حیف اس چارگرہ کپڑے کی قسمت غالب۔۔۔
ایف اے ٹی ایف پر پاکستان کے خلاف سب سے سخت موقف فرانس کا ہے جسے شکائت ہے کہ پاکستان کے مدارس انتہا پسندی کی اماجگاہ ہیں اور انکے خاتمے یا سخت کنٹرل کے بغیر پاکستانی معاشرے میں روادری و برداشت کا فروغ ناممکن ہے۔ فرانسیسی حکومت کو شک ہے کہ دہشت گرد مساجدو مدارس کیلئے قومات فراہم کرتے ہیں ۔ اسی بناپر پیرس موثر قانون سازی کیلئے پاکستان پر دباو ڈال رہا ہے۔ یورپ کے سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ حال ہی میں منظور کئے جانیوالے ایف اے ٹی ایف بل میں 'وقف املاک ' کے عنوان سے جو پیراگراف شامل کیا گیا ہے اسکا مسودہ فرانس کی وزارت داخلہ نے تیار کیا تھا جسے پاکستان کی پارلیمان نے من و عن منظور کرلیا۔ وقف املاک کے حوالے سے قانون سازی کامقصد نئی مساجد کی تعمیر کو ناممکن حدتک مشکل بنانا اور مدارس کے نصاب سے عدم برداشت کی حوصلہ افزائی کرنے والے مواد کا خاتمہ ہے۔
رواداری و برداشت کا فروغ صحت مند معاشرے کیلئے بہت ضروری ہے ، شائد اسی لئے عمران خان نے فرانسیسی مسودے کو اپنے بل کا حصہ بنالیا
لیکن فرانس کی قومی اسمبلی میں رواداری، برداشت اور پرامن بقائے باہمی کا جو عظیم الشان مظاہرہ ہوا ہے، اسکی ایک جھلک احباب کی خدمت میں
جمعرات کو فرانس کی قومی اسمبلی میں کرونا وائرس کے طلبہ اور نوجوانوں پر اثرات زیر بحث آنے تھے ۔ اسپیکر نے اس موقع پر طلبہ کا موقف جاننے کیلئے وفاقی طلبہ یونین (UNEF)کو سماعت کیلئے طلب کیاچنانچہ UNEFکی ترجمان مریم پوتروطلبہ کانقطہ نظر پیش کرنے ایوان میں آئیں۔ ابھی جوانسال مریم نے اپنی نشست سنبھالی ہی تھی کہ سرکاری بنچوں سے صدر مینول میکران کی دست راست محترمہ این کرسٹین لانگ اپنی نشست پر کھڑی ہوگئیں اور مریم کے اسکارف کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ 'میں اس مقدس ایوان اور جمہوریت کے دھڑکتے دل میں غلامی کی اس علامت کوقبول نہیں کرسکتی، میں کاروائی کا بائیکاٹ کرتی ہوں' اور اسکے ساتھ ہی حکمران جماعت کے اکثر ارکان ایوان سے باہر چلے گئے
بعد میں ٹوئٹر پر فاضل رکن پارلیمان نے فرمایا 'میں قومی اسمبلی میں با حجاب فرد کی موجودگی برداشت نہیں کرسکتی کہ حجاب اطاعت و غلامی کی علامت ہے'
یہ ہے رواداری و برداشت کے بھاشن دینے والوں کا اپنا رویہ
حوالہ: مڈل ایسٹ آئی
(MEE)
No comments:
Post a Comment