہ فکر کے جید علما سےبات کی جائیگی۔
اس سال 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پایا تھا جس میں طالبان کی جانب سے واپس ہوتی نیٹو افواج کیلئے پر امن راستہ فراہم کرنے اور افغان سرزمین امریکہ یا کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانیوں کے بدلے امریکہ نے نومبر تک اپنے فوجیوں کی تعداد 4 سے 5 ہزار تک کر لینے کا وعدہ کیاتھا جبکہ مکمل انخلا کیلئے سے مئی 2021کا ہدف طئے ہوا تاہم یہ بات بھی معاہدے میں شامل کردی گئی کہ غیر ملکی فوج میں مزید کمی کا فیصلہ پر تشدد واقعات اور افغانستان کے حالات پر منحصر ہوگا۔طالبان نے اس کے بدلے مستقل جنگ بندی اور افغان حکومت کے ساتھ شراکتِ اقتدار کا فارمولا طے کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
امن مذاکرات اورمعاہدے سےکابل انتظامیہ کو علیحدہ رکھا گیا۔ مولویوں کا موقف ہے کہ تنازعہ طالبان اور امارات اسلامی افغانستان کے درمیان ہے۔کابل انتظامیہ امریکہ کی تشکیل کردہ کٹھ پتلی حکومت ہے جسکا اس قضئے سے کوئی تعلق نہیں۔ طالبان مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ 2001 میں امریکہ نے امارات اسلامی افغانستان پر حملہ کیا تھا اور امریکی فوج کے انخلا پر امارات اسلامی ملک میں ایک ایسا عادلانہ نظام قائم کرنے کیلئے پرعزم ہے جس میں ہر افغان کو برابری کے حقوق حاصل ہوں۔امارات اسلامی شریعت کی روشنی میں افغان عوام کی ملی امنگوں کے مطابق معاشی، سماجی اور قانونی نظام تشکیل دے گی۔ دوسری طرف کابل انتظامیہ کے خیال میں بین الافغان بات چیت ٹریڈ یونین کے سوداکاری مذاکرات کی ایک شکل ہے جس میں طالبان کو شرکت اقتدار، قیدیوں کی رہائی اور پابندیوں کے خاتمے کے عوض ہتھیار رکھنے اور افغان دستور کی غیر مشروط وفاداری پر آمادہ کیا جائیگا۔
نقطہ نظر میں حائل اسی خلیج کا نتیجہ ہے کہ ہفتوں بعد بھی امن مذاکرات کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوسکا۔ کابل انتطامیہ کے بعض اعلی افسران اپنی نجی نشستوں میں کہتے پھر رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ طالبان کے موقف سے متاثر ہیں اور وہ سارا دباو افغان حکومت کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے اصرار پر ہی بہت سے ایسے طالبان جنگی قیدی رہا کئے گئے ہیں جو مبینہ طور پر امریکہ اور نیٹو فوجیوں کے قتل پر ملوث تھے۔ فرانس، اٹلی اور برطانیہ نے ان افراد کی رہا ئی کی مخالفت کی تھی لیکن صدر ٹرمپ نے اعتراضات کو نظر انداز کرکے قیدی رہا کرادئے۔
واشنگٹن کے سیاسی تجزیہ نگار طالبان کے بارے میں صدر ٹرمپ کے نرم رویئے والی بات کو بے بنیاد مفروضہ سمجھتے ہیں۔ امریکی صدر کرپشن، سفارش اور اقرباپروری میں لتھڑی کابل انتظامیہ سے مایوس ہیں اور انکے خیال میں ڈاکٹر صاحبان کو زمینی حقائق کا بالکل بھی ادراک نہیں۔ افغانستان میں امریکی فوج کے قیام اور حکومت کی اعانت پر واشنگٹن ہر سال 70 ارب ڈالر خرچ کررہا ہے۔ اس رقم کا بڑا حصہ حکومتی اہلکاروں، جنرل عبدالرشید دوستم اور اسماعیل خان جیسے قبائلی سرداروں کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ افغان فوج میں منشیات کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ چرس و بھنگ خریدنے اور نشے کا شوق پورا کرنے کیلئے سرکاری سپاہی شہریوں کو لوٹنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ امریکی سراغرساں اداروں نے شک ظاہر کیا ہے کہ اٖفغان حکومت کے اہلکار اپنی جیبیں گرم کرنے کیلئے طالبان کو اسلحہ فروخت کررہے ہیں۔ کئی وارداتوں میں طالبان نے امریکی ساختہ ہموی بکتر بند گاڑیاں استعمال کی ہیں۔ ان میں سے کچھ تو مالِ غنیمت ہیں یعنی امریکی و نیٹو افواج سے چھینی گئی ہیں لیکن شمالی افغانستان میں استعمال ہونے والا زیادہ تر اسلحہ سرکاری فوج نے طالبان کو فروخت کیا ہے۔گزشتہ دنوں امریکہ کے وزیرخارجہ مائک پومپیو نے قیام امن کی راہ میں حائل دوبڑی رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے طالبان سے پرتشدد کاروائیاں کم کرنےا ور افغان حکومت سے کرپشن کے خاتمے کی درخواست کی تھی۔
جناب ٹرمپ کو اس صورتحال کا اندازہ امریکی صدر منتخب ہونے سے قبل ہوچکا تھا۔ اقتدار سنبھالتے ہی انھوں نے امریکی فوج کو افغانستان 'فتح' کرنے کا آخری موقع دیا اور اپنے جرنیلوں کی منہ مانگی شرائط پوری کردیں۔ کھلی اجازت کے بعدقوت قاہرہ کے آزادانہ استعمال سے شہری ہلاکتیں تو بڑھیں لیکن زمینی صورتحال میں کوئی فرق نہ آیا اور طالبان کو ان کے مورچوں سے ایک انچ بھی پیچھے نہ دھکیلا جاسکا،چنانچہ صدر ٹرمپ نے اپنی دوکان بڑھالینے کا فیصلہ کرلیا۔صدر ٹرمپ روائتی سیاستدانوں کی طرح گومگو کے قائل نہیں، وہ خود کو عقلِ کل سمجھتے ہیں اور جب کسی فیصلے پر پہنچ جائیں تو اس پر عملدرآمد میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیتے۔
صدر ٹرمپ کو امریکہ کی عالمی پولیس مین بننے کی حکمت عملی بالکل پسند نہیں اور اسکا وہ کھل کر اظہار کرتے ہیں۔ انھوں نے نیٹو کے معاملے میں بھی سخت رویہ اختیار کیا ہے اور اخراجات کیلئے امریکہ کے حصے سے زائد رقم کی ادائیگی روکدی ہے۔ اس سے پہلے نیٹو کے اخراجات کابڑا حصہ امریکہ ادا کررہا تھا لیکن بقول صدر ٹرمپ ہمیں 'مفتے' کے اتحادیوں کی ضرورت نہیں۔ امریکی صدر نے اقتدار سنبھالتے ہی شمالی کوریا، ایران، مشرق وسطیٰ، شام، عراق اور افغانستان میں امریکی فوج کے اخراجات کا باریکی سے جائزہ لیا جوا نکے خیال میں ہوشربا تھے۔ انھوں نے بیک جنبش قلم جزیرہ نمائے کوریا میں ہر چھ ماہ بعد ہونے والی امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان کی مشترکہ فوجی مشقوں سے امریکہ کو الگ کرلیا۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ مشق بنیادی طور پر جاپان اور جنوبی کوریا کے تحفظ کیلئے ہے اور اسکے جملہ اخراجات ان دومتمول ملکوں کو برداشت کرنا چاہئے۔
اسی طرح انھوں نے شام سے اپنی فوج واپس بلالی اور 21 اگست کو واشنگٹن میں عراقی وزیراعظم مصفطےٰ کاظمی سے ملاقات کے دوران انھوں نے عراق سے امریکی فوج کے انخلا کا اعلان کردیا جسکی بنیادی وجہ امریکی فوج پر بڑھتے ہوئے حملے ہیں۔ امریکی نے جنوری میں ڈرون حملہ کرکے بغداد ائرپورٹ پر پاسداران انقلاب اسلامی ایران (IRGS)کے سربراہ قاسم سلیمانی اور عراقی ملیشیا حشد الشعبی (PMU)کے کمانڈر مہدی المہندس کو قتل کردیا تھا جسکے بعد سے امریکی فوج پر حملہ روزمرہ کا معمول بناہواہے۔ اب تک ان حملوں میں صرف ایک امریکی فوجی ہلاک ہوا ہے لیکن پئے درپئے حملوں کی وجہ سے عراق میں تعینات امریکی سپاہی شدید خوف اور دباو میں ہیں جسکی بنا پر بہت سے فوجی ایک مخصوص دماغی عارغے میں مبتلا ہوئے ہیں جسے PTSDکہا جاتا ہے۔ کچھ دن سے یہ افواہ بھی گشت کررہی ہے کہ واشنگٹن فوجیوں کیساتھ بغداد سے اپناسفارتی عملہ بھی واپس بلانے پر غور کررہا ہے۔
افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کی خبر کابل انتطامیہ کیلئےبے حد پریشان کن ہے۔فوج کی واپسی پر چچاسام، افغان حکومت کا وظیفہ اگر ختم نہیں تو محدود ضرور کردینگے جبکہ ڈاکٹراشرف غنی کیلئے امریکی امداد کا معقول متبادل فی الحال موجود نہیں۔ گزشتہ 19 سال کے اللوں تللوں نے ان شہزادوں کی عادتیں بھی بگاڑدی ہیں اور انکے لئے پیٹ پر پتھر باندھ لینا اتنا آسان نہ ہوگا۔ نیٹو اور یورپی یونین نے کابل انتظامیہ کی مالی و عسکری اعانت برقرار کا وعدہ کیا ہے لیکن امریکہ کے مقابلے میں یورپ کی مدد پہلے بھی آٹے میں نمک کے برابر تھی۔کرونا وائرس کی وبا سے ان ملکوں کی معیشتیں شدید دباو میں ہیں اور اب یورپ کیلئے کابل کی خطیر امداد ذرا مشکل ہے۔امن کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے کہ امریکی فوج کے قبل از وقت انخلا سے امن کی کوششیں متاثر ہونگی۔ دوسری طرف صدر ٹرمپ کے ٹویٹ نے طالبان کا حوصلہ بلند کردیا ہے اور ہلمند پر ان کے حالیہ حملے سے لگتا ہے کہ اب میز کے بجائے جنگ کے میدان ملاو ں کی ترجیح بن چکا ہے۔
اس معاملے پر کابل انتظامیہ کی پریشانی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن افغانستان سے فوری انخلا پر پاکستان کی تشویش ناقابل فہم ہے۔ گزشتہ ہفتے وزیراعظم عمران خان نے فرمایا کہ افغانستان سے قبل از وقت انخلا دانشمندانہ فیصلہ نہیں۔ اسی کے ساتھ پاکستانی دانشوروں نے بھی روسی انخلا کے بعد برپا ہونے والی خانہ جنگی کی مثالیں دیکر ڈرانا شروع کردیا ہے۔ ان تجزیہ نگاروں کی فکر مندی اپنی جگہ لیکن اگر جدید ترین اسلحے سے لیس لاکھوں امریکی فوج 19 سال تک افغانستان میں امن قائم نہ کرسکی تو 5000 سپاہیوں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ غیر ملکی افواج نہ تو امن قائم کرسکتی ہیں اور نہ ہی انھیں ہمیشہ کیلئے کسی دوسرے ملک میں تعینات کیا جاسکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے افغانستان میں بیرکوں تک محدود امریکی فوج پولیس کے فرائض انجام دے رہی ہے جو ان دلاوروں کے شایان شان نہیں۔ وہ صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ افغانستان پر مکمل کنٹرول ممکن ہے لیکن اس مہم میں کروڑوں معصوم افغان جانیں ضایع ہونگی لہذا ہمارا یہاں سے نکل جانا ہی بہتر ہے۔ داعش اور دوسرے دہشت گردوں سے لڑنا طالبان کا کام ہے۔ ہم تاقیامت افغانوں کی جنگ نہیں لڑ سکتے۔
ہم نے قارئین کو دعوت فکر دیتے ہوئے سوال کیا تھا کہ جب طالبان اور کابل انتظامیہ اب تک بات چیت کے ایجنڈے پر بھی متفق نہیں تو پھر صدر ٹرمپ اور انکے رفقا کس امید پر امن معاہدے کی بات کررہے ہیں۔ افغانستان کے سفارتی ذرایع، امریکی وزارت دفاع کے اعلیٰ حکام اور امریکی صدر کے قریبی رفقا افغانستان سے عجلت میں فوجی انخلا کو کابل انتظامیہ پر دباو بڑھانے کی ٹرمپ حمکت عملی قرار دے رہے ہیں۔ اس سے پہلے مالی امداد میں ایک ارب ڈالر کی کٹوتی کرکے امریکہ نے ڈاکٹر اشرف غنی کو طالبان جنگی قیدیوں کی رہائی پر مجبور کیا تھا اور اب وہ واپسی کا اعلان کرکے یہ پیغا م دے رہے ہیں کہ غیر ضروری ضد چھوڑ کر ملاوں سے معاملہ کرلوورنہ 'میاں خوش ر ہو ہم دعاکرچلے'
انخلا میں جلدی کی سب سے بڑی وجہ آنے والے امریکی انتخابات ہیں۔ صدر ٹرمپ کی طرز سیاست کا طرہ امتیار وعدے کی پاسداری ہے۔ انھوں نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ یا تو طالبان کو کچل کر افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل کرینگے یا اپنے سپاہیوں کو وہاں سے واپس بلالینگے۔ صدر کے جرنیل ملاوں کو تہہ تیغ کرنے میں ناکام رہے چانچہ اب مکمل واپسی کے سوا کوئی راستہ نہیں۔جناب ٹرمپ اپنی صدارتی مدت مکمل ہونے یعنی 20 جنوری 2021 سے پہلے اس وعدے کی تکمیل چاہتے ہیں۔ اسی لئے وہ 25 دسمبر کا ہدف تجویز کررہے ہیں۔
طالبان نے امریکی فوج کی واپسی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے امارات اسلامی اور امریکہ کے درمیان امن معاہدے کی روح کےعین مطابق اور قیام امن کیلئے مثبت قدم قراردیا ہے۔ تاہم انتخابات میں صدر ٹرمپ کی کامیابی کیلئے طالبان کی خواہش سفارتی آداب کے مطابق نہیں۔ امریکی ٹیلی ویژن CBS سے باتیں کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا 'انھیں امید ہے کہ جناب ڈونالڈ صدر ٹرمپ دوبارہ امریکی صدر منتخب ہوجائینگے تاکہ امریکی فوج کا انخلا بروقت مکمل ہوسکے'۔ ملاوں کی 'خواہش' کو مسترد کرتے ہوئے ٹرمپ انتخابی مہم کے ترجمان نے طالبان کو باور کرایا کہ صدر ٹرمپ ہر قیمت پر امریکی مفادات کا تحفظ کرینگے۔ اپنے جوابی ٹویٹ میں وضاحت کرتے ہوئے ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ہم نے صدر ٹرمپ کی COVIDسےجلد صحتیابی کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا، امریکی انتخابات سے ہمیں کوئی سروکار نہیں کہ قیادت کا انتخاب امریکی عوام کا کام ہے۔
بلا شبہ یہ وضاحت پر وقت اور مناسب تھی لیکن طالبان کو جو بائیڈن سے معاملہ کرنے کی حکمت عملی طئے کرلینی چاہئے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق مقابلہ بہت سخت ہے اور صدر ٹرمپ کی شکست خارج از امکان نہیں۔ صدر ٹرمپ ایک غیر روائتی سیاستدان ہیں جو پالیسی امور میں مشیروں، ماہرین اور کابینہ سے مشورے کے قائل نہیں اور وہ اپنے فیصلے خود کرتے پیں۔جبکہ جو بائیڈن دوسرے امریکی قائدین کی طرح عسکری و سفارتی قیادت اور وزارے خارجہ کے افسران کے ساتھ مراکز دانش (Think Tanks)کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں۔طالبان کے بارے میں امریکی فوج اور سیاستدانوں کی رائے بہت منفی ہے۔ دانش ور طبقوں میں فوج کے غیر مشروط انخلاکو امریکہ کی شکست گردانا جارہا ہے۔کابل انتطامیہ نے مخصوص مفادات کیلئے کام کرنے والے ترغیب کار (Lobby) اداروں کی خدمات حاصل کی ہیں جو طالبان امریکہ امن معاہدہ منسوخ کرانے کیلئے رائے عامہ ہموار کررہے ہیں۔ ان لوگوں کو پاک و ہندکے لبرل اور قوم پرست طبقوں کی حمائت بھی حاصل ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 16 اکتوبر
2020
No comments:
Post a Comment