Thursday, September 17, 2020

کررہا تھا غم جہاں کا حساب ۔ آج تم یاد بے حساب آئے
17
ستمبر ہمارے لئے ایک اہم تاریخ ہے
یہ “بھائیکا یوم ولادت ہے۔ اب تو شاید کسی کو یاد بھی نہ لیکن یادش بخیر کراچی میں کبھی یہ دن ایسے تزک و احتشام سے منایا جاتا تھا کہ عید کی یاد تازہ ہوجاتی تھی بلکہ عید سے  بھی کہیں زیادہ  عقیدت و احترام

آج ہی کے دن 1989 میں لاہور میں اسلامی جمیعت طلبہ کے دفتر پر حملے میں جوانسال کارکن سہیل حنیف نے جام شہادت کو چوما۔ دروغ بر گردن راوی قاتلوں کی قیادت  خواجہ سعد رفیق فرمارہے تھے

17 ستمبر   2012ہی کو'بھائی' کے حکم پر   فرزند کراچی ڈاکٹر پرویز محمود کو شہید کیا گیا۔

آج  ترکی بلکہ عالم اسلام  کے عظیم رہنما جناب  عدنان میندریس کا یوم شہادت بھی  ہے۔  جناب میندریس کی قیادت میں ڈیموکریٹک پارٹی  نے اتاترک کی ریپبلکن پارٹی کو  مسلسل تین بار بدترین شکست سے دوچار کیا ۔ مغربی جمہوریت کے علمبردار جب اس 'مولوی' کو بیلیٹ کےذریعے ہٹانے میں ناکام رہے تو بلٹ اور بوٹ کومیدان میں اتارا گیا۔ ایسی ہی کاروئی  مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مورسی کے خلاف ہوئی  اور الجزائر کے اسلام پسند وں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ یہ دراصل سیکیولر  جمہوریت کا اصل چہرہ ہے۔

1960 میں منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر عدنان میندریس  اور انکے ساتھیوں وزیرخارجہ فطین رستم اور وزیرخزانہ حسن پولاتکن کوبحر مرمراکے ایک تنگ وتاریک جزیرے پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان پر جو فرد جرم عائد کی گئی اسکے مطابق میندریس اور انکے ساتھیوں نے ریاستی امور کو مذہب سے آلودہ کردیا تھا۔ قابل گردن زدنی اقدامات میں

خواتین کو اسکارف کے ساتھ پارلیمان میں بیٹھنے کی آزادی

عربی میں اذان کی  اجازت اور

مدارس کی بحالی  شامل تھے۔

16 ستمبر 1961 کو ترک وزیرخارجہ اور وزیرخزانہ تختہ دار پر کھینچے گئے۔ ایک دن کا وقفہ رحم کی درخواست کیلئے تھا  جسکے جواب  میں  جناب میندریس نے فرمایا کہ اگر

میں معصوم ہوں تو معافی کی ضرورت  نہیں اوراگرمجرم ہوں تو معافی کا مستحق نہیں

بڑے لوگوں کی بڑی باتیں کہ اسکے 6 سال بعد جب 29 اگست 1966 کو مصر میں  سید  قطب  کو پھانسی کیلئے تختہ دار کی طرف لے جایا جارہا تھا تو جیلر نے ان سے کہا کہ اگر وہ معافی کی دوسطور لکھدیں تو جاں بخشی ہوسکتی ہے۔   سید بادشاہ نے مسکرا تے ہوئے جیلر سے پوچھا 'میں کس بات پر معافی مانگوں؟ اور دار کی سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئے

17 ستمبر  کو جناب میندریس کو پھانسی دیدی گئی۔ جناب میندریس کی خواہش کے مطابق  کہ پھانسی کے دوران انکے چہرے پر   غلاف نہیں ڈالا گیا۔ انکا کہنا تھا کہ میں مجرم نہیں کہ چہرہ چھپا کر دنیا سے جاوں۔ اگر زبان باہر نکلنے اور آنکھیں ابل پڑنے سے میں بدہئیت نظر آیا تو کوئی بات نہیں کہ مجھے اس ذلت پر بھی اللہ سے اجر کی توقع ہے


 

No comments:

Post a Comment