آزادی اظہار رائے اور مذہبی عقائد
فرانسیسی صدر ایمیونل میکراں کے اسلام کے خلاف غیر ذمہ دارانہ رویئے نے جمعہ کی دوپہر ایک اور انسانی جان لے لی۔ اس واقعے کی تفصیل کچھ اسطرح ہے کہ پیرس کے مضافاتی علاقے کے ایک مڈل اسکول میں تاریخ کے 47 سالہ استاد سموئل پیٹی (Samuel Paty)نے اس ماہ کے آغاز میں اپنے شاگردوں کوآزادی اظہار رائے کا سبق دیتے ہوئے طلبہ کو نبی محترم صلعم کے چند توہین آمیزخاکے دکھائے۔ چند طلبہ کا کہنا ہے ہے سمیوئل نے خاکے دکھانے سے پہلے یہ کہا کہ 'میں جو دکھانے جارہاہوں، وہ شائد مسلمان طلبہ کو پسند نہ آئے لہٰذا وہ اگرچاہیں تو کلاس سے چلے جائیں'
بہت سے مسلمان طلبہ نے یہ بات اپنے گھروں میں بتائی چنانچہ والدین نے ہیڈماسٹر سے اس واقعہ کی شکائت کی۔ والدین کا کہنا تھا اس کلاس میں بارہ تیرہ سال کے نوخیز بچے ہیں جنکے سامنے استاد کی جانب سے انکے عقیدے کی توہین کسی بھی طور مناسب نہیں اور سوئیل پیٹی سے جواب طلبی ہونی چاہئے۔ایک لڑکی کے والد نے پولیس تھانے میں بھی شکائت درج کروائی
طلبہ اور والدین نے سوشل میڈیا پر احتجاج کیا اور کچھ عناصر کی طرف سے سموئیل پیٹی اور اسکول انتظامیہ کو قتل کی دھمکیاں بھی موصول ہوئیں۔ اسکول انتطامیہ نے ان تمام اعتراضات کو یہ کہہ کر مسترد کردیاکہ اسکول کے اساتذہ سبق کی تیاری کے سلسلے میں بااختیار ہیں، خاکے دکھا کر سموئیل نے اسکول کے ضابطوں یا ملکی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی۔ مزیدیہ کہ مذہبی جذبات کے نام پر آزادی اظہاررائے کو محدود نہیں کیا جاسکتا۔
جمعہ کو مبینہ طور پر ایک 18 سالہ شیشانی نوجوان عبداللہ انذروف اسکول کے باہر سموئیل کا انتظار کررہا تھا۔ دوپہرکو سموئیل جب اسکول سے نکل کر پیدل اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا تو عبداللہ نے اس پر چھرے سے وار کرکے سموئیل کا سرقلم کردیا۔ کاروائی کے بعد فرارہونے کے بجائے عبداللہ نے مقتول کی تصویر بناکر اپنے ٹویٹرپر اس پیغام کے ساتھ لگادی کہ 'میں نے محمد صل اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے والے جہنم کے ایک کتے کوسزا دیدی ہے' اسی دوران انسداد دہشت گردی حملہ وہاں پہنچ گیا جنھیں دیکھ کر عبداللہ نے اللہ اکبر کے نعرے لگائے جواب میں پولیس کی فائرنگ سے عبداللہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔
تحقیقات کے آغاز پر بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری ہے اور پولیس ان والدین کے گھروں پر چھاپہ مار رہی ہے جنھوں نے سموئیل پیٹی کے خلاف اسکول انتطامیہ اور پولیس کو درخواست دی تھی۔پولیس نے عبداللہ سے سہولت کاری کے الزام میں ایک طالب علم، اسکے بھائی اور ضعیف دادا کو گرفتار کرلیا ہے۔
جائے وقوع کے دورے پر فرانسیسی صدرنے اسے اسلامی دہشتگردی قراردیتے ہوئے آزادی اظہار رائے کے تحفظ کا عزم ظاہر کیا۔یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ اظہاررائے کی آزادی کا مذہبی عقائد کی توہین سے کیا تعلق ہے؟نازیوں کی نسل کشی المعروف ہولوکاسٹ کا انکار سارے یورپ میں ایک جرم ہے حتیٰ کہ جامعات میں اسکی 'حقیقت' پر تحقیق کی اجازت بھی نہیں تو آخر سواارب مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی کھلی آزادی کا کیا جواز ہے؟
اقوام متحدہ سے اپنے خطاب میں وزیراعظم عمران نے بڑی وضاحت سے کہا تھا کہ مسلمان اپنے نبی سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور ان کی ہلکی سی توہین بھی کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کی چھلنی کردیتی ہے۔ مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مورسی مرحوم نے اسی عالمی ایوان سے مخاطب کرکےمتنبہ کیاتھا کہ ہم مسلمانوں کیلئےمحمد عربی کی ناموس سے زیادہ قیمتی اور کچھ نہیں۔ ہمارے آقا کی توہین اور شاتمین کی وکالت کرنے والے ہم سے بدترین دشمنی کے سوا اور کچھ توقع نہ کریں۔ گزشتہ سال ترک صدر نےبھی عالمی برادری کی اس جانب توجہ دلائی تھی۔
فرانسیسی صدر طاقت کے ذریعے مسلمانوں کو توہین رسالت برداشت کرنے پر مجبور کرہے ہیں حالانکہ سخت ترین قوانین کے باوجود توہین رسالت پر اشتعال انگیز ردعمل میں کوئی کمی میں نہیں آئی۔ حالیہ واقعہ سے چند ہفتہ پہلے جب بدنام زمانہ چارلی ہیبڈو نے 2015 میں شایع ہونے والے خاکے دوبارہ شایع کئے تو اس پر مشتعل ہوکر ایک پاکستانی لڑکے نے چھرے سے وار کرکے پیرس میں دو افراد کو زخمی کردیا تھا۔
No comments:
Post a Comment