Wednesday, September 30, 2020

'مہذب' رہنماوں کا طرزعمل!!

'مہذب' رہنماوں کا طرزعمل!!

کل 2020 کے امریکی صدارتی انتخاب کا پہلا مباحثہ ہوا جوامریکی سیاست کی صدیوں پرانی روائت ہے۔ سب سے پہلا مباحثہ  1858 میں ابراہام لنکن اور اسٹیفن ڈگلس کے درمیان ہوا تھا جب یہ دونوں  حضرات سینیٹ کی نشست کیلئے قسمت آزمائی کررہے تھے۔

پہلاباقاعدہ مباحثہ 1960 کے صدارتی انتخابات کے دوران جان ایف کینیڈی اور رچرڈ نکسن کے درمیان  ہوا جسے  ساڑھے چھ کروڑ امریکیوں نے دیکھا اور سنا۔ اسوقت امریکہ کی آبادی 18کروڑ کے قریب تھی۔ اسکے بعد آزاد امیدواروں کے میدان میں اترنے کی وجہ سے تعطل پیدا ہوااور موجودہ سلسلے کا آغاز 1976 میں ہوا جب جیرالڈ فورڈ اور صدر جمی کارٹر آمنے  سامنے تھے۔

امریکی تاریخ کا مقبول ترین صدارتی مباحثہ 2016 میں صدر ٹرمپ اور سینیٹرہیلیری کلنٹن کے درمیان ہوا جسے ساڑھے اٹھ کروڑ امریکیوں نے دیکھا

امریکہ میں پاکستان کی طرح انتخابی مہم کے دوران بڑے بڑے جلسے  و جلوسوں کا رواج نہیں، نہ ہی گلی اور بازار میں بینر باندھے جاتے ہیں۔رنگین پوسٹر اور نوشتہ دیوار کا بھی یہاں فیشن نہیں۔ حمائت کے اظہار کیلئے لوگ اپنےگھروں کے لان پر امیدواروں کے کتبے نصب کردیتے ہیں یا کاروں کے بمپر پر اسٹکر لگادئے جاتے ہیں۔ اصل مہم ٹیلی ویژن کے اشتہاروں کے ذریعے چلتی ہے اور 2016 سے سوشل میڈیا اس میدان میں غالب نظر آرہا ہے۔

صدارتی مباحثہ  امیدواروں کے بارے میں رائے قائم کرنے کا سب سے موثرذریعہ ہےجہاں امیدوار نوٹس اور نکات کے بغیر انتہائی چبھتے ہوئے سوالات کے فی البدیہہ جواب دیتے ہیں۔

ان مباحثوں کا اہتمام  جامعات کے ماہرینِ سیاسیات و ابلاغ عامہ پر مشتمل مباحثہ کمیٹی کرتی ہے جبکہ  میزبانی  ایک موڈریٹر یا میزبانوں کا پینل کرتا ہے۔ بعض مباحثے ٹاون ہال کی شکل میں ہوتے ہیں جہاں عام لوگ امیدواروں سے سوال کرتے ہیں۔

مباحثے کے آغاز پر ہرامیدوار افتتاحی خطاب اور تعارف کے لئے دو منٹ دئے جاتے ہیں جسکے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ یہ سوالات اہم موضوعات  کے حوالے سے ہوتے ہیں۔ ہرسوال کے جواب  کیلئے امیدوار کو دومنٹ دئے جاتے ہیں جسکے بعد مخالف امیدوار کو ایک منٹ تک جرح کرنے کی مہلت ہوتی ہے۔ اختتام پر دونوں امیدوار دو دو منٹ میں اپنی گفتگو کا خلاصہ پیش  کرتے ہیں۔

غیر جانبداری برقرار رکھنے کیلئےقرعہ اندازی کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ  کس امیدوار کو افتتاحی خطاب  کیلئے پہلے دعوت دی جائیگی اورپہلا سوال کس سے پوچھا جائیگا؟

کل ریاست اوہائیوکی ایک جامعہ برائے طب میں مباحثہ ہوا جسکے میزبان فاکس نیوز کے کہنہ مشق اینکر کرس والس تھے جنھوں نے دونوں امیدواروں سے

صدر ٹرمپ کے ٹیکس گوشوارے،  کرونا وائرس، سپریم کورٹ کیلئے جج کا تقرر، انتخابات کی شفافیت، نسلی معاملات، ماحولیات ، صحت کے نظام اور دیگر موضوعات پر دونوں امیدواروں سے سوالات کئے گئے لیکن پہلے ہی سوال پر صدرٹرمپ    نے میزبان سے بحث شروع کردی۔ اسکے بعد یہ  90 منٹ کا مباحثہ ایکدوسرے کی تضحیک  اور مداخلت کے سوا اور کچھ نہ رہا۔ مباحثے میں سب سے قابل رحم حالت میزبان کی تھی جنکی بات کوئی بھی سننے کو تیار نہ تھا۔

بار بار مداخلت پر عاجز آکر جو بائیڈن چیخ کر بولے You shut up man تھوڑی دیر بعد سابق نائب صدر نے بے بسی سے کہا کہ 'اس  مسخرے کے سامنے تو بات کرنا مشکل ہے'۔ کئی مرتبہ صدر ٹرمپ کو ٹوکتے ہوئے  میزبان نے کہا کہ وہ مباحثے کے قواعد کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور دوسرے امیدوار کو بات مکمل کرنے کا موقع نہیں دے رہے۔

صدارتی انتخابات کے حوالے سے انتہائی تلخ گفتگو ہوئی

جو بائیڈن نے ووٹرز پر زور دیا کہ وہ الیکشن کے روز اپنا حقِ رائے دہی لازمی استعمال کریں اور صدر ٹرمپ کی بیانات سے نہ گھبرائیں۔امریکی صدرنے اپنا یہ الزام دہرایا کہ انتخابات میں ڈیموکریٹس کی جانب سے بڑے پیمانے پر دھاندلی کا خدشہ ہے۔ اُن کے بقول گزشتہ ہفتے کچرے سے بیلٹ پیپرز بھی ملے ہیں۔

 جو بائیڈن نے صدر ٹرمپ سے ٹیکس دستاویزات دکھانے کا مطالبہ کیا اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایک اسکول ٹیچر سے بھی کم ٹیکس ادا کیا۔ جس پر  صدر ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے لاکھوں ڈالرز ٹیکس ادا کیا ہے۔

مباحثے کے دوران صدر ٹرمپ کی مداخلت سے تنگ آکر  جو بائیڈن نے کیمرے کی طرف رخ کرکے  براہِ راست امریکی  عوام سے خطاب شروع کردیا۔

جو بائیڈن اور صدر ٹرمپ دونون کی  عمریں 70 برس سے زیادہ ہیں لیکن بحث کے دوران ایسا محسوس ہوا کہ دوبچے لڑ رہے ہیں۔


 

Tuesday, September 29, 2020

سیاست اور ارضیاتی علوم

سیاست اور ارضیاتی علوم

انتخابات کے حوالے سے شکست و فتح کی پیشنگوئی سیاسی تجزیہ نگاروں اور صحافیوں کیلئے بڑی آزمائش ہے۔ شماریاتی سائینس کے میدان میں زبردست جستجو و تحقیق نے اب رائے عامہ کے جائزوں کو خاصہ معتبر بنا دیا ہے  لیکن غلطی کا امکان بہر حال موجود  ہے۔

امریکہ میں سیاسیات کے ایک استاد ڈاکٹر ایلن لِکمین (Allan Lichtman) نے روس کے مشہور ماہر ارضی طبعیات (Geophysicist) آنجہانی ولادیمر لیکس بوروک (Vladimir Keilis-Borok)سے مل کر انتخابی نتائج کی پیشنگوئی کیلئے ایک پیمانہ یا ماڈل ترتیب دیا ہے۔ روسی سائئنس اکیڈمی کے بانی ڈاکٹر ولادیمرم ساری زندگی  زلزلے کی پیشنگوئی کے طریقے وضع کرنے میں مصروف رہے اور اس جستجو میں انھوں نے دنیا بھر کے مراکز ارتعاشات (Seismology Centers)کا دورہ کیا۔ڈاکٹر صاحب ادھرکافی عرصے سے امریکہ میں تھے اور ٰمرتے دم تک مختلف زلزلہ پیما مراکز سے ملنے والی معلومات اور مشاہدات مثلاً  ارتعاش پیما کا تفصیلی جائزہ، علاقے کا موسم (درجہ حرارت، ہواکا رخ اور رفتار، مطلع وغیرہ)، وقت،رینگنے والے کیڑوں سمیت مویشیوں اور جانوروں کی حرکات و سکنات، نوزائیدہ بچوں کے طرز عمل  وغیرہ کے مشاہدے کی بنیاد پرایک ماڈل تشکیل دینے کی کوشش کرتے رہے۔

اسی انداز میں ڈاکٹر لکمین نے سیاسی صورتحال و مشاہدات پر مبنی 'قصرِ مرمریں کیلئے 13 کنجیاں' یا The 13 keys to the White House کے عنوان سے ایک سوالنامہ  ترتیب دیا۔ہر سوال کا جواب درست اور غلط کی شکل میں ہے۔ تجزئے کے دوران جس امیدوار کے حوالے جتنے زیادہ جواب 'درست' ہونگے اسکی کامیابی کا امکان اتناہی زیادہ ہوگا۔ سیاست و صحافت کے طلبہ کیلئے ان کنجیوں کی وضاحت

  1. وسط مدتی انتخاب کا نتیجہ۔ کیا پارٹی کانگریس میں اپنی عددی حیثیت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی؟
  2. امیدوار کو پارٹی میں ٹکٹ کیلئے اعصاب شکن مقابلے کا سامنا تو نہیں ہواَ؟
  3. کیا امیدوار پہلے سے صدر ہے یعنی اپنی نشست کا دفاع کررہا ہے؟
  4. کیا تیسری جماعت کا مضبوط امیدوار بھی میدان میں ہے؟
  5. کیا ملکی معیشت کساد بازاری کا شکار ہے؟
  6. کیا معیشت کا مستقبل مثبت نظر آرہا ہے؟
  7. کیا برسراقتدر صدر نے اپنے دورحکومت میں قومی پالیسی کے حوالے سے کوئی مثبت تبدیلی لائی ہے؟
  8. کیاملک کو سماجی اعتبار سے کسی قسم کی بدامنی و بے چینی کا سامناہے؟
  9. کیا امیدوار کو کسی قسم کے بڑے اسکینڈل کا سامنا ہے؟
  10. کیا دوران اقتدار امریکہ کو بڑی سفارتی یا عسکری ناکامی کا منہہ دیکھنا پڑا ہے؟
  11. کیا دوران اقتدار امریکہ کو بڑی سفارتی  یاعسکری کامیابی نصیب ہوئی ہے؟
  12. برسراقتدار صدر پرکشش شخصیت  کا مالک ہے؟
  13. کیا مخالف امیدوار پرکشش شخصیت کا مالک ہے؟

ڈاکٹرصاحب  ان ' کنجیوں' کی بنیاد پر 1984 سے صدارتی انتخاب کی کامیاب پیشنگوئی کرتے رہے ہیں یعنی 2016 تک انھوں نے مسلسل  9 بار کامیاب پیشنگوئی کی ہے۔ آنے والے انتخابات کے بارے میں ٖڈاکٹر لکمین کا خیال ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن کی کامیاب رہینگے۔

چراغ تلے اندھیرا: ڈاکٹر لکمین نے 2006 میں ریاست میری لینڈ سے سینیٹ کی نشست کیلئے قسمت آزمائی کی لیکن سائینسی بنیادوں  پر کامیاب پیشنگوئی کرنے والے ڈاکٹر لکمین ٹکٹ کیلئے ہونے والے پرائمری انتخاب میں چھٹے نمبر پر رہے کہ کل امیدوار ہی چھ تھے۔


 

 

Saturday, September 26, 2020

رنگ لائیگی ہماری فاقہ مستی ایک دن

رنگ لائیگی ہماری فاقہ مستی ایک دن

اخباری اطلاعات کی مطابق عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) قرض کی تیسری قسط  کے اجرا سے پہلے بجلی، گیس اور یوٹیلیٹی اسٹورز سے رعائت  (سبڈی) ختم کرنے کی شرط  نرم کرنے پڑ آمادہ نہیں۔

گزشتہ  برس جولائی میں آئی ایم ایف نے پاکستان کی تباہ حال معیشت کو سہارا دینے  کیلئے 6 ارب ڈالر کا قرض منظور کیا تھا۔ معاہدے کے تحت ایک ارب ڈالر کی  پہلی قسط فوری طور پر جاری کردی گئی جبکہ اگلے39 ماہ کے دوران قسطوں کی شکل میں 5 ارب  ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ قرض کڑے مالیاتی نظم و ضبط سے مشروط کیا گیا ہے۔روپئے کی قدر میں کمی،سرکاری اداروں کی نجکاری اور رعائتوں کے بتدریج خاتمے کے ساتھ مجموعی ٹیکس  کا ہدف  55سوارب روپئے طئے کیا گیا۔ وفاقی ٹیکس ادارہ اسوقت 3900ارب روپئے  ٹیکس جمع کرتا ہے۔ آئی ایم ایف کو شکائت ہے کہ متمول پاکستانی ٹیکس نہیں دیتے۔ آئی ایم ایف کے قائم مقام سربراہ ڈیوڈلپٹن نے قرض کی منظوری کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھاکہ شرائط پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے سہہ ماہی جائزہ اجلاسوں کے علاوہ ہر چھ ماہ بعد پاکستان کی معاشی صورتحال پرتفصیلی بحث ہوگی۔

پاکستان نے روپئے کی قدر میں  بھاری کمی اوربجلی، پیٹرول و گیس کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ کرکے آئی ای ایف کی شرائط پوری کردیں چنانچہ دسمبر 2019میں 45 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی دوسری  قسط جاری کردی گئی

  قرض کی تیسری قسط اس سال جون میں جاری ہونی  تھی لیکن کروناوائرس کی وبانے  دنیا بھر کی معیشتوں کو بھرکس نکال دیا۔اپریل میں وبا سے نبٹنے  کیلئے آئی ایم ایف نے  بطورِ ہنگامی امداد  1 ارب 39 کروڑڈالر آسان شرائط پرپاکستان کو دیدئے اور قرض کی تیسری قسط روک لی گئی۔

اب 45 کروڑ ڈالر کی تیسری قسط کیلئے مذاکرات جاری ہیں اورخبر گرم ہے کہ آئی ایم ایف جن کڑی شرائط پر اصرار کررہا ہے ان پر وہ وزیراعظم عمران خان کو شدید تحفظات ہیں۔آئی ایم ایف چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)  منصوبے کومعطل یا سست کرنے پر مصرہے۔ اسی طرح نیا پاکستان ہاوسنگ پراجیکٹ  پر 30 ارب روپئے کی مجوزہ سبسڈی بھی عالمی ساہو کاروں کو پسند نہیں۔آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ بجلی، گیس اوریوٹیلیٹی اسٹورز کی مد میں تمام رعائتیں فوری طور پرختم کردی جائیں جبکہ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ کرونا سے تباہ حال لوگوں پر مہنگائی کا نیا بم گراناممکن نہیں چنانچہ سہہ ماہی جائزے کا پہلا دور بےنتیجہ ختم ہوگیا۔ تاہم غیر رسمی گفتگو جاری ہے اور امید ہے کہ باقاعدہ مذاکرات  دوباہ شروع ہوجائینگے۔

حال ہی میں حکومت نے بجلی کےنرخ، دواوں اور یوٹیلیٹی اسٹورز پر اشیائے خوردونوش کی  قیمتوں میں اضافے کا جو اعلان کیا ہے وہ آئی ایم ایف کے مطالبات کو پورا کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔ ایف اے ٹی ایف بل کی منظوری بھی تیسری قسط کی ایک بنیادی شرط تھی جسے خلائی مخلوق کی مدد سے پورا کردیا گیا ہے۔

وزارت خزانہ کے بابو لوگ پرامید ہیں کہ  ان اقدامات سے ظالم محبوب کا دل پسیج جائیگا اور  45 کروڑ ڈالر جلد ہی جاری ہوجائینگے۔

اب آپ مسعود ابدالی  کی   پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹwww.masoodabdali.comپر تشریف لائیں


 

Thursday, September 24, 2020

یہ دستورِ زباں بندی۔۔۔۔۔۔۔

غالباً 1984کی بات ہے۔ جامعہ نیویارک دہلی (SUNI-Delhi) میں اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ (اکنا) کا سالانہ اجتماع ہورہا تھا۔ دہلی ریاست نیویارک کے جنوب مشرق میں سواتین مربع میل رقبے اور 3000 نفوس  پر مشتمل ایک چھوٹا سا گاوں ہے جو اسی جامعہ کی وجہ سے مشہور ہے۔ اسکا درست تلٖفظ تو ڈلہائی ہے لیکن دیسی لوگ اسے دہلی پکارتے ہیں۔ اتفاق سے ہم امریکہ کے مشہور ماہر طبعیات ڈاکٹر لودھی اور اکنا ہیوسٹن کے ناطم اسد غوری صاحب کے ساتھ بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ جماعت اسلامی ہند کے معروف رہنما اور ادیب م نسیم مرحوم وہاں آئے۔ نسیم صاحب کے  ساتھ ایک نوجوان تھا جو چہرے مہرے سے مشرقی یورپ کا لگ ر ہاتھا۔نوجوان سے معذرت کرکے اپنےمخصوص انداز میں م نسیم صاحب نے کہا کہ 'آج تو تاریخ کا نیا باب رقم ہو رہا کہ دلی میں ابدالی، غوری اور لودھی ایک دوسرے کا خون پینے کے بجائے اطمینان سے بیٹھے چائے پی رہے ہیں۔ اللہ مرحوم کی قبر کو نور سے بھردے کہ اس قسم کے بروقت اور حسب حال شائستہ جملوں سے م نسیم صاحب محفل کو گلزار بنادیا کرتے تھے۔

اس لطیف سے مذاق کے بعد م نسیم صاحب نے اس نوجوان کا تعارف کروایا کہ یہ پولینڈ کے مزدور رہنما ہیں جنھوں نے حال ہی میں اسلام قبول کیا ہے۔ پہلے یہ بگڈان کہلاتے تھے لیکن اب انھوں نے اپنانام عطااللہ رکھ لیا ہے۔ یہ سیاسیات میں پی ایچ ڈی ہیں چنانچہ ڈاکٹر عطااللہ کوپانسکی کہلاتے ہیں۔ میں اسوقت ہفت روزہ تکبیر کیلئے ہفتہ وار کالم لکھتا تھا چنانچہ اچانک خیال پیدا ہوا کہ کیوں نہ ڈاکٹر صاحب کا انٹرویو کرلیاجائے۔ہم نے جب اس خواہش کا اظہار کیا تو ڈاکٹر کوپانسکی فوراً بولے بسم اللہ یعنی گفتگو شروع کردیجئے۔ میں نے کہا ابھی تو آپ اور ہم دونوں ہی مصروف ہیں کیوں نہ آج رات کھانےکے بعد بعد بیٹھ جائیں جس پر انھوں ہنستے ہوئے کہا کہ شریعت لینن میں کمیونسٹ پارٹی کی اجازت کے بغیر باقاعدہ انٹرویو دینا سنگین جرم ہے۔ لی ولیسا بھی بس چلتے پھرتے صحافیوں کے سوالوں کا جواب دے دیتے ہیں۔  یہ بات ڈاکٹر صاحب نے مذاق میں کہی تھی چنانچہ ہم نے انکو اسی لہجے میں یاد دلایا کہ اب آپ کمیونسٹ پولینڈ میں نہیں بلکہ جمہوری امریکہ میں ہیں جہاں آپ جو چاہے کہہ سکتے ہیں۔ جس پر عطااللہ کوپانسکی کا کہا ہوا جملہ ہمیں اب تک یاد ہے کہ ' کمیونسٹ دنیا میں دل کی بات کہنے کی اجازت نہیں اور آزاد دنیا میں بات کہنے کی فرصت نہیں' یعنی ترے آزاد بندوں کی نہ دنیا نہ وہ دنیا۔

اس تفصیلی تمہید کی وجہ یہ ہے کہ اب امریکہ میں بھی آزادی اظہار قصہ پارینہ بنتی جارہی ہے۔ اور معاملہ صرف جذبات کے اظہار کا نہیں بلکہ آزاد تجارت اور افراد کی نقل و حرکت پر بھی پہرے عام ہیں۔ یعنی ہر گام پہ چند آنکھیں ہر موڑ پہ ایک لائیسنس طلب والا معاملہ ہے۔

پندرہ سے ساٹھ سیکنڈ کے ویڈیو کی سہولت فراہم کرنے والی چینی سوشل میڈیا کمپنی ٹک ٹوک TicTokپر پابندی اسی سلسے کی ایک کڑی ہے۔ ٹک ٹوک چینی کمپنی ByteDanceکا ذیلی ادارہ ہے، بائٹ ڈانس نے ٹک ٹاک کا آغاز 2016 میں کیا جو بنیادی طور پر رقص و موسیقی کی ویڈیو کا پروگرام ہے اور مختصر دورانئے کی وجہ سے انٹرنیٹ پر بار نہیں بنتا۔ چنانچہ یہ بہت مقبول ہوگیا اور اب اسکے صارفین کی تعداد فیس بک، یوٹیوب اور انسٹا گرام سے  زیادہ ہے۔ 2017 میں ٹک تاک نے کیلی فورنیا میں اپنا دفتر قائم کرلیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اسکے امریکی صارفین کی تعداد 4 کروڑ سے تجاوز کرگئی جس میں ایک تہائی سے زیادہ 19 سے سال سے کم کے نوخیز نوجوان ہیں۔ ٹک ٹاک کی مقبولیت کی بنا پر بہت سے گلوکاروں نے اپنے ایک آدھ بند کے نغمات بھی ٹک ٹاک پر جاری کرنا شروع کردئے جس سے یہ پلیٹ فارم مزید مقبول ہوگیا۔ کچھ منچلے رقص و موسیقی کیساتھ سیاسی پیغامات بھی نصب کردیتے ہیں۔ منیا پولیس (Minneapolis) سانحے کے بعد کہ جس میں ایک نہتے سیاہ فام شخص کو گلا گھونٹ کر ہلاک کردیا گیا تھا امریکہ میں نسلی مساوات و سماجی انصاف کا مطالبہ عام ہوا اور Black Lives Matter تحریک نے مختصر دورانئے کہ نغمے ٹک ٹوک پر جاری کئے جو نوجوانوں میں بہت مقبول ہوئے۔ فیس بک اور دوسرے پلیٹ فارم سے  اسےمزید پھیلادیا گیا۔

ٹک ٹوک کے خلاف سب سے پہلے ہندوستان میں  مدراس کی عدالت عالیہ میں مقدمہ دائر کیا گیا۔ اپریل 1919 کو دائر کی جانیوالی درخواست میں کہا گہا تھاکہ ٹک ٹوک فحش اور مخرب الاخلاق مواد کی اشاعت کا سبب بن رہا ہے۔ درخواست گزاروں نے بتایا کہ نوجوان لڑکیاں اپنے قابل اعتراض رقص ٹک ٹوک کے ذریعے دوستوں کو بھیج رہی ہیں۔ ان ویڈیو کو ہتھیار بناکر مجرم پیشہ افراد نے بلیک میلنگ کا بازار گرم کررکھا ہے اور کئی مقامات پر لڑکیوں پر مجرمانہ حملوں کے واقعات پیش آئے ہیں۔ عدالت نے اس بات کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے نشریاتی اداروں کو حکم دیا کہ یہ ویڈیو اسوقت تک نشر نہ کئے جائیں جب تک ٹک ٹاک کی انتظامیہ فحش و قابل اعتراض مواد پر موثرپابندی (سینسر) کا یقین نہ دلادے چنانچہ گوگل اور ایپل نے ٹک ٹاک کی اپلیکیشن حذف کردیں۔ جلد ہی ٹک ٹاک نے عدالت میں بیانِ حلفی جمع کرایا جس میں کہا گیا تھاکہ مواد کی جانچ پڑتال کا ایک جامع نظام نافذ کرکے 60 لاکھ سے زیادہ قابل اعتراض ویڈیو ہٹادئے گئے ہیں۔ تاہم جون 2020 میں ہندوستانی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ٹک ٹاک اور ڈھائی سو کے قریب چینی ایپلیکشن پر مکمل پابندی لگادی۔ غیر جانبدار حلقوں کا خیال ہے کہ دہلی کا یہ قدم ہند چین تناو کا شاخسانہ ہے۔

امریکہ میں ٹک ٹاک کی مقبولیت بڑھتی جارہی تھی اور اسکے ذریعے چبھتے ہوئے سیاسی چٹکلوں سے صدرٹرمپ بہت پریشان تھے۔ اس سال جون میں صدر ٹرمپ نے اپنی تقریروں میں ٹک ٹاک پر پابندی کا عندیہ دیا اور 7 جولائی کو اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ مائک پومپیو نے اس بات کی تصدیق کردی کہ ٹک ٹاک پر پابندی کیلئے وزارت انصاف سے مشورہ کیا جارہا ہے۔ یہ خبر سامنے آتے ہی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا۔ قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ ٹک ٹاک پر پابندی آزادیِ اظہار رائے پر قدغن کی ایک شکل ہوگی اور ان اقدامات سے امریکہ کی جمہوری اقدار کے بارے میں منفی تاثر پیدا ہوگا۔

خود کو عقل کل سمجھنے والے صدر ٹرمپ ان باتوں پر کان نہیں دھرتے۔31 جولائی کو امریکی صدر نے بائٹ ڈانس کو متنبہ کیا کہ اگر اس نے اپنے ذیلی ادارے ٹک ٹاک کی امریکی شاخ مقامی سرمایہ کاروں کے ہاتھ فروخت  نہ کی تو اس پر  صدراتی حکم کے ذریعے پابندی لگادی جائیگی۔ صدر ٹرمپ کی یہ دھمکی آزادیِ اظہار رائے پر حملے کیساتھ آزادانہ تجارت کے اصولوں کے بھی خلاف تھی۔آزاد تجارت سرمایہ دارانہ معیشت کی روح ہے اورامریکہ کے قدامت پسند بہت فخر سے کہتے پھرتے ہیں کہ حکومت تو بس دیانتدار ریفری ہے اور کاروبار تاجروں کا کام ہے۔ امریکہ میں تیار ہونے والی فلموں کے مواد کی بھی جانچ پڑتا نہیں کی جاتی بس حساسیت کے اعتبار سے بیباک مناظر والی فلموں پر X اورRکی مہر لگادی جاتی ہے۔ ایسی فلمیں جن میں تشدد اور خوفناک مناظر ہوں ان پر PG(Parental Guidance)لکھدیا جاتا ہے جسکا مطلب ہے کہ نوخیز افرادا فلم دیکھنے  سے پہلے اپنے سرپرستوں سے مشورہ کرلیں۔

15 اگست کو صدر ٹرمپ نے اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہناتے ہوئے انتظامی حکم جاری کردیا۔ صدارتی حکم کے مطابق اہم حساس اداروں اور مستند ذرائع سے حاصل شدہ معلومات کے بعد امریکہ کی قومی سلامتی کو لاحق خطرات کے پیش نظر ٹک ٹوک پرپابندی لگائی جارہی ہے۔ حکم نامے میں بائٹ ڈانس کو ہدائت کی گئی ہے کہ وہ ٹک ٹاک کے امریکی صارفین کے متعلق حاصل کردہ ڈیٹا بھی واپس کر دے۔ وہائٹ ہاوس کی ترجمان محترمہ کیلی مک اینی (Kayleigh McEnany)نے حکم کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ نے قومی سلامتی سے متعلق ہنگامی حالت کے قانون مجریہ 1977 کے تحت حاصل کردہ اختیارت استعمال کرتے ہوئے پابندی لگائی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ٹک ٹاک ان اپلیکیشنز میں شامل ہے جو امریکی شہریوں کی ذاتی نوعیت کی حساس معلومات اکھٹا کرتی ہے اورٹرمپ انتظامیہ اپنے شہریوں کو سائبرحملوں اور ان تمام ایپس کے مضر و پرخطر اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔

امریکی کمپنیوں مائیکروسوفٹ اور اوریکل Oracleنے ٹک ٹاک کی امریکی شاخ خریدنے میں دلچسپی ظاہر کہ ہے۔ ٹک ٹاک انتظامیہ کو شکائت ہے کہ صدارتی حکم کے اجرا سے پہلے امریکی حکومت نے کمپنی کے ان اقدامات کو یکسر نظر اندزا کردیا جو ٹک ٹاک انتظامیہ اعتماد کی بحالی اور واشنگٹن کے  خدشات دور کرنے کے لیے ایک سال سے کررہی ہے۔ کمپنی کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت نے حقائق پر کوئی توجہ نہیں دی اور نجی کمپنیوں کے مابین جاری بات چیت میں خود کوملوث کرکے مول تول کے دوران  ٹک ٹاک کی پوزیشن کمزور کردی۔

سوشل میڈیا کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا کے گرد بھی گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ امریکہ کی وزارت انصاف نے الجزیرہ کے آن لائن نیو ز پلیٹ فارم المعروف AJ+کو قطری حکومت کا ترجمان قرار دیتے ہوئے اسے بطور غیر ملکی ایجنٹ رجسٹر ہونے کا حکم دیا ہے۔اسکا مطلب ہوا کہ الجزیرہ کو عالمی ابلاغ عامہ کےایک آزاد ادارے کے بجائے قطری حکومت کا ترغیب کار یا Lobbyistتصور کیا جائیگا۔
اب امریکی ایوان صدر ، کانگریس اور حکومتی دفاتر میں الجزیرہ کے نمائندوں کا داخلہ محدود کرنے کے ساتھ سرکاری اہلکاروں سے ملاقات کی تفصیل اور گفتگو کا ریکارڈ طلب کی جاسکتا ہے ۔ مختصر یوں سمجھئے کہ اب الجزیرہ کیلئے امریکہ میں کام کرنا مشکل ہوجائیگا۔

الجزیرہ کے ترجمان نے اس حکم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جس شام متحدہ عرب امارات، بحرین اور اسرائیل نے واشنگٹن میں معاہدہ امن المعروف معاہدہ ابراہیم پر دستخط کئے اس کے چند ہی گھنٹوں بعد ادارے کو یہ نوٹس وصول ہوا۔خیال ہے کہ متحدہ عرب امارات نے معاہدے پر دستخط کیلئے پابندی کی شرط لگائی تھی۔ تاہم امریکہ میں امارات کے سفیر یوسف العتیبہ نے اسکی تردید کرتے ہوئے کہا کہ بات چیت کے دوران کسی مرحلے پر الجزیرہ یا قطر کا ذکر تک نہیں ہوا۔فاضل سفیر نے کہا کہ الجزیرہ یا قطر اتنے اہم نہیں جتنا وہ خود کو سمجھتے ہیں۔ واضح رہے کہ سعودی عرب، امارات ، بحرین اور مصر میں الجزیرہ کی نشریات پر پہلے ہی پابندیاں عائد ہیں۔

صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی غیر ملکی تارکین وطن پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد کرکے امریکی امیگریشن نظام کو خلیجی ممالک کے ہم پلہ کردیا تھا اور سوشل و الیکٹرانک میڈیا پر پابندی کے بعد آزادی صحافت کےحوالےسے بھی اب امریکہ عرب دنیا کے برابر آگیا ہے۔

اظہار رائے کیساتھ تفتیشی صحافت کے عالمی اتحادInternational Consortium of Investigative Journalists یا ICIJکے حالیہ چشم کشا انکشاف سے یورپ و امریکہ کے بینکنگ نظام کے بارے میں بھی شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں۔ ICIJنے جے پی مورگن JP Morgan، چیس Chase, ایچ ایس بی سیHSBC، ڈوئچے Deutsche اور مریکہ و یورپ کے چند دوسرے بڑے بینکوں پر منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کئےہیں۔ ان صحافیوں کا کہنا ہے کہ 1999سے 2017کے دوران 2000ارب ڈالر کا کالا دھن اجلا کیا گیا۔ منی لانڈرنگ کے مفروضوں پر پاکستان سے مساجد و مدارس کو تالہ لگانے کا مطالبہ کرنے والے اب کس کو سلیٹی فہرست (Gray List)میں ڈالینگے؟؟ دوسروں کی آنکھوں میں تنکا تلاش کرنے والوں کو اپنی آنکھ کا شہتیر کہاں نظر آتا ہے 

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 25 ستمبر


2020